ہزادی کائناتؑ کے تذکروں کا دائرہ کائنات میں نور کی پہلی کرن پھوٹنے سے لیکر آپ کی فانوس حیات کی روشنی کے گل ہونے والے لمحہ کے در میان موجود وسعتوں سے کہیں زیادہ ہے۔آپ اس عظیم نبی کی بیٹی ہیں جنہوں نے انسانیت کی فکروں کو ترقی سے سرفراز کرکے منزل معراج پر پہنچادیا نیز آپ ایسے مرد الہٰی کی زوجہ ہیں جو حق کا ایک اہم رکن اور تاریخ بشر یت کے سب سے عظیم نبی ؐ کے وجود کا استمرار تھے ۔آپ کمال عقل ،جمال روح،پاکیزہ صفات اور اصل کرم کی آخری منزلوں پر فائز تھیں آپ نے جس معاشرہ میں زندگی بسر کی اسے اپنی ضوفشانیوں سے منور کردیا اور یہی نہیں بلکہ اپنے افکار وخیالات کے نتیجہ میں آپ اس سے کہیں آگے نظر آئیں ،آپ نے رسالت الہٰیہ کے بر پا کردہ انقلاب میں ایسا مقام و مرتبہ حاصل کرلیا اور اس کا اتنا اہم رکن (حصہ)بن گئیں کہ جس کو سمجھے بغیر تاریخ رسالت کو سمجھنا قطعاً ناممکن ہے۔
ایک عورت کے لئے جتنے فضائل و کمالات ضروری ہیں جیسے انسانیت ،عفت، پاکدامنی، کرامت قداست و غیرہ کوشہزادی کائنات ؐنے اپنے کردار و عمل کی شکل میں بالکل مجسم کرکے پیش کردیا اس کے علاوہ آپ کی روشن وتابناک ذکاوت و ذہانت، منفرد زیرکی(فطانت)اور وسیع علم اپنی جگہ پر ہے اور آپ کے افتخار کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ نے مدرسۂ نبوت اوربیت رسالت میں تربیت پائی اور اپنے والد گرامی سے وہ سب کچھ حاصل کرلیا جو ان پررب العالمین کی جانب سے نازل کیا گیا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ اپنے والد گرامی کے گھر میں اس علمی دولت سے آراستہ ومزین ہوئیں جو مکہ کی کسی عورت کو نصیب نہ ہوسکی۔
آپؑ نے حضرت محمد مصطفیٰؐ اور حضرت علی مرتضی ؑ کی شیریں زبانوں سے قرآن کی آیتیں سنیں اور اس کے احکام وفرائض اور سنتوں کو اس طرح ذہن نشین کرلیا کہ بڑے بڑے صاحبان شرف و منزلت بھی اس کی گرد راہ تک نہیں پہونچ سکے ۔آپ نے ایمان و یقین کے ساتھ نشوونما پائی ،وفاواخلاص اور زہد کے ساتھ پروان چڑھیں اور چند سال کے اندر ہی یہ روشن ہوگیا کہ آپ وہ دختر شرف و منزلت ہیں جس کی نظیر جناب حواء کی بیٹیوں میں کہیں نظر نہیں آسکتی۔آپ نے ہر کمال میں اپنے بابا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زندگی کے مختلف مراحل طے کئے یہاں تک کہ آپ کے بارے میں ام المؤمنین عائشہ کو یہ کہنا پڑا:میں نے مخلوقات خدا میں کسی کو فاطمہ ؐسے زیادہ لب ولہجہ اور انداز گفتگو میں رسول اکرم ؐ سے مشابہ نہیں دیکھا اور جب وہ اپنے والد کی خدمت میں جاتی تھیں تووہ ان کا ہاتھ پکڑ کر چومتے تھے بہترین انداز سے انھیں خوش آمدید کہتے تھے اور اپنی جگہ بٹھاتے تھے اور جب آنحضرت ؐ ان کے پاس جاتے تھے تو وہ بھی کھڑے ہوکر آپ کا استقبال کرتی تھیں اور ان کے ہاتھ پکڑکر ان کوبوسہ دیتی تھیں۔
