اردو
Tuesday 5th of November 2024
0
نفر 0

حضرت علی علیه السلام کے فضائل و کمالات بیان کرنے پر پابندی

حضرت علی علیه السلام کے فضائل و کمالات بیان کرنے پر پابندی

تاریخ انسانیت میں بہت ھی کم شخصیتیں مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام جیسی ھوںگی جن کے دوست اور دشمن دونوںنے مل کر ان کے فضائل وکمالات کو چھپائے ھوں گے  اس کے باو جود ان کے  فضائل وکمالات سے عالم پُر ھے۔

دشمن نے ان سے عداوت ودشمنی کو اپنے دل میں بٹھا رکھا ، اور حسد وکینہ کی وجہ سے ان کے بلند وبا فضیلت مقامات اور کمالات کو لوگوںسے چھپایا ،اور دوست نے جوانھیںدل وجان سے چاہتااور محبت کرتا ھے وہ دشمنوں کے شکنجے اورجان کے خوف کی وجہ سے ان کے فضائل وکمالات کو چھپایا، ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ اپنے لبوں کو جنبش نہ دیں اور ان سے محبت والفت کا اظہار نہ کریں اور ان کے متعلق اصلاً گفتگو نہ کریں۔

خاندان بنی امیہ کے افرادھمیشہ اس بات پر کوشاں رہتے تھے کہ جس طرح سے بھی ممکن ھو  علی علیه السلام  اوران کے خاندان کے فضائل کو مٹادیا جائے ۔

بس اتنا کہناھی کافی تھا کہ یہ علی علیه السلام کا چاہنے والا ھے بنی امیہ کے حکومتی سپاھیوں میں سے دو آادمی گواھی دیتے تھے کہ یہ علی علیه السلام  کا چاہنے وا لا ھے اور فوراً ھی اس کا نام حکو مت میں کام کرنے والوں کی فہرست سے حذف کر دیاجاتا تھا، اور بیت المال سے اس کا وظیفہ بند کر دیا جاتا تھا ، معاویہ اپنے گورنروں اورحاکموںکو خطاب کرتے ھوئے کہتاھے: اگر کسی شخص کے لئے معلوم ھو جائے کہ وہ  علی علیه السلام  اور ان کے خاندان سے محبت رکھنے والاھے تو اس کا نام کام کرنے والوں کی فہرست سے خارج کر دو، اور اس کا وظیفہ ختم کردو اور اسے تمام سھو لتوں سے محروم کر دو ۔[1]

 پھر معاویہ اپنے دوسرے حکم نامہ میں سختی اور تاکید سے حکم دیتا ھے کہ: جوبھی علی علیه السلام  اور ان کے خاندان سے دوستی کا دم بھرتا ھے اس کے ناک اور کان کو کاٹ ڈالو اور ان کے گھر کو ویران کردو۔[2]

اس فرمان کے نتیجے میں،عراق کی عوام خصوصاً اھل کوفہ اس قدر ڈرے اور سھمے کہ شیعوں میں سے کوئی بھی ایک شخص معاویہ کے جاسوسوں کی وجہ سے اپنے راز کو اپنے دوستوں تک سے بیان نھیں کر سکتا تھا مگر یہ کہ پھلے قسم لے لیتا تھا کہ اس کے راز کو فاش نہ کرنا ۔[3]

اسکافی اپنی کتاب نقض عثمانیہ میں لکھتے ھیں :

بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومت ،مولائے کائنات کے فضل وکمالات کے متعلق بہت زیادہ حساس تھی اور ان کے فضائل کو روکنے اورمشھورنہ ھونے کے لئے اس نے اپنے  فقھا ء ومحدثین اور قاضیوں کو اپنے پاس بلایا اور بہت سختی سے منع کیا کہ اپنی اپنی کتابوں میں  علی علیه السلام  کے فضائل و کمالات کو نقل نہ کریں ،اس وجہ سے بہت سے محدثین مجبور تھے کہ امام کے فضائل وکمالات کو اشارے اور کنایہ کے طور پر نقل کریں اور یہ کھیں کہ قریش کے فلاں آدمی نے ایسا کیا ھے۔

    معاویہ نے تیسری مر تبہ سرزمین اسلامی پر پھیلے ھوئے اپنے سیاسی نمائندوںکو خط لکھا کہ علی کے شیعوں کی گواھی کسی بھی مسئلے میں قبول نہ کریں ۔

