اردو
Wednesday 6th of November 2024
0
نفر 0

عریضہ دل، ایک غلام کا آقا کے نام

عریضہ دل، ایک غلام کا آقا کے نام

پندرہ شعبان المعظم شب ولادت امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی بارگاہ میں اپنا درد دل بیان کرتے ہوئے حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا نجیب الحسن زیدی نے ایک انتہائی پر معنیٰ عریضہ تحریر کیا ہے جسے اپنے قارئین کے لیے شائع کیا جاتا ہے۔ خدا کرے مولا اس درد دل کو سن لیں اور اپنے ظہور پرنور سے اس عالم ظلمانی کو منور کریں اور مشکلات کے بھنور میں پھنسی ہوئی کشتی انسانیت کو ساحل نجات سے ہمکنار کریں:

سلام ہو آپ پر ائے آفتاب عالم امکاں ...

سلام ہو آپ پر ائے نازنین ہستی وجود ...

سلام ہو آپ پر ائے یوسف دوران ہجر ....

سلام ہو آپ پر انتظار کے گرم ریگستانوں میں بکھرے ہوئے خاکی ذروں کا۔

سلام ہو آپ پر درد فراق میں تڑپتی ہوئی ان روحوں کا جنکا وجود لہو لہو ہے۔

سلام ہو آپ پر فاصلوں کی خلیج میں گم ہوتی ہوئی زندگی کی پرچھائیوں کا ۔

آقا! کب آپ ہمار ے سوکھے ہوئے احساس کی نیم جاں کلیوں کو اپنے وصال کے آب حیات سے کھلاکر پھول بننے کا موقع دیں گے...؟

آقا!کب آپ انتظار کی سنگلاخ وادیوںمیں کھل جانے والے پائوں کے آبلوں کی فریاد سنیں گے...؟

آقا !مانا کہ انتظار کی گھڑیاں بہت طاقت فرسا ہوتی ہیں، مانا کہ انتظار کے مفہوم میں خود ایک کرب پوشیدہ ہے لیکن کیا اتنا طویل انتظار ، اتنا بڑا اور سخت امتحان؟

آقا! میں آج آپ سے دل کی ساری باتیں کرنا چاہتا ہوں

آقا! نہیں معلوم کہ ٣١٣  ساتھی ابھی تک آپ کو ملے یا نہیں؟میں یہ تو نہیں کہتا کہ میں ان تین سو تیرہ خوش نصیبوں میں ہوں جنکا آپکو انتظار ہے لیکن آقا اتنا ضرور ہے کہ ان تین سو تیرہ افراد میں سے ہر ایک کی غلامی کو تیار ہوں کاش انہیں میں سے کسی کے بارے میں پتہ چل جایٔے وہ کون ہیں ؟ کہاں سے انکا تعلق ہے ہمارے درمیان ان میں سے کون ہے اس نے اپنی زندگی میں ایسا کیا کیا کہ اسے یہ مرتبہ نصیب ہوا ۔۔۔۔

آقا اشکوں کے تسلسل ، آہوں اور سسکیوں کے درمیان اپنے حال دل کو بیان کر رہا ہوں

آقا! ہماری کوتاہیوں پر نظر نہ کریں مولا ہمارے سینوں میں موجزن اس عشق کے بل کھاتے ہوئے دریا کو دیکھیں جس میں عقیدت و چاہت کی لا تعداد کشتیاں رواں دواں ہیں اور ان پر بس یہی کندہ ہے

اللھم ارنی الطلعة الرشیدہ و.....

آقا علامات ظہور تو ہر ایک بیان کر رہا ہے لیکن کویی نشانی و علامت آپ بھی بتا دیں کہ دل کو قرار آ جایٔے کہ میرا حال کچھ یہ ہے  میری آرزئوں کی تتلیاں اڑنے کی چاہ میں بے چین ہیں لیکن وہ تو صرف آپ کے ظہورکے پھولوں کی منتظر ہیں اور جب انہیں وہ پھول دور تک نہیں دکھتے  جنکا تعلق آپ سے ہو تو دوبارہ دل کے زخموں کے کھلے پھولوں پر سر نہوڑایٔے سو جاتی ہیں  ...

