اگرچہ محمد و آل محمد کے گھرانے کے تمام معصومین ایک الھی تسبیح کے عبودیت سے معمور دانے یا ایک ہی مقدس آفتاب کی نورانی کرنیں یا ایک قدسی گلستان کے پاکیزہ پھول ہیں اسی لئے سب کو کلنا محمد ہم سب محمد ہیں کے عنوان سے احادیث میں ذکر کیا گیا ۔
لیکن حضرت فاطمہ زھرا (ع)اور حضرت مہدی(عج) میں کچھ خاص مشابہتیں اور ایک منفرد سا ربط ہے کہ جسے ہم یہاں کچھ عناوین کے ساتھ بیان کرتے ہیں :
(۱)حضرت مہدی(عج) فرزند حضرت زہرا علیھا السلام:
وہ موضوع کہ جس پر تمام شیعہ و سنی فرقوں کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ امام مہدی (عج)حضرت زہرا(ع) کی نسل طیبہ میں سے ہیں اس حوالے سے بہت سی روایات ہیں کہ ایک روایت کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صل) ایک زیبا روایت میں اپنی بیٹی کو امام مہدی(عج) کی بشارت دیتے ہیں، فرماتے ہیں کہ: تمہیں بشارت ہو کہ مہدی تمہاری نسل سے ہے (من ھو المہدی ص۹۰)
(۲)امام مہدی(عج) کی یاد میں حضرت فاطمہ(ع) کو تسلی و اطمینان حاصل ہونا:
جب پیغمبر اکرم(صل) کا آخری وقت آپہنچا تو حضرت زہرا(ع) نے جب اس حال میں اپنے بابا کو دیکھا تو رونے لگیں یہاں تک کہ گریہ کی صدا بلند ہوئی تو پیغمبر(صل) نے سر اٹھایا اور رونے کی وجہ پوچھی تو حضرت زھرا(ع) نے فرمایا: آپ کے بعد دین و عترت کے حقوق کی تباہی اور ضائع ہونے سے ڈرتی ہوں۔
یہاں پر پیغمبر اکرم(صل) انہیں تسلی دیتے ہیں کہ مہدی آپ کی نسل میں ظہور کریں گے اور گمراہی کو جڑوں سے اکھاڑ دیں گے (کشف الغمہ ج۳ ص ۲۶۷)
(۳)امام مہدی(عج) کے لئے حضرت فاطمہ(ع) کا اسوہ ہونا:
اسوہ بننا اور اسوہ کی معرفت یہ سعادت و کمال تک پہنچے اور اپنے لئے بہترین ضابطہ حیات بنانے کے لئے بہت عمدہ اسلامی روشیں ہیں، اللہ تعالی نے پیغمبر اکرم( صل)، حضرت ابراھیم(ع) اور ان کے سچے پیروکاروں کو ہمارے لئے اسوہ قرار دیا ہے (سورہ احزاب آیت ۲۱سورہ ممتنحہ آیت ۴تا ۶)ایک حدیث میں امام زمان(عج) حضرت فاطمہ زہرا (ع)کو اپنے لئے بہترین اسوہ قرار دیتے ہیں :
فی ابنة رسول الله (ص)لی اسوة حسنة(بحار الانوار ج۵۳ص۱۷۸باب ۳۱)
دونوں معصوموں میں مشابہتیں
دونوں کو کائنات کا سردار قرار دیا گیا ہے(۱)
(۱)احادیث میں حضرت زہرا(ع) اور حضرت مہدی(عج) دونوں کو کائنات کا سردار قرار دیا گیا ہے
،پیغمبر اکرم(صل) فرماتے ہیں: میری بیٹی فاطمہ کائنات کے اولین اور آخرین کی تمام خواتین کی سردار ہیں (فاطمہ من المھد الی اللحد ص ۱۶۶)
اور امام رضا علیہ السلام حضرت مہدی(عج) کو سید خلق کا لقب دیتے ہیں (مرأۃ العقول ج۲۶ ص۲۱۷)
