اردو
Thursday 21st of November 2024
0
نفر 0

اسلام میں جھادکے اسباب

اسلام میں جھادکے اسباب

اسلام میں جھاد نہ تو کسی مادی غرض مثلا ًوسعت ارضی و وسعت طلبی کے لئے ھے اور نہ ھی کسی استعماری مقصد مثلاً منابع اقتصادی پر تسلّط کے پیش نظر ھے ۔ اس سلسلے میں اسلام کا نظریہ تمام مکاتیب فکر سے جدا ھے ۔
اسلام نے چونکہ ابتداء ھی سے بھت معقول طریقے سے مستکبروں اورستم گروں کی مخالفت شروع کر دی تھی لھذا مخالف قوتیں متحد ھو کر اس مذھب کی نشر و اشاعت میں روڑے اٹکانے لگیں اور اس سلسلے میں تمام امکانی صورتوں اور مادی قوتوں کو اسلام کے خلاف استعمال کرنے لگیں ۔ انتھا یہ ھے کہ اگر کوئی اس مذھب کو قبول کر لیتا تھا تو مخالفین بڑی بے دردی کے ساتھ اس کو شکنجے میں کس دیتے تھے ۔
قریش نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب پیغمبر صلی اللہ (ص)بائیکاٹ کر دیا تھاجس کا نتیجہ یہ ھوا کہ تین سال تک پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے مخصوص افرادکے ساتھ ایک وادی میں زندگی بسر کرنی پڑی اور نا قابل بیان تکالیف برداشت کرنی پڑیں ، حد یہ ھے کہ کبھی کبھی تو یہ لوگ قوتِ لا یموت سے بھی محروم رہ جاتے تھے ۔
جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام نے مدینے میں قیام کیا اور مشرکوں کے مقابلے میں ایک مضبوط طاقت اکٹھا کر لی ، اس وقت بھی مشرکین مسلمانوں کو آرام سے نھیں بیٹھنے دے رھے تھے ۔ برابر مسلمانوں کو زد وکوب کرنا ، ان پر حملے کرنا انھوں نے اپنا شعار بنا لیا تھا تب کھیں جا کر مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اب تم دفاع کرو کیونکہ تم میں اب دفاع کی صلاحیت پیداھو گئی ھے ۔
رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام کے زیادہ تر غزوات دفاعی قسم کے تھے ۔جب کوئی فوج مسلمانوں کی سر کوبی اور مدینے پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھتی تھی تب مسلمان اس کا مقابلہ کرتے تھے ،جس کا مقصد یہ ھوتا تھا کہ مخالفین پران کے تیار ھو کر حملے کرنے سے پھلے ھی حملہ کردیا جائے اور ان کو ابتدا ھی میں ناکارہ بنا دیا جائے چنانچہ ان آیات میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ھے ۔مثلا ً

"راہ خدا میں جھاد کرنے والوں کو دفاع کی اجازت دی جا رھی ھے کیونکہ یہ لوگ ستائے ھوئے ھیں اور خدا ان کی مدد کرنے پر قادر ھے ۔ یہ ( بیچارے ) بلا کسی جرم کے اپنے شھروں سے نکالے گئے ھیں ( ان کا جرم صرف یہ تھا کہ ) یہ لوگ کھتے تھے ھمارا پروردگار خدا ھے ۔"(۱)

"جو لوگ تم سے جنگ کرتے ھیں تم بھی ان سے راہ خدا میںجھاد کرو اور زیادتی نہ کرو کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نھیں رکھتا ۔"(۲)

