اسلام انسان کو قرآني تعليمات کي روشني ميں اس سرچشمہ حيات تک لے کر جاتا ہے جہاں انسانيت دوام و بقا سے ہمکنارہوتي ہے جہاں انساني قدروں کو جلا ملتي ہے-
بقول چانڈل '' اسلام ايک ايسا عقيدہ ہے جس نے مذہب کو آخرت کے ہاتھوں سے چھين کر دنيا کو اسي طرح لوٹايا ہے جيسے سقراط نے فلسفہ کو آسمانوں سے زمين پر اتارا تھا ، مسلمان نہ صرف سماجي ذمہ داري کا تصور رکھتے ہيں بلکہ شر کے خلاف نبرد آزما ہونے اور انسانيت ، آزادي، انصاف اور خيرکي فتح کي کوشش کے آفاقي مقصد کا بوجھ اٹھاتے ہيں مزيد بر آں مسلم معاشرے تمدن، قوت، دانشورانہ سائنسي اور فني تخليقيت، احترام ، فتح اور آزادي سے مالا مال ہيں ، انکي تہذيب روحاني ، تصوراتي ، زندگي بخش ، حرکت خيز مثبت اور منور کرنے والے وسائل سے بھي معمور ہے اور خود مختار جيتے جاگتے وسائل سے بھي ، يہ ايک ايسا سمندر ہے جو جذباتي ذہانت کي طوفاني لہروں سے بھرا ہوا ہے کہ جو روح کي پاکيزگي اخلاق اور انساني طرز ہائے احساس ميں اضافہ کرتا ہے (9)
کاش کوئي مسلمانوں کو سمجھاتا کہ آج انکي پسماندگي کا علاج نہ مغرب کے پاس ہے نہ مشرق کے، بلکہ خود انکے اپنے پاس ہے اس لئے کہ مغرب ظاہري لذتوں سے انسان کو آشنا کرا کر اسے اس خواجگي کي چرنوں ميں پھول چھڑھانے کي منزل تک لے جاتا ہے جہاں آزادي کو غلامي کي بھينٹ چڑھايا جاتا ہے جبکہ قرآن نہ صرف يہ کہ انسان کو مشرب حريت سے آشنا کرتا ہے بلکہ ايسا مذاق فکر پيدا کر ديتا ہے جہاں انسان اپنے ضمير کي آوازوں کو درھم و دينار کي جھنکار ميں کبھي نہيں دبنے ديتا -
وہ سرمايہ دار طبقہ ہے جواسي خواجگي کي آڑ ميں مختلف حيلوں بہانوں اور اپني مکاريوں سے مزدوروں کے لہو کا قطرہ قطرہ اپنے کاسہ اقتدار کي ملکيت سمجھتا ہے جبکہ قرآني تعليمات ان بتوں کو توڑتي نظر آتي ہيں جنہيں خواجگي نے اسي لئے بنايا کہ انسانيت کومختلف طبقوں ميں بانٹ کر ان پر اپنا تسلط قائم کيا جائے
نسل ، قوميت، کليسا، سلطنت ، تہذيب ، رنگ
خواجگي نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات
مکر کي چالوں سے بازي لے گيا سرمايہ دار
انتہائے سادگي سے کھا گيا مزدور مات -
جہاں خواجگي مختلف بت بنا کر پيش کرتي ہے کہ انسانيت کبھي نہ پنپے وہيں انسانيت کي بقا کے لئے قرآن نے سب سے زيادہ جنگ اسي خواجگي سے کي ہے جو انسانيت کي قدروں کي پامالي کا باعث ہے اور اسي لئے شاعر مشرق علامہ اقبال نے قرآن کو خواجگي کے لئے پيغام مرگ سے تعبير کيا ہے -
چيست قرآن خواجہ را پيغام مرگ
دستگير بندہ اي بے سازد و برگ
ھيچ خير از مردک زرکش مجو
با مسلماں گفت جاں بر کف بنہ
ھر چہ از حاجت فزوں داري بدہ
قرآن کيا ہے آقا کے لئے پيغام مرگ ہے يہ بے سرو ساماں مسلمانوں کا سہارا ہے زر کش انسان سے کسي خير کا جويا نہ ہو ،مسلمان سے اس نے کہا جان ہتھيلي پر رکھ اور جو کچھ زائد ہے اسے بانٹ دے -(10)
مسلمانوں کي قرآن کي طرف بازگشت ہي انہيں انکے درخشان دور کو واپس دے سکتي ہے اس لئے کہ قرآن کو چھوڑ کر تو مسلمان مسلمان بھي نہيں ہيں بلکہ رسم و رواج کي زنجيروں ميں جکڑے ہوئے ايسے بہروپيے ہيں جو خود کو مسلمان کہہ کر اسلام و مسلمانوں کا استحصال کرتے ہيں وہ زندگي ہي کيا ہے جو قرآن کے بغير ہو وہ مسلمان کيا مسلمان کہے جانے کے لائق ہے جس کي زندگي ميں سب کچھ ہو ليکن قرآن نہ ہو ، کيا قرآن کے بغير جينے کو بھي جينا کہا جا سکتا ہے بقول علامہ اقبال
گر تو مي خواہي مسلمان زيستن
نيست ممکن جز بہ قرآن زيستن
يہ قرآن کي سحر انگيزي ہے کہ جہاں بھي اسکے نقوش نظر آئيں گے وہاں ايک انقلاب نظر آئے گا فردي زندگي ميں انقلاب، اجتماعي زندگي ميں انقلاب ، اقتصادو معيشت ميں انقلاب فرہنگ و ہنر ميں انقلاب اس لئے کہ يہ وہ کتاب ہے جو اکسير زندگي ہے يہ کتاب حرکت و آگے بڑھنے کا درس ديتي ہے انحطاط و جمود کا نہيں جس روح ميں اسکي تعليمات اتر جائيں اسکي ماہيت بدل جاتي ہے بقول علامہ اقبال
