حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام رسول اسلام (ص) کے فرزند اور اُن کے پھول ہیں، آپ ؑ حلم، صبر، جود اور سخاوت میں رسول (ص) کے مشابہ تھے ،نبی اکرم (ص) آپ سے خالص محبت کرتے تھے ،آپ ؑ کی محبت مسلمانوں کے درمیان مشہور تھی ،آنحضرت ؐنے اپنے نزدیک امام حسن علیہ السلام کی عظیم شان و منزلت کے سلسلہ میں متعدد احادیث بیان فرمائی ہیں جن میں سے کچھ احادیث یوں ہیں :
۱۔عائشہ سے روایت ہے :آنحضرت ؐ نے امام حسن ؑ کو آغوش میں لیا اور ان کو اپنے سینہ سے لگاتے ہوئے فرمایا: خدایا !یہ میرا فرزند ہے ،میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جو اس سے محبت کرے اس سے محبت کرتا ہوں ‘‘۔
۲۔براء بن عازب سے مروی ہے: میں نے رسول اسلام (ص) کو دیکھا کہ آپ اپنے کندھوں پر امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کو سوار کئے ہوئے فرما رہے ہیں: خدایا میں ان سے محبت کرتا ہوں اور تو بھی ان سے محبت کر ‘‘۔
۳۔ابن عباس سے روایت ہے: سرور کائنات امام حسن ؑ کو اپنے کندھے پر سوار کئے ہوئے کہیں لے جا رہے تھے، ایک شخص نے کہا :اے صاحبزادے !تمہاری سواری کتنی اچھی ہے؟ رسول اسلام ؐ نے فرمایا:’’سوار کتنا اچھا ہے‘ ‘ ۔
۴۔رسول اللہ (ص) سے روایت ہے :’’جو جوانان جنت کے سرداروں کو دیکھنا چاہتا ہے وہ امام حسن ؑ پر نظر کرے ‘‘۔
۵۔رسول اسلام (ص) کا فرمان ہے :’’حسن دنیا میں میرے پھول ہیں‘‘ ۔
۶۔انس بن مالک سے مروی ہے :’’امام حسن ؑ نبی کی خدمت میں آئے میں نے ان کو رسول سے دور رکھنے کی کو شش کی تو رسول اسلام (ص) نے فرمایا:اے انس وائے ہو تم پر ،میرے فرزند ارجمند اور میرے جگر کو چھوڑ دو،بیشک جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی ‘‘۔
۷۔حضرت رسول اکرم (ص) نماز عشاء میں مشغول تھے تو آپ ؐ نے ایک سجدہ کو بہت طول دیا جب آپ ؐ نے سلام پھیرا تو لوگوں نے آپ ؑ اس سلسلہ میں سوال کیا تو آنحضرت ؐ نے فرمایا:’’یہ (حسن ؑ ) میرا فرزند ہے جو میری پشت پر سوار ہوگیا تھا اور میں نے اس کو اپنی پشت سے جلدی اتارنے میں کراہت محسوس کی ‘‘ ۔
۸۔عبداللہ بن عبد الرحمن بن زبیر سے روایت ہے :امام حسن ؑ نبی کے اہل میں سب سے زیادہ آنحضرت ؐسے مشابہ تھے ،اور وہ امام حسن ؑ سے سب سے زیادہ محبت کر تے تھے ،راوی کابیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ رسول اسلام (ص) سجدہ میں تھے تو امام حسن ؑ آنحضرت ؐ کی گردن یا آپ ؑ کی پشت پر سوار ہو گئے اور آپ ؐ نے امام حسن ؑ کواس وقت تک اپنی پشت سے نہیں اُتارا جب تک کہ آپ ؑ خود آنحضرت ؐ کی پشت سے نہیں اُتر گئے ،اور میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ جب آپ ؐ رکوع کرتے تھے تو اپنے دونوں پائے مبارک کو اتنا کشادہ کرتے تھے جس سے امام حسن ؑ ایک طرف سے دوسری طرف نکل سکیں ۔
آنحضرت ؐ کے فرزند ارجمند ،ریحان اور میوۂ دل کی فضیلت کے بارے میں ان احادیث کے مانند متعدد احادیث رسول اسلام(ص) سے نقل کی گئی ہیں ۔راویوں نے کچھ دوسری احادیث نقل کی ہیں جن میں امام حسن ؑ اور ان کے برادر سید الشہداء امام حسین ؑ کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور دوسری کچھ روایات میں اہل بیت ؑ کی فضیلت بیان کی گئی ہے امام حسن ؑ اہل بیت کی ایک شمع ہیں، اور ہم نے متعدد احادیث اپنی کتاب( حیاۃالامام الحسن ؑ ) کے پہلے حصہ میں بیان کر دی ہیں ۔آپ ؑ کی پرورش نبی (ص) نے اپنے فرزند ارحمند سے دوستی کی رعایت کرتے ہوئے ان کو بلند اخلاق کا درس دیا ، اپنے تمام علوم ان تک پہنچا ئے ،آپ ؑ کی تربیت آپ ؑ کے والد بزرگوار امیر المومنین ؑ نے کی جو دنیائے اسلام کے سب سے بلند و افضل معلم ہیں جنھوں نے آپ ؑ کی ذات اور نفس کو کریم اور عظیم مثال سے آراستہ کیا یہاں تک کہ آپ ؑ ان کی سچی تصویر بن گئے ،اسی طرح آپ کی والدہ گرامی سیدۃ نساہ العالمین ،زہرا ءِ رسول اللہ (ص) نے خالص ایمان، اللہ سے عمیق محبت اور اس سے مضبوطی سے لو لگانے سے آپ کی تربیت فرمائی ۔
امام حسن ؑ نے بیت نبوت ،وحی نازل ہونے کی جگہ اور مرکز امامت میں پرورش پائی آپ ؑ اپنے حسن سلوک اور عظیم شخصیت میں اسلامی تربیت کے لئے بہترین مثال بن گئے ۔
بہترین فضائل و کمالات
امام حسن ؑ بلند ترین صفات و کمالات کا مجسمہ تھے ، آپ اپنے جد امجد اور والد بزرگوار کے صفات وکمالات کے مکمل آئینہ دار تھے جنھوں نے زمین پر فضائل و کمالات کے چشمے جا ری کئے ۔امام حسن علیہ السلام فضائل و مناقب، اصل رائے، بلند افکار، ورع و پرہیزگاری، وسیع حلم، اخلاق حسنہ میں بلندئ کمالات پر فائز ہوئے یہ سب آپ ؑ کے اخلاق کے کچھ جواہر پارے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کے خطبات میں سے اقتباس
۔امام امیر المو منین حضرت علی ؑ نے آپ کو لوگوں کے درمیان خطبہ دینے کیلئے بھیجا توآپ نے بڑی ہی شان و شوکت کے ساتھ منبر کے پاس کھڑے ہوکر یوں خطبہ ارشاد فرمایا :’’ایہا الناس !اپنے پروردگار کے پیغام کو سمجھو، بیشک پروردگار عالم نے عالمین کیلئے آدم ؑ ، نوح ، ؑ آل ابراہیم اور آل عمران کو منتخب کرلیاہے یہ ایک نسل ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے اور اللہ سب کی سننے والا اور جاننے والا ہے ،ہم آدم کی برگزیدہ اولاد ہیں ،نوح ؑ کے خاندان ہیں ، آل ابراہیم کے منتخب کردہ ہیں ،اسماعیل اور آل محمد کی نسل ہیں ،ہم تمہارے درمیان بلند آسمان ، بچھی ہوئی زمین اور چمکتے سورج کے مانند ہیں ہم ہی نے اپنے نور سے دنیا کو روشن کیا ہے اورہم ہی شجرِ زیتونہ ہیں جس کو پروردگار عالم نے مبارک قرار دیا ہے اور اس کی قرآن کریم میں مثال دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے :’’لاشرقیۃ ولاغربیۃ ‘‘نہ مشرق ہے اور نہ مغرب ہے ،پیغمبر اکرم (ص) اس درخت کی اصل ہیں اور علی ؑ اس کی شاخ ہیں ،خدا کی قسم ہم اس کے ثمر ہیں،جس نے اس کی شاخوں سے تعلق رکھاوہ نجات پا گیا اور جس نے اس سے رو گردانی کی وہ گمراہ ہوا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے ۔۔۔ ‘‘۔
۔آپ ؑ کا ایک بہت ہی عمدہ خطبہ یہ ہے جس میں آپ نے مکارم اخلاق کے سلسلہ میں گفتگوفرمائی:’’جان لو !عقل حرز(محافظ) ہے ،حلم زینت ہے ،وفاداری مروت ہے ،جلد بازی بیوقوفی ہے ، بیوقوفی کمزوری ہے ، اہل دنیا کے ساتھ مجالست بری ہے ،اہل فسق و فجور سے ملنا جُلنا دھوکہ ہے ، جس نے اپنے برادران کو ہلکا سمجھا اس نے ان کی محبت سے ہاتھ دھولیا ،شک و شبہ کرنے والے کے علاوہ اور کو ئی ہلاک نہیں ہوگا ،وہ ہدایت یافتہ افراد ہی نجات پا ئیں گے جو اپنی مو ت اور اپنے رزق کے بارے میں ایک لمحہ کے لئے بھی خدا پر کسی طرح کا الزام نہیں لگاتے ،وہ صاحب مروّت افراد ہوتے ہیں اُن کی حیا کامل ہو تی ہے ، وہ صبر کئے رہتے ہیں یہاں تک کہ اُن کو اُن کا رزق مل جاتا ہے ، وہ دنیا کے عوض دین اور جوانمردی کا سودا نہیں کر تے اور نہ رضایت الٰہی کے بدلہ دنیا حاصل کرنا چاہتے ہیں،انسان کی جوانمردی اور عقل مندی یہ ہے کہ اپنے بھا ئیوں کی حاجت برآری میں جلدی کرے چاہے وہ حاجت برآری کا تقاضا بھی نہ کریں، عقل خدا کی عطا کی ہو ئی چیزوں میں سب سے بہتر ہے، اس لئے کہ اسی کے ذریعہ سے دنیا اور اس کی آفتوں سے نجات پائی جا سکتی ہے اور آخرت میں اس کے عذاب سے محفوظ رہا جا سکتا ہے ‘‘۔
آپ سے کہا گیا :لوگوں نے پیغمبر اسلام (ص) کے سامنے ایک شخص کی عبادت کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا :’’ تم اس کی عقل کو دیکھو کیونکہ قیامت کے دن جزا انسان کی عقل کے حساب سے دی جا ئیگی اوربہترین ادب عقل کی صحت کی دلیل ہے ۔۔ ۔‘‘