آلِ محمد سے کیا مراد ہے؟
ناصبی دعویٰ کہ "آلِ محمد" سے مراد "پوری امت" ہے
چونکہ درود سے بھی آلِ محمد کی فضییلت ثابت ہوتی ہے جس سے ہر انسان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اتنے افضل اور اعلیٰ لوگ موجود تھے تو پھر امت نے انہیں حکومت کیوں نہ دی؟ جبکہ علم شجاعت، زہد، تقویٰ اور عدل کے علاوہ حکومت چلانے کے لئے بیس فی صدی خمس لینے کے حقدار بھی یہی ہیں، جس سے حکومت کا خرچ چلتا۔
مکتبِ صحابہ کے لیے یہ ایسا مشکل ترین اور پریشان کن سوال ہے جس کی وجہ سے انہیں لفظ آل میں مغالطہ پیدا کرنا لازمی ہو گیا اور انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ “آلِ محمد” سے مراد پوری امت ہے۔ اور ثبوت کے طور پر یہ دلیل دی کہ:
-
- قران میں لفظ "مومن آلِ فرعون" آیا ہے۔
- مگر فرعون کی کوئی اولاد نہیں تھی
- اس سے ثابت ہوا کہ وہ شخص فرعون کا بیٹا نہیں تھا، بلکہ اُس کی قوم کا ایک شخص تھا۔
- اور قران نے اُس قوم کے شخص کے لئے "آل" کا لفظ لگا کر ثابت کر دیا ہے کہ "آل" سے مراد "پوری امت" ہے۔
آئیے اللہ کے بابرکت نام سے ابتدا کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس ناصبی دعویٰ میں کتنی صداقت ہے۔
قران میں آّل سے مراد "اولاد/ نسل/خاندان" ہے
قران میں "آل" سے مراد کہیں بھی "پوری امت" نہیں ہے، بلکہ صرف اور صرف "اولاد/نسل/خاندان"ہے۔
جہاں تک "مومن آلِ فرعون" کا تعلق ہے، تو یہ باتیں ذہن نشین فرمائیں کہ:
- اُس وقت مصر کے تمام کے تمام حکمرانوں کا لقب فرعون تھا۔
- اور سارے فرعون بے اولاد نہیں تھے۔
- اور انہیں فرعونوں کی نسلوں سے مل کر ایک خاندان بن گیا تھا جو کہ "آلِ فرعون" کے نام سے جانا جاتا تھا۔
- اللہ نے اسی آلِ فرعون کے خاندان کے ایک شخص کو "مومن آلِ فرعون" کہا ہے۔
بعض مرتبہ حکمران مختلف القاب اختیار کرتے ہیں، جیسے قیصر، کسریٰ، سیزر وغیرہ۔ آج اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ سعودی عرب پر کون حکمران ہے تو ہم یہی کہیں گے کہ آلِ سعود حکمران ہیں، اور انکا لقب ملک ہے.
سعودیہ میں شاہ فہد بادشاہ اور ان کے بھتیجے عبد اللہ ولیعہد قرار پائے ہیں۔ جبکہ اس سلطنت کی بنیاد عبد العزیز ابن عبد الرحمان بن فیصل السعود نے رکھی تھی۔ اس وقت سے ان کے جانشین، بلکہ تما م خاندان کو آلِ سعود کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تو ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ولیعہد عبداللہ کا تعلق آلِ سعود سے ہے اور انہی کی حکومت ہے اور اسی طرح اور جتنے شہزادے ہیں وہ سب بھی آلِ سعود کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
مگر یہ سعودی عرب کے ہر شہری کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا تعلق بھی آلِ سعود سے ہے۔
حکمرانوں کا ملک ہوتا ہے،قوم ہوتی ہے مگر امت نہیں۔ امت تو صرف انبیاء کی ہوتی ہے۔ جبکہ فرعون نبی اور رسول نہیں تھا، بلکہ کافر حکمران تھا۔ اولاد کی اولاد کے سلسلہ کو نسل کہتے ہیں اور ان ہی سے خاندان کا وجود ہے۔ قران میں آّل سے مراد یہی اولاد، نسل یا خاندان ہے۔
قران میں "آل" کی مزید مثالیں
ناصبی حضرات حسبِ عادت قران کا صرف ایک حصہ لیتے ہیں جسے وہ توڑ مڑوڑ کر اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال سکیں، اور باقی قران کو یکسر ٹھکرا دیتے ہیں۔
قران میں لفظ "آل" کے استعمال کے ساتھ بھی انہوں نے یہی رویہ اختیار کیا ہے۔