چونکہ اسلام تمام دنیائے بشریت کے لئے آیا ھے اور ھر بشر کو فائدہ پھونچانا چاھتا ھے اس لئے اپنے کو جغرافیائی حدود میں رکہ کر کسی مخصوص جگہ میں محصور نھیں ھو سکتا بلکہ اس کا تو نظریہ ھے کہ شرک و روحی آلودگی کے چنگل سے ساری دنیا کو نجات عطا کرے اور ساری کائنات میںکلمھٴ حق کو پھنچائے ۔
اصولاً ھر نظام جو پرانی رسموں اور مذاھب کو ختم کر کے ان کی جگہ نیا نظام جاری کرنا چاھتا ھے وہ بغیر جنگ و جدال کے اپنے مقصد میں کامیاب نھیں ھوا کرتا ۔ دنیا کا کوئی بھی انقلاب بغیر جنگ کے اپنے مقصد میں کامیاب نھیں ھوا ، اس کی شھادت تاریخ دے سکتی ھے ۔ فرانس کا انقلاب ھو ، یا ھندوستان کا ، امریکہ کی نھضت استقلال کی مانگ ھو ، یا نظام کھنہ کو ختم کرنے کے لئے روسی انقلاب ھو ، بھرحال جنگ کے بغیر کامیاب نھیں ھوا ۔
اسی طرح چونکہ اسلام کا مقصد بد کرداری اورافکار فاسدہ کو ختم کرنا تھا اس لئے لا محالہ اس کو ان لوگوں سے جنگ کرنا تھا جومعاشرے کا استحصال کررھے تھے اور خود ، سود خوری ، قتل و غارت جیسے بد اخلاقی امراض میں مبتلا تھے ۔
کسی بھی مذھب ، (جو پوری دنیا کے لئے اصلاحی قانون لے کر آیا ھو)کی نشر و اشاعت صرف تحریر و تقریر کے ذریعے ناممکن ھے ۔ تحریر و تقریر چاھے کتنی ھی موثر ھو مگر وہ ایسے معاشرے کو خلق نھیںکر سکتی جو جملہ برائیوں سے پاک ھو ۔ کیونکہ کچھ لوگ اپنے عادات و رسوم کے اتنی سختی سے پابند ھوتے ھیں کہ کوئی منطقی دلیل ان کو ان کے عقیدے سے ھٹا ھی نھیں سکتی ، ان کو صرف طاقت و قوت کے زور سے ھی ان خرافات سے روکا جا سکتا ھے اور بس ! اسی بات کو پیش نظر رکھتے ھوئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "نیکی،قدرت و شمشیر کے زیر سایہ ھے اور کچھ لوگ بغیر طاقت، حق بات نھیںمانا کرتے ۔"(۳)
اگر مخالف منظم طاقتیں ، حق اور دین الٰھی کو پھلنے پھولنے سے روکنے لگیں تو کیا طاقت کے علاوہ کوئی اور ذریعہ ھو سکتا ھے ؟ جب لوگوں سے آزادی فکر چھین لی گئی ھو ، صحیح راستہ کا اتنخاب ناممکن ھو گیا ھو ، تب جنگ اور لشکر کے استعمال کی اجازت دی گئی ۔ ظالم اور اسلام کی زبر دست رکاوٹوں کو روکنے کے لئے اسلام نے بھی مسلح جنگ کا آغاز کیا ۔ تاکہ معاشرے کی اصلاح ھو سکے اور تمام مخرب و منفی عوامل ختم ھو سکیں اور انسانی معاشرہ با قصد و ارادہ فکری فضائے آزادی میں زندگی کا صحیح راستہ انتخاب کر سکے ۔ کیونکہ اس کے علاوہ ھر قسم کی اصلاحی کوششوں کو ابتدا ھی سے ختم کر دیا جاتا تھا ۔
اسلام نے جس جنگ کا آغاز کیا ھے وہ در حقیقت بشریت کی جنگ آزادی ھے عقل کی خرافات کی جکڑ بند ، اوھام سے آزادی کی جنگ ھے ، یہ جنگ ھوا و ھوس سے دور ،ظلم و ستم سے الگ، مادی امور سے بے نیاز جنگ ھے ۔روئے ز مین پر فساد و تباھی کے خلاف جنگ ھے ۔ اسلام بشری قدر و قیمت بڑھانے اور بشریت کےلئے عدالت، عزت و سر بلندی حاصل کرنے کے لئے جنگ کرتا ھے ۔ اسلام تمام لوگوں کے فائدے کے لئے جنگ کرتا ھے وہ چاھتا ھے کہ خیر عمومی کی راہ میں جتنی رکاوٹیں ھیں ان سب کو ختم کر دیا جائے ۔ ایک آسمانی دستور کے تحت ھر مسلمان کا فریضہ ھے کہ وہ مظلوموں کی مدد کرے اور استعمار فکری کی قید سے بشریت کو آزاد کرائے تاکہ نو مولود، اسلامی معاشرے کی آزاد فضا میں سانس لے کر اپنی حفاظت کر سکے اور ھمیشہ رشد و ھدایت کے راستے پر گامزن رھے ۔ چنانچہ ارشاد ھوتا ھے: "تمھارے بچے ، مرد ،عورتیں جو مکہ میں اسیر ظلم ھیں جو یہ کھتے ھیں پالنے والے ھم کو ظالموں سے نجات دے اور اپنی طرف سے مدد گار بھیج دے ۔ ان کی رھائی کے لئے تم راہ خدا میں کیوں نھیں جھاد کرتے ھو ۔" (۴)

