پنجگانہ نمازوںسے پہلے اذان و اقامت کاپڑھنامستحب بلکہ سنت مؤکدہ ہے بعض علماء نے تواسے واجب قرار دیا ہے شہید ثانی علیہ الرحمة شرح اللمعة میں لکھتے ہیں
سید مرتضی اور شیخ طوسی نے اذان و اقامت کو نماز جماعت کے لیے واجب قرار دیا ہے۔
اذان کا مذاق اڑانے والوں کے بارے میں خدا وند متعال کا ارشادہے
(( واذانادیتم الی الصلاة اتخذوھا ھزوا و لعبا ذلک بأنّھم قوم لا یعقلون)). ( سورہ مائدہ ٥٨ .)
ترجمہ اور جب تم نماز کے لیے اذان دیتے ہو تو یہ اس کا مذاق اورکھیل بنا لیتے ہیں کیونکہ یہ بالکل بے عقل قوم ہیں۔
شیعہ و سنی تفاسیر میں نقل کیا گیا ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک شخص تھا جو اذان میں ((أشھدأنّ محمد ا رسول اللہ ))کی آوازسنتا تو مذاق اڑاتے ہوئے کہا کرتا خدا جھوٹے کو جلا دے !ایک رات اس کے گھر کو آگ لگی وہ اور اس کے گھر کے تمام افراد جل کر راکھ ہو گئے۔( تفسیر طبری ٤٤٣١ ؛ تفسیر تبیان ٣٥٧٠ ؛ تفسیر کبیر منہج الصادقین ٣٢٦٥ ؛کنز الدقائق ٣١٢٦ ؛ تفسیر صافی ٢٤٧ ؛ تفسیر در منثور ٢٢٩٤.)
امام صادق علیہ السلام اذان و اقامت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
٫٫ لا بدّ للمریض أن یؤذّن ویقیم اذا أراد الصّلاة ولو فی نفسہ ان لم یقدر علی أن یتکلم بہ ، سئل فان کان شدیدا الوجع ؟ قال لابدّ من أن یؤذن و یقیم لأنہ لا صلاة الا باذان و اقامة ،،
مریض کو چاہیئے کہ جب نماز پڑھنے کا ارادہ کرے تو اذان واقامت کہہ کر نماز پڑھے ، اگر بلند آواز سے پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا تو دل میںہی پڑھ لے ، کسی نے پوچھا اگر انسان بہت زیادہ مریض ہو تو کیا پھر بھی اسے اذان و اقامت کہنا چاہیئے ؟ امام نے فرمایہر حال میں اذان و اقامت کہناچاہیئے کیونکہ اذان و اقامت کے بغیر نماز درست نہیں ہے (اذان شعائر اسلام )
اذان واقامت کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ جو شخص اذان واقامت کہہ کر نماز پڑھتا ہے اس پر شیطان غالب نہیں آسکتا اورشیطانی وسوسہ سے بھی محفوظ رہتا ہے اسی لیے پیدا ہونے والے بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا مستحب ہے تاکہ وہ بچہ شیطان کے شر اور اس کے وسوسہ سے محفوظ رہے ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
٫٫ من ولد لہ مولود فلیؤذّن فی اذنہ الیمنی بأذان الصّلاة والیُقم فی اُذنہ الیُسری فانّھا عصمة من الشّیطان الرّجیم،،
جس شخص کے ہاں بچہ پیداہو تواسکے دائیں کان میںاذان اوربائیں کان میں اقامت کہی جائے کیونکہ اس کے ذریعہ وہ بچہ شیطان رجیم کے شر سے محفوظ رہتا ہے ۔(وسائل الشیعہ ٢١ ٤٠٦، باب احکام الأولاد، حدیث١. )
ہشام بن ابراہیم کہتا ہے میں امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے مریض و بے اولاد ہونے کی شکایت کی تو امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا
اے ہشام ! تم اپنے گھر میں بلند آواز سے اذان کہا کرو ۔
ہشام کہتا ہے کہ میں نے امام علیہ السلام کے فرمان کے مطابق عمل کیا تو خداوند عالم نے مجھ اس عمل کی برکت سے شفا بخشی اور کثیر اولاد بھی عطاکی ۔
محمد بن راشد کہتے ہیں میں اور میرے اہل خانہ اکثر مریض رہتے تھے جیسے ہی میں نے ہشام کی زبانی یہ بات سنی تو میں نے بھی اس پر عمل کیا جس کے نتیجہ میں خداوند متعال نے مجھے اور میرے اہل وعیال کو بیماری سے شفا بخشی۔( جامع احادیث الشیعہ ٥١٤٤، ح٧٣٩٥ .)
رسو ل خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا
٫٫ یا علیّ ! ألأذان حجّة علی اُمّتی ،،
اے علی! اذان میری امت پر اتمام حجت کا وسیلہ ہے ۔
اور پھر فرماییا علی !ألأذان نور فمن أجاب نجا ومن عجز خسف وکنت لہ خصما بین یدی اللہ ومن کنت لہ خصما فماأسوأ حالہ ۔
اے علی ! اذان نور ہے پس جس نے اس پر لبیک کہی وہ نجات پا گیا اور جس نے سستی سے کام لیا اس نے گھاٹا پایا اور خدا کی بارگاہ میں میںاس کا دشمن ہوں گا اور جس کا میں دشمن بنا اس کا حا ل کتنا برا ہو گا. ( تہذیب الاحکام ١ ٥٩.)