ذیل میں ہم قران کی وہ آیات پیش کرنے جا رہے ہیں جنہیں ناصبی حضرات نے ٹھکرایا ہوا ہے۔
ان آیات کا اردو ترجمہ و تفسیر سعودی عرب کے شائع کردہ قران سے دیا جا رہا ہے۔
اس قران کو سعودی حکومت نے لاکھوں کی تعداد میں چھپوا کر پاکستان میں مفت تقسیم کرایا ہے۔ اس قران کے ’مقدمہ‘ میں اس کے مترجم اور مفسر کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے:
خادمِ حرمین الشریفین کی انہی ہدایات اور وزارت برائے مذہبی امور کے اسی احساس کے پیشِ نظر مجمع الملک فھد لطباعۃ المصحف الشریف المدینہ المنورہ اردو دان قارئین کے استفادہ کے لیے قران مجید کا یہ اردو ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔
یہ ترجمہ مولانا جوناگڑہی کے قلم سے ہے اور تفسیری حواشی مولانا صلاح الدین یوسف کے تحریرکردہ ہیں۔ مجمع کی جانب سے نظر ثانی کا کام ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس اور ڈاکٹر اختر جمال لقمان نے انجام دیا ہے۔)
آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ سعودی عالم آلِ فرعون کا ترجمہ اردو میں کیا کر رہا ہے۔
وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ(القرآن 28: 40)
) اور ایک مومن شخص نے، جو کہ فرعون کے خاندان سے تھا، کہا کہ کیا تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے؟ اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے۔
اردو ترجمہ از سعودی مطبوعہ قران
صرف یہیں ایک جگہ نہیں، بلکہ جہاں جہاں قران میں آل کا لفظ آیا ہے، وہاں پر ایک دفعہ بھی ان سعودی علماء نے اس کا ترجمہ کبھی قوم یا امت نہیں کیا ہے بلکہ ہمیشہ ترجمہ کے لیے خاندان والے یا گھر والے استعمال کیا ہے۔
مثلاً سورہ یوسف میں اللہ سبحانہ تعالیٰ آلِ یعقوب استعمال کر رہا ہے:
وَكَذَلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَى آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَى أَبَوَيْكَ مِن قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
)القران ١٢:٦) اور اسی طرح تیرا پروردگار تجھے برگزیدہ کرے گا اور تجھے معاملہ فہمی (یا خوابوں کی تعبیر) سکھائے گا اور اپنی نعمت تجھے بھرپور عطا فرمائے گا۔
اور یعقوب کے گھر والوں کو بھی۔ جیسے کہ اس نے اس سے پہلے تیرے دادا اور پردادا یعنی ابراہیم و اسحاق کو بھی بھرپور اپنی نعمت سے نوازا۔
ترجمہ از سعودی مطبوعہ قران
اور آلِ یعقوب کے ذیل میں ان سعودی علماء نے جو تفسیر کی ہے، وہ بھی قابلِ غور ہے
’اس (نعمت) سے مراد نبوت ہے، جو یوسف (ع) کو عطا کی گئی۔ یا وہ انعامات ہیں جن سے یوسف علیہ السلام مصر میں نوازے گئے۔ اور آلِ یعقوب سے مراد یوسف علیہ السلام کے بھائی اور ان کی اولاد وغیرہم ہیں، جو بعد میں انعاماتِ الہیٰ کے مستحق بنے۔
آل سے مراد قوم یا امت ہرگز نہیں ہے کیونکہ اللہ نے قران میں "آل" کے لفظ کے ساتھ "قوم" کا لفظ استعمال کر کے آل اور قوم دونوں کو الگ الگ کر دیا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ قران کیسے "آل" اور "قوم" میں فرق کر رہا ہے:
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ بِالنُّذُرِ
إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا إِلَّا آلَ لُوطٍ نَّجَّيْنَاهُم بِسَحَرٍ
)القران ٥٤:٣٤) قومِ لوط نے بھی ڈرانے والوں کی تکذیب کی۔ بیشک ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ہوا بھیجی، سوائے لوط (علیہ السلام) کے گھر والوں کے، انہیں ہم نے سحر کے وقت نجات دے دی۔