اسلام اور مقصد جھاد

دنیا کی نظر میں جنگ کا مفھوم قتل کرنا ، گرفتار کرنا ، دشمن کو نابود کرنا ، دشمن کے ساتھ بے رحمی ، شقاوت کرنا وغیرہ ھے لیکن اسلام کے نزدیک جنگ کا مفھوم ھی الگ ھے ۔ اسلام کھتا ھے : ظلم و ستم ، تباھی و بربادی کو روکنا ، حق و صداقت کو زندہ کرنا مختصراً گمرای کا ختم کرنا اور فضیلت و عدالت کو نشر کرنے کا نام جنگ ھے ۔
اسلام کی بنیادی دعوت یہ ھے کہ لوگ خدا کے علاوہ تمام باطل معبودوں کی عبادت چھوڑ دیں اور لوگوں کے دل و دماغ پر خدائی قانون کے علاوہ کسی اور قانون کی حکومت نہ ھو ، کیونکہ اس سے زیادہ انحرافی کیا ھو سکتی ھے کہ انسان لکڑی ، پتھرجیسے بے شعور موجود کے سامنے سر بسجود ھو ۔
اسلامی دستور ھی یہ ھے کہ جنگ سے پھلے لوگوں کو اسلام کی دعوت دو ، وعظ و نصیحت کرو ، یہ دستور خود ھی مقصد کو واضح و روشن کر دیتا ھے ۔
جب اسلامی فوجیں ایران فتح کر رھی تھیں تو ایرانی فوج کے سردار رستم فرخ زاد نے اسلامی فوج کے سردار سعد وقاص سے گفتگو کی اس وقت اسلامی نمائندہ جھاد کے مقصد کو اس طرح بیان کرتا ھے :ھمارے آنے کا مقصد صرف یہ ھے کہ لوگوں کو باطل خداؤں کی پرستش سے روکیں اور خدائے واحد کی عبادت اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت پر آمادہ کریں ۔ ھمارا مقصد یہ ھے کہ بندے بندوں کی بندگی چھوڑکر خدا کی بندگی اختیار کریں ۔ ھم چاھتے ھیں لوگ قیامت پر عقیدہ رکھیں ، ظلم و جور ختم کر کے عدل و انصاف کا دور دورہ قائم کریں ۔ تین دن تک مسلمانوں کے تین نمائندوں نے گفتگو کی اور ھر ایک نے ایک ھی بات کھی اور سب نے آخر میں کھا اگر آپ ھماری بات مان لیں تو ھم یھیں سے واپس چلے جائیں گے ، یہ رھا آپ کا ملک اور یہ رھے آپ۔
حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سرکار ولایت حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا : "جب تک کسی کو اسلام کی دوعوت نہ دے لو اس سے جنگ کی ابتداء ھرگز نہ کرو ۔خدا کی قسم اگر تمھاری وجہ سے خدا ایک شخص کو ھدایت عطا کرے تو پوری دنیا کی ملکیت سے تمھارے لئے بھتر ھے ۔"( ۵)
اسلامی جنگوں کی بنیاد قرب خدا اور ابدی سعادت کے حصول پر استوار کی گئی ھے ۔ مسلمانوں کو ملک گیر ی کی اجازت ھرگز نھیں دی گئی اور نہ اس کی اجازت دی گئی ھے کہ لوگوں کو اپنا غلام بنائیں ، اسی لئے صفحات تاریخ پر پھیلی ھوئی وہ جنگیں جن کا مقصد ملک گیری ، متاع مادی کا حصول ، استعمار ، غالب رھا ھو وہ اسلامی جنگ کھلانے کی مستحق نھیں ھیں ۔!
مسلمان جنگ کو بطور عبادت بجالاتا ھے ۔ مسلمان اعلائے کلمہٴ حق کی خاطر جنگ کرتے تھے ان کا خیال تھا جب ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے گا تو ھر قسم کا ظلم و ستم ختم ھو جائے گا ۔ افراد بشر میں کامل مساوات پیدا ھوجائے گی ۔ ایسے مقاصد کو لے کر راہ خدا میں جھاد کرنے والوں کو خدا دوست رکھتا ھے ۔ قرآن میں ارشاد ھے "بیشک اللہ ان لوگوں کو دوست رکھتا ھے جو اسکی راہ میں اس طرح صف باندہ کر جھاد کرتے ھیں جس طرح سیسہ پلائی ھوئی دیوار یں ۔"(۶)
اگر مجاھدین کی کوئی جماعت اپنی پرانی جاھلیت والی عادت کی بنا پر مال غنیمت کو مطمح نظر(مقصد اصلی) بنا لیتی تھی تو اس کی شدت سے تردید اور سختی سے سر زنش کی جاتی تھی ۔ چنانچہ ارشاد ھے کہ کسی نبی کو یہ حق نھیں ھے کہ وہ قیدی بنا کر رکھے جب تک زمین میں جھا د کی سختیوں کا سامنا نہ کرے ۔ تم لوگ تو صرف مال دنیا چاھتے ھو جب کہ اللہ آخرت چاھتا ھے اور وھی صاحب عزت و حکمت ھے ۔ (۷)
یقینا یہ اسلام کی بھت بڑی خوبی ھے کہ اس نے انسانی عدالت و شرافت کے لئے اتنی سعی و کوشش کی ۔” ڈاکٹر مجید خدوری“ لکھتے ھیں : یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاھئے کہ اسلام کی نظر میں جھاد صرف ھتھیار کی حیثیت رکھتا ھے ۔ اس کے ذریعہ سے ” دار الحرب“ کو ” دار الاسلام “ بنانا مقصود ھے ۔اگر اسلام کا یہ مقصد کبھی حاصل ھو جائے گا تو پھر جھاد کا مقصد داخلی دشمنوں کی سر کوبی کے علاوہ کچھ نھیں رہ جا ئیگا اور ایک نہ ایک دن داخلی جنگ بھی ختم ھو جائیگی ۔ اس بناء پر یہ بات کھی جا سکتی ھے کہ اسلام کے وضع قانون کی تھیوری میں بالذات جنگ ھدف نھیں ھے ۔بلکہ اس کو تو صرف صلح و آشتی کے لئے رکھا گیا ھے ۔ (۸)

