اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

حضرت نوح(ع) کی کشتی میں سوار ہونے والا پہلا اور آخری حیوان کون تھا؟

حضرت نوح(ع) کی کشتی میں سوار ہونے والا پہلا اور آخری حیوان کون تھا؟

حضرت نوح(ع) کی کشتی میں سوار ہونے والا پہلا اور آخری حیوان کون تھا؟
ایک مختصر
بعض روایتوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت نوح (ع) کی کشتی میں سب سے پہلے سوار ہونے والا جانور طوطی یا چیونٹی تھی، آور آخری جانور گدھا تھا اور ابلیس بھی گدھے کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا۔
ہم اس قسم کی بعض روایات کو ان کی سند کے بارے میں بحث و تحقیق کے بغیر ذیل میں ذکر کرتے ہیں:
1۔ ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ:" سب سے پہلا پرندہ جوحضر نوح کی کشتی میں داخل ہوا، وہ طوطی تھی اور سب سے آخر پر سوار ہونے والا حیوان گدھا تھا اور ابلیس بھی گدھے کی دم کے ساتھ کشتی میں داخل ہوا"۔[1] اس روایت میں لفظ " الدورہ" آیا ہے جس کے معنی ایک قسم کی طوطی ہے۔
2۔ بعض منابع میں "الدورہ" کے بجائے " الذّرہ" آیا ہے، جس کے معنی " چیونٹی" ہے، کہ اس بنا پر روایت کے معنی بدل جائیں گے:
پہلا جانور جو کشتی میں سوار ہوا، " چیونٹی" تھی اور آخری گدھا تھا۔ جب حضرت نوح(ع) نے گدھے کو لایا اور اس کا سینہ کشتی میں داخل ہوا، ( اس وقت) ابلیس نے گدھے کی دم پکڑ لی اور گدھے کے پاؤں کو کشتی میں سوار ہونے سے روکا، حضرت نوح(ع) نے گدھے سے خطاب کرکے فرمایا:" افسوس ہو تم پر! کشتی کے اندر داخل ہوجاؤ۔" لیکن گدھا داخل نہ ہوسکا۔ نوح نے کہا:" افسوس ہو تم پر ! کشتی میں داخل ہوجاؤ، اگر چہ شیطان بھی تیرے ساتھ ہو۔" جوں ہی یہ جملہ حضرت نوح(ع( کی زبان پر جاری ہوا، شیطان نے گدھے کو رہا کیا اور گدھا کشتی میں سوار ہوا اور شیطان بھی اس کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا۔[2]
3۔ امام صادق (ع) فرماتے ہیں:" جب حضرت نوح(ع) حیوانوں کو کشتی میں سوار کر رہے تھے۔ تمام حیوان سوار ہوئے لیکن ان میں گدھا سوار نہیں ہوا۔ اس وقت ابلیس گدھے کے دو پیروں کے بیچ میں تھا۔ در نتیجہ حضرت نوح (ع) نے گدھے سے خطاب کرکے فرمایا: اے شیطان! سوار ہو جاؤ، شیطان نے اس کلام کو حضرت نوح(ع( سے سنا اور گدھے کی دم کو پکڑ کر گدھے کے ہمراہ کشتی میں سوار ہوا۔"[3]
 
[1] ۔ طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، ج ‌12، ص 23، بیروت، دار المعرفة، طبع اول، 1412ق؛ و با اندکی تفاوت در این منابع آمده است: ابن کثیر دمشقی‌، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، ج ‌1، ص 111، بیروت، دار الفکر، 1407ق؛ بغدادی، علاء الدین علی بن محمد، لباب التاویل فی معانی التنزیل، تصحیح، شاهین‌، محمد علی، ج ‌2، ص 485، بیروت، دار الکتب العلمیة، طبع اول، 1415ق.
[2] ۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک(تاریخ طبری)، تحقیق، ابراهیم، محمد أبو الفضل، ج ‌1، ص 184، بیروت، دار التراث، طبع دوم، 1387ق.
[3] ۔ قطب الدین راوندی، سعید بن هبة الله، قصص الأنبیاء(ع)، محقق، عرفانیان یزدی، غلامرضا، ص 83، مشهد، مرکز پژوهش‌های اسلامی، طبع اول، 1409ق؛ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ‌11، ص 323، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، طبع دوم، 1403ق.

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام رضا علیہ السلام کے فضائل کے چند گوشے
امام خمینی (رہ):غدیر کے پس منظر میں ہمارے فرائض
امام علی کا مرتبہ شہیدمطہری کی نظرمیں
علم کا مقام
وحی کی حقیقت اور اہمیت
امام خمینی معاصر تاریخ کا مردِ مجاہد
خدا کا غضب کن کے لیۓ
علم کا مقام
انساني اخلاق کي درستي ميں قرآن کا کردار
اہل سنّت بھائیوں کے منابع سے پیغمبر اعظم ﷺکی ...

 
user comment