مؤذن کی فضیلت
آسما ن پر فرشتوں میں سب سے پہلے مؤ ذن جناب جبرا ئیل ہیں او ر زمین پر انسانوںمیں سب سے پہلے مؤذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے مؤذن کی فضیلت کے بارے میںآئمہ معصومین علیہم السلام سے بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں جن کو یہا ں پر نقل کرنا ممکن نہیں ہے البتہ ان میں سے بعض ایک کو یہاں پر بطور تبرک نقل کر رہے ہیں۔
١۔ مؤذن کا مقام جنّت ہے
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
٫٫من أذّن فی مصر من أمصار المسلمین سنة وجبت لہ الجنّة ،،
( وسائل الشیعہ ٥ ٣٧١ ،ابواب الأذان والأقامة ، باب ٢ ، ح ١ .)
جو شخص مسلمانو ں کے کسی شہر میں ایک سال تک اذان دے تواس پر جنت واجب ہے .
٢۔ مؤذن قیامت میں سر بلند ہو گ
سند صحیح کے ساتھ امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے
٫٫ ان من أطول النّاس اعناقا یو م القیامة المؤذنین ،،
روز قیامت مؤذن سب سے بلند گردن والے ہوں گے .( حوالہ سابق ،ح٢.)
٣۔مؤذن بخشش کے ساتھ محشر میں آئے گا
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں
٫٫من أذّن سبع سنین احتسابا جاء یوم ا لقیامة ولا ذنب لہ ،،
جو شخص سات سال خداکی خاطر اذان دے تو روز قیامت بغیر گناہ کے حاضر ہو گا۔
( وسائل الشیعہ ٥ ٣٧١، ابواب الأذان والاقامة ، باب ٢ ، ح ٢.)
٤۔مؤذن عرش الہی کے سایہ میں ہو گا
ایک طولانی حدیث میں جو حدیث مناہی کے نام سے معروف ہے امام صادق علیہ السلام نے اپنے اجداد کے ذریعہ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے
٫٫من أذّن محتسبا یرید بذلک وجہ اللہ أعطاہ اللہ ثواب أربعین ألف شہید ، وأربعین ألف صدیق ، ویدخل فی شفاعتہ أربعون ألف مسی ء من امتی الی الجنّة ، ألا وانّ الموذن اذا قال أشھد أن لا الہ الا اللہ ، صلّی علیہ سبعون ألف ملک ، یستغفرون لہ ، وکان یوم القیامة فی ظلّ العرش حتّی یفرغ اللّٰہ من حساب الخلائق ، ویکتب ثواب قولہ أشھد أنّ محمدا رسول اللہ ،أربعون ألف ملک ،،( وسائل الشیعہ ٥٣٧٦، ابواب الأذان والاقامة ، باب٢، ح ٢٠ .)
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
جو شخص خدا وند متعال کی خوشنودی کی خاطر اذان دے تو خداوندمتعال اسے چالیس ہزار شہید اور چالیس ہزار صدیق کا ثواب عطا کرے گا اور اس کی شفاعت سے میری اُمت کے چالیس ہزار گناہگار افراد جنت میں داخل ہوں گے ، آگاہ ہو جاؤ کہ جب مؤذن کہتا ہے اشھد ان لا الہ اللہ تو ستر ہزار ملائکہ اس پر درود بھیجتے ہیں اور اس کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں اور وہ شخص روز قیامت عرش الہی کے سایہ میں رہے گا جب تک کہ خدا وند متعال مخلوقات سے حساب نہ لے لے ،اور جب اشھد ان محمد ا رسول اللہ کہتا ہے تو اس کا ثواب چالیس ہزار ملائکہ لکھتے ہیں ۔
٥۔ مؤذن کا مرتبہ شھید کے برابر ہے
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
٫٫للمؤذن فیما بین الأذان والاقامة مثل أجر الشھید المتشحّط بدمہ فی سبیل اللہ ، قال قلت یارسول اللہ انّھم یجتلدون علی الأ ذان ؟ قال کلّا انّہ یأتی علی النّاس زمان یطرحون الأذان علی ضعفائھم ، وتلک لحوم حرّمھا اللّٰہ علی النّار ،، ( وسائل الشیعہ ٥٢٧٣ ، ابواب الأ ن والاقامة ، باب٢ ، ح ٤.)
اذان و اقامت کہنے والے شخص کے لیے وہی ثواب ہے جو راہ خدامیں خون میں غلطاں شہید کا ہے ( حضرت علی فرما تے ہیں ) میں نے عرض کی یا رسول اللہۖ ! لوگ تو اذان کے لیے آپس میں لڑیں گے ؟ فرمایا ہرگز ایسا نہیں . بلکہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اذان کی ذمہ داری ضعیف لوگوں کو سونپ دی جائے گی درحالانکہ خداوند متعال نے مؤذن کے گوشت کو آتش جہنم پر حرام قرار دیا ہے ۔
source : http://quran.al-shia.org