جنگ اور اسلامی اخلاق

اسلام کے جنگی دستور میں اخلاقی پھلو کا مکمل طرح سے لحاظ رکھا گیا ھے۔ حد یہ ھے کہ میدان جنگ میں جنگ کرتے وقت بھی مسلمانوں کے اخلاق کی طرف اتنی توجہ دی گئی ھے کہ آج کی ترقی یافتہ دنیا کے کسی بھی مذھب میں توجہ نھیں دی گئی ھے اسلام نے حفاظت نفوس کے لئے اور قتل و غارت گری کو روکنے کے لئے بھت ھی معقول اقدام کئے ھیں اور امکانی حد تک اس کو روکنا چاھا ھے ۔
اسلامی جھاد میں ترک دشمنی دشمن کے سر خم کر دینے ھی پر منحصر نھیں ھے ۔ بلکہ صرف انتی سی بات کافی ھے کہ دشمن اس بات کا عھد کر لے کہ مسلمانوں کو کوئی نقصان نھیں پھنچائے گا اور نہ کسی قسم کی سر کشی کرے گا ، اور نہ فتنہ و فساد برپا کرے گا ۔
میدان جنگ میں اگر کوئی مجاھد دشمن سے کوئی معاھدہ کر لے یا دشمن کو امان دے دے تو بڑے سے بڑا اسلامی حاکم بھی اس معاھدے کو ختم نھیں کر سکتا اور دئے ھوئے امان کو توڑ نھیں سکتا ۔ اسلام نے جھاد میں جلانے ،کھیتوں کو نیست و نابود کر دینے ، آب و دانہ بند کر دینے کو سختی سے روکا ھے ، بچوں ، بوڑھوں ، عورتوں ، دیوانوںاور بیماروں کو قتل نہ کرنے کی تاکید کی ھے اور ان کے خون کو محترم قرار دیا ھے ۔ کسی بھی مسلمان کو یہ حق نھیں ھے کہ دشمن کو شکست دینے کی خاطر ان افراد کے خون سے اپنے ھاتہ رنگے ۔ اسی طرح دشمن کے نمائندوں اور سفیروں کو محترم قراردیا ھے ۔پیرس یونیورسٹی کے استادپروفیسر ”محمد حمید اللہ “ اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ھیں :
""سرکار رسالت نے دس لاکہ مربع زمین پر حکومت فرمائی ھے اور یہ مساحت پورے یورپ کے برابر ھے ۔ یقینی طور سے اتنا بڑا حصہ اربوں اشخاص کا مسکن تھا۔زمین کے اتنے بڑے حصے کو فتح کرنے میں صرف ڈیڑہ سو مخالف جنگ میں مارے گئے تھے ۔ مسلمانوں کی تعداد بھی کم از کم دس سال تک ھر ماہ ایک شخص کی شھادت پر مشتمل ھوتی ھے ۔ انسانی خون کا اس قدر احترام بشری تاریخ میں بے نظیر ھے ۔ "( ۹)
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب لشکر جنگ کے لئے بھیجتے تھے تو فرماتے تھے: خدا کی راہ میں خدا کی مدد اور خدا کے نام کے ساتھ اور اس کے بھیجے ھوئے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روش پر جاؤ ۔ دیکھو مکاری و خیانت نہ کرنا کسی کے اعضائے بدن کو نہ کاٹنا ،بوڑھے ، بچے ،معذور اشخاص اور عورتوں کو قتل نہ کرنا ، مجبوری کے علاوہ کسی بھی صورت میں درخت نہ کاٹنا ، تم میں جو بھی خواہ وہ کتنا ھی پست ھو یا کتنا ھی بلند ،کسی کو پناہ دے دے اس کی حفاظت سب پر ضروری ھے جب تک کہ وہ حق بات سن نہ لے ، اگر وہ تمھاری بات مان لیتا ھے تو تمھارا بھائی ھے ورنہ پھر اس کو بحفاظت اس کی پناہ گاہ تک پھنچادو ، اور ھر حالت میں خدا سے مدد مانگو ۔(۱۰)