لیکن اس کا یہ حکم بہت زیادہ مفید ثابت نہ ھوا جو علی و خاندان کے فضائل کو منتشر ھونے سے روک پاتا ، اس وجہ سے معاویہ نے چوتھی مرتبہ اپنے گورنر کو لکھاکہ جو لوگ عثمان کے فضائل ومناقب کو نقل کریں ان کا احترام کرو اور ان کا نام اور پتہ میرے پاس روانہ کرو تا کہ ان کی عظیم خدمات کا صلہ انھیںدیا جا سکے ۔

    یہ ایک ایسی خوشخبری تھی جو اس بات کاسبب بنی کہ تمام شہروں میں عثمان کے جعلی فضائل ومناقب گڑھے جانے لگے اور یہ فضائل نقل کرنے والے عثمان کے فضائل کے متعلق حدیثیں لکھ لکھ کر مالدار بننے لگے ،اور یہ سلسلہ بڑی تیزی سے چلتا رہا ۔ یہاں تک کہ خود معا ویہ اس بے اساس اور جھوٹے فضائل کے مشھور ھونے کی وجہ سے بہت ناراض ھوا اور اس مرتبہ حکم دیا کہ عثمان کے فضائل بیان نہ کیئے جائیں ۔ اور خلیفہ اول اور دوم اور دوسرے صحابہ کے فضائل بیان کئے جائیں اور اگر کوئی محدث ابو تراب کی فضیلت میںکوئی حدیث نقل کرے تو فوراً اسی سے مشابہ ایک فضیلت پیغمبر کے دوسرے صحابیوں کے بارے  میں گڑھ دیا جائے اور اسے لوگوں کے درمیان بیان کیا جائے کیونکہ یہ کام شیعوں کی دلیلوں کوبے اثر کرنے کیلئے بہت مؤثر ھے [4]

    مروان بن حکم ان لوگوں میں سے تھا جس کا یہ کہنا تھا کہ علی نے عثمان کا جو د فاع کیا تھاایسا دفاع کسی نے نھیں کیا ۔اس کے باوجود ھمیشہ امام  علیه السلام پر لعنت و ملامت کرتا تھا ۔ جب اس پر اعتراض کیا گیاکہ تم علی کے بارے میں جب ایسا عقیدہ رکھتے ھو تو پھر کیوں انھیں برا بھلا کہتے ھوتو اس نے جواب دیا : میری حکومت صرف علی کو برا بھلا کہنے اور ان پر لعنت کر نے کی وجہ سے ھی محکم اور مستحکم ھوگی ، اور ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جو حضرت علی کی پاکیزگی اور طہارت اور عظمت و جلا لت کے کے قائل تھے لیکن اپنے مقام ومنصب کی بقا کے لئے حضرت علی اور ان کے بچوں کو برا بھلا کہتے تھے ۔

عمر بن عبدالعزیز کہتے ھیں :

میرے باپ مدینہ کے حاکم اور مشھور خطیب اور بہت بہادر تھے، اور نما زجمعہ کا خطبہ بہت ھی فصیح وبلیغ انداز سے دیتے تھے، لیکن حکومت معاویہ کے فرمان کی وجہ سے مجبور تھے کہ خطبہء جمعہ کے درمیان علی علیه السلام اور ان کے خاندان پر لعنت کریں ، لیکن جب گفتگو اس مرحلے تک پھونچی تو اچانک ان کی زبان لکنت کرنے لگتی اور ان کے چہرہ کارنگ تبدیل ھونے لگتا اور خطبہ سے فصاحت وبلاغت ختم ھو جاتی تھی۔ میں نے اپنے باپ سے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے جواب دیا جو کچھ میں علی علیه السلام کے بارے میں جانتا ھوں اگر دوسرے بھی وھی جانتے تو کوئی بھی میری پیروی نھیں کرتا اور میں علی  -کے تمام فضائل وکمالات اور معرفت کے بعد بھی انھیںبرابھلا کہتا ھوں ،کیو نکہ آل مروان کی حکومت کو بچانے کیلئے میں مجبور ھوں کہ ایسا کروں[5]

بنی امیہ کی اولاد کادل علی کی دشمنی سے لبریز تھا، جب کچھ حقیقت پسند افراد نے معاویہ کو نصیحت کی کہ اس کام سے باز آجائے تو معاویہ نے کہا کہ میںاس مشن کو اس حد تک جاری رکھوں گا کہ ھمارے چھوٹے چھوٹے بچے یہ فکر لئے ھوئے بڑے ھو جائیں او رھمارے بزرگ اسی حالت میں بوڑھے ھو جا ئیں۔

