اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

عاشورائے حسینی کا فاتح کون؟

عاشورائے حسینی جب کربلا کے گرم ریگزار پر آغوش رسالت کے پروردہ سوار دوش رسالت و نبوت‘ نبی کے نورعین فاطمتہ الزہرا(ع)کے دل کے چین‘ علی بن ابی طالب (ع)کی شجاعت و امامت کے وارث‘ اپنے وقت میں باری تعالی کی پسندیدہ ترین شخصیت حضرت حسین بن علی(ع)کو اپنے اعزا و اقرباء جاں نثار اصحاب و انصار بھائی ‘بھتیجوں‘ بھانجوں اور بیٹوں کے ساتھ ظالموں‘ جابروں‘ فاسقوں اور جاہ طلب یزیدی افواج نے تہہ تیغ کردیا
‘ جب وحی کے منکرین‘ ظلم و جبر کے پروردہ اسلام کے خائن‘ ملوکیت و سلطنت کے بانیوں نے خلافت کی قبا اوڑھ کر دین خدا‘ دین نبی المرسل کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی ٹھان لی اور خدا نے اپنے ”محبوب کے محبوب“ کا اپنا دین بچانے کے لئے قربان ہونا پسند فرمایا۔۔۔۔ جب شب عاشور چراغ گل کر دیئے گئے اور اجازت عام کا اعلان ہوا۔۔۔ جب بیعت امام اٹھالی گئی جب جنت کی ضمانت دی گئی جب ابو الفضل العباس مسلم ابن عوسجہ‘ سعید ابن عبد اللہ‘ زہیر ابن قین اور دیگر باوفا اصحاب نے بیک زبان ساتھ مرنے اور ساتھ جینے کا عزم بالجزم دہرایا۔۔۔۔۔ جب مشعل بجھا کر چراغ دین کی لو کو تیز کر دیا گیا جب موت کو پسند اور زندگی و حیات کو ناپسند کیا گیا جب قتل ہونا اور بار بار ہونے کی آرزو و خواہش کا اظہار کیا گیا ۔۔۔ جب عبادت و ریاضت دعاؤں ا ور مناجات کے ذریعہ دین خدا کی بقا کیلئے استغاثہ بلند کیا گیا۔۔۔ جب آخری ملاقاتیں اور اجازتیں طلب کی گئیں جب مائیں اپنے پھولوں کو بنا سنوار کے سمجھا بجھا کے اور اپنی تاریخ و روایات بتاکے موت کے طوفانوں کے سپرد کرتی رہیں۔۔۔۔ جب موت کو شہد سے زیادہ شیریں ا ور قتل ہوکر بھی غالب آجانے کے تاریخی جملات کا اظہار کیا گیا۔۔۔ جب پیاس کی شدت اور کرب سے معصوم بچوں کیلئے سپہ سالار لشکر حسینی فرات کو چیرنے نکلے۔۔۔ جب پانی پر قبضہ چھڑالیا گیا جب مشک بھر کے جنگ لڑی گئی جب چہار اطراف سے آنیوالے تیروں کو اپنے جسم پر لے گیا گیا۔ جب دونوں بازو کٹوا کر مشک کو بچانے کی کوشش ہوتی رہی جب تیرہ سالہ قاسم نے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اسلام کو ٹکرے ٹکڑے ہونے سے بچا لیا
۔۔۔ جب اٹھارہ سالہ کڑیل جوان شبیہ پیغمبر علی اکبر نے سینے میں برچھی کھاکر اپنے نانا کے دین کو لہولہان ہونے سے محفوظ کرلیا ۔۔۔ جب حر کو آزادی ملی‘ جب حبیب ابن مظاہر زہیر بن قین‘ مسلم ابن عوسجہ‘ بریر ہمدانی‘ نے نماز عشق کی گواہی کیلئے خون سے وضو کیا ۔۔۔۔ جب تیروں کی بارش ہوئی‘ تلواریں بجلی کی طرح چمکیں‘ نیزے چلے جب خنجر اور برچھیاں سینے میں اتاری گئیں جب بے گورو کفن لاشوں پر گھوڑے دوڑائے گئے جب عین دوران جنگ نماز با جماعت کروائی گئی اور سینے میں تیر جھیلے گئے‘ جب تیروں کے مصلے پر نماز بچالی گئی جب چھ ماہ کے معصوم علی اصغر (ع)نے سہہ طرفہ تیر کھاکے فوج شام کو رلادیا۔ جب باغ نبی کے پھول کھلے اور کلیاں خون میں ڈوب کر جلتے ہوئے کرب و بلا کو گلزار کرگئے۔۔۔ جب جگر پاروں‘ جوان بیٹوں‘ باوفا اصحاب کے لاشے اٹھانے والے صبر کے امام نے عصر عاشورا ثابت قدمی جرات و استقامت اورشجاعت و بہادری کا وہ نمونہ پیش کیا جس کی مثال تاریخ چودہ صدیاں بیت جانے کے بعد پیش کرنے سے قاصر ہے جب عصر عاشورا امام کیلئے رہ جانے والے نے چور چور بدن کے ساتھ میدان میں اپنا تعارف کروایا‘ جب لہو تلوار پر غالب آگیا۔۔۔۔ جب حریت کی داستان رقم کی گئی جب شجاعت و بہادری کا سر فخر سے بلند ہوا۔۔۔۔ جب دلیری نے سر اٹھا کر چلنا سیکھا‘ جب فداکاری اور قربانی کے باب لکھے گئے ۔۔۔۔ جب عدل نے ظلم اور حق نے باطل کو شکست دی۔۔۔۔۔ جب قلیل کثیر پر غالب آئے۔۔۔۔۔۔ جب خدا کے برگزیدہ صالح‘ باتقوی‘ صاحبان کرامت نے فاسقوں ‘ قمار بازوں‘ شراب خوروں اورقاتلوں کے گروہ پر فتح حاصل کی ۔۔۔۔جب ظلم و جبر اور استبداد کے مقابل چند بظاہر ناتواں اور کمزور پہاڑوں کیطرح ڈٹ گئے۔۔۔ جب امارت اسلامی کو عربی سلطنت میں تبدیل ہونے سے بچا لیا گیا جب نبی کا خطبہ حجتہ الوداع بھلانے والوں کو یاد کروایا گیا ۔۔۔جب لاالہ الا اللہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کے گلے میں لعنت کا طوق ڈالا گیا۔۔۔۔ جب جوانان جنت کے سردار نے رضوان اور رضائے خدا خریدلی۔۔۔۔‘ جب غلامی کی زنجیریں پہننے سے انکار اور انہیں توڑ دینے کا سبق دہرایا گیا۔۔۔۔جب فرشتوں نے ماتم کیا جنات مدد کرنے آئے انبیاء نے صف ماتم بچھائی
۔۔۔۔ جب رسول پر سہ لینے آئے۔۔۔۔ جب رسول کی حدیث کے مطابق شیشئی میں پڑی مٹی کا رنگ سرخ ہوگیا ۔۔۔۔جب کربلا کی خاک سجدہ گاہ بنی۔۔۔۔ جب فخر ملائک نے پرچم توحید کو سرافراز کیا ۔۔۔۔ جب حق کا معیار بدل گیا اور توحید پرست ہمیشہ کیلئے حسینی اور خدا کے دشمنوں کیلئے یزیدی کے الفاظ خلق ہوئے
۔۔۔۔۔ ہاں ہاں وہی عاشورائے حسینی جب حضرت امام حسین ابن علی (ع)نے شہادت کو سعادت و خوشبختی اور ستم گروں کے ساتھ زندگی کو رنج و الم سمجھتے ہوئے شہادت کو گلے لگاتے ہوئے خدا سے ملاقات چاہی‘ جب شام ڈھلے بے کفن لاشوں کو گھوڑوں کے سموں سے روندا گیا۔ جب نینواخون شہادت پاک سے سرخ اورلہو رنگ کر دیا گیا۔۔۔۔ جب خیام سادات حسینی کو آگ لگادی گئی جب نبی زادیوں کی ردائیں چھینی گئیں‘
