تاریخ اسلام ومسلمین کاایک اہم واقعہ ،کربلا کا درد ناک حادثہ ہے جس نے مسلمانوں کی تاریخ پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں اور اسلامی معارف کا ایک نیا باب رقم کیا ہے۔ ٦١ ھ میں یہ واقعہ رونما ہو نے کے بعد سے اب تک مسلمانوںکی ایک بڑی تعدا داس واقعہ عظمیٰ کی یاد منا رہی ہے اور اسے مسلمانوں کی آئندہ سیاسی واجتماعی حکمت عملی اور ظلم وستم کے خلاف قیام کے لئے نمونہ عمل قرار دیتی ہے ۔یہاں تک کہ اسی واقعہ کے اثرات کے نتیجے میں مسلمانوں کی سیاسی واجتماعی زندگی میں عظیم تحولات رونما ہوئے ہیں اور مسلمانوں نے شہدائے کربلا کی سیرت وروش پر عمل کرتے اور ظلم واستبداد کے خلاف عَلَم بلند کرتے ہوئے عدل وانصاف کے حصول کی کامیاب تحریکیں چلائی ہیں ۔جس کی تازہ مثال ہمار ا معاصر تاریخی واقعہ ہے کہ جسے ہم انقلاب اسلامی ایران کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ جس کو گذرے ہوئے ٣٠ سال ہو چکے ہیں اور اس انقلاب کے نتیجے میں ایک مضبوط اسلامی حکومت وجود میں آچکی ہے ۔
اگر اس انقلاب کی اجتماعی وسیاسی بنیادوں کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو اس کی بازگشت واقعہ کربلا ہی کی طرف ہوتی ہے اور واضح ہو جاتا ہے کہ اگر تاریخ اسلام میں واقعہ کربلا اور روز عاشور امام حسین ـ اور اُن کے فدا کار اصحاب کی جان نثاری نہ ہوتی اور مسلمانوں کی تاریخ میں ظلم واستبداد کے خلاف
نواسئہ رسول ۖ کا یہ قیام نہ ہوتا تو نہ تو کوئی اوراسلامی تحریک چلتی اور نہ ایران کااسلامی انقلاب برپا ہوتا ۔اسی طرح اگر ایرانیوں کا واقعہ کربلا کے ساتھ گہرااعتقادی اور جذباتی لگائونہ ہوتا اور امام حسین [ع] کی سیرت اُن کے سامنے نہ ہوتی تو یہ انقلاب کسی بھی صورت رونما نہ ہوتا اور عالمی سیاسی وطاغوتی قوتوں کے خلاف ایرانی مسلمانوں کی یہ تحریک کبھی بھی کامیاب نہ ہوتی ۔ اگر دوسرے عوامل کی وجہ سے کامیاب ہو بھی جاتی تو لمبے عرصے تک قائم نہ رہ سکتی ۔آج انقلاب اسلامی ایران کے دوام کی سب سے بڑا سبب کربلا کا یہی عظیم واقعہ ہے اور اس واقعہ کے بارے میں ایرانیوں کا درست ادراک ہے ۔
ان حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو اگر ایرانیوں کے لئے یہ تاریخی واقعہ تعریف شدہ صورت میں پیش کیا جاتا اور اس کے حقائق بیان کئے جانے کے بجائے اس واقعہ کے حوالے سے خرافات و خیالات پر مبنی چیزیں عوام تک پہنچائی جاتیں تو ایرانی قوم پر بھی اس کے اثرات مرتب نہ ہوتے اور وہ شاہی استبداد اور یزید وقت کے خلاف کبھی بھی قیام کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوتی ۔یہ کارنامہ ہے اُن اہل قلم ومحققین اور اہل منبر و خطباء کا کہ جنہوں نے اپنی قوم کے سامنے اس واقعہ عظمیٰ کو تحقیقی انداز میں پیش کیا اور اس واقعہ کے تربیتی پہلوئوں سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے قو م کو ظلم واستبداد کے خلاف قیام کرنے اور شہدائے کربلا کی طرح اپنا شرعی فریضہ ادا کر نے کے لئے آمادہ کیا ۔
اسی واقعہ کی یاد سالہا سال سے ہماری قوم میں بھی منائی جارہی ہے اور ہر سال اس کے اوپر جانی و مالی سرمایہ کاری جاتی ہے لیکن کربلا کی یاد ہمارے ہاں وہ اثرات نہیں دکھاتی جو دوسری قوموں خصوصاً ایرانی قوم میں دیکھے جارہے ہیں ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں کربلا کے بارے میں تحقیقی مواد پیش نہیں کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے عوام واقعہ عاشورا کے متعلق تاریخی ادراک پیدا نہیں رکھتے اور نہ ہم اس واقعہ عظمیٰ کے سیاسی واجتماعی اور تربیتی پہلوئوں کو سمجھ رہے ہیں ۔لہذا ہم نہ فقط ظلم واستبداد کے خلاف قیا م کی سکت نہیں رکھتے بلکہ اسی ظلم واستبدا د کے تعاون سے واقعہ کربلا کی یاد منانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے ۔لہذ اہم امام حسین ـ اور شہدائے کربلا جیسا عظیم سرمایہ رکھنے کے باوجود ظلم وستم کو کھلے دل سے قبول کر لیتے ہیں ۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم ابھی تک واقعہ کربلا کے حقائق کا ادراک نہیں کر سکے چونکہ ہمارے سامنے اس واقعہ کی تاریخ ،تحقیقی انداز میں پیش نہیں کی جاتی ۔ہم اسے فقط ایک اسطورے (روایتی اور افسانوی واقعہ)کے طور پر مناتے ہیں اور اس کے تربیتی وسیاسی پہلوئوں سے بالکل غافل ہیں ۔ لہذا ہم اس واقعہ کے تربیتی اثرات سے محروم ہیں اور شہدائے کربلا کی سیرت وطریقے سے ناآشنا ہیں ۔
اس سلسلے میں ہمارے اہل قلم ،محققین اور خصوصاً دینی وعلمی مدارس ومراکز کی سنگین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس واقعہ کے بارے میں تحقیقی مواد فراہم کریں تاکہ اس کے افسانوی رنگ کو ختم کرنے کے لئے اس کے نمونہ عمل پہلوئوں کو روشن کیا جاسکے اور قوم کو ظلم واستبداد کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے اس واقعہ سے بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے ''امام حسین ـ کے سفینہ نجات ہونے'' کاصحیح مفہوم اُجاگر ہو سکے ۔ اس وقت ہماری مجالس عزا ء میں اور ہمارے منبر سے کربلا اور عاشورا کے حوالے سے جو کچھ پیش کیا جارہا ہے اُس میں تربیتی اور تحقیقی پہلو بہت ہی کمزور ہے چونکہ خرافاتی اور خیالاتی چیزوں سے تربیت نہیں ہو سکتی ؛تربیت کے لئے حقائق بیان ہو نے ضروری ہیں ۔لہذ اہمیں سیر ت معصومین کی روشنی میں لوگوں کو اس واقعہ کی یاد منانے کی اہمیت بتانی چاہیے اور عزاداری امام حسین کے اہداف ومقاصد سے آگاہ کرنا چاہیے تاکہ دین اور اولیائے دین کے بارے میں عوام کا شعور بلند ہو سکے اور وہ حقیقی معنوں میں ان ذوات مقدسہ کی پیروی کر سکیں ۔