میری تمنائوں کے کبوتر بہت آگے تک جانا چاہتے ہیں لیکن انہیں ابھی تک آپ کے ظہور کا آسمان نصیب نہیں اور جب تک آپ کے ظہور کا آسمان نہ ملے وہ اپنے آپ کو کنج قفس میں قید کیئے خود کو لہو لہان کرتے رہیںگے۔

میری امنگوں کی شاہین ثریا سے باتیں کرنا چاہتے ہیں وہ آسمان کی وسعتوں کو ایک دائرے میں سمیٹنا چاہتے ،ہیں ایک ہی پرواز میں آسمان کی وسعتوں کو طے کرنا چاہتے ہیں وہ کہکشائوںسے بھی آگے بڑھ کر پرواز کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ بھی اپنے محدود دائرہ میں سکڑے بیٹھے ہیں انہیں وہ نیلا آکاش نصیب نہیں جس کی بے پایاں وسعتوں پرآپ کے ظہور کے نقوش ہوں…

آقا !عرصہ دراز کے بعد آج قلم اٹھایا ہے تو ہاتھ کانپ رہا ہے کیا لکھوں کیسے لکھوں؟ ہر طرف ایک گٹھن ہے ہر طرف سکڑتے دائرہ ہیں  کہیں قبائل ،کہیں خاندانی وجاہتیں کہیں رنگ و نسل تو کہیں اداروں کی تنگ نظری ہے ہر طرف محدودیت ہی محدویت ہے ۔

نہ فکر کو اڑان نصیب ہے نہ قلم کو ہی حریت۔   حق لکھ  دو تو اپنے ہی ناراض ہو جاتے ہیں اور پھر مصلحتوں کے اوتار آکر نصحیتیں سناتے ہیں کہ یہ کیوں لکھا وہ کیوں لکھا  کوئی کہتا ہے میدان عمل میں آکر کام کرو تو کوئی کہتا ہے لطائف و چٹکلوں کی دنیا میں کون سماجیات پر وہ بھی ناقص تحریریں پڑھتا ہے  اس لئیے سب بیکار اور بے سود ہے کہیں آواز آتی ہے کہ فلاں موضوع پر اٹھنے والا قلم فلاں دیگر مسئلہ پر کیوں خاموش رہا کہیں کوئی ساز باز تو نہیں کسی سے سانٹھ گانٹھ تو نہین ؟ ہزار لوگ ہیں تو ہزارہا باتیں …

آقا ! چند روز قبل آپکے جد کی زیارت کو گیا تو اپنی ان گناہگار آنکھوں سے کربلا و نجف میں دیکھ کر آیا کس طرح تکفیریت سے مقابلہ کرتے ہوئے آپ کے چاہنے والے شیعہ ہر دن شہید ہو رہے ہیں  اور کس طرح ان شھداء کے لاشوں کو حرم اباعبد اللہ الحسین ع اور دیگر مقدس مقامات پر طواف کے لئیے لایا جا رہا ہے ؟ سوچ رہا تھا  اللہ ہم کب تک عشق علی ؑ کا خراج شھادتوں کے ذریعہ دیتے رہیں گے  ؟ کب تک ہماری لاشیں گرتی رہیں گے کب تک ہماری خواتین کی  مانگیں اجڑتی رہیں گی ؟ کب تک سھاگ اجڑتے رہیں گے ؟ پھر خود ہی خیال آیا کہ عشق علی ؑ کے لئیے تو شھادت ایسے ہی ہے جیسے مچھلیوں کے لئیے پانی ۔جس طرح مچھلیاں پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں عشق علی شھادت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا  جیسے ہی یہ خیال آیا سامنے حشد الشعبی  کی آزاد فورسز کا ایک تابوت نظر آیا جو آپکے غلاموں کے ہاتھوں پر تھا  غور کیا تو دیکھا ایک سترہ سالہ نوجوان تھا جس کے سترہ سال ہماری صدیوں کو مسکرا کر دیکھ رہے تھے  ۔ شاید اسکی مسکراہٹ زبان بے زبانی سے کہہ رہی تھی کہ تم تعلقات و روابط کی دنیا میں شہید ہوتے رہو۔