ترجمہ از سعودی مطبوعہ قران
پھر ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح سعودی مطبوعہ قران آل کا ترجمہ قوم یا امت کرنے کی بجائے گھر والوں کر رہا ہے۔
اگر آل سے مرادامت یا قوم ہوتی تو پھر حضرت لوط (ع) کی امت تو اسی رات عذاب سے دفن ہو گئی تھی جبکہ اللہ کہہ رہا ہے کہ اس نے آلِ لوط کو بچا لیا ہے۔
ایک اور جگہ اللہ قران میں کہہ رہا ہے:
قَالُواْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُّجْرِمِينَ
إِلاَّ آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ أَجْمَعِينَ
لاَّ امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَا إِنَّهَا لَمِنَ الْغَابِرِينَ
فَلَمَّا جَاء آلَ لُوطٍ الْمُرْسَلُونَ
(القران، سورہ ١٥، آیات ٥٨ تا ٦١) (فرشتوں) نے کہا کہ ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ سوائے خاندانِ لوط کے (آلِ لوط) کے کہ ان سب کو بچا لیں گے۔ مگر سوائے (لوط ) کی بیوی کے، کہ اسے ہم نے رکنے اور باقی رہ جانے والوں میں مقرر کر دیا ہے۔ جب بھیجے ہوئے فرشتے آلِ لوط کے پاس پہنچے تو لوط (علیہ السلام) نے کہا کہ تم لوگ تو انجان معلوم ہو رہے ہو۔
ترجمہ از سعودی مطبوعہ قران
اور دوسری جگہ اللہ فرما رہا ہے:
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِّن قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ
(القران ٢٧:٥٦) تو ان کی قوم کا کوئی جواب نہیں تھا سوائے اس کے کہ لوط کے خاندان (آلِ لوط) کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو کہ یہ لوگ بہت پاکباز بنتے ہیں۔
ترجمہ از سعودی مطبوعہ قران
قوم تو خود کہہ رہی ہے کہ آلِ لوط کو اس بستی سے نکال دو اور مولوی حضرات قران کی مخالفت میں کہتے ہیں کہ آل سے مراد پوری امت ہے۔ آخر لوگوں کو آلِ محمد سے اتنی دشمنی کیوں ہے کہ قران کے احکامات ماننے کے لیے بھی تیار نہیں۔
اور اس مفروضہ کو کہ آل سےمراد امت یا قوم ہے، قران نے کئی اور جگہ پر واضح طور پر رد کیا ہے۔ اللہ قران میں فرماتا ہے:
إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ
ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
(القران، سورہ ٣، آیات ٣٣ تا ٣٤) بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کے لوگوں میں سے آدم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کو، اور ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان اور عمران کے خاندان کو منتخب فرما لیا۔کہ یہ سب آپس میں ایک دوسرے کی نسل (ذریت) سے ہیں اور اللہ تعالیٰ سنتا اور جانتا ہے۔
ترجمہ از سعودی مطبوعہ قران
اللہ نے خود اس آیتِ مبارکہ میں آل کا مطلب نسل کہہ کر اور قرانی آیت میں ذریت کا لفظ استعمال کر کے آلِ محمد کے دشمنوں کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔ اب جو قران کو ہی نہ مانے اس کا کیا علاج؟
قران تو کہہ رہا ہے کہ:
اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا
(سورہ سبا، آیت١٣)اے اولادِ داؤد اللہ کا شکر ادا کرتے رہو۔
ترجمہ از سعودی مطبوعہ قران
اسی طرح دوسری جگہ کہہ رہا ہے کہ
يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا
(سورہ مریم، آیت ٦) جو میرا بھی وارث ہواور یعقوب علیہ السلام کے خاندان کا بھی جانشین ہو۔ اے میرے رب اسے پسندیدہ بندہ بنانا
ترجمہ از سعودی مطبوعہ قران