حضرت علی علیه السلام کو ساٹھ سال تک منبروں ، نشستوںمیں وعظ و نصیحت اور خطباء کے ذریعے،اور درس وتدریس کے ذریعے، خطباء اور محدثین کے درمیان معاویہ کے حکم سے برا بھلا کہا جاتا رہا اور یہ سلسلہ اس قدر مفید و موٴثر ھوا کہ کہتے ھیں کہ ایک دن حجاج نے کسی مرد سے غصہ میں بات کی اور وہ شخص قبیلہ ٴ   ”بنی ازد“ کا رہنے والا تھا،اس نے حجاج کو مخاطب کرتے ھوئے کہا: اے امیر! مجھ سے اس انداز سے بات نہ کرو، ھم بافضیلت لوگوں میں سے ھیں۔ حجاج نے اس کے فضائل کے متعلق سوال کیا اس نے جواب دیا کہ ھمارے فضائل میں سے ایک فضیلت یہ ھے کہ اگر کوئی چاہتا ھے کہ ھم سے تعلقات بڑھائے تو سب سے پھلے ھم اس سے یہ سوال کرتے ھیں کہ کیا وہ ابوتراب کو دوست رکھتا ھے یا نھیں؟!

اگر وہ تھوڑا بہت بھی ان کا چاہنے والا ھوتا ھے تو ہرگز ھم اس سے تعلقات و رابطہ برقرار نھیں کرتے ۔ علی علیه السلام اور ان کے خاندان سے ھماری دشمنی اس حد تک ھے کہ ھمارے قبیلے میں کوئی بھی ایسا شخص نھیں ملے گا کہ جس کا نام حسن یا حسین ھو اور کوئی بھی لڑکی ایسی نھیں ملے گی جس کا نام فاطمہ ھو۔ اگر ھمارے قبیلے کے کسی بھی شخص سے یہ کہا جائے کہ علی  -سے کنارہ کشی اختیار کرو تو فوراً اس کے بچوں سے بھی دوری اختیار کرلیتا ھے۔[6]

خاندان بنی امیہ کے لوگوں نے مولائے کائنات حضرت علی (ع) کے فضائل کو پوشیدہ رکھااور ان کے مناقب سے انکار کیا اور اتنا برا بھلا کہا کہ بزرگوں اور جوانوں کے دلوں میں رسوخ کر گیااور لوگ حضرت علی (ع) کو براکہنا ایک مستحب عمل سمجھنے لگے ۔اور بعض لوگوں نے اسے اپنا اخلاقی فریضہ سمجھا۔ جب عمر بن عبد العزیز نے چاہاکہاسلامی معاشرے کے دامن پر لگے اس بد نما داغ کو پاک کرے، تو بنی امیہ کی روٹیوں پر پلنے والے کچھ لوگوںنے نالہ و فریاد بلند کرنا شروع کردیاکہ خلیفہ ،اسلامی سنت کو ختم کرنا چاہتا ھے۔

    ان تمام چیزوں کے باوجود اسلامی تاریخ کے اوراق آج بھی گواھی دے رھے ھیں کہ بنی امیہ کے بد خصالوں نے جو نقشہ کھینچا تھا ان کی آروزئیں خاک میں مل گئیں اوران کی مسلسل کوششوں نے توقع کے خلاف نتیجہ دیااور فضائل و مناقب امام (ع) اموی خطیبوں کے چھپانے کے باوجود سورج کی طرح چمکا، اور اس نے نہ صرف یہ کہ لوگوں کے دلوں میں حضرت علی (ع) کی محبت کو بیدار کیابلکہ یہ سبب بنا کہ لوگ حضرت علی علیه السلام کے بارے میں بہت زیادہ تلاش و جستجو کریں اور امام  علیه السلام کی شخصیت پر سیاست کی عینک اتار کر قضاوت کریں، یہاں تک کہ عبداللہ بن زبیر کا پوتا عامر جو خاندان علی کا دشمن تھا اپنے بیٹے کو وصیت کرتا ھے کہ علی کو برا کہنے سے باز آجائے کیونکہ بنی امیہ نے ساٹھ سال تک منبروں سے علی پر سب و شتم کیا لیکن نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا بلکہ حضرت علی (ع) کی شخصیت اور بھی اجاگر ھوتی گئی اور لوگوںکے دلوں میں ان کی محبت اور بھی بڑھتی گئی۔[7]