قیادت کی جنگ میں ایک دوسرے کو لہو لہان کر کے ہلکان ہوتے رہو ، مدارس و اداروں پر اجارہ داری قائم کر کے خدمت قوم کے تمغے سینوں پر سجائے  اکڑے بیٹھے رہو،ہر ایک جگہ چار لوگ اکھٹے ہو کر ایک تنظیم اور ایک ادارہ بناتے رہو کہ اس کے بغیر تمہارا وجود نا مکمل ہے لیکن میں اپنی سترہ بہاروں کو اپنے دامن میں سمیٹے سر بلند و پر سکوں جا رہا ہوں کہ میں نے یا لیتنا کنا معکم  کی تصدیق اپنے خون سے کی ہے تمہاری طرح لا یعنی موضوعات میں الجھ کر اپنی انا کے دیو کے چرنوں میں قوم کی قربانی دے کر نہیں۔  میں نے اپنی قوم کے لئیے قربان ہونا حسین ابن علی ؑ سے سیکھا ہے

مجھے نہیں معلوم تم جیسے لوگ انتشار و افتراق کہاں سے سیکھ رہے ہو ؟۔۔۔

مولا ! آج بھی جب اس جوان کی مسکراتی تصویر نظر میں آ جاتی ہے جسکے لہو کے گرم قطروں نے تکفیریت سے یوں مقابلہ کیا  کہ بغداد و کربلا و نجف تک چند ہفتوں میں پہنچنے کا خواب دیکھنے والوں کو موصل بھی بھارہ پڑ رہا ہے تو احساس ہوتا ہے ہم نے قوم کے لئیے کیا کیا؟ کیا ہمارے پاس کسی بھی دینی مفہوم یا شعائر الہی کے بیک میں پائی جانے والی معنویت و حرکت ہے؟   یا محض اتنا کہ مجھ ایسے   شارٹ کٹ میں جنت جانے والوں کے جذبہ پرستش کی تسکین ہوتی رہے اور راہ کربلا ہمیشہ کھلی رہے اور مجھ جیسے مقصد کربلا سے بائی پاس آکر روضہ حسین ع پر سر کو جھکاتے اور بس   ....

 آقا !میں اور میری طرح بہت سے جوان  کیا کریں ؟ کہاں جائیں ؟ کس سے اپنا درد بیان کریں ؟ اپنے سماج اور معاشرہ میں رونما ہونے والے حالات پر کیونکر تجزیہ کریں ؟ کہیں سجدوں کی آبرو ائمہ طاہرین کے وجود کو سجدہ تعظیمی کا مسئلہ ہے تو کہیں  ہوائے نفس حق و حقیقت کے سلسلہ میں زبان کھولنے سے روک رہا ہے ؟ کہیں ایک مرکز اور محور کو توڑ کر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی تیاریاں چل رہی ہیں کہ  ہر محلہ میں ایک مسجد ضروری ہے تو کہیں اپنے وجود کے اظہار کے لئے تعلقات و روابط کی سیڑھی سر پر اٹھائے لوگ  مختلف دروں پر خم نظر آ رہے ہیں ؟  کہیں ملائیت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کہیں مولویت کو کہیں اخباریت ہے تو کہیں ملنگیت  ،کہیں ولایت فقیہ کا پرچم لئیے لوگ آپس میں دست بگریباں ہیں تو کہیں ولایت مجتدہین کے قائل افرادآقا! کیا یہ سب ہماری حفاظت کے لئے ہے ؟ مجھے نہیں معلوم لیکن میں نے آپ کا تذکرہ کرنے آپکا ورد کرنے والے ایک ایسی بزرگ شخصیت سے سنا ہے  جسکی تقریر کی ابتداء اور انتہا آپ پر جا کر ختم ہوتی ہے  ان بزرگ کا کہنا کیا تھا انکا مقصد کیا تھا وہ جانیں لیکن میں تو ان کی گفتگو سے یہی سمجھا کہ گویا ہمارے درمیان اختلاف و انتشار سب کسی مصلحت کی خاطر ہے اور یہ سب اس لئے ہے کہ آپ نے چاہا ہے ؟