(۲)حضرت زھرا(ع) طاھرہ اور حضرت مہدی(عج) طاھر ہیں
یہ دونوں القاب پیغمبر اکرم(صل) نے حضرت فاطمہ(ع) اور حضرت مہدی (عج)کو عطا کئے
حضرت فاطمہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(صل) فرماتے ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ میری بیٹی پاک و پاکیزہ ہے (فاطمہ من المھد الی اللحدص ۱۲۱)
اور ایک مقام پر فرمایا : اللہ تعالی نے امام عسکری کی صلب میں ایک مبارک اور پاک و پاکیزہ نطفہ ودیعت کیا ہے (روزگار رھاہی ج۱ ص ۷۱)
(۳)بہت سے القاب میں مشابہت:
حضرت فاطمہ(ع) مبارکہ ہیں اور آپ مبارک ہیں
حضرت فاطمہ(ع) زکیہ ہیں اور آپ زکی ہیں
وہ طیبہ ہیں اور آپ طیب ہیں
وہ تقیہ ہیں اور آپ تقی ہیں
وہ نقیہ ہیں اور آپ نقی ہیں
وہ محدثہ ہیں اور آپ محدث
وہ منصورہ ہیں اور آپ منصور
وہ صدیقہ ہیں اور آپ صادق المقال(گفتار میں سچے)ہیں۔
وہ صابرہ ہیں اور آپ صابر
وہ معصومہ ہیں اور آپ معصوم
وہ اھل آسمان کا نور ہیں اور آپ اہل زمین کا نور
وہ شفیعہ قیامت ہیں اور آپ شفیع قیامت
دونوں درخشاں ستارے اور کوکب دری ہیں
ہر دو غوث ہیں
دونوں امام حسین(ع) کے زائرین پر خاص عنایت رکھتے ہیں۔
دونوں دنیا میں زاھد و عابد ہیں
دونوں نے بدعتوں اور انحرافات کا مقابلہ کیا
دونوں مسلمانوں بالخصوص شیعوں کے غم خوار ہیں
دونوں ایثار میں سب سے مقدم ہیں
دونوں سے پیغمبر اکرم(صل) کو شدید محبت تھی
(۴)حضرت زھرا(ع) مظلومہ ہیں اور حضرت مہدی(عج) مظلوم ہیں۔
حضرت زھرا(ع) کی زیارت میں ہم پڑھتے ہیں السلام علیک ایتها المظلومة (من لایحضرہ الفقیہ ج۲ ص ۵۷۲)
حضرت علی(ع) اپنی زوجہ کی مظلومیت کی یہ تصویر کشی کرتے ہیں :
ان فاطمة بنت رسول الله لم تزل مظلومة من حقها ممنوعة (بحار الانوار ج۴۳ص ۲۰۹)
پیغمبر کی بیٹی ہمیشہ مظلوم اور اپنے حق سے محروم تھیں
حضرت علی(ع) امام مہدی( عج )کی مظلومیت کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
صاحب هذا الامر الشدید الطرید الفرید الوحید (بحار الانوار ج۵۱ ص ۱۲۰)
اس امر کے صاحب (امام زمان )وہی دور نکالے ہوئے تنہا اور اکیلے ہیں
مرحوم سید میر جھانی کہتے ہیں کہ: میں نے عالم رؤیا میں اپنی والدہ مظلومہ حضرت فاطمہ صدیقہ(ع) کی زیارت کی اور انہوں نے تین شعر فارسی میں کہے جب میں بیدار ہوا تو ایک شعر مجھے یاد تھا اور وہ یہ ہے کہ:
دلی شکستہ تر از من در آن زمانہ نبود
در این زمان دل فرزند من شکستہ تر است
(عنایات حضرت مہدی بہ علما و طلاب (ص۱۷۶)
آٰیئے ہم زمانہ غیبت میں ان کی معرفت پیدا کرتے ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے این دو مظلوموں کی مظلومیت کا مداوا کریں۔