پھلا مددگار

مولائے کائنات کے فضائل کا چھپانا اور ان کے مسلم حقائق کے بارے میں منصفانہ تحلیل تحلیل نہ کرنا صرف بنی امیہ کے زمانے سے مخصوص نھیں تھا بلکہ بشریت کے اس نمونہء کامل ھمیشہ ہتک کی متعصب مؤرخین نے مولائے کائنات حضرت علی (ع) کے خاندان اور ان کے حق پر حملہ کرنے سے گریز نھیں کیا ھے ۔اور آج بھی جب کہ اسلام آئے ھوئے چودہ صدیاں گزر گئیں وہ لوگ جو اپنے کو نئی نسل کا رہبر اور روشنفکر تصور کرتے ھیں اپنے زہریلے قلم کے ذریعے اموی مقاصد کی مدد کرتے ھیں اور مولائے کائنات کے فضائل و مناقب پر پردہ ڈالتے ھیں جس کی ایک واضح مثال یہ ھے:

    غار حرا میں پھلی مرتبہ پیغمبر (ص) کے قلب پر وحی الھی کا نزول ھوا اور پیغمبر (ص) منصب رسالت و نبوت پر فائز ھوئے، وحی کے فرشتے نے اگرچہ آپ کو مقام رسالت سے آگاہ کردیا لیکن اعلان رسالت کا وقت معین نھیں کیا ،لہٰذا پیغمبر (ص) نے تین سال تک عمومی اعلان سے گریز کیا اور جب بھی راستے میں شائستہ اور معتبر افراد سے ملاقات ھوتی یا خصوصی ملاقات ھوتی تو ان کو اس نئے قوانین الھی سے روشناس کراتے اور چند گروہ کو اس نئے قانون الھی کی دعوت دیتے، یہاں تک کہ وحی کا فرشتہ نازل ھوا اور خداوند عالم کی طرف سے حکم دیا کہ اے پیغمبر اپنی رسالت کا اعلان اپنے رشتے داروںاوردوستوں کے ذریعے شروع کریں۔:

<وَاٴَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاٴَقْرَبِینَ  وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنْ اتَّبَعَکَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ  فَإِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ إِنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ > [8]

اور اے رسول! تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب خدا سے) ڈراوٴ اور جو مومنین تمہارے پیرو ھوگئے ھیں ان کے سامنے اپنا بازو جھکاوٴ (تواضع کرو) پس اگر لوگ تمہاری نافرمانی کریں تو تم (صاف صاف) کہہ دو کہ میں تمہارے کرتوتوں سے بری الذمہ ھوں۔

پیغمبر (ص) کی عمومی دعوت کا اعلان رشتہ داروں سے شروع ھونے کی علت یہ ھے کہ جب تک نمائندئہ الھی کے قریبی اور نزدیکی رشتہ دار ایمان نہ لائیں اور اس کی پیروی نہ کریںاس وقت تک غیر افراد اس کی دعوت پر لبیک نھیں کہہ سکتے ،کیونکہ اس کے قریبی افراد اس کے تمام حالات و اسرار اور تمام کمالات و معایب سے آگاہ ھوتے ھیں، لہٰذا اعزہ و احباب کا ان کی رسالت پر ایمان لانا ان کی صداقت کی نشانی شمار ھوگا اور رشتہ داروںکا پیروی و اطاعت سے اعراض کرنا ان کی صداقت سے منہ پھیرنا ھے۔

اسی لئے پیغمبر (ص) اسلام نے حضرت علی علیه السلام کو حکم دیا کہ بنی ہاشم کے ۴۵ بزرگوں کو دعوت پر مدعو کریں اور ان کے کھانے کیلئے گوشت اور دودھ کا انتظام کریں،تمام مھمان اپنے معین وقت پرپیغمبر کی خدمت میں حاضر ھوئے اور لوگوں نے کھانا کھایا ،پیغمبر کے چچا ابولہب نے ایک حقیر اور پست جملہ سے، بنے ھوئے ماحول کو خراب کر دیا اور لوگ منتشر ھوگئے اور بغیر کسی نتیجہ کے دعوت ختم ھوگئی اور لوگ کھانا کھا کر پیغمبر کے گھر سے نکل گئے ۔

پیغمبر نے پھر دوسرے دن اسی طرح کی دعوت کا اہتمام کرنے اور ابو لہب کے علاوہ تمام لوگوں کو دعوت دینے کا ارادہ کیا اور پھر حضرت علی  -نے پیغمبر کے حکم سے گوشت اور دودھ کھانے کے لئے آمادہ کیا اور بنی ہا شم کی مشھور ومعروف شخصیتوں کو کھانے اور پیغمبر کی گفتگوسننے کے لئے دعوت دی ،تمام مھمان اپنے معین وقت پر حاضر ھوئے اور کھانے وغیرہ کی فراغت کے بعد پیغمبر نے اپنی گفتگو کا آغازیوں کیا :