یہیں سے ہمیں وہ راز بھی معلوم ہوجاتا ہے جس کی بنا پر حضرت عائشہ نے بالکل واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ میں نے زمین کی تمام عورتوں میں جناب فاطمہ ؐ سے زیادہ رسول خدا ؐ کی سب سے زیادہ چہیتی کسی کو نہیں پایا اپنے الفاظ میں انھوں نے اس کی یہ وجہ بیان کی ہے :میں نے فاطمہ ؐکے باباکے علاوہ ان سے زیادہ زبان کا سچا کو ئی نہیں دیکھا ۔اس طرح شہزادیؑ کائنات، عالم نسوانیت کی ایک ایسی مکمل اور مجسم علامت بن گئیں جس کے سامنے تمام مومنین کے سر نہایت خلوص کے ساتھ بالکل خم نظر آتے ہیں۔۱۔علم و معرفت جناب فاطمہ زہرا ؐ کے لئے وحی و نبوت کے گھر میں جن علوم ومعارف کا انتظام موجود تھا آپ نے صرف ان ہی پر اکتفا نہیں کی اور علم و معرفت کے آفتاب کی جو کرنیں آپ کے اوپر مسلسل پڑتی رہتی تھیں آپ نے انھیں کو کافی نہیں سمجھا بلکہ اپنی توانائیوں کے مطابق اپنے والد گرامی اور اپنے شوہر نامدار (جوعلم نبی کے شہر کا دروازہ تھے)سے مسلسل علوم حاصل کرتی رہیں آپ اپنے دونوں بیٹوں یعنی امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کو پابندی سے بزم پیغمبر ؐمیں بھیجا کرتی تھیں اور واپسی پر ان سے سب کچھ دریافت بھی فرماتی تھیں جس سے ایک طرف تو تعلیم سے آپ کی دلچسپی اور دوسری جانب اپنے بچوں کی اعلیٰ تربیت کا انداز معلوم ہوتا ہے نیز یہ کہ اپنے گھر کی تمام مصروفیتوں کے باوجود بھی آپ مسلمان عورتوں کو مسلسل تعلیم دیا کرتی تھیں۔طلب ونشر علم کی راہ میں آپ کی جہد مسلسل نے آپ کو بزرگ ترین راویات حدیث اور سنت مطہرہ کی حاملات میں سر فہرست لا کھڑا کیا ہے ۔انہی کوششوں کے نتیجہ میں ایک ضخیم کتاب وجود میں آئی جس کی آپ بہت قدر کیا کرتی تھیں’’مصحف فاطمہ‘‘ نام کی یہ کتاب آپ کی میراث کے طور پر آپ کے فرزندوں آئمہ معصومین علیہم السلام تک یکے بعد دیگرے منتقل ہوتی رہی ہے ۔جس کی تفصیل آپ حضرات آپ کی میراث کے باب میں ملاحظہ کریں گے۔
آپ کی بلندی فکر اوروسعت علم کا ندازہ آپ کے ان ہی دو خطبوں سے لگایا جاسکتاہے جو آپ نے رسول خدا ؐ کی وفات کے بعد بالکل بر جستہ ارشاد فرمائے تھے جن میں سے ایک خطبہ تو مسجد نبوی ؐ میں بڑے بڑے صحابہ کے در میان دیا تھا اور دوسرا خطبہ اپنے گھر میں ارشاد فرمایاتھا اور یہ دونوں ہی خطبے آج تک آپ کی فکر کی گہرائی ،اصالت،نیز آپ کی ثقافتی وسعت نظر،منطقی قوت استدلال اورنااہل ہاتھوں میں امت کی باگ ڈور پہونچ جانے کے بعد رو نما ہونے والے واقعات کی پیشین گوئیوں کے بہترین شاہکار ہیں ،اسکے علاوہ بارگاہ خدا میں آپ کا بے مثال ادب،خدا اور حق کی راہ میں آپ کے جہاد کا اپنا الگ مقام ہے۔