مرد ہر گز يہ خيال نہ کرے کہ چونکہ وہ صبح سے شام تک نوکري کے لئے باہر رہتاہے، اپنا مغز کھپاتا اور تھوڑي بہت جو رقم گھر لاتا ہے تو وہ بيوي سميت اس کي تمام چيزوں حتيٰ اس کے جذبات، احساسات اور خيالات کا بھي مالک بن گيا ہے، نہيں ! وہ جو کچھ گھر لے کر آتا ہے وہ گھر کے اجتماعي حصے اور ذمے داريوں کي نسبت آدھا ہوتا ہے۔ جب کہ دوسرا آدھا حصہ اور ذمہ داري بيوي سے متعلق ہے۔ بيوي کے اختيارات، اس کي سليقہ شعاري اور گھريلو انتظام سنبھالنا، اس کي رائے، نظر، مشورہ اور اس کي باطني ضرورتوں کا خيال رکھنا شوہر ہي کے ذمے ہے۔ ايسا نہ ہو کہ مرد چونکہ اپني غير ازدواجي زندگي ميں رات کو دير سے گھر آتا تھا لہٰذا اب شادي کرنے کے بعد بھي ايسا ہي کرے، نہيں ! اسے چاہيے کہ وہ اپني زوجہ کے روحي، جسمي اور نفسياتي پہلووں کا خيال رکھے۔
قديم زمانے ميں بہت سے مرد خود کو اپني بيويوں کا مالک سمجھتے تھے، نہيں جناب يہ بات ہرگز درست نہيں ہے ! گھر ميں جس طرح آپ صاحبِ حق و اختيار ہيں اسي طرح آپ کي شريکہ حيات بھي اپنے حق اور اختيار کو لينے اور اسے اپني مرضي کے مطابق استعمال کرنے کي مجاز ہے۔ ايسا نہ ہو کہ آپ اپني زوجہ پر اپني بات ٹھونسيں اور زور زبردستي اس سے اپني بات منوا ليں۔ چونکہ عورت، مرد کي بہ نسبت جسماني لحاظ سے کمزور ہے لہٰذا کچھ لوگ يہ خيال کرتے ہيں کہ عورت کو دبانا چاہيے، اُس سے چيخ کر اور بھاري بھرکم لہجے ميں بات کريں، ان سے لڑيں اور ان کي مرضي اور اختيار کا گلا گھونٹتے ہوئے اپني بات کو ان پر مسلط کر ديں۔