”خدا کی قسم میں لوگوںکو راہ راست پر لانے میں غلط بیانی سے کام نہ لو ںگا میں (بر فرض محال) اگر دوسروں سے غلط بیانی سے کام لوںتو بھی تم سے غلط نھیں کھوںگا اگر دوسروں کو دھوکہ دوں تو تمھیں دھوکا نھیں دوںگا ،خدا کی قسم کہ جس کے علاوہ کوئی خدا نھیں میں تمہاری طرف اور تمام عالم کی ہدایت کے لئے اسی کی طرف سے بھیجا گیا ھوں ،ہاں ،آگاہ ھو جاؤ ،جس طرح تم سو جاتے ھو ویسے ھی مر جاؤ گے اور جس طرح سوکر اٹھتے ھو ویسے ھی زندہ کئے جاؤ گے، اچھے اعمال انجام دینے والوںکو ان کا اجر دیا جائے گا اور برے اعمال انجام دینے والے اپنے عمل کا نتیجہ پائیں گے ،اور نیک اعمال کرنے والوں کے لئے جنت ھمیشگی کاگھر ھے اور برے کام کرنے والوں کے لئے جہنم آمادہ ھے۔

کوئی بھی شخص اپنے اھل وعیال کے لئے مجھ سے اچھی چےز نھیں لایا ھے میں تمہاری دنیا وآخرت کے لئے بھلائی لے کر آیا ھوں میرے خدا نے مجھے حکم دیا ھے کہ تم کو اس کی وحدانیت اور اپنی رسالت کی طرف دعوت دوں تم میں سے کون ھے جو اس راہ میں میری مدد کرے تا کہ وہ میرا بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرا نما ئندہ ھو؟“

آپ نے یہ جملہ کہا اور تھوڑی دیر خاموش رھے تاکہ دیکھیں کہ حاضرین میں سے کون ھمیشہ نصرت و مدد کرنے کے لئے آمادہ ھوتا ھے مگر اس وقت خاموشی نے ان پر حکومت کررکھی تھی اور سب کے سب اپنے سروں کوجھکائے فکروں میں غرق تھے ۔

یکایک حضرت علی  -جن کی عمر پندرہ سال سے زیادہ نہ تھی ، اس خاموشی کے ماحول کو شکست دے کر اٹھے اور پےغمبر سے مخاطب ھوکر کہا: اے پیغمبر خدا ، میں آپ کی اس راہ میں  نصرت و مددکروں گا پھراپنے ہاتھوں کو پیغمبر اسلام کی طرف بڑھایا تاکہ اپنے عہدوپیمان کی وفاداری کا ثبوت پیش کریں ۔

پےغمبر نے حکم دیا کہ اے علی بیٹھ جاؤ اور پھر اپنے سوال کو ان لوگوں کے سامنے دہرایا ،پھر علی علیه السلام اٹھے اورنصرت پیغمبر کا اعلان کیا ، اس مرتبہ بھی پےغمبر نے حکم دیا کہ علی بیٹھ جاؤ،تیسری مرتبہ پھر مثل سابق علی کے علاوہ کوئی دوسرا نہ اٹھا اور صرف علی  -نے اٹھ کر پےغمبر کی نصرت اور محافظت کا اعلان کیا ۔ اس موقع پر پےغمبر نے اپنے ہاتھ کو علی کے ہاتھ میں دےا اور حضرت علی کے بارے میں بزرگان بنی ہاشم کی بزم میں اپنے تاریخی کلام کا آغاز اس طرح سے کیا۔

”اے میرے رشتہ دارو اور دوستو ،جان لو کہ علی میرا بھائی میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا جانشین وخلیفہ ھے“

سیرہ حلبی کی نقل کی بنا پر ۔رسول اکرم نے اس جملے کے علاوہ دو اور باتیںاس کے ساتھ بیان کیںکہ :” وہ میرا وزیر اور میرا بھائی ھے “۔

اس طریقے سے پر خاتم النبیین کے توسط سے اسلام کے سب سے پھلے وصی کا تعیّن، اعلان رسالت کے آغاز پر اس وقت ھوا جب بہت ھی کم لوگ اس قانون الھی کے پیرو تھے،

پیغمبر اسلام نے ایک ھی موقع پر اپنی نبوت اور حضرت علی علیه السلام کی امامت کا اعلان کرکے۔یہ ثابت کر دیاکہ نبوت وامامت دو ایسے مقام ھیں جو ایک دوسرے سے جدا نھیں ھیں اور امامت تکمیل نبوت ورسالت ھے ۔

اس تاریخی واقعہ کے مدارک:

