دنیا میں جو صاحب عقل بھی کو ئی عمل انجام دیتا ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے اور مقصد کے اعتبار سے کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ ہوتاہے عمل کے دوران پیش آنے والے حالات و کیفیات نہ کامیابی کی علامت ہیں اور نہ ناکامی کی ۔
ایک کاشتکار اپنے کام کا آغاز کرتا ہے تو سب سے پہلے زمین کی حالت خراب ہوتی ہے اس کے بعد اس میںوہ دانا ڈالتاہے، دانا خاک میں مل جاتا ہے پھر زمین پر بہنے والا صاف وشفاف پانی خاک میں جذب ہوجاتا ہے۔اس کے بعد فصل کو سہارا دینے والا کیمیاوی مادہ زیر زمین گم ہو جاتا ہے، تب کہیں زراعت کا عمل مکمل ہوتا ہے جس میں ظاہری تباہی و بربادی کے سو ا کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن جب چار مہینہ گذرنے کے بعد لہلہاتا ہوا کھیت سامنے آتا ہے تو سب یہی کہتے ہیں کہ کسان اپنے عمل میں کامیاب ہے۔کسی نے اس کی کامیابی پر یہ اعتراض نہیں کیا کہ دانا برباد ہوگیا، پانی جذب ہوگیا،کھاد کا پتہ نہیں چلا،اس لئے کہ کامیابی کا فیصلہ نتیجہ کے اعتبار سے ہوتا ہے حالا ت و مقدمات کے اعتبار سے نہیں ہوتا۔مقصد حاصل ہو گیاتو انسان ہزار مصائب کے باوجود کامیاب ہے اور مقصد حاصل نہ ہو سکا تو انسان لاکھوں راحتوں کے با وجود ناکام ہے ۔
اس بنیاد پر یہ فیصلہ کرنا آسان ہے کہ کربلا کے معرکہ میں فاتح کون ہے اور شکست خوردہ کون؟ دونوں فریقین کا مقصد دیکھنا ہوگا اور پھر مقدمات کے حصول و عدم حصول کا جائزہ لینا ہوگا ۔امام حسین کی نگاہ میں دنیا کا کوئی آرام نہ تھا،انہوں نے مصائب کا راستہ اختیار کیا تھا اور اپنے قتل کی پیشن گوئی کر دی تھی۔ اس کے برخلاف یزید حکومت چاہتا تھا اور دین محمدی ۖ کو کھیل تماشہ کہہ رہا تھا ۔
اب امام حسین کا اور یزید کا معرکہ صرف اس مرحلے پر تھاکہ دین باقی رہے یا مٹ جائے ، رسالت کی حقیقت و واقعیت ثابت ہو یا بنی ہاشم کا کھیل تماشہ ثابت ہو جائے۔ یزید نے سارازور صرف کر دیاکہ رسالت تماشہ بن جائے ،دین فنا ہوجائے اور ابو سفیان کے قول کے مطابق یہ گیند
بنی امیہ کے گرد ناچتی رہے ۔
جب کہ امام حسین کا سارا جہاد اس مقصد کے لئے تھاکہ دین الھٰی باقی رہ جائے۔رسالت کا وقارزندہ رہے۔ اسلام کی آبرو ضائع نہ ہونے پائے، چاہے اس راہ میں میری لاش پامال ہوجائے۔ اورمیرا بھرا گھر اجڑ جائے ۔ان حالات میں نتیجہ بالکل سامنے ہے اگر یزیدانکاررسالت میںکامیاب ہوجائے تومعاذاللہ امام حسین اپنے مقصدمیں کامیاب نہ ہوئے لیکن اگریزید خود ہی امام زین العابدینـ کے خطبہ کو قطع کرنے کے لئے اعلان کرائے'' اشہد ان محمدا رسول اللہ'' تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یزید نے اپنی شکست کا اعتراف کر لیا او ر امام حسین نے کربلا کے بعد شام کا معرکہ بھی فتح کر لیا ۔
اگر یزید شراب و بدکاری و عیاری کو مذہب میں روا رکھ سکے تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہے اور امام حسین کی قربانی ضائع ہو گئی اور اگر یزید کی حمایت کرنے والے بھی شراب و بدکاری کو برا اور حرام کہہ رہے ہیں تو یہ علامت ہے کہ امام حسین کامیاب ہیں اور یزید ناکام ہو گیا ۔
اما م حسین کی اصولی کامیابی کے بعد حالاتِ زمانہ کا جائزہ لیا جائے تو ہر دور کے حالات امام حسین کی کامیابی کا ببانگ دہل اعلان کر رہے ہیں۔یزید کامیاب ہوتا تو اس کی کامیابی کے اثرات ہوتے لیکن آج نہ اس کی قبر کا نشان ہے، نہ اس کے زائرین ہیں، نہ کوئی اس کا نام لیوا ہے ،نہ اس کی بارگاہ ہے، نہ اس کا تذکرہ ہے،نہ اس کی راہ میں فدا کاری ہے، نہ اس کا پرچم ہے ،نہ اس کاکو ئی نام و نشان ہے اوراگر کوئی نام ہے تو داخل دشنام ہے ۔
لیکن امام حسین آج بھی ہر جہت سے فاتح اور کامیاب ہیں ہر محرم ان کی فتح کاا علان کرتا ہے ۔ہر گھر میں ان کا عزاخانہ سجایا جاتا ہے ۔ہر شاہراہ پر پرچم ان کا لہراتا ہے ۔ہر بزم میں تذکرہ ان کا ہوتا ہے ۔ہر پیاسے کو پانی انہیں کے نام پر پلایا جاتاہے۔ ہر قانو ن الھٰی اور تعلیم اسلام کا چرچہ انہیں کی مجالس میں ہوتا ہے۔ہراخبار انہیں کاتذکرہ کرتاہے۔ہررسالہ انہیں کا نمبر نکالتا ہے ۔ ہر مسلمان انہیں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ ہر شریف غیر مسلم انہیں کی بارگا ہ میں سر نیاز جھکاتاہے۔ ہر مؤرخ انہیں کو تاریخ ساز قرار دیتا ہے۔
ہر مفکر انہیں کے فلسفۂ جہاد کو اپنا تا ہے ۔ہر ادیب انہیں کو صبر و استقلال کی علامت قرار دیتا ہے۔ ہر انقلابی انہیں کو رہبر تسلیم کرتا ہے ۔ہر مؤمن انہیں کو اپنا سردار تسلیم کرتا ہے ۔ہر حق انہیں کے گرد چکر لگاتا ہے ۔ہر باطل انہیں کے نام سے گھبراتا ہے ۔ہر سپاہی کو انہیں کے جہاد سے حوصلہ ملتا ہے اور ہر نہتے انسان کے لئے انہیں کی داستان استقلال ہتھیار کا کام کرتی ہے ۔
غرض امام حسین غریبوں کا سہارا ،اسلام کا عزم جاودان، مجاہدوں کی طاقت، شریعت کے پاسباں اور محمدیت ۖ کے ادبی نگراں ہیں۔ اسی لئے امام حسین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے شاعرخواجہ معین الدین چشتی اجمیری ہند فرماتے ہیں
شاہ است حسین بادشاہ است حسین سر داد نداد دست در دست یزید
دین است حسین دیں پناہ است حسین حقا کہ بنائے لا الہٰ است حسین