نقش قرآن تا در اين عالم نشست
نقشہائے کہن پاپا راشکست
فاش کوئم آنچہ در دل مضمر است
اين کتابي نيست چيز ديگر است
چوں بہ جاں در رفت جاں ديگر شود
جاں چوں ديگر شد جہان ديگر شود
انسان کا ضمير آزاد ہو تو وہ خود سمجھ سکتا ہے کہ قرآن انسانيت کو کہاں لے کر جانا چاہتا ہے اور مغربي تہذيب انساني قدروں کو کہاں پہونچانا چاہتي ہے
فيشن ہو ، يا زمانے کے تقاضے اور انکے ہتھکنڈے انسان اگر خود پر قابو نہ رکھ سکے تو کہاں جائے گا اسکي ضمانت کون لے سکتا ہے ؟ اب مسلمان خود فيصلہ کرے کہ کيا اسکي تقديراس مغرب کي مٹھي ميں بند ہے جو انسان کو خود سے بيگانہ کرنے کے در پے ہے يا اس قرآن ميں جو انسان کو خود اسکے وجود سے آشنا کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ خود محوري سے نکل کر اس منزل پر پہونچے کے اپني ضرورت پر دوسروں کي ضرورت پر مقدم رکھے تاکہ انسانيت کے بہتر مستقبل کي تعمير ہو سکے اب يہ تو مسلمانوں کي کم مائگي ہے کہ قرآن جيسي کتاب انکے پاس ہے ليکن وہ دوسروں کا دست نگر بنے ہوئے ہيں -
يہ تو خود انکي اپني بد بختي ہے کہ ايسا شفا بخش نسخہ جو انکي تقدير بدل سکتا تھا ايک بے سود تحرير کي شکل ميں انکے گلوں ميں لٹک رہا ہے اور وہ غيروں کي چوکھٹ پر سر جھکائے انکي چشم و ابرو کے اشاروں کے منتظر ہيں کہ وہاں سے فرمان آئے تو انکي کچھ تقدير بنے !جبکہ انہيں يہ نہيں معلوم جن چوکھٹوں پر يہ جبين نياز جھکائے کھڑے ہيں خود انہوں نے جو کچھ حاصل کيا ہے قرآن سے حاصل کيا ہے ايک معروف اسکالرکے بقول :''بحر اطلس سے دريائے گنگا تک قرآن صرف فقہي قوانين تک محدود نہيں بلکہ يہ ايک ايسا قانون اساسي اور آئين زندگي ہے جسميں قضاوت ، شہر داري ، تجارت، مالي اور رفاہي امور سبھي شامل ہيں -
زندگي سے متعلقہ ہر شعبہ کا تذکرہ قرآن ميں ہے .....يہ ايک ايسا عمومي دستور ہے جسميں تمام ديني ، اجتماعي ،بلدياتي،تجارتي،عدالتي،دستورات شامل ہيں(1ا)
نہ صرف يہ کہ قرآن کے اندر زندگي کے ہر شعبہ کے لئے ايک خاطر خواہ حل موجود ہے بلکہ بقول اڈوارمونٹ } Edvarmontet {''سيکڑوں اور ہزاروں لوگوں کي زندگي قرآن سے وابستہ ہے '' (2ا)شايد اس قول کو بعض لوگ قرآن کے بارے ميں ايک مغربي دانشور اور مستشرق کي جزباتي مدح سرائي سے تعبير کريں ليکن يہ ايک حقيقت ہے کہ اگر زندگي کو حقيقت کے پيرايہ ميں ديکھا جائے تو وہ قرآن سے وابستہ ہي نظر آئے گي اسلئے کہ ظلمتوں کے اس دور ميں قرآن ہي وہ چراغ ہدايت ہے جسکي روشني ميں زندگي کے واقعي مقصد تک پہونچا جا سکتا ہے اور اسکے دستورات پر عمل کر کے اپني زندگي کو شيريں بنايا جا سکتا ہے اسلئے کہ اس تاريک دور ميں اگر کوئي چيز خوب و بد کو واضح کر رہي ہے تو وہ قرآن ہے -امام علي عليہ السلام فرماتے ہيں ''و ان القرآن ظاہرہ انيق وباطنہ عميق لاتفني عجائبہ ولاتنقضي غرائبہ ولا تکشف الظلمات الا بہ''قرآن کا ظاہر خوبصورت و حسين اور باطن عميق ہے اسکے عجائب فنا نا پذير اور غرائب(ہميشہ نکھرتا ہوا نئے پن کے ساتھ) اختتام نا پذير ہيں ظلمتوں ميں اجالا ہو ہي نہيں سکتا سوائے قرآن کے (3ا) اب ظاہر ہے قرآن نور ضرور ہے، چراغ ہدايت ضرور ہے، اچھائي اور برائي کي راہوں کو واضح کرنے والي کتاب ضرور ہے ليکن اگر کوئي اس سے ہدايت حاصل ہي نہ کرنا چاہے اور ظلمتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے تو اسکے لئے کون کيا کر سکتا ہے ؟
حوالہ جات :
(9) اقبال ايک ثقافتي تناظر ، ص11، نقل از تہذيب ، جديت، اور ہم ( مضامين ) ڈاکٹر علي شريعتي -
(10) اقبال ايک ثقافتي تناظر ، ڈاکٹر سعادت ،سعيد ، ص 26-
(1ا) ايضا ،ص 17
(2ا) ايضا ص18
(3ا) نھج البلاغہ خطبہ