شیعہ اور غیر شیعہ محدثین اور مفسرین نے اس تاریخی واقع کو بغیر کسی کمی وزیادتی کے اپنی کتابوں مےںنقل کیا ھے[9] اور امام  -کے اھم فضائل ومناقب میں شمار کیا ھے اھلسنت کے صرف ایک مشھور مورخ ابن تیمیہ دمشقی نے جو اھلبیت علیھم السلام کے بارے میں ہر حدیث سے انکار کرنے میں مہارت رکھتے ھیں  اس سند کو رد کیا ھے اور اس سند کوجعلی قراردیا ھے ۔

انھوں نے نہ صرف اس حدیث کو جعلی اور بے اساس قرار دیاھے بلکہ امام کے خاندان کے سلسلے میں خاص نظریہ رکھنے کی وجہ سے اکثر ان حدیثوں کو جو خاندان رسالت کے فضائل و مناقب میں بیان ھوئیں ھےں اگر چہ وہ حد تواتر تک پھونچ چکی ھوں جعلی اور بے اساس قراردیاھے ۔

 تاریخ ”الکامل“  پر حاشیہ لگانے والے نے اپنے استاد کہ جن کا نام پوشیدہ رکھاھے، سے نقل کیاھے کہ میرے استاد نے بھی اس حدیث کوجعلی قرار دیا ھے (شاید ان کا استادبھی ابن تیمیہ کی فکروں پر چلنے والا تھا، یا یہ کہ اس سند کو خلفاء ثلاثہ کی خدمت کے مخالف جانا ھے اس لئےجعلی قراردیاھے )،پھر وہ خود عجیب انداز سے اس حدیث کے مفھوم کی توجیہ کرتے ھوئے لکھتے ھیں کہ :اسلام میں امام  علیه السلام  کا وصی ھونا ،بعد میں ابوبکر کی خلافت کے منافی نھیں ھے ،کیونکہ اس دن علی علیه السلام کے علاوہ کوئی مسلمان نہ تھا جو پیغمبر کا وصی ھوتا۔

ایسے افرادسے بحث ومباحثہ کرنا فضول ھے۔ ھمارا اعتراض ان لوگوں ھے جنھوں نے اس حدیث کو اپنی بعض کتابوں میں تفصیل سے  اور بعض کتابوں میںمختصر اور مجمل طریقے سے ذکر کیا ھے ،یعنی ایک طرح سے حقیقت بیان کرنے سے چشم پوشی کی ھے ،یا ھمارا اعتراض ان افراد پر ھے جن لوگوں نے اس حدیث کو اپنی کتاب کے پھلے ایڈ یشن میںتو شامل کیا لیکن اسکے بعد کے ایڈیشن میں کسی دباؤ اور خوف وہراس سے حذف کردیا ھے۔ یہاں پر ھم کہہ سکتے ھیں کہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم)کے انتقال کے بعد امام کے حقوق وفضائل کو پوشیدہ اور چھپا یا گیا ھے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ھے ۔

اب یہاں پرھم اس بات کی تشریح کررھے ھیں ۔

تاریخی حقایق کاکتمان:

محمد بن جریر طبری جوتاریخ اسلام کا ایک عظیم مؤرخ ھے ،اس نے اپنی تاریخ طبری میں اس تاریخی فضیلت کو معتبر سندوں کے ساتھ نقل کیاھے[10] لیکن جب اپنی تفسیر [11] میںاس آیت ”وَاٴَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاٴَقْرَبِینَ “ پر پھونچتا ھے تو اس سند کو توڑ مروڑ کر مجمل اور مبھم نقل کرتا ھے جس کی وجہ تعصب کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے۔

اس کے پھلے ھم بیان کرچکے ھیں کہ پیغمبر (ص) نے دعوت ختم ھونے کے بعد حاضرین کو مخاطب کر کے پوچھا تھا:

 ”فاٴیکم یوازرنی علیٰ ان یکون اٴخی و وصیّی وخلیفتی“؟

لیکن طبری نے اس سوال کو اس طرح نقل کیا ھے۔

 ”فاٴیکم یوازرنی علی ان یکون اٴخی و کذا وکذا“؟!