بیشک شہزادی ؐ، ان اہل بیت ؑ کی ایک فرد تھیں جنھوں نے تقوا ئے الہٰی کو اپنے گلے لگایا تو اللہ نے انھیں دولت علم سے مالامال کردیا(جسکی طرف قرآن میں واضح اشارہ موجو ہے)اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم سے آراستہ و پیراستہ فرمایا۔(اور گویا آپ کی گھٹی میں علم الٰہی شامل تھا)لہٰذاآپ کو ’’فاطمہؐ‘‘کہاجانے لگا اور چونکہ آپ کی کوئی مثل و نظیر نہیں ہے لہٰذا آپ کو ’’بتولؐ ‘‘کہا گیا۔
۲۔ اخلاق کریمہ جناب سیدہ کونین ؐ نیک سیرت، پاک باطن، شریف النفس ، جلیل القدر، زود فہم، خوش صفات، جری، نڈر، بہادر، غیرتمند خود پسندی سے بیزار اورغرور و تکبر سے دور تھیں ۔ آپ ؐ حوصلہ مند ، بے حد بردبار ، صاحب وقار و سکون ، مہربان ، پختہ رائے کی مالک اور پاکدامن تھیں ۔اپنے والد نبی رحمتؐ کی وفات سے پہلے آپ کی زندگی پروقار، مقصد زیست سے سر شار اور خندہ روئی اور تبسّم کے ساتھ بسر ہوئی۔ لیکن اپنے والد کی وفات کے بعد وہ تبسّم نہ جانے کہا ں غائب ہو گیا۔آپ نے حق کے علاوہ کبھی زبان نہیں کھولی سچائی کے علاوہ کوئی گفتگو نہ کی ، کسی کا غلط انداز سے کبھی تذکرہ نہیں کیا ،آپ غیبت ،تہمت،چغلخوری، اشارہ و کنائے نیز کسی کی تضحیک سے کوسوں دوررہیں اسرار کی حفاظت ،وعدہ وفائی،نصیحت کی تصدیق ،معذرت قبول کرنا برائیوں سے چشم پوشی ،گستاخیوں اور جسارتوں کو حلم وبردباری کے ساتھ نظر انداز کردینا آپ کی عام عادت تھی۔آپ برائیوں سے دور ،خیر و خیرات کی طرف مائل،امانتدار ،دل اور زبان کی سچی، عفت وپاکدامنی کی آخری چوٹی (بلندی)پر فائز ،پاکدامن اور ایسی پاکیزہ نظر خاتون تھیں جس پر خواہشات نفسانی کا ذرہ برابر اثر نہ ہوتا تھا اور ایسا کیوں نہ ہو؟آپ تو نبی کریمؐ کے ان اہلبیت میں شامل ہیں جن کو خداوند عالم نے ہر برائی اور گندگی سے دور رکھا ہے۔
آپ کسی بھی نامحرم مرد سے بات کرتی تھیں تو آپ کے اور اس کے درمیان کوئی نہ کوئی پردہ ضرورحائل رہتا تھا ، جو آپ کی عفت و پاکدامنی کی علامت ہے ۔ بلکہ اس سلسلہ میں آپ کے احتیاط کا یہ عالم تھا کہ آپ کو یہ بات بھی بری محسوس ہوئی کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے جنازہ کی اسی طرح ایک چادر ڈال کر اس کی تشییع کی جائے جس طرح دوسری عورتوں کا جنازہ اٹھایا جاتا ہے ۔