اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

روحانی بیماریاں

روحانی بیماریاں



…اور نہ کوئی کسی کی غِیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے؟
(قرآن - ۹۴:۲۱)
پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: اے علی، جب کوئی اپنے مسلمان بھائی کی غِیبت اپنی موجوگی میں سنتا ہے اور قدرت رکھنے کے باوجود اس کی مدد کو نہیں آتا، تو اللہ تعالیٰ اسے اس دنیا میں ذلیل کریگا اور آخرت میں بھی۔
(شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ: ج ۸، حدیث ۶۳۳۶۱)

 
”روحانی بیماریاں“

غِیبت

ایک مرتبہ حضرت ابوذر غفارینے پیغمبر اکرم(ص) سے دریافت کیا کہ غِیبت کیا ہے؟
آپ(ص) نے فرمایا: اپنے مومن بھائی کے سلسلہ میں وہ کہنا جسے وہ ناپسند کرے۔
ابوذر نے پھر پوچھا، اے پیغمبر ِخدا (ص)، چاہے وہ خامی اس میں موجود ہی کیوں نہ ہو؟ آپ(ص) نے جواب دیا:
یاد رکھو، جو بُرائی اس میں ہے اگر تم اس کو بیان کر رہے ہو تو وہ غِیبت ہے اور جب تم وہ برائی بیان کررہے ہو جو اس میں نہیں پائی جاتی، تو تم نے اس پر تہمت لگائی۔
(وسائل الشیعہ ۸/ حدیث ۲۱۳۶۱)

 
غِیبت کے نتائج

رسول اکرم(ص) نے ابوذر غفاری کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
”اے ابوذر غِیبت سے ہوشیار رہو، کیونکہ یہ زنا سے بدتر ہے۔ “
ابوذر نے پوچھا: ایسا کیونکر ہے یا رسول الله؟ آپ(ص) نے فرمایا:
”کیونکہ جب کوئی شخص زنا کرتا ہے اور توبہ و استغفار کرتا ہے تو خدا اسے معاف کرسکتا ہے۔ لیکن، غِیبت اس وقت تک معاف نہیں کی جاسکتی جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کی غِیبت کی گئی ہے۔“
(وسائل الشیعہ جلد ۸/ج۲۱۳۸۱)
حضرت رسول اسلام(ص) سے روایت ہے:
”جو کوئی غِیبت کرے وہ اپنا روزہ اور وضو باطل کرتا ہے۔ وہ روز قیامت اس طرح محشور ہوگا کہ منھ سے بدبودار پیپ نکل رہی ہوگی اور جو بھی اس کے ساتھ مواقف میں ہوں گے ان کے لئے بہت ناگوار ہوگا۔ اگر وہ بغیر توبہ کئے مرجائے گا تو اس کی موت اس کی طرح ہوگی جس نے ہر وہ شئ جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، اسے حلال کیا ہو۔
(وسائل/۸/۶۱۳۶۱)
حضرت امام صادق(علیہ السلام) نے فرمایا کہ پیغمبر اکرم(ص) کی حدیث ہے:
”اے لوگو! جنھوں نے اسلام صرف زبان سے قبول کیا ہے مگر دلوں میں ایمان نہیں اترا، مسلمانوں کو ذلیل نہ کرو اور نہ ان کے عیوب اجاگر کرو اور جس کے عیوب اللہ ظاہر کرے وہ ذلیل ہوگا، اپنے ہی مملکت میں۔“
(کافی /۲، کتاب الایمان والکفر)
ایک اور مقام پر امام صادق(علیہ السلام) حضرت رسول اکرم(ص) کی حدیث بیان کرتے ہیں۔
”غِیبت ایک مومن کے ایمان کو اس طرح تباہ و برباد کردیتی ہے جس طرح جسم کو اَکْلہ (وہ بیماری جو جسم کے گوشت کو گلا دیتی ہے)۔ “
(الکافی -۲، کتاب الایمان والکفر)
جب غِیبت ہمارے اخلاق میں داخل ہوجاتی ہے۔ وہ بیماری روح پر غلط اثر کرتی ہے۔ ایک اثر یہ ہے کہ دل میں بغض و عداوت کا اضافہ ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ موت کے وقت جب حجاب ملکوتی اٹھے گا۔ تو غِیبت کرنے والے کو ان لوگوں کی بلندیوں اور مرتبہ کو اللہ کے سامنے دکھایا جائیگا جن کی اس نے غِیبت کی تھی کہ کس طرح اللہ نے ان لوگوں کونوازا ہے۔ اور غِیبت کرنے والوں کے دل میں بغض و عداوت کا اضافہ، اللہ تعالیٰ کے لئے بھی نفرت پیدا کرسکتا ہے، اور اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عداوت کی جگہ رہے گی اور ہمیشہ کے لئے ابدی عذاب میں مبتلا رہے گا۔