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے لشکر کو یہ دستور دیا( جب وہ لشکر معاویہ سے جنگ کرنے پر تیار تھا )کہ میدان جنگ سے بھاگنے والے دشمن کا ھرگز پیچھا نہ کرنا اور نہ ان کو قتل کرناجو لوگ میدان میں اپنی حفاظت کرنے کے لائق نہ ھوں یا زخمی ھو گئے ھوں ان کو اذیت و تکلیف نہ پھنچانا ، عورتوں کی حفاظت کرنا ، ایسے کام نہ کرنا جس سے عورتوں کو تکلیف یا اذیت ھو ۔ میدان جنگ میں اس کا بھی امکان ھوتا ھے کہ دشمن کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے جس سے انسان کا جذبھٴ انتقام بھڑک اٹھے اس موقع پر بھی مسلمان کو تاکید کی گئی ھے کہ اپنی غرض و غایت کو ھاتہ سے نہ جانے دے اور اپنے غصے اور جذبھٴ انتقام کو پی جائے ۔ سب ھی اس قصے کو جانتے ھیں کہ ایک جنگ میں حضرت علی علیہ السلام نے جب دشمن پر وار کیا تو وہ گر پڑا حضرت علی علیہ السلام اس کے سینہ پر سوار ھو گئے اس نے آپ کے اوپر لعاب دھن ڈال دیا ۔ حضرت علی علیہ السلام اس کے سینہ سے اتر کر الگ کھڑے ھو گئے لوگوں نے پوچھا :آپ نے یہ کیا کیا ؟ فرمایا: اس کی اس حرکت سے مجھے غصہ آگیا تھا اگر میں اس وقت قتل کر دیتا تو جذبھٴ انتقام کو بھی دخل ھوتا اس لئے جب غصہ ختم ھو گیا تب میں نے قتل کیا ، تاکہ یہ قتل خالص خدا کے لئے ھو۔ اسلام نے ایک انسانی احساس تمام لوگوں کے دلوں میں پیدا کرنا چاھا ھے اور کسی بھی صورت میں بے عدالتی کو جائز نھیں قرار دیا ، کسی بھی مسلمان کو حدود عدالت سے تجاوز کرنے کی اجازت نھیں دی گئی ۔ اسلام نے دشمن کے تعدی و تجاوز کے برابر ھی تعدّی و تجاوز کو جائز قرار دیا ھے اور مجاھدین کو صریحی طور پر اس کے لئے آمادہ کیا ھے چنانچہ قرآن آواز دیتا ھے ،” ۔۔۔ ان مشرکین کو جھاں پاؤ قتل کر دو اور جس طرح انھوں نے تم کو آوارہ وطن کر دیا ھے تم بھی انھیں نکال باھر کردو ۔ اور فتنہ پردازی تو قتل سے بھی بدتر ھے اور ان سے مسجد حرام کے پاس اسی وقت تک جنگ نہ کرنا جب تک وہ تم سے جنگ نہ کریں اسکے بعد جنگ چھیڑ دیں تو تم بھی چپ نہ بیٹھو اور جنگ کرو کہ یھی کافر ین کی سزا ھے “ ۔(۱۱)
"ایمان والو ! اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب ایک قوم نے تمھاری طرف ھاتہ بڑھانے کا ارادہ کیا تو خدا نے انکے ھاتھوں کو تم تک پھونچنے سے روک دیا اور اللہ سے ڈرتے رھو کہ صاحبان ایمان اللہ ھی پر بھروسہ کرتے ھیں ۔" (۱۲)
" خبر دار کسی قوم کی عداوت فقط اس بات پر کہ اس نے تمھیں مسجد الحرام سے روک دیا ھے تمھیں ظلم پر آمادہ نہ کر دے ۔"(۱۳)