۔۔۔ جب معصوم یتیم بچی کو طمانچہ رسید کیا گیا‘۔۔۔ جب بھائی‘ چچا‘ باپ‘ شوہر اور جگر پاروں کے خون میں لت پت لاشوں پر بین کرنے سے روک دیاگیا۔۔۔ جب ڈھلتے سورج میں مقتل شبیر (ع)کی سرخی کا لہو پھیل گیا۔۔۔ جب دشت غربت میں موت کو مسکرا کر گلے لگانے والوں نے قضا کو پہلی اور آخری بار مات دیدی ۔۔۔
۔ ہاں ہاں وہی عاشورائے حسینی جب اسلام کے متوالوں جیالوں اور فدا کاروں کے سروں کو نیزہ پر بلند کرنے اور مخدرات عصمت و طہارت عرب کے شریف ترین خاندان کی غیرت مند بیبیوں کو بے مقنع و چادر رسن بستہ اونٹوں کی ننگی پیٹھ پر بٹھانے کی صدائیں گونجیں ۔۔۔۔ ہاں ہاں وہی عاشورائے حسینی جب شہ مشرقین نے مٹتے ہوئے اسلام کا نام ہمیشہ کیلئے جلی حروف میں لکھ دیا ۔۔۔ ہاں ہاں اس عاشورائے حسینی کے یہ سارے منظر آنکھیں بند کرکے ذرا قلب و ذہن کی کھلی آنکھوں کے سامنے لائیں اور غور کریں کہ چودہ صدیاں بیت جانے کے بعد بھی ان کا تذکرہ کرکے آنسوؤں کے دریا بہائے جارہے ہیں‘ مصائب و الم کی داستانوں کو مسلسل بیان کیا جا رہا ہے ‘ لاکھوں کتب لکھی جاچکی ہیں‘ شعرا ان گنت پہلوؤں کو اجاگر کرچکے ہیں‘ علماء اس واقعہ کی تفسیریں لکھتے اور بیان کرتے نہیں تھکتے‘ اس عاشورائے حسینی کا کمال ہے کہ آج حق پرستی کی روایت حریت و آزادی کے شعار اور ایثار و قربانی کی مثالیں قائم کی جا رہی ہیں غلامی کی زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں‘ زندان و قفس آباد ہیں‘ مقتلیں سجائی جا رہی ہیں سینے پر گولیاں کھائی جاتی ہیں اسلام زندہ و تابندہ ہے
‘ محمد رسول اللہ کی گواہیاں ا ور شہادتیں ہر مسجد سے پانچ وقت دی جاتی ہے ۔۔۔ اب بتایئے کربلا میں کون جیتا یزید اور اس کے چیلے چانٹے جو لاکھوں کی تعداد میں تھے یا صرف بہتر پاکباز ‘ برگزیدہ‘ اور صاحبان کرامت ۔۔!آج بھی اگر ظلم و جبر کی قوتیں اپنے جبرو استبداد اور طاقت و قوت کے بل بوتے پر اسلام کو زیر نگوں کرنے کی سعی کر رہے ہیں تو انہیں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے‘ یہ اللہ کا دین ہے جسے خدا نے بہر صورت تا روز قیامت زندہ و تابندہ اور جاوید رکھنا ہے ۔کل 61ھجری کی کربلا میں بھی اسلام فتح مند ہوا تھا اور آج کی کربلاؤں میں بھی اسلام ہی کامیاب و کامران ہوگا‘ اس لیے کہ حسین ابن علی(ع)نے حریت و آزادی کے متوالوں کو خون میں لت پت ہو کر‘ موت سے ٹکرانا اور فتح مندہونا سکھا دیا تھا۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام رضا علیہ السلام کے فضائل کے چند گوشے
امام خمینی (رہ):غدیر کے پس منظر میں ہمارے فرائض
امام علی کا مرتبہ شہیدمطہری کی نظرمیں
علم کا مقام
وحی کی حقیقت اور اہمیت
امام خمینی معاصر تاریخ کا مردِ مجاہد
خدا کا غضب کن کے لیۓ
علم کا مقام
انساني اخلاق کي درستي ميں قرآن کا کردار
اہل سنّت بھائیوں کے منابع سے پیغمبر اعظم ﷺکی ...

 
user comment