اردو
Tuesday 24th of December 2024
0
نفر 0

قرآنی جوان

" اِذ اَوَی الفِتیة اِلَی الکَهفِ فَقالُوا رَبَّنا اِتنا مِن لَدُنکَ رَحمَةً وَ هیئ لَنا مِن أَمرِنا رَشَداً"[1] جبکہ کچھ جوانوں نے غار میں پناہ لی اور یہ دعا کی کہ پروردگار ہم کو اپنی رحمت عطا فرما اور ہمارے لئے ہمارے کام میں کامیابی کا سامان فراہم کردے۔

جوان کسے کہتے ہیں؟

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں دومرتبہ(اور دونوں مرتبہ سورہ کھف میں)لفظ فتیہ(جوان)استعمال ہوا ہے۔ایک روایت میں بھی اس طرح بیان ہو اہے کہ: امام صادق علیہ السلام نے ایک شخص سے سوال کیا کہ تمہاری نظر میں "فتی"کے کیا معنی ہیں؟ اس شخص نے جواب دیا:جوان۔امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:نہیں، "فتی"سے مراد مؤمن ہے۔کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اصحاب کھف سن رسیدہ تھے لیکن خدا نے انہیں ان کے ایمان کی بدولت جوان کہا ہے۔ اس بنا پر قرآن کی نگاہ میں سن وسال اور بازو کی طاقت کے مالک انسان  کو جوان نہیں کہا جاتا، بلکہ جوان ایمانی طاقت کانام ہے۔

ایک اور حدیث میں آیا ہے: وہ سب نوجوان نہیں تھے لیکن قرآن نے انہیں نوجوان کہا ہے( اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی نگاہ میں جوان اسے کہا جاتا ہے جس کے پاس ایمانی طاقت ہو اور وہ انقلاب لانے کی طاقت رکھتا ہو اور اسی طرح وہ اپنے راستے کو تبدیل کرنے پہ بھی قادر ہو) قرآن نے انہیں "فتیہ" کہا ہے کیونکہ قرآن یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ عادی نوجوان تھے نہ کہ پیغمبر، رسول یا خاص ولی۔

پیغامات

۱۔نوجوان کی توانائی، راہ حق میں قربانی ادا کرنے،حقیقت کو غیر حقیقت پہ ترجیح دینے،صحیح عقیدہ کی پہچان کرنے،اور دنیاوی لذتوں کو ترک کرنے میں پوشیدہ ہے۔

۲۔فتنہ وفساد برپا ہوتے وقت قابل اطمینان جگہ کو اپنی پناہ بنانا چاہئے۔

۳۔مشکلات  کے وقت صرف خدا وند متعال سے راز ونیاز ہونا چاہئے۔(قالوا ربّنا)

۴۔جب خدا کی جانب نجات انسان کے شامل حال ہوجائے تو اسے فراموش نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیشہ اس کی بارگاہ میں عفو ورحمت کے لئے ہاتھوں کو بلند کرنا چاہئے۔

۵۔مؤمن،ظاہری اسباب وذرائع فراہم ہونے کے باوجود ان سے لگاؤ نہیں رکھتا بلکہ وہ صرف خدا کی رحمت کا امیدوار اور اس کی قدرت پہ تکیہ کرتا ہے۔

۶۔جوان صرف اسی صورت میں خدا کو پاسکتا ہے جب تمام جھوٹے معبودوں کی نفی کرے اور اپنے آپ کو ان سے دور رکھے۔

۷۔جوان ہمیشہ حقیقت طلب ہونا چاہئے۔(وَ هیئ لَنا مِن أَمرِنا رَشَداً)۔

۸۔سماجی مسائل سے نوجوان کو غافل نہیں رہنا چاہئے،بلکہ صحیح معنی میں حق کو باطل سے پہچاننے کی کوشش کرے( جیسا کہ اصحاب کھف نے باطل معاشرے سے دوری اختیار کرتے ہوئے غار میں پناہ لی)۔

۹۔جوان آلودہ فضا میں زندگی بسر کرنا پسند نہیں کرتا بلکہ ہجرت کے ذریعہ فاسد معاشرے سے اپنے آپ کو نجات دیتا ہے۔

۱۰۔اہل حق وحقیقت ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ رہتے ہیں۔

منبع: حوزہ نٹ

[1] کھف/۱۰

 


source : http://www.ahl-ul-bait.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ماہ خدا کی آمد ابنا کے قارئین پر مبارک باد
وسیلہ اور شفاعت
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت
عیدالفطر
فامّا الشوری للمهاجرین والأنصار فإنْ أجمعوا علی ...
اسلام اور اتحاد مسلمين
امانت اور امانت داری
امام جعفر صادق عليه السلام کي چاليس حديثيں
شیطان کی پہچان قرآن کی نظر میں
تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب

 
user comment