اسلام اور عدالت اجتماعی

اسلام تو ساری دنیا میں عدالت کو پھیلانے کے لئے آیا ھے وہ اجتماعی عدالت اور بین المللی عدالت قائم کرنا چاھتا ھے ۔ اسی لئے اگر مسلمانوں کا بھی کوئی گروہ حق و عدالت کی راہ سے منحرف ھو جائے تو اسلام نہ صرف یہ کہ اس کو برے کام سے روکتا ھے بلکہ جنگ و مبارزہ کے لئے اس کی سرکوبی کے لئے تیار ھے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے : "اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کرلیں تو ان کے درمیان صلح و آشتی کراؤ اور اگر کوئی زیادتی کرتا ھے تو زیادتی کرنے والے سے جنگ کرو یھاں تک کہ وہ خدا کے حکم کا پابند ھو جائے ۔ اگر حکم خدا کا پابند ھو جاتا ھے تو ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ صلح و آشتی کراؤ یقینا خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے ۔"(۱۴)
جو بات قابل توجہ ھے وہ یہ ھے کہ اصلاح کرانے والوں کو تاکید کی جا رھی ھے کہ دونوں فریقوں میں عدالت و انصاف سے کام لیا جائے تاکہ ھر شخص کو اس کا حق مل جائے کیونکہ جن دو گروھوں کے درمیان تعدی و تجاوز کی وجہ سے جنگ شروع ھوئی ھو ، اگر ان کے درمیان طرف داری سے کام کیا جائے تو بھت ممکن ھے کہ ظلم کرنے والوں کو تقویت پھنچ جائے ۔
معاف کر دینا یقینا ایک اچھا و مستحسن اقدام ھے لیکن اس قسم کے مواقع پر معاف کر دینے کا مطلب تجاوز کرنے والے کو چھوٹ دے دینا ھے اور اس کی ھمت افزائی کرنی ھے حالانکہ اسلام معاشرے سے جبر و ظلم کو ختم کرنا چاھتا ھے اور لوگوں میں یہ احساس پیدا کرنا چاھتا ھے کہ ظلماً و جبراً کوئی چیز حاصل نھیں کی جا سکتی ۔
مفتوح قوموں کے ساتھ مسلمانوں کا انسانی رویہ اور جواں مردانہ اقدام سبب بن گیا کہ عموماً یہ لوگ مسلمانوں کے ھمدرد ھو گئے اور مسلمانوں کے لئے رائے عامہ ھموارھو گئی ان کے رویہ نے لوگوں کا دل جیت لیا اس کا نتیجہ یہ ھوا کہ حمص والوں نے برقل کے لشکر پر شھر کا دروازہ بند کر دیا تھا لیکن مسلمانوں کے لشکر کے پاس ان لوگوں نے خود پیغام بھیجا کہ ھمارے لئے رومیوں ( اپنوں ) کا ظلم و ستم گوارہ نھیں ھے لیکن آپ لوگوں ” اجنبیوں “ کا عدل و انصاف پسندیدہ ھے ۔ آپ حضرات تشریف لائیے ۔اور ان کے لئے شھر کا دروازہ کھول دیا ۔ ابو عبیدہ کی سر کردگی میں جب اسلامی لشکر اردن کی سر زمین پر پھنچا تو وھاں کے عیسائیوں نے اس مضمون کا خط مسلمانوں کو لکھا :
اے مسلمانو! آپ لوگ ھمارے نزدیک رومیوں سے زیادہ محبوب ھیں اگر چہ رومی ھمارے ھم مذھب ھیں لیکن چونکہ آپ لوگ عادل ، با وفا ، مھربان و نیک ھیں اس لئے ھم لوگ آپ کو چاھتے ھیں۔ رومیوں نے نہ صرف یہ کہ ھم پر تسلط اختیار کیا بلکہ ھمارے گھروں کو بھی تاراج کر دیا ۔
فیلیپ ھٹی ( PHILIPH HITTI)اسپین پر مسلمانوں کے قبضے کا تذکرہ کرتے ھوئے لکھتا ھے :
"اسلامی لشکر جھاں پھنچ جاتا تھا لوگ اس کے لئے آغوش پھیلادیتے تھے ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتے تھے اور اپنی کمین گاھوں کو یکے بعد دیگرے خالی کر دیتے تھے جو لوگ بادشاھوںکے ظلم و ستم سے واقفیت رکھتے ھیں ان کے نزدیک اس کا فلسفہ بھت ھی واضح و آشکار ھے ۔"(۱۵)