تعجب کی بات نھیں ھے کہ دو کلمہ وصی و خلیفتی کو تبدیل کر کے مبھم اور مجمل الفاظ کو اس کی جگہ پر ذکر کرنا سوائے تعصب اور خلیفہ کے مقام و منزلت کو گھٹانے کے کچھ نھیںھے۔

اس نے نہ صرف پیغمبر(ص) کے سوال میں تحریف کیا ھے، بلکہ حدیث کا دوسرا حصہ جو پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا تھا کہ ”ان ہذا اخی و وصیّی و خلیفتی“ بھی بدل ڈالا ھے، اور دو ایسے ا لفاظ جو مولائے کائنات امیر المومنین کی بلا فصل خلافت پر واضح دلیل تھے کو ایسے لفظوں یعنی کذاوکذا سے بدل دیاھے جو غیر معروف اور غیر مشھور ھیں۔

ابن کثیر شامی جس کی تاریخ کی اساس تاریخ طبری ھے، لیکن جب اس سند تک پھونچا ھے تو  تاریخ طبری کوچھوڑ کر طبری کی تفسیر کی روش کی پیروی کی اور وہ بھی مبھم اور مجمل طریقے سے ۔ ان تمام چیزوں سے بدتر و ہ تحریف ھے جسے اس زمانے کے روشن فکر اور مصر کے مشھور مورخ ڈاکٹر محمد حسنین ھیکل نے اپنی کتاب ”حیات محمد“ میں کیاھے اور خود اپنی کتاب کے معتبر ھونے پر سوالیہ نشان لگادیاھے۔

کیونکہ اولاً انھوں نے پیغمبر اسلام (ص) کے دو حساس جملے کو جودعوت کے آخر میں پیغمبر نے بعنوان سوال فرمایا تھا اس کو نقل کیا ھے لیکن اس دوسرے جملے کو جو پیغمبر (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایاتھا کہ تو میرا بھائی ،وصی اور میرا خلیفہ ھے کوبالکل حذف کردیا اور اس کا تذکرہ تک نھیں کیا۔

ثانیاً اپنی کتاب کے دوسرے اور تیسرے ایڈیشن میں اپنا تعصب کچھ اور بھی دکھایا اور اس حدیث کے پھلے حصے کو بھی حذف کردیا۔ گویا متعصب افراد نے انھیںاس پھلے جملے کو نقل کرنے پر ھی بہت ملامت کی،اور اس کتربیونت کی وجہ سے ناقدین تاریخ کو تنقید کا موقع دیا ، اور اپنی کتاب کے اعتبار کو گرا دیا ۔

اسکافی کا بیان

اسکافی نے اپنی مشھور و معروف کتاب میںاس تاریخی فضیلت کا تذکرہ کیاھے کہ حضرت علی (ع) نے اپنے باپ، چچا اور بنی ہاشم کی بزرگ شخصیتوں کے سامنے پیغمبر (ص) سے عہد و پیمان باندھاکہ ھم آپ کی مدد کریں گے اور پیغمبر (ص) نے انھیں اپنا بھائی، وصی اور خلیفہ قرار دیا۔ اس کے متعلق وہ لکھتے ھیں :

”وہ افراد جو یہ کہتے ھیں کہ امام (ع) بچپن میں ھی صاحب ایمان تھے ،اوریہ وہ زمانہ ھوتا ھے کہ جب بچہ اچھے اور برے میںتمیز نھیں کرپاتا، اس تاریخی فضیلت کے سلسلے میں کیا کہتے ھیں؟!

کیا یہ ممکن ھے کہ پیغمبر اسلام(ص) کثیر تعداد میں موجود افراد کے کھانے کا انتظام ایک بچے کے حوالے کریں؟ یاایک چھوٹے بچے کو حکم دیں کہ بزرگان کو کھانے پر مدعو کرے؟

کیایہ بات صحیح ھے کہ پیغمبر ایک نابالغ بچے کو راز نبوت بتائیں اور اپنے ہاتھ کو اس کے ہاتھ میںدےں اور اسے اپنا بھائی ، وصی اور اپنا خلیفہ لوگوںکے لئے معین کریں؟!

بالکل نھیں! بلکہ یہ بات ثابت ھے کہ حضرت علی (ع) اس دن جسمانی قوت اور فکری لحاظ سے اس حد پر پھونچ چکے تھے کہ ان کے اندر ان تمام کاموں کی صلاحیت موجود تھی ۔ یھی وجہ تھی کہ اس بچے نے کبھی بھی دوسرے بچوں سے انسیت نہ رکھی اورنہ ان کے گروہ میں شامل ھوئے اور نہ ھی ان کے ساتھ کھیل کود میں مشغول ھوئے، بلکہ جس وقت سے پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ نصرت و مدد اور فداکاری کا پیمان باندھا تو اپنے کئے ھوئے وعدے پر قائم و مستحکم رھے اور ھمیشہ اپنی گفتار کو پیغمبر (ص) کے کردار میں ڈھالتے رھے اور پوری زندگی پیغمبر(ص)کے مونس و ھمدم رھے۔