اور اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں یہ سعودی عالم لکھتا ہے کہ:
’انبیاء علیھم السلام کے خاندانوں میں دو عمران ہوئے ہیں ایک حضرت موسیٰ و ہارون علیھما السلام کے والد دوسرے حضرت مریم علیہا السلام کے والد۔ اس آیت میں اکثر مفسرین کے نزدیک یہی دوسرے عمران مراد ہیں اور اس خاندان کو بلند درجہ حضرت مریم علیہا السلام اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وجہ سے حاصل ہوا اور حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کا نام مفسرین نے حنۃ بنت فاقوذ لکھا ہے (تفسیر قرطبی و ابن کثیر) اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آل عمران کے علاوہ مزید تین خاندانوں کا تذکرہ فرمایا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وقت میں جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ ان میں پہلے حضرت آدم علیہ السلام ہیں ، جنہیں اللہ نے اپنے ہاتہ سے بنایا اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی، انہیں مسجود ملائک بنایا، اسما کا علم انہیں عطا کیا اور انہینں جنت میں رہاش پذیر کیا، جس سے پھر انہیں زمین میں بھیج دیا گیا جس میں اس کی بہت سی حمتیں تھیں۔ دوسرے حضرت نوح علیہ السلام ہیں، انہیں اس وقت رسول بنا کر بھیجا گیا جب لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو معبود بنا لیا، انہیں عمر طویل عطا کی گئی، انہوں نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کی، لیکن چند افراد کے سوا، کوئی آپ پر ایمان نہیں لایا۔ بالآخر آپ کی بددعا سے اہل ایمان کے سوا، دوسرے تمام لوگوں کو غرق کر دیا گیا۔ آل ابراہیم کو یہ فضیلت عطا کی کہ ان میں انبیاء و سلاطین کا سلسلہ قائم کیا اور بیشتر پیغمبر آپ ہی کی نسل سے ہوئے۔ حتیٰ کہ علی الاطلاق کائنات میں سب سے افضل حضرت محمد (ص) بھی حضرت ابراہیم (ع) کے بیٹے، اسمٰعیل (ع) کی نسل سے ہوئے۔ ُ
اب یہ ناصبی حضرات کس کس آیت کا انکار کریں گے؟
اگر ہمیں اسلام کے دائرہ میں رہنا ہے تو آل سے مراد جو قران میں ہے وہی ہمیں بھی قبول کرنا پڑے گا۔ مزید دیکھئے کہ قران کیا کہہ رہا ہے:
وَقَالَ لَهُمْ نِبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
(سورہ بقرہ ٢:٢٤٨) ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اس کے بادشاہ ہونے کی پہچان یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے رب کہ طرف سے تسکین دہ چیزیں اور ان تبرکات سے بچی ہوئی کچھ چیزیں ہونگی جو آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون چھوڑ گئے ہیں اور اس صندوق کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اور اس میں تمہارے لیے نشانی پوری ہے اگر تم مومنین میں سے ہو۔
اگر آل سے مراد امت ہو تو پھر صندوق میں ساری امت کے تبرکات ہونے چاہئے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ قران میں ہی ہے کہ:
فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا
(سورہ النساء ٤:٥٤) ’ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت دی اور ہم نے ان کو ملک عظیم عطا فرمایا۔
سوچئے کہ کیا اللہ نے پوری قوم کو کتاب دی اور کیا پوری قوم کو حکیم بنایا (یعنی حکمت دی)۔ اور اسی طرح کیا پوری امت کو حکومت دی گئی؟
یا پھر صرف یہ چار کتب زبور، توریت، انجیل اور قران دیا؟ اب اگر آل سے مراد اولاد ہو گی تو جن کو کتب ملی وہ سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں سے ہونگے؟ اور اگر آل سے مراد قوم ہو گی تو پھر اللہ نے چار لاکھ کتب آل ابراہیم کو دی ہونگی۔ تلاش کیجئے۔