اگر میں غلط سمجھا ہوں تو ان بزرگ کے ساتھ آپ کی ساحت میں بھی معذرت اور آپکی بارگاہ میں عاجزانہ دعا ء کے  مولا جو حق ہو وہی سمجھوں  اور سماعت کبھی دھوکہ نہ کھائے اور اگر صحیح سمجھا ہوں تو آقا آپ سے التجا ہے کہ میرے دل کو ان ہزاروں احادیث سے مطمئن کر دیں جن میں اپنی صفوں میں اتحاد کی دعوت دی گئی ہے ان آیات کی تشریح و تاویل کا علم عطا کر دیں کہ جن میں صراحت کے ساتھ اختلاف کو  اس شدت سے منع کیا گیا ہے کہ جسکے بموجب فقہا حکم حرمت دیتے ہیں ….

میرے آقا و مولا ! میرے دل میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو میں صرف آپ ہی سے کر سکتا ہوں یہ دل بہت زخمی ہے آقا روز بروز اور زخمی ہوتا جا رہا ہے زمانہ کی جراحتوں نے اس سے زندگی کی حرارت چھین لی ہے اسے خود بھی نہیں معلوم کہ زندگی کی تمام تر گرمی کے ختم ہو جانے کے بعد بھی آخر کس امید پر دھڑک رہا ہے ؟ شاید اسکی دھڑکن میں ایک موہوم سی امید کار فرما ہے جو آپکے ظہور کا احساس جگائے دل کو دھڑکنے پر مجبور کر رہی ہے

آقا !اس سے پہلے کہ یہ دل کی دھڑکن رک جائے آقااب پردہ غیبت اٹھا دو کہ اب رہا نہیں جاتا ۔

آقا !یہ تمنائوں کے کبوتر صیاد کے جالوں میں پھنس کے اپنا وجود نہ مٹا دیں ...

آقا !یہ آرزئوں کی تتلیاں خار دار جھاڑیوں کو مسکن بنا کر نہ مٹ جائیں ...

یہ چاہتوں کے شاہین بلند پروازی بھول کر گرسوں کے جھنڈ میں شامل نہ ہو جائیں اس لئے بس اب آجاؤ

آقا ! پردہ غیبت ہٹا کر رخ پرنور دکھا دیں آقا جس سے ہر چیز پھر اپنی جگہ پر آ جائے اور زندگی کو نئے معنی مل جائیں آجاؤ آقا آجاؤ۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

يوٹوپيا اور اسلامي مدينۂ فاضلہ (حصہ دوم)
اسلامی انقلاب، ایران کی ترقی اور پیشرفت کا ضامن: ...
امام محمد باقر علیہ السلام کا عہد
حضرت علی علیہ السلام کی صحابہ پر افضلیت
کلمہ ٴ ”مو لیٰ“ کے معنی کے متعلق بحث
انسان کے مقام ومرتبہ کی عظمت
دین از نظر تشیع
ثوبان کی شخصیت کیسی تھی؟ ان کی شخصیت اور روایتوں ...
روزہ اور تربیت انسانی میں اس کا کردار
قرآن میں مخلوقات الٰہی کی قسمیں

 
user comment