حضرت علی علیہ السلام کا نام نامی اور اسم گرامی محتاج تعارف نہیں ہے انکا جو تعلق اسلام اور مسلمانوں سے ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے آپ کو اہلبیت اطہار (ع)اور اکابر صحابہ میں جو امتیازی اور اختصاصی شان حاصل ہے وہ بھی محتاج بیا ن نہیں ہے چنانچہ ارشاد امام احمد و نسائی میں بیان ہوا ہے کہ:
"ماجاء لاحدمن اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم من الفضائل ماجاء لعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ" آنحضرت کے اصحاب میں سے کسی کے اس قدر فضائل بیان نہیں ہوئے ہیں جتنے حضرت علی علیہ السلام کے متعلق وارد ہوئے ہیں .(1)
حضرت علی علیہ السلام مومن اور منافق کی پہچان کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں اگر آپ کسی مومن یا منافق کو پہچاننا چاہتے ہیں تو یہ دیکھیں کہ یہ شخص حضرت علی (ع) سے بغض و عداوت اور دشمنی رکھتا ہےکہ نہیں، اگر یہ شخص حضرت امیر (ع) کی محبت و الفت سے سرشار ہے تو مومن ہے اور اگر حضرت کے ساتھ بغض و عداوت رکھتاہے تو منافق ہے لہذا پیغمبر اسلام نے مومن و منافق کی پہچان کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ محبت و دوستی اور انکے ساتھ عداوت اور دشمنی کو معیار قرار دیا ہے اس سلسلے میں آنحضرت کا ارشاد ہے " قال صلی الله علیه وآله وسلم لعلی لا یحبک الا مومن ولا یبغضک الا منافق " پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اے علی مومن تم سے محبت اور دوستی رکھے گا اور منافق تم سے بغض و عداوت رکھے گا. (2)
پیغمبر اکرم کے ایک برجستہ صحابی ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ہم منافقین کو حضرت علی علیہ السلام کی عداوت اور دشمنی کے ذریعہ پہچانا کرتے تھے.
آنحضرت نے فرمایا کہ" من سب علیا فقد سبنی ومن سبنی فقد سب الله " (3) جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی اور جسنے مجھے گالی دی اس نے اللہ کو گالی دی .
آنحضرت نے فرمایا کہ" من آذی علیا فقد آذانی ومن آذانی فقد آذی اللہ " جس نے علی کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جسنے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی .(4)
مذکورہ احادیث سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ علی کا مرتبہ گھٹانے والا انکو برا کہنے والا اور انھیں اذیت پہنچانے والا کبھی بھی مسلمان نہیں ہوسکتا.
بنی امیہ کے دور حکومت میں امیر معاویہ نے اپنی بیعت کے شرائط میں یہ شرط بھی رکھی تھی کہ لوگ حضرت علی علیہ السلام پر سب و لعن کیا کریں (5)ان کے نزدیک بغیر اس شرط کے بیعت مستند اور قابل حجت نہیں ہوسکتی تھی معاویہ نے سعد بن ابی وقاص سے بھی کہا تھا کہ علی کو گالیاں دینے سے تمہیں کس نے منع کیا ہے " ما منعک ان تسب ابا تراب" (6)لہذا حضرت علی علیہ السلام اور انکے اہلبیت اطہار(ع) کے لئے معاویہ اور اسکے بعد آنے والے بنی امیہ کے بادشاہوں کا دور تاریک ترین دور رہا ہے اور آنحضور (ص) کی اولاد کے خلاف یہ بھیانک صورتحال عمر بن عبدالعزیز کے دور حکومت تک جاری رہی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام وہ لوگ جو بنی امیہ کی طرف منتسب یا انکے زیر اثر یا انکے جال میں پھنسے ہوئے تھے وہ لوگ حضرت علی اور اہلبیت نبی (ص) کے ساتھ دشمنی اور عداوت کو دینی فرائض میں سمجھنے لگے اور بعد کی نسلوں میں بھی آج تک یہ جذبہ کار فرما ہے چنانچہ جن لوگوں نے اہلبیت (ع) کے ساتھ ذرا سی بھی محبت اور الفت کا اظہار یا اعلان کرنے کی کوشش کی انکو بنی امیہ اور ان کے حواریوں نے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا اگر چہ حضرت علی (ع) پر سر ممبر سب و شتم جو معاویہ کے دور حکومت سے شروع ہوا تھاوہ عمر بن عبد العزیز کی حکومت کے دوران بند ہوگیا لیکن حضرت امیر اور اہلبیت رسول اکرم (ص) کے خلاف جو فضا بنی امیہ نے مکدر کردی تھی اس کا اثر خلفاء بنی عباس کے دور حکومت میں بھی نمایاں رہا چنانچہ بنی عباس کے دور حکومت میں سادات اور اہلبیت (ع) کے دوستداروں کو بنی امیہ کے دور سے کہیں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑااور اب بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں شیعیان علی علیہ السلام کو آج بھی اہلبیت اطہار(ع) کی محبت کی سزا میں مختلف قسم کے مشکلات کا سامنا ہے اہلبیت اطہار کی محبت میں سرشار لوگوں کو شیعہ یا رافضی کہتے ہیں حالانکہ شیعہ کہتے ہی ان لوگوں کو ہیں جنکے دل محمد و آل محمد کی محبت و الفت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں اور محبت اہلبیت کے اس گرانقدر سرمایہ کی حفاظت کے لئے وہ کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ہیں امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر علی (ع) اور اہلبیت کی محبت سے سرشار ہونا رفض ہے توپھر میں سب سے بڑا رافضی ہوں امام شافعی کہتے ہیں.