آپ بے حد زاہدہ اور قناعت پسند تھیں اور آپ کو یہ معلوم تھا کہ لالچ سے دل مردہ ہوتا ہے نیز کام بگڑجاتے ہیں اسی لئے آپ اپنے والد گرامی کی اس حدیث پر شدت سے عمل پیرا تھیں ’’فاطمۃ اصبری علی مرارۃ الدنیا لتفوزی بنعیم الابد‘‘’’اے فاطمہ دنیا کی تلخیوں پر صبر کرو تا کہ ابدی نعمتوں کی مالک بن جاؤ‘‘اس لئے آپ معمولی سے معمولی وسائل زندگی اورسادہ زیستی پر خوش وخرم، مشکلاتِ زندگی پر صابر، تھوڑے سے حلال پر قانع نیزراضی و خشنود ،دوسروں کے اموال سے بے پروا،نا حق چیز یا غیر خدا سے حاصل شدہ کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھنے کی پابند ،مختصر یہ کہ آپ استغناء نفس کا راز ہیں،جیسا کہ آپ کے والد گرامی نے فرمایا ہے:’’انما الغنی غنی النفس‘‘،مالداری (استغناء)صرف نفس کی مالداری ہے۔آپ وہ سیدۂ بتول ہیں جو دنیا سے کنارہ کش ہو کر، خدا سے بالکل نزدیک ،کائنات کی رنگینوں سے متنفراس کی بلاؤں سے اچھی طرح واقف صبر وتحمل کے ساتھ اپنا فریضہ کو ادا کرنے والی اور بے شمار مشکلات زندگی کے باوجود ہمیشہ اپنے پروردگار کے ذکرمیں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔شہزادی دو عالم کوصرف آخرت کی فکر لاحق تھی اسی لئے آپ کو دنیاوی مسرتوں سے خوشی نہ ہوتی تھی،کیونکہ آپ نے اپنے بابا کو بھی ہمیشہ دنیا کی آسائش وآرام اور اس کی لذتوں سے کنارہ کش اور دور ہی دیکھا۔آپ ہی سے دنیا والوں نے یہ سبق سیکھا ہے کہ بلاؤں پر صبراورآسائشوں میں ذکرخدا کیسے ہوتا ہے اورقضاء و قدر الہٰی پر کس طرح راضی رہا جاتاہے جیسا کہ آپ نے اپنے والد گرامی کی یہ حدیث نقل فرمائی ہے:’’ان اللّٰہ اذا احب عبداً ابتلاہ فان صبر اجتباہ و ان رضی اصطفاہ ‘‘۔خداوند عالم جب کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو اسے امتحان اور آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے چنانچہ اگر وہ صبر کرلیتا ہے تو اسے چن لیتا ہے اور اگر وہ راضی رہتا ہے تو اسے ممتاز و منتخب قرار دیتا ہے۔
۳۔سخاوت وایثارجود و سخا کے میدان میں آپ اپنے پدر بزگوار کے نقش قدم پر گامزن رہیں اس لیے کہ آپ نے آنحضرتؐ سے یہ سن رکھاتھا:’’السخی قریب من اللّٰہ۔۔۔‘‘سخاوت کرنے والا اللہ سے ،لوگوں سے اور جنت سے قریب اور جہنم سے دور ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ خود بھی جوادہے اور سخاوت کرنے والے سے محبت کرتا ہے۔‘‘اور ایثار تو حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کا شعار تھا یہاں تک کہ آپ کی بعض ازواج نے کہا ہے:پوری زندگی کبھی بھی آپ نے لگاتارتین دن تک سیر ہو کر کھانا نہیں کھایا بلکہ آپ ہمیشہ یہ فرمایا کرتے تھے:’’ولو شئنا لشبعنا ولکنا نؤثر علی انفسنا‘‘’’اگر ہم چاہیں توشکم سیر ،رہ سکتے ہیں مگر ہم لوگ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں‘‘یہی وجہ ہے کہ شہزادی کائنات ؐاپنے والد کی پیروی میں ایثار وقربانی کے ہر مرحلہ میں آگے نظر آتی ہیں جسکا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے اپنی شادی کا جوڑا بھی سائل کو عطا فرمادیا تھا آپ کے عظیم جودو ایثار کے لئے وہی واقعہ کافی ہے جسے ہم سورۂ دہر کی تفسیر کے ذیل میں ذکر کرچکے ہیں۔جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے:پیغمبر اکرم ؐ نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی جب تعقیبات سے فارغ ہوگئے تو محراب میں ہماری طرف رخ کرکے بیٹھ گئے لوگ آپ کو ہر طرف سے اپنے حلقہ میں لئے ہوئے تھے کہ اچانک ایک بوڑھا شخص آیا جو بالکل پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھا جس سے بڑھا پے اور کمزوریکی وجہ سے سنبھلا نہیں جارہاتھا یہ منظر دیکھ کر رسول اکرم ؐ نے اس کی خیریت پوچھی!تو اس نے کہا:اے نبی اللہ میں بہت بھوکاہوں لہٰذاکچھ کھانے کو دیدیجئے میرے پاس کپڑے نہیں ہیں مجھے کپڑے دیدیجئے اور میں فقیربھی ہوں۔آنحضرت ؐنے فرمایا:میرے پاس تو فی الحال کوئی چیز نہیں ہے پھر بھی چونکہ خیر کی طرف راہنمائی کرنے والا خیرات کرنے والے کی طرح ہوتا ہے لہٰذا تم اس کے گھر چلے جاؤ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہیں وہ اپنے اوپر اللہ کو ترجیح دیتا ہے،جاؤ تم فاطمہ ؐ کے حجرہ کی طرف چلے جاؤ( بی بی کا گھر پیغمبر اکرم ؐ کے اس حجرے سے ملا ہوا تھا جو ازواج کے حجروں سے الگ آنحضرت ؐ کا مخصوص حجرہ تھا)اور فرمایا:اے بلال ذرا اٹھو اور اسے فاطمہ ؐ کے گھر تک پہنچادو ۔
وہ دیہاتی جناب بلال کے ساتھ چلا گیا ،جب وہ جناب فاطمہ ؐ کے دروازہ پر جا کررکا تو اس نے بلند آواز سے کہا : نبوت کے گھرانے والو ! فرشتوں کی رفت و آمد کے مرکزو مقام اور روح الامین جبرئیل کے نزول کی چوکھٹ والو تم پر پروردگار عالم کا سلام ہو ! شہزادی کونین ؐ نے جواب دیا تم پر بھی سلام ہو ، تم کون ہو ؟ اس نے کہا میں ایک بوڑھا اعرابی ہوں آپ کے پدر بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ۔ اے دختر پیغمبر اکرمؐ میں برہنہ تن اور بھوکا ہوں لہٰذا مجھ پر کچھ کرم فرمائیے خدا آپ ؐ پر اپنی رحمت نازل کرے ۔ اس وقت آپ کے یہاں یہ حال تھا کہ شہزادی کونین نے اور اسی طرح ، مولائے کائنات ؑ ( حتی حضور اکرم (ص) نے تین دن سے کچھ نہ کھایا تھا حضور اکرم (ص) کو بھی اس بات کا علم تھا جناب سیدہ ؐ نے گوسفند کی ایک کھال اٹھائی جس پر امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ سوتے تھے اور فرمایا کہ اے دقّ الباب کرنے والے اس کو لیجا امید ہے کہ خدا اس کے ذریعہ تم کو بھلائی دے گا ۔ اعرابی نے کہا : اے دختر پیغمبر (ص) ! میں نے آپؐ سے بھوک کا شکوہ کیا ہے لیکن آپ ؐ مجھ کو یہ کھال دے رہی ہیں ؟ میں اس بھوک میں اس کا کیا کروں ؟ یہ سن کر آپ نے اپنی گردن سے وہ ہار اتارکر اس اعرابی کی طرف بڑھا دیا جو آپ کو آپ ؐ کے چچا حمزہ ؒ کی بیٹی فاطمہ ؐ نے تحفہ میں دیا تھا ۔اور فرمایا: لیجا کر اس کو بیچ دینا امید ہے کہ خدا تم کو اس کے ذریعہ اس سے بہتر چیز عنایت فرمائے گا ۔ اعرابی ہارلے کر مسجد میں آیا حضور اکرم (ص) اپنے اصحاب کے درمیان تشریف فرما تھے اور کہا : اے رسول خدا (ص) ! فاطمہ ؑ نے یہ ہار مجھ کو دے کر کہا ہے اس کو بیچ دینا حضور اکرم (ص) یہ سن کر روپڑے اور فرمایا کہ : اس کے ذریعہ اس سے بہتر چیزکیسے عنایت نہ فرمائے گا جبکہ تم کو یہ ہار بنی آدم کی تمام عورتوں کی سردار فاطمہ بنت محمد (ص) نے دیا ہے ؟ اس وقت جناب عمار یاسر کھڑئے ہوئے اور فرمایا کہ رسول خدا (ص) کیا مجھے یہ ہار خرید نے کی اجازت ہے ؟ آپ نے فرمایا عمار ! اس کو خرید لو کیونکہ اگر جن وانس بھی مل کر اس کو خرید لیں تو ان میں سے کسی پر بھی خدا عذاب نہ فرمائے گا ۔ جناب عمارنے عرض کی اے اعرابی یہ ہار کتنے میں بیچوگے ؟ اس نے کہا کہ اس کی قیمت یہ ہے کہ مجھ کو پیٹ بھر روٹی اور گوشت مل جائے ، ایک بر د یمانی مل جائے جسے اوڑھ کر میں نماز پڑھ سکوں اور اتنے دینار جن کے ذریعہ میں اپنے گھر واپس پہونچ جاؤں اسی دوران جناب عمار ؒ نے اپنا وہ تمام حصہ جو آپ ؒ کو حضور اکرم (ص) نے خیبر کے مال غنیمت میں سے دیا تھا قیمت کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں اس ہار کے بدلے تم کو بیس دینار ، دوسو درہم ، ایک برد یمانی ، اپنی سواری جو تم کو تمہارے گھر تک پہونچادے گی اور اتنی مقدار میں گیہوں کی روٹیاں اور گوشت بھی فراہم کر رہا ہوں جس سے تم بالکل سیر ہوجاؤ ۔ اعرابی نے کہا اے بھائی تم کتنے سخی ہو ! جناب عمار اس کو اپنے ساتھ لے گئے اور وعدے کے مطابق وہ ساری چیزیں اسے دیدیں اعرابی دوبارہ حضور اکرم (ص) کے پاس آیا تو حضور اکرم (ص) نے اس سے کہا : کیا تم سیر ہوگئے اور تم کو پوشاک مل گئی اس نے کہا میرے ماں باپ آپ ؑ پر فدا ہوں ! جی ہاں میں بے نیاز ہوگیا ہوں ۔ حضور اکرم (ص) نے فرمایا تو اب فاطمہؑ کو ان کے ایثار کا بدلہ دو ! تو اعرابی نے کہا : پروردگارا: تو معبود ہے ہم نے تجھ کو پیدا نہیں کیا ہے اور تیرے سوا ہمارا کوئی معبود نہیں ہے تو ہر حال میں ہمارا رازق ہے خدایا ! فاطمہؑ کو ایسی نعمت عطا فرما جیسی نعمت نہ کسی نے دیکھی ہوا اور نہ سنی ہو ۔ حضور اکرم (ص) نے آمین کہا اور اصحاب کی طرف رخ کر کے کہا : خدا نے فاطمہ ؑ کو دنیا میں یہ چیزیں دی ہیں : میں اس کا باپ ہوں اور تمام عالمین میں کوئی مجھ جیسا نہیں ؛ علی ؑ ان کے شوہر ہیں اگر علیؑ نہ ہوتے تو فاطمہ ؑ کا کوئی ہمسر نہ ہوتا ، ان کو حسنؑ اور حسینؑ جیسے بیٹے عطا کئے جن کا مثل تمام عالمین میں نہیں یہ تمام فرزندان انبیاء ؑ اہل بہشت کے سردار ہیں ۔ آپؐکے سامنے جناب مقداد و عمار یاسرو سلمان فارسی بیٹھے تھے ان سے آپؐنے فرمایا : مزید بتاؤں ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! تو آپؐ نے فرمایا : میرے پاس جبرئیل آئے تھے انھوں نے یہ بیان کیا ہے کہ جب فاطمہؑ سے قبر میں دو فرشتے پوچھیں گے : تمہارا پروردگار کون ہے ؟ تو وہ جواب دیں گی اللہ میرا پروردگار ہے وہ سوال کریں گے : تمہارا نبیؐ کون ہے ؟ تو وہ یہ جواب دیں گی : میرے پدر بزرگوار۔ وہ سوال کریں گے : تمہارا ولی کون ہے ؟ تو وہ یہ جواب دیں گی : یہ شخص جو میری قبر کے کنارے کھڑا ہے ۔ کیا میں تم کو ان کی مزید فضیلت بتاؤ ں ؟ یاد رکھو خدا نے ان پر فرشتو ں کی ایک جماعت کو معین کیا ہے جو آگے پیچھے ،دائیں بائیں ہر طرف سے ان کی حفاظت کرتی ہے یہ سب زندگی میں ان کے روبرو حاضر ہیں اور وہ ان کی وفات کے وقت بھی اور قبر میں بھی ان کے ساتھ رہیں گے ۔
اور وہ جماعت ان کے والد ، شوہر اور ان کی اولاد پر مسلسل درود بھیجتی رہتی ہے چنانچہ میری وفات کے بعد جو بھی میری زیارت کرے اس نے گویا میری زندگی میں میری زیارت کی ہے اور جس نے فاطمہؑ کی زیارت کی اس نے گویا میری زیارت کی ہے جس نے علیؑ کی زیارت کی اس نے گویا فاطمہؑ کی زیارت کی جس نے حسنؑ اور حسینؑ کی زیارت کی اس نے گویا علیؑ کی زیارت کی اور جس نے ان کی ذریت کی زیارت کی اس نے گویا ان دونوں کی زیارت کی ہے ۔
اس وقت جناب عمار یاسرنے ہار کو مشک سے معطر کیا اور اسے ایک برد یمانی میں لپیٹ دیا ۔ آپ کا ایک غلام تھا جس کو آپ نے خیبر سے ملنے والے اپنے حصے سے خرید ا تھا آپ نے اس سے فرمایا اس ہار کو لو اور سول خدا ؐ کو دیدو اور تم بھی رسول اکرم ؐ کی ملکیت ہو ۔ غلام نے ہار لے کر رسول خدا (ص) کو دیا اور جناب عمار کی بات دہرائی تو حضور اکرم (ص) نے فرمایا: فاطمہؑ کے پاس جاؤ اور ان کو یہ ہار دیدو اور تم بھی انہیں کی ملکیت میں ہو غلام ہار لے کر جناب فاطمہ ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ؐ کو حضور اکرم (ص) کی گفتگو سے باخبر کیا جناب فاطمہ ؑ نے وہ ہار لے لیا اور اس غلام کو آزاد کردیا غلام کوہنستا دیکھ کر جناب فاطمہؑ نے پوچھا تم کیوں ہنس رہے ہو ؟ اس نے کہا مجھ کو اس ہار کی برکت عظمیٰ سے ہنسایا ہے جس کی برکت سے ایک بھوکا شکم سیر ہوا ، ایک برہنہ تن نے لباس پایا، ایک نادار مالدار ہوگیا ، ایک غلام آزاد ہوگیا اور پھر یہ ہار اپنے مالک کے پاس واپس آگیا ۔