نکاح کے بول پڑھنے اور رشتہ ازدواج کے عہد و پيمان کو قبول کرنےسے کل کے لڑکے لڑکي آج کے مياں بيوي اور ايک دوسرے کے شريک حيات بن جاتے ہيں۔ يوں گھروں ميں ايک گھر اور معاشرے ميں ايک نئي ’’اکائي‘‘ کا اضافہ ہوتا ہے۔ اگرچہ کہ حکيم و دانا خالق کي نگاہ ميں مرد و عورت، دو انساني گوہر، دو ايک جيسي آسماني روح اور ايک دوسرے کے مثل و نظير ہيں۔ جب کہ انساني حقيقت کے لحاظ سے ايک دوسرے کي نسبت ہر ايک کي ذمے داري برابر ہے۔ ليکن حکمت ِ خدا نے ان آسماني گوہروں کو ايک دوسرے سے مختلف اور ممتاز پيکروں، البتہ ايک دوسرے کے ضرورت مند ہونے کے احساس کے ساتھ دو زميني گوہروں ميں سمايا ہے۔
يہ ’’رشتہ ازدواج‘‘ وہي عظيم قانون، ہر لحاظ سے مکمل اور جامع سنت، بہترين رسم زندگي اور وہ خوبصورتي و زيبائي ہے کہ جو اس جہان پر حاکم ہے۔
اِسي طرح ’’زوجيت‘‘ کا يہ مقدس رشتہ اِس عالم ہستي کے معمار کے جمال کي پُر عظمت نشانيوں ميں سے ايک نشاني ہے۔
’’شادي‘‘ يعني ’’گھرانے يا خاندان‘‘ کي ذمہ داري لينے کے لئے زندگي کے دو ستونوں کا ملاپ اور زندگي کے ترازو کے توازن کے لئے زندگي کے ان دو پلڑوں کي نزديکي۔ اس نئي اکائي --گھرانے-- کي تشکيل کے لئے مياں بيوي ميں سے ہر ايک کے مکمل کردار کي شناخت ميں ان کے جسم و جان اور روح کي صفات و تخليق، حکمت ِ الٰہي اور اس جہان مادّي کے طبيعي و فطري فرق بنيادي کردار ادا کرتے ہيں۔
سچ سچ بتائيے کہ گھر بسانے ميں مياں بيوي کا کيا کردار ہے ؟
کس کي ذمے داري دوسرے سے زيادہ اہم ہے؟
کيا ان دونوں ميں سے کسي ايک کي جگہ کو دوسرے سے تبديل کيا جا سکتا ہے؟
ايک دوسرے کي نسبت ان کے آپس ميں کيا حقوق ہيں ؟
زندگي کي نعمتوں اور اس کے مقابل ان کے حقوق ميں ہر ايک کا حصہ کس نسبت سے ہے؟
اور بالآخر گھر ميں بيوي کي حکومت يا جورو کے غلام کي فضا بہتر ہے يا گھر پر شوہر کے تسلط و برتري اور نوکر بيوي کا ماحول، يا دونوں ميں سے کوئي بھي نہيں ؟
يہ وہ سوالات ہيں کہ جن کے ماہرانہ اور استادانہ جواب کے علاوہ کوئي اور چيز نوجوان دولہا دو لہن کے پريشان ذہنوں کو مطمئن نہيں کر سکتي۔ زندگي کے اس نئے راستے پر قدم رکھنے پر ان دو ہمسفروں کي چشم اميد ’’استاد‘‘ کے راہ گُشا کلمات سے کھلنے والے نئے افق اور دريچوں پر لگي ہوئي ہے کہ جو راستے سے بھي واقف و آگاہ ہ اور محرمِ دل بھي ! ايک دوسرے کے مددگار اور دوستوں کي مانند ہم نے مشاہدہ کيا ہے کہ کبھي کبھي مرد، بيوي کو دوسرے نمبر کا درجہ ديتا ہے! ليکن در حقيقت دوسرے درجے کے انسان کا کوئي تصور موجود نہيں ہے۔ دونوں ايک دوسرے کے مثل و نظير اور امور زندگي ميں برابر حقوق کے مالک ہيں۔ مگر وہ مقامات کہ جہاں خداوند متعال نے انساني مصلحت کي بنا پر مرد و عورت ميں فرق رکھا ہے اور يہ فرق مرد کا نفع يا عورت کا نقصان نہيں ہے۔ لہٰذا مياں بيوي کو چاہيے کہ گھر ميں دو شريک اور ايک دوسرے کے مدد گار اور دوستوں کي مانند زندگي گزاريں۔