وہ نہ صرف اس موقع پر پھلے شخص تھے جو سب سے پھلے پیغمبر اسلام(ص) کی رسالت پر اپنے ایمان کا اظہار کیا ،بلکہ اس وقت بھی جب کہ قریش کے سرداروں نے پیغمبر (ص) سے کہا کہ اگر آپ اپنے وعدے میں سچے ھیں اور آپ کارابطہ خدا سے ھے تو کوئی معجزہ دکھائیں (یعنی حکم دیں کہ خرمے کا درخت یہاں سے اکھڑ کر آپ کے سامنے کھڑا ھوجائے) تو اس وقت بھی علی وہ واحد شخص تھے جو تمام لوگوںکے انکار کرنے کے باوجود اپنے ایمان کا لوگوں کے سامنے اظہار کیا۔[12]

امیر المومنین علیہ السلام نے قریش کے سرداروں کے معجزہ طلبی کے واقعے کو اپنے ایک خطبہ میںنقل کیاھے۔ آپ فرماتے ھیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ان لوگوں سے کہا:اگر خدا ایساکرے تو کیا خدا کی وحدانیت اور میری رسالت پر ایمان لاوٴ گے؟ سب نے کہا: ہاں یا رسول اللہ۔

اس وقت پیغمبر (ص) نے دعا کی اور خدا نے ان کی دعا کو قبول کیااور درخت اپنی جگہ سے اکھڑ کر پیغمبر(ص) کے سامنے بڑے ادب سے کھڑا ھوگیا۔ معجزہ طلب کرنے والے سرداروں نے کفر و عناد و عداوت کی راہ اختیار کی اور تصدیق کرنے کے بجائے پیغمبر(ص) کو جادوگر کے خطاب سے نوازا ،اور میں پیغمبر(ص) کے پاس کھڑا تھا ،میں نے ان کی طرف رخ کر کے کہا: اے پیغمبر ! میں وہ پھلا شخص ھوںجوآپ کی رسالت پر ایمان لایا، اور میں اعتراف کرتا ھوں کہ درخت نے اس کام کو خدا کے حکم سے انجام دیاھے تاکہ آپ کی نبوت کی تصدیق کرے اور آپ کے قول کوسچا کر دکھائے۔

اس وقت میرا یہ اعتراف کرنا اور تصدیق کرنا ان لوگوں پر گراں گزرا، ان لوگوںنے کہا کہ تمہاری تصدیق علی کے علاوہ کوئی نھیں کرے گا۔[13]
 


[1] اُنظروا ا لی من قامت علیہ البینتہ انہ یحب علیاً واھل بیتہ فا محو ہ من الد یوان واسقطو اعطائہ ورزقہ،

[2] من اتھمتموہ بموالات ھولاء فنکلوابہ واھد موادارہ

[3] شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحد ید ج۱۱ ۔ص۴۵۔۴۴

[4] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳۔ص۱۵

[5]  شرح نہج البلاغہ ج۱۳۔ص۲۲۱۔

[6] فرحة الغری، مولف؛ مرحوم سیدابن طاوٴوس طبع نجف، ص ۱۴۔ ۱۳ ۔

[7] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص ۳۲۱

[8] سورہٴ شعراء، آیت ۲۱۶۔ ۲۱۴

[9] تفسیر سورہ شعراء آیت نمبر ۲۱۴ کی طرف رجوع کریں

[10] اس تاریخی فضیلت کو ان کتابوں نے نقل کیا ھے ، تاریخ طبری ج۲ ص ۲۱۶، تفسیر طبری ج۱۹ ص ۷۴، کامل ابن اثیر ج۲ ص ۲۴، شرح شفای قاضی عیاض ج۳ ص ۳۷، سیرہٴ حلبی ج۱ ص ۳۲۱ و ۔۔۔ اس حدیث کو تاریخ و تفسیر لکھنے والوں نے دوسرے طریقے سے بھی نقل کیا ھے جن کو ھم یہاں نقل کرنے سے پرھیز کر رھے ھیں۔

[11] تفسیر طبری، ج۱۹، ص ۷۴

[12] النقض علی العثمانیہ ص ۲۵۲، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۳ ص۲۴۴ و ۲۴۵، میں تذکرہ کیا ھے۔            

[13] نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۲۳۸ (قاصعہ)

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ثوبان کی شخصیت کیسی تھی؟ ان کی شخصیت اور روایتوں ...
روزہ اور تربیت انسانی میں اس کا کردار
قرآن میں مخلوقات الٰہی کی قسمیں
حكومت نہج البلاغہ كی روشنی میں
اسلام اور سیاست
آخری پیغام
قرآن کریم میں گفتگو کے طریقے
بدطینت لوگوں سے دوستی مت رکھو
مقاصدِ شریعت
شب يلدا کي تاريخ

 
user comment