مسلمان جس ملک کو فتح کرتے تھے وھاں کے لوگوں کو اپنا مذھب چھوڑنے پر مجبور نھیں کرتے تھے ۔اسلام کے اجتماعی نظام نے اقلتیوں کے مذھبی عقیدے کو کامل آزادی دے رکھی تھی ۔ ان کی عبادات اورداخلی زندگی سے اسلام کوئی باز پرس نھیں کرتا تھا۔ مختصر یہ کہ قانونی حق سے اسلام اور غیر اسلام ھر عقیدے والے لوگ برابر کا فائدہ حاصل کرتے ھیں ۔
مسلمانوں سے زکوٰة کے نام سے جو ٹیکس لیا جاتا ھے اس میں عبادت اور مالیات دونوں قسم کے پھلو موجود ھیں ۔ اس کے باو جود اسلام دوسروں سے یہ ٹیکس وصول نھیں کرتابلکہ ان سے جزیہ وصول کرتا ھے جس میں عبادت یا مذھبی پھلو بالکل نھیں ھے اور یہ صرف اس وجہ سے ھے کہ وہ لوگ اسلامی عبادت پر اپنے کو مجبور نہ سمجھیں۔ غیر مسلم جزیہ دے کر اسلامی حکومت کی پناہ میں آجاتا ھے اور جتنی بھی سھولتیں مسلمانوں کے لئے ھیں وہ سب دوسروں کےلئے بھی ھیں ۔ اس بنا پر یہ ایک حقیقت ھے کہ اسلامی نظام نہ صرف شخصی اصول کا لحاظ کرتا ھے بلکہ تمام دیگر مذاھب کا بھی قانوناً لحاظ کرتا ھے ۔ حد یہ ھے کہ جنائی، مدنی ، تجارتی امور جو مذھبی عقائد سے ارتباط رکھتے ھیں ان کی بھی با قاعدہ مراعات کرتا ھے تاکہ اقلیتیں ان چیزوں میں بھی کامل آزادی کا احساس کر سیکں جن کا دینی عقیدے سے تعلق ھے ۔

اسلام کے نزدیک دوسرے مذاھب

قرآن نