اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

خوشبوئے حیات حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام(حصہ دوم)

خوشبوئے حیات حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام(حصہ دوم)

خوشبوئے حیات حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام(حصہ دوم)

آپ کے صفات و خصوصیا ت

 

کوئی بھی بلند ی، شرف ا ور فضیلت ایسی نہیں ہے جو امام کا ظم کی ذات میں نہ پا ئی جا تی ہو ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات کا تذکرہ کر رہے ہیں :
١۔آپ کے علمی فیوضیات
راویوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام کاظم اپنے زمانہ کے اعلم تھے ،آپ کا علم انبیاء اور اوصیاکی طرح الہا می تھا، اس مطلب پر شیعہ متکلمین نے متعدد دلیلیں بیان کی ہیں، خو د آپ کے والد بزرگوار حضرت امام صادق نے اپنے فرزند ارجمند کی علمی طاقت و قوت کی گو ا ہی دیتے ہوئے یوں فرمایا ہے:''تم میرے اس فرزند سے قرآن کے بارے میں جو بھی سوال کروگے وہ تمھیں اس کا یقینی جواب دے گا ''۔
مزید فرمایا:''حکمت،فہم،سخاوت،معرفت اور جن چیزوں کی لوگوں کو اپنے دین کے امر میں اختلاف کے وقت ضرورت ہوتی ہے اِن کے پاس اُن سب کاعلم ہے'' ۔(1)
شیخ مفید فرماتے ہیں :''لوگوں نے امام مو سیٰ بن جعفر سے بکثرت روایات نقل کی ہیں ۔وہ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے فقیہ تھے ''۔(2)
علماء نے آپ سے تمام علوم منقولہ اور عقلی علوم فلسفہ وغیرہ کی قسمیں نقل کی ہیں یہاں تک کہ آپ دنیا کے راویوں کے ما بین مشہور و معروف ہو گئے ۔

٢ ۔ دنیا میں زہد
امام موسیٰ کاظم نے رونق زندگا نی سے منھ موڑ کر اللہ سے لو لگا ئی تھی ،آپ اللہ سے نزدیک کرنے والا ہر عمل انجام دیا،ابراہیم بن عبد الحمید آپ کے زہد کے متعلق یوں رقمطراز ہیں :میں امام کے گھر میں داخل ہوا تو آپ نماز میں مشغول تھے اور آپ کے گھر میں کھجور کی چٹا ئی ،لٹکی ہو ئی تلوار اور قرآن کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا ۔(3)
آپ زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے اور آپ کا گھر بہت سادہ تھا حالانکہ دنیائے اسلام کے شیعوں کی طرف سے آپ کے پاس بہت زیادہ اموال اور حقوق شرعیہ اکٹھا کرکے لائے جاتے تھے ، آپ ان سب کو فقیروں ،محتاجوں اور اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے تھے ،آپ پیغمبر اکرم ۖ کے صحابی ابوذر سے بہت متأثر تھے اور ان کی سیرت اپنے اصحاب کے مابین یوں بیان فرماتے تھے :''خدا ابوذر پر رحم کرے، ان کا کہنا ہے :خداوند عالم مجھے جَو کی دو روٹی دینے کے بعد دنیا کو مجھ سے دور رکھے، ایک رو ٹی دو پہر کیلئے اور دوسری روٹی شام کیلئے اور مجھے دو چا دریں دے جن میں سے ایک کو جنگ میں استعمال کروں اور دوسری ردا سے دوسرے امورانجام دوں ''۔(4)
فرزند رسول ۖنے دنیا میںاسی طرح زاہدانہ زندگی بسر کی ،دنیا کے زرق و برق سے اجتناب کیا اور اللہ کے اجر کی خاطر بذات خود ظلم و ستم برداشت کئے ۔
٣ ۔ جو د و سخا
آپ کی جود و سخا وت کی صفت کو مثال کے طور پر بیان کیا جا تا ہے ،محروم اور فقیر آپ کے پاس آتے تو آپ اُن کے ساتھ نیکی اور احسان کرتے اور تھیلیوں کی دل کھو ل کر سخاوت کرتے ،اس طرح کہ ان کے رشتہ داروں میں یہ مشہور ہو جاتاتھا:تعجب ہے جس کے پاس مو سیٰ کی تھیلیاں آئیں پھر بھی وہ فقیری کیشکایت کرتا ہے ''۔(5)

آپ رات کی تاریکی میں نکلتے اور فقیروں کو دو سو سے چارسو دینار تک(6) کی تھیلیاں پہنچاتے تھے مدینہ کے غریبوں کی آپ کی نعمت ،بخشش اور صلۂ رحم کی عادت ہو گئی تھی ،ہم نے محتاجوں اور فقیروں کے اُن گروہوں کا تذکرہ اپنی کتاب ''حیاةالامام موسیٰ کاظم '' کے پہلے حصہ میںکر دیا ہے ۔
٤ ۔ لو گو ں کی حا جت ر و ا ئی
امام مو سیٰ کاظم کی ذاتی صفت انتہائی شوق کے ساتھ لوگوں کی حا جتوں کو پورا کر نا تھی، آپ نے ہرگزکسی غمزدہ کا غم دور کرنے میں سستی نہیں کی ،آپ اسی صفت کے ذریعہ مشہور و معروف ہوئے ،ضرورتمند آپ کے پاس آتے ،آپ سے فریاد کرتے اور آپ اُن کی ضرورتوں کو پورا کرتے ،اُن ہی لوگوں میں شہر رَے کا رہنے والا ایک شخص تھا جو حکومت کا بہت زیادہ مقروض تھا، اُس نے حاکم شہر کے بارے میں سوال کیاتو اُس کو بتایا گیا کہ وہ شیعہ ہے وہ یثرب پہنچا اور امام کے جوار و پڑوس میں رہنے لگا، امام نے اس کیلئے حاکم شہر کے نام ایک خط میں یوں تحریرفرمایا :''جان لو ! بیشک اللہ کیلئے اس کے عرش کے نیچے ایک سایہ ہے، اس میں کو ئی نہیں رہتا مگر یہ کہ جو اپنے بھا ئی کے ساتھ حُسن سلوک اور نیکی کرے ،یا مصیبت میں اس کے کام آئے یا اس کو خوش کرے اور یہ تمہارا بھا ئی ہے'' ۔والسلام
وہ شخص امام کا خط لیکر حاکم کے پاس پہنچا جب اُس نے دروازہ کھٹکھٹایاتو ایک نوکر باہر آیا اور اس نے پوچھا :تم کون ہو ؟
میں صابر امام مو سیٰ کاظم کا قاصد ہوں ۔
نوکر نے جلدی سے حاکم تک یہ خبرپہنچا ئی تووہ ننگے پیر باہر نکل آیااور اس نے بڑی بے چینی کے ساتھ اس سے امام کے حالات دریافت کئے ،اور اس شخص کا بڑے ہی احترام و اکرام کے ساتھ استقبال کیاجب اس کو امام کا خط دیا تو اس نے خط کو چوما ،جب اُس نے وہ خط پڑھا تو اس میں اُس شخص کے تمام اموال کو معاف کرنے کی درخواست کی گئی تھی ،حاکم نے سب اس کو دیدئے اورجس کی کو ئی تقسیم نہیں کی جاسکتی تھی اس کی قیمت ادا کی، حاکم نے بڑی نر می سے کہا :اے میرے بھا ئی کیا تم خوش ہو ؟

ہاں ،خدا کی قسم میں بہت زیادہ خوش ہوں ۔
پھر وہ رجسٹر منگایا جس میں اُ س شخص کے قرضے لکھے ہوئے تھے ،اور اُن سب پر قلم پھیر دیااس کو بری ٔ الذمہ قرار دیدیا ،وہ وہاں سے اُس حالت میں نکلا کہ اُ س کا دل خو شی سے لبریز تھا اور اس نے اپنے وطن کی راہ لی ،پھر وہاں سے مدینہ پہنچا ،امام کو حاکم کے لطف و کرم و مہربانی کی خبر دی ،امام بہت مسرور ہوئے، اُس شخص نے امام کی خدمت میں عرض کیا :اے میرے مو لا کیا آپ اس سے خوش ہیں ؟
''ہاں خدا کی قسم اس نے مجھے اور امیر المو منین کو خوش کر دیا،خدا کی قسم اُ س نے میرے جد رسول اسلام ۖکو خوش کر دیا اور خدا کو خوش کر دیا ''۔(7)
آپ اس واقعہ سے مشہور و معروف ہوگئے اور آپ کے شیعوں کے درمیان یہ فتویٰ شائع ہو گیا : ''حاکم کے عمل کا کفارہ بھا ئیوں کے ساتھ احسان کرنا ہے ''۔


٥ ۔ ا للہ کی ا طا عت ا و ر عبا د ت
آپ اپنے زمانہ کے سب سے زیادہ عبادت گذار تھے یہاں تک کہ آپ کو عبد صالح اور مجتہدین کی زینت کے لقب سے یاد کیا جانے لگا،کسی شخص کو آپ کی طرح عبادت کر تے نہیں دیکھا گیا، راویوں کا کہنا ہے :جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ کی آنکھوں سے اشک جا ری ہوجاتے اور اللہ کے خوف سے آپ کا دل مضطرب و پریشان ہو جاتا ۔
آپ کی عبادت کے چند نمونے یہ ہیں کہ جب آپ مسجد میں رات کے پہلے حصہ میں داخل ہوتے توایک سجدہ بجالاتے جس میں بڑے ہی غمگین انداز میں یہ کہتے :''میرے گناہ بڑے ہو گئے ہیں تو تیری عفو بھی اچھی ہو گی اے تقویٰ اور مغفرت والے خدا ''،اور آپ صبح تک اللہ سے توبہ اور خشوع والے یہی کلمات ادا کر تے رہتے ۔(8)
آپ نماز شب پڑھتے اور اس کو صبح کی نماز تک طول دیتے ،اس کے بعد نماز صبح بجالاتے ، پھر سورج طلوع ہونے تک تعقیبات نماز پڑھتے ،اس کے بعد سجدے میں چلے جاتے اور زوال آفتاب کے قریب

تک سجدہ سے سر نہیں اٹھا تے تھے ۔(9)
شیبانی سے روایت ہے :میں دس سے کچھ زیادہ دن تک امام مو سیٰ کاظم کی مصاحبت میں تھا آپ طلوع آفتاب کے بعد سے زوال آفتاب(10) تک سجدہ کر تے تھے ۔جب ہارون نے آپ کو ربیع کے قید خانہ میں ڈالا تو وہ ملعون اطلاع کیلئے اپنے محل کے اوپر سے امام کو دیکھتا تھا اور اس کو امام وہاں نظر نہیں آتے تھے، اس کو صرف ایک مخصوص مقا م پر ایک پڑا ہوا کپڑا نظر آتا تھا جو اپنی جگہ سے بالکل ہٹتا نہیں تھا ۔ ہارون نے ربیع سے کہا :وہ کیا کپڑا ہے جس کو میں ہر دن ایک خاص مقام پر پڑا ہوا دیکھتا ہوں ؟
ربیع نے جلدی سے کہا :اے امیر المو منین وہ کپڑا نہیں ہے وہ امام مو سیٰ بن جعفر ہیں جو ہر دن طلوع آفتاب سے لیکر زوال آفتاب تک سجدہ کر تے ہیں ۔
ہارون متعجب ہوا اور اس نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا :آگاہ ہو جائو یہ بنی ہاشم کے زاہدوں میں سے ہیں ۔
ربیع نے ہارون سے مخاطب ہو کر کہا :اے بادشاہ! تو نے امام کو کیوں قید میں ڈالاہے ؟
ہارون نے اس کی طرف سے منھ موڑ تے ہوئے کہا :امام کو قید میں ڈالنا ضروری تھا ۔
سندی بن شاہک کی بہن سے وارد ہوا ہے کہ جب امام اس کے بھا ئی کے قید خانہ میں تھے تو اس کا کہنا ہے :یہ یعنی امام مو سیٰ کاظم جب نماز عشاء سے فارغ ہو جاتے تو رات ڈھلنے تک خدا کی حمد و ثنا و تمجید اور اس سے دعا کرتے اس کے بعد طلوع فجر تک قیام و نماز میں مشغول رہتے ،پھر صبح کی نماز ادا فرماتے ،اس کے بعد طلوع آفتاب تک خدا کا ذکر فرماتے ،پھر چاشت کے وقت تک بیٹھتے ، اس کے بعد سوجاتے ،اور زوال سے پہلے بیدار ہو جاتے ،اس کے بعد وضو کرکے نماز ظہر و عصربجالاتے ، اس کے بعد ذکر خدا کرتے یہاں تک کہ نماز مغرب کا وقت آجاتا تو آپ نماز مغرب بجالاتے اس کے بعد نماز مغرب و عشاء کے مابین نماز ادا کرتے اور داعی اجل کو لبیک کہنے تک آپ کا یہی طریقہ ٔ کار تھا ۔(11)
کثرت سجود کی بنا پر آپ کے اونٹ کے گھٹوں کی طرح گھٹے پڑ گئے تھے اور آپ کا ایک غلام تھا جو آپ کی پیشا نی اور ناک کے اوپر سے گھٹے کا گوشت کا ٹتا تھا اسی سلسلہ میں بعض شاعروں نے یوں کہا ہے :
طَالَتْ لِطُوْلِ سُجُوْدِه ثَفَنَاتُه
ِذْ أَقْرَحَتْ لِجَبِیْنِه الْعِرْنِیْنَا

فَرَأ یٰ فَرَاغَةَ سِجْنِه أُمْنِیَّةً
نِعْمَةً مَشْکُوْرَةً فِیْنَا(12)

''کثرت سجود کی وجہ سے آپ کے اعضاء سجدہ پر بیشمار گھٹے پڑ گئے تھے ۔
اسی لئے آپ نے قید خانہ کی فراغت کو اپنے لئے آرزو قرار دیا یہ قید خانہ آپ کیلئے نعمت ثابت ہوا ''۔
یہ آپ کی عبادت کے چند نمونے تھے جو آپ کے آباء و اجداد کی عبادت کی حکایت کرتے ہیں جنھوں نے مخلص طور پر خدا وند عالم سے تو بہ کی ،اور ہم نے امام کاظم کی عبادت کے متعلق تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ''حیاةالامام موسیٰ کاظم ''میں ذکر کر دیا ہے ۔
٦ ۔ حلم اور غصہ کو پی جانا
امام مو سیٰ کاظم کے نمایاں صفات میں سے ایک صفت حلم اور غصہ کو پی جانا تھی ،جوشخص آپ سے برا ئی سے پیش آتا اس کو معاف کر دیتے ،جو آپ کے ساتھ تجاوز کرتا اس سے خو شروئی سے ملتے ، آپ تجاوز کرنے والوں کے ساتھ بھی احسان کرتے کہ آپ ان کے اندر سے انانیت اور شر کا قلع و قمع کردیتے تھے ، مورخین نے آپ کے عظیم حلم کایہ واقعہ نقل کیا ہے کہ روایت کی گئی ہے کہ عمر بن خطاب کی نسل میں سے ایک شخص امام کو بہت زیادہ برا بھلا کہتا اور آپ پر بے انتہاسب و شتم کرتا تھا ،امام کے بعض شیعوں نے اس کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو آپ نے ان کو ایسا کر نے سے منع فرمایااور قتل کئے بغیر اس کا حل تلاش کرنے کا مشورہ دیا ،آپ نے اس کے رہنے کی جگہ معلوم کی تو آپ کو بتایا گیا : مدینہ کے اطراف میں اس کا کھیت ہے امام اپنی سواری پر بیٹھ کر نا آشنا طور پر اس کے مزرعہ(کھیت) پر پہنچ گئے تو اس کو وہیں پر موجود پا یا جب آپ اس کے نزدیک پہنچے تو اس عمری نے آپ کو پہچان لیا اور آگ ببولا ہو گیا کیونکہ امام کے گدھے نے
اس کی زراعت کو نقصان پہنچا دیا تھا ،امام نے اس سے نرمی سے گفتگو کر نا شروع کی اور اس سے فرمایا :''تمہارا اس میں کتنا نقصان ہوا ہے ؟''۔
اس نے کہا :سو دینار ۔۔۔
''تم اس سے کتنے منافع کی امید رکھتے تھے ؟''۔
اس نے کہا : میں علم غیب نہیں رکھتا یعنی نہیں جانتا ۔
امام نے فرمایا :'' میں یہ سوال کر رہا ہوں کہ تجھے تقریباً اس سے کتنا منافع ہوتا ؟''۔
اس نے کہا : تقریباً دوسو دینا ر۔
امام نے اس کو تین سو دینار دیتے ہوئے فرمایا :''یہ تمہاری اس زراعت کا ہر جانا ہے ''۔
عمری امام کے حق میں زیادتی کرنے سے شرمندہ ہو گیا اور وہ مسجد نبی ۖ کی طرف دوڑ کر گیا، جب امام وہاں تشریف لائے تو اس نے کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا :خدا وند عالم بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں قرار دے ۔۔۔
عمری کے دوستوں نے جب یہ ماجرا دیکھا تو اس تبدیلی کے سلسلہ میں گفتگو کر نے لگے، اس نے امام کی بلند عظمت کے سلسلہ میں جواب دیا امام نے اس کے دوستوں و ساتھیوں کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا : ''کیا تمہارا ارادہ بہتر تھا یا جو ارداہ میں نے کیا ''۔ (13)
آپ کے حلم کا ہی واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ اپنے دشمنوں کی ایک جماعت کے پا س سے گذرے جس میں ابن ھیّاج بھی تھا، اس نے اپنے ایک ساتھی کو ایسا کرنے کیلئے ابھارا کہ وہ امام کے مرکب کی لگام پکڑ کر یہ ادعا کرے کہ یہ مرکب میرا ہے تو وہ شخص امام کے مر کب کے پاس آیا اور اس نے آپ کے مر کب کی لگام پکڑ کر یہ ادعا کیا کہ یہ مر کب میرا ہے امام مرکب سے نیچے تشریف لائے اور وہ مر کب اسی کو عطا کر دیا ۔(14)
امام کاظم اپنی اولاد کو زیور حلم سے آراستہ ہونے کی یوں سفارش کر تے تھے:''اے میرے بیٹے ،
میں تمہیںوصیت کر تا ہوں کہ جس نے اسے یاد رکھا اُس نے فائدہ اٹھایا ،جب کو ئی گفتگو کرے اور وہ تمہارے دائیں کان پر گراں گذر رہی ہو توتم اسے بائیں کان کے حوالہ کردوتو میں اس سے تمہارے لئے معذرت خواہ ہوں اور فرمایا:میں اس کا عذر قبول کرنے کے سلسلہ میںہر گز کچھ نہیں کہتا'' ۔(15)
یہ وصیت امام کے حلم ،وسیع اخلاق اور بلند و بالا صفات کی عکا سی کر رہی ہے ۔
٧ ۔مکارم اخلاق
اسلام مکارم اخلاق لے کر آیا ہے ،اور اس نے اپنے نورانی پیغام میں مکارم اخلاق کو ایک بنیادی و معتبر قانون قرار دیا ہے رسول اسلام ۖ کا فرمان ہے :''اِنّ بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ'' ''میں مکارم اخلاق کو تمام کر نے کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں '' ،رسول اسلام ۖ انسانیت کریمہ کے لئے بلند اخلاق پر فا ئز تھے ،اور آپۖ کے بعد آپ ۖ کے ائمہ ٔ ہدیٰ نے معالم اخلاق اور محاسن اعمال کی تاسیس میں بلند کردار ادا کیا اُنھوں نے اپنے اصحاب کیلئے بہترین نقوش چھوڑے ۔
امام ان بہترین صفات کی طرف ہمیشہ متوجہ رہے اور اپنے اصحاب کو ان بہترین صفات کے زیور سے آراستہ کیا تاکہ وہ معاشرہ کے لئے بہترین ہادی و پیشوا قرار پا ئیں ،ہم اس سلسلہ میں آپ سے منقول چند چیزیں ذیل میں نقل کر رہے ہیں :
سخا و ت اور حُسن خلق
امام نے اپنے اصحاب کو سخاوت اور حُسنِ خُلق کے زیور سے آراستہ ہونے کی ترغیب دلا ئی چنانچہ امام فرماتے ہیں :
''حُسن خلق والا شخص خدا کے جوار میں ہے ،خدا اس کو جنت میں داخل کرے گا ،اور اللہ نے نبی کو سخی بنا کر مبعوث کیا ہے ،او ر میرے والد بزرگوارنے ہمیشہ مجھے سخاوت اور حُسن خلق کی سفارش فرمائی ہے ''۔

صبر
امام اپنے اصحاب کو خطرناک حا دثوں میں بھی صبر کی تلقین فرما تے تھے کیونکہ آہ و فغاں کرنے سے وہ اجر ختم ہوجاتا ہے جس کا خداوند عالم نے صابرین سے وعدہ کیا ہے ۔
امام مو سیٰ کاظم فرماتے ہیں :
''المصیبةُ لاتکون مصیبة یستوجبُ صاحبھا أَجْرَھا اِلَّابالصبروالاسترجاع عند الصدمةِ''۔
''صا حب مصیبت ،مصیبت پر اسی وقت اجر کا مستحق ہوتاہے جب وہ مصیبت پر صبر کرے اور صدمہ کے وقت کلمہ ٔ استرجاع ''اِناَّ لِلّٰه وَاِنَّااِلَیْه رَاجِعُوْنَ ''بھی کہے ''۔
آپ ہی کا فرفرمان ہے :''اِنَّ الصبرَعلیٰ االبلائِ اَفْضَلُ مِنَ الْعَافِیَةِ عِنْدَ الرَّخَائِ ''۔
''مصیبت پر صبر کرنا آسانی کے وقت عافیت سے افضل ہے ''۔
صمت و و قا ر
آپ اپنے اصحاب کو صمت و وقار کی تاکید کرتے اور اس کے فائدے بیان کرتے :''صمت و وقار حکمت کے ابواب میں سے ایک باب ہے ،صمت سے محبت پیدا ہو تی ہے اور یہ ہر خیر و بھلائی کی دلیل ہے ''۔
عفو ا و ر ا صلا ح
آپ اپنے اصحاب سے فرماتے جو شخص تمہارے ساتھ برا ئی کرے اس کو معاف کردو ،اسی طرح آپ اپنے اصحاب کو لوگوں کے درمیان اصلاح کر نے کی ترغیب دلاتے ،ان کے سامنے محسنین اور مصلحین کی عاقبت و انجام بیان فرماتے اور اللہ کے نزدیک اُن کااجریوں بیان فرماتے تھے: ''قیامت کے دن ایک منا دی ندا دیگا جس کا اللہ پر اجر ہے وہ کھڑا ہوجائے تو عفو و در گذر اور اصلاح کرنے والوں کے علاوہ کوئی اورکھڑا نہیں ہو گا ''۔
قو ل خیر
آپ اپنے اصحاب کو نیک گفتگو کرنے اور لوگوں کو امر بالمعروف کرنے کی سفارش فرماتے تھے آپ نے ابوالفضل بن یونس سے فرمایا :''خیر کی تبلیغ کر و ،اچھی بات کہو اور اِمَّعَہ نہ بنو ''۔(16)
سوال کیا گیا :اِمَّعہ کیا ہے ؟
آپ نے فرمایا :''یہ نہ کہو کہ میں لوگوں کے ساتھ ہوں اور میں لوگوں میں سے ایک شخص کے مانند ہوں ،بیشک رسول اللہ ۖ کا فرمان ہے :اے لوگو !یہ دونوں بلند و بالا اور روشن راستے ہیں ایک خیر کا راستہ اور دوسرا شر کا راستہ ،تمہارے لئے شر کا راستہ خیر کے راستہ سے زیادہ محبوب نہ ہو ''۔
شکر نعمت
آپ نے اپنے اصحاب کو اللہ کی نعمت اور اس کے شکر کے اظہار کرنے کی تاکید فر ما ئی :''اللہ کی نعمتوں کے بارے میں گفتگو کرنا شکر ہے اور ان کو یاد نہ کرنا کفر ہے ،تم نعمتوں سے خدا کا شکر کرکے اپنے پروردگار سے رابطہ رکھو ،اپنے اموال کو زکوٰة کے ذریعہ محفوظ رکھو ،دعا کے ذریعہ بلاو مصیبت کو دور کرو ،دعا بلائوں کو دور کر نے کے لئے سپر ہے اور اس سے انسان محکم و مضبوط ہوتا ہے ۔۔۔''۔

..............

1۔حیاةالامام مو سیٰ بن جعفر ، جلد ١،صفحہ ١٣٨۔
2۔الارشاد ،صفحہ ٢٧٢۔
3۔بحارالانوار، جلد ١١،صفحہ ٢٦٥۔
4۔اصول کافی ،جلد ٢،صفحہ ١٣٤۔
5۔عمدة الطالب، صفحہ ١٨٥۔
6۔تاریخ بغداد ،جلد ١٣، صفحہ ٢٨۔کنز اللغة ،صفحہ ٧٦٦۔
7۔حیاةالامام مو سیٰ بن جعفر ، جلد ١،صفحہ ١٦١۔١٦٢۔
8۔وفیات الاعیان ،جلد ٤،صفحہ ٩٣۔کنز اللغہ ،صفحہ ٧٦٦۔
9۔کشف الغمہ صفحہ ٢٧٦۔
10۔حیاةالامام مو سیٰ بن جعفر ، جلد ١،صفحہ ١٤٠۔
11۔تاریخ ابو الفداء ،جلد ٢،صفحہ ١٢۔
12۔انوارالبھیہ، صفحہ ٩٣۔

13۔تاریخ بغداد، جلد ١،صفحہ ٢٨۔٢٩۔کشف الغمہ ،صفحہ ٢٤٧۔
14۔حیاةالامام مو سیٰ کاظم ، جلد ١،صفحہ ١٥٧۔
15۔فصول مہمہ ،صفحہ ٢٢۔
16۔الاِمع اور الاِمعہ( کسرہ و تشدیدی کے ساتھ ) ۔کہا گیا ہے :اس کی اصل یہ ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ ۶۔ همیں ...
انسانی زندگی پر قیامت کا اثر
حضرت زینب (س) عالمہ غیر معلمہ ہیں
اہلِ حرم کا دربارِ یزید میں داخلہ حضرت زینب(ع) کا ...
لڑکیوں کی تربیت
جناب سبیکہ (امام محمّد تقی علیہ السلام کی والده )
عبادت،نہج البلاغہ کی نظر میں
اخلاق کى قدر و قيمت
اسوہ حسینی
ائمہ اثنا عشر

 
user comment