 
غِیبت سننے کی بھی ممانعت

جس طرح غِیبت کرنا منع ہے اسی طرح اس کا سننا بھی۔ یقینا احادیث میں یہ بات مسلّم ہے کہ غِیبت سننے والا اور غِیبت کرنے والا ایک ہی طرح کا ہے۔ اور یہ اتنا عظیم گناہ ہے کہ جس کی غِیبت کی گئی ہے بغیر اس کی معافی کے دوسرا کوئی راستہ نہیں۔
رسول اکرم نے فرمایا: ”غِیبت سننے والا دو غِیبت کرنے والوں میں سے ایک ہے۔“
(محجة البیضاء، ۰۶۲/۵)
امام صادق(علیہ السلام) نے پیغمبر اسلام(ص) سے حدیث نقل کی ہے کہ: پیغمبر اکرم(ص) نے غِیبت کرنا اور سننا دونوں ہی منع کیا ہے۔ پھر آپ(ص) نے فرمایا:
”دیکھ لو، جو بھی کسی غِیبت کرنے والے سے کسی مجمع میں اپنے دینی بھائی کو بچائے گا دفاع کرے گا تو پروردگار اسے ہزار شر سے محفوظ رکھے گا اس دنیا میں اور آخرت میں بھی اور اگر وہ قدرت رکھتے ہوئے بھی دفاع نہیں کرتا ہے تو اس کے ذمہ غِیبت کرنے والے کا ستّر گنا بوجھ رہیگا۔
(وسائل: جلد ۸ ح ۶۱۳۶۱)
غِیبت کی ایک قسم یہ ہے کہ مکاری اور بناوٹی ڈھنگ اور حیرت سے غِیبت سنے۔ اور غِیبت سننے والا بناوٹی اورمکاری کے ذریعہ حیرت کا اظہار اس لئے کرتا ہے کہ غِیبت میں جان پڑسکے۔ اس کی حیرت غِیبت کی ہمت افزائی کرتی ہے۔
مثلاً وہ ایسے جملہ استعمال کرے گا۔ ’استغفر الله‘ یا ‘ اوہ، مجھے یہ نہیں معلوم تھا‘ یا‘ وہ اس حد تک‘ یہ تاثرات‘ غِیبت کرنے والے کو اور زیادہ ورغلاتا ہے تاکہ وہ اور زیادہ اس فعل قبیح میں مبتلا ہوجائے۔ اور لوگوں کے عیوب سے محفوظ ہوتا رہے۔ یہ شیطانی عمل ہے۔ غِیبت، غِیبت ہے چاہے شامل رہے، یا خاموشی سے سنتے رہے۔

 
کیا غِیبت کی کبھی اجازت تھی؟

بہت ہی کم مقامات ہیں جہاں غِیبت جائز ہے۔ لیکن ہم کو ہوشیار رہنا ہے کہ کہیں حدود سے تجاوز نہ ہونے پائے۔وہ یہ ہیں۔
کسی مومن کو کسی کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے اور ان رشتوں کے لئے جو ازدواج میں منسلک ہوں گے کیونکہ یہ دو زندگیوں کا سوال ہے۔
وہ جو علی الاعلان شریعت کا مذاق اڑاتا ہے۔
کسی مریض کے بارے میں ڈاکٹر سے تاکہ صحیح علاج ہوسکے۔
حدیث کے راوی کے سلسلہ میں۔

 
غِیبت کا علاج کیسے کیا جائے؟

اگر کوئی اس برے کام میں خدانہ خواستہ مُلوّث ہے تو اسے یہ فعل ترک کردیناچاہئیے اور خلوص نیّت کے ساتھ ذیل کے دئے نکات پر توجہ کرنا چاہیئے۔
تھوڑی دیر کے لئے دنیا اور آخرت میں ہونے والے نقصان پر غور کرے کہ غِیبت کرنے کا اثر کیا ہوگا۔
قبر کی منزل کیا ہوگی اور عالم برزخ میں کیا ہونے والا ہے اس پر غور کرے، ساتھ ہی روز قیامت میں کیا ہوگا اس کو بھی ذہن میں رکھے۔
غِیبت کے سلسلہ میں معصومین علیہم السلام کی حدیث کا مطالعہ کرے۔

 
نتیجہ:

حضرت رسول خدا(ص) نے فرمایا:
کسی لکڑی کو آگ اس تیزی سے تباہ نہیں کرتی جس تیزی سے غِیبت کسی عبادت گذار کے نیک اعمال کو تباہ کردیتی ہے۔
(المحجّة البیضہ، جلد ۵، صفحہ ۴۶۲)

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
نجف اشرف
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
اذان ومؤذن کی فضیلت
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
نیکی اور بدی کی تعریف

 
user comment