" ان کان حب الولی رفضا ۔۔۔۔۔ فاننی ارفض العبادی
ان کان رفضا حب آل محمد ۔۔۔۔ فلیشهد الثقلان انی رافض"
اگرعلی (ع) کی محبت رفض ہے تو دونوں جہان گواہ رہیں کہ میں سب سے بڑا رافضی ہوں
اور اگر آل محمد کی محبت رفض ہے تو دونوں جہان والے جان لیں کہ میں رافضی ہوں.
آل محمد (ص)کی محبت کے جرم میں جن لوگوں نے امام شافعی ، نسائی اور دوسرے بزرگوں کو بھی معاف نہیں کیا، وہ عام شیعیان اہلبیت کو کب معاف کریں گے کیوں کہ انکو تو بتایا ہی یہ گیا ہے معاویہ ہی سب کچھ ہے حالانکہ معاویہ کے سیاہ کارناموں سے اسلام کا دامن آج بھی داغ دار ہے اور معاویہ کے سیاہ کارناموں میں وہ لوگ بھی جو معاویہ کے مددگار اور پشتیباں رہے ہیں یہ امر مسلم ہے کہ کتنی ہی اچھی چیز کیوں نہ ہو اگر اس کی برائی کسی کے سامنے برابر اور مسلسل بیان کی جائے تو کچھ دنوں کے بعد سننے والے کے خیالات برگشتہ ہو جائیں گے اور بالکل یہی صورت بری چیز کی بھی ہوتی ہے کہ سنتے سنتے انسان بری چیز کو اچھا سمجھنے لگتا ہے امیر المومنین علی علیہ السلام اور معاویہ کے معاملےمیں بھی بالکل یہی صورت نظر آتی ہے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے کہا تھا کہ معاویہ مجھ سے زیادہ ہوشمند نہیں ہےلیکن کیا کروں میرے اقدامات میں دین حائل ہوجاتاہے اور معاویہ کو دین کی کوئی پرواہ نہیں ہے.
امام حسن مجتبی (ع) نے معاویہ کے ساتھ صلح نامہ میں دو بنیادی شرطیں رکھیں پہلی شرط یہ ہے کہ حاکم شام (معاویہ ) کو کتاب اور سنت پر عمل کرنا ہوگااور دوسری شرط یہ ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام پر سب وشتم کے سلسلے کو بند کرنا پڑے گامعاویہ نے صلح نامہ کےتمام شرائط کو قبول کرلیا لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد امام حسن(ع) کے ساتھ کئے گئے عہد و پیمان کو توڑ دیا مذکورہ احدیث کی روشنی میں مومن اور منافق کی پہچان کا صرف ایک ہی معیار ہے کہ جو حضرت علی مشکلکشا علیہ السلام اور انکی اولاد کے ساتھ عملی طور پر محبت اوردوستی رکھے گا وہ مومن ہے اور جو انکے ساتھ دشمنی اور عداوت رکھے گا وہ منافق ہے .
...................................................................
1۔ ارشاد امام احمد ونسائی
2۔ ترمذی ونسائی و ابن ماجہ بروایت ام سلمہ اور کنزالعمال جلد2
3۔ امام احمد بروایت ام سلمہ والحاکم صححہ اور کنزالعمال جلد6
4۔ کنزالعمال بروایت امام احمد و حاکم جلد 6 ص 152
5۔عقد الفرید جلد 2
6۔ مسلم