باپ ايک جگہ ملازم، ماں دوسري جگہ کام ميں مشغول، نہ ايک دوسرے سے ملاقات کر پاتے ہيں اور نہ ايک دوسرے کے لئے غذا تيار کرتے ہيں۔ ايک چھت کے نيچے رہنے والے مياں بيوي نہ آپس ميں محبت و چاہت سے پيش آتے ہيں اور نہ ايک دوسرے کي غمخواري کرتے ہيں، نہ ايک دوسرے کي دل جوئي کرتے اور ڈھارس با ند ھتے ہيں اور نہ ہي آپس ميں ان کو واقعي کوئي کام ہوتا ہے۔ ايسے ماحول ميں يہ اپنے بچوں کے ماہرين نفسيات کي تجويز پر عمل کرنے کے لئے آپس ميں طے کرتے ہيں کہ فلاں معين وقت پر گھر آئيں اور آپس ميں مل بيٹھيں۔ صرف اور صرف اس لئے کہ ايک چھوٹي سي محفل سجائيں کہ جو صحيح و سالم گھرانوں ميں خود بخود اپنے وجود سے زندگي کو شيريں بناتي ہے۔ ليکن يہ لوگ بناوٹي اور مصنوعي طور پر ايسي محفل سجاتے ہيں۔ اس وقت مرد يا عورت مسلسل اپني گھڑي کي طرف ديکھتي رہتي ہے کہ يہ گھنٹہ کب ختم ہو گا؟ کيونکہ مثلاً اسے دو بجے کہيں اور پہنچنا ہے۔ نہ اس طرح کوئي گھريلو محفل سجائي جا سکتي ہے اور نہ ہي ايسي محفل و گھر ميں بچے انس و محبت کا احساس کر پاتے ہيں۔
ايسے خاندان، پيار و محبت کي گرمي سے محروم ہيں يا يوں کہا جائے تو زيادہ بہتر ہو گا کہ (وہ مادي آسائش کے لحاظ سے تو ايک بہترين گھر ہے ليکن اس گھر ميں) خانداني نظام يا گھرانہ وہاں موجود ہي نہيں ہے۔ صحيح ہے کہ يہ مياں بيوي ايک ہي چھت کے نيچے زندگي بسر کرتے ہيں ليکن در حقيقت ان کے دل ايک دوسرے سے جدا ہيں۔ نہ گھر کے افراد کا ساتھ اٹھنا بيٹھنا، نہ گھر کي فضا ميں وہ محبت کي ٹھنڈک اور نہ ايک دوسرے کي نسبت انس و الفت، کچھ بھي تو نہيں ہے اور جہاں مياں خود کو بيوي کي ضرورتوں کو پورا کرنے والا اور بيوي خود کو شوہر کي شريکہ حيات اور ہمدرد و مونس سمجھے، ان چيزوں کا دو سرے سے ہي وجود نہيں ہے۔ ان کي زندگي گويا ايسي ہے کہ جيسے دو اجنبي شخص ايک قرارداد کے مطابق صرف ايک چھت کے نيچے زندگي گزارتے ہوں اور تو اور اس کا نام بھي عشق رکھ ديا جاتا ہے !