حدیث میں آلِ محمد کا ثبوت
حدثنا هارون بن معروف حدثنا عبد الله بن وهب قال قال حيوة أخبرني أبو صخر عن يزيد بن قسيط عن عروة بن الزبير عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بكبش أقرن يطأ في سواد ويبرك في سواد وينظر في سواد فأتي به ليضحي به فقال لها يا عائشة هلمي المدية ثم قال اشحذيها بحجر ففعلت ثم أخذها وأخذ الكبش فأضجعه ثم ذبحه ثم قال باسم الله اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد ثم ضحى به
رسول (ص) نے حضرت عائشہ کو حکم دیا کہ ایک کالی ٹانگوں والا بھیڑ کا بچہ لایا جائے، جس کا پیٹ بھی کالا ہو اور جس کی آنکھوں کے گرد کالے حلقے ہوں تاکہ وہ اُس کی قربانی کر سکیں۔ پھر آپ (ص) نے حضرت عائشہ سے فرمایا: مجھے ایک بڑی چھری دو اور ایک پتھر پر اس کی دھار لگاؤ۔ حضرت عائشہ نے یہ کر دیا۔ پھر رسول (ص) نے چاقو اور بچھڑے کو لیا، اسے زمین پر لٹایا اور پھر یہ الفاظ کہتے ہوئے ذبح فرمایا: "بسم اللہ، اللھم تقبل من محمد و آل محمد و من امتی محمد" (یعنی اے اللہ! اس قربانی کو قبول فرما محمد کی طرف سے، اور آلِ محمد کی طرف سے اور امتِ محمد کی طرف سے)۔
صحیح مسلم، کتاب الاضاحی
اگلی حدیث بھی امام مسلم نے نقل کی ہے:
حدثنا قتيبة بن سعيد حدثنا عبد العزيز يعني ابن أبي حازم عن أبي حازم عن سهل بن سعد قال استعمل على المدينة رجل من آل مروان قال فدعا سهل بن سعد فأمره أن يشتم عليا قال فأبى سهل فقال له أما إذ أبيت فقل لعن الله أبا التراب فقال سهل ما كان لعلي اسم أحب إليه من أبي التراب
ترجمہ:
سہل بن سعد کہتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کے خاندان میں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سہل کو بلایا اور مولا علی علیہ السلام کو گالی دینے کا حکم دیا۔ سہل نے انکار کیا تو وہ شخص بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ کہ ابوتراب پر اللہ کی لعنت ہو۔ سہل نے کہا کہ علی علیہ السلام کو ابوتراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے
صحیح مسلم، کتاب فضائل صحابہ، فضائل علی ابن ابی طالب
اب مروان کی کوئی قوم نہیں تھی اور آلِ مروان سے مراد صرف اور صرف مروان کے خاندان کا ایک شخص ہے۔ مگر ناصبی حضرات ابھی تک آل کو قوم بنانے پر تلی ہوئی ہے۔
آلِ عمر کون ہیں؟
عمر ابن خطاب کے متعلق روایت ہے:
عمر ابن خطاب کی غذا ایک یا دو ٹوکرے ٹڈیوں کے کھا لیتے تھے۔ ایک صاع کھجور (ساڑھے تین سیر) ڈال دی جاتی تھیں۔ وہ انہیں کھاتے تھے اور اس میں خراب اور ردی بھی کھا لیتے تھے۔ عمر اپنے جوتے سے کھانا کھانے کہ بعد ہاتھ پونچھتے تھے اور کہتے تھے آلِ عمر کی رومال اُن کے جوتے ہیں۔ عمر گوشت کھا کر اپنا ہاتھ قدم سے پوچھتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ آلِ عمر کا رومال ہے۔
سنی حوالہ: طبقات ابن سعد،اردو ایڈیشن از نفیس اکیڈمی، جلد اول، صفحۃ 75
نماز میں آلِ محمد کا ثبوت
اس بات کا ثبوت قران میں بھی موجود ہے کہ آل سے مراد قوم یا امت نہیں ہے کیونکہ ہر مسلمان نماز میں درود کے علاوہ الگ سے السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین پڑھتا ہے۔ اگر آل سے مراد امت ہوتی تو الگ سے صالحین پر سلام نہ ہوتاکیونکہ تمام صالحین تو خود رسول (ص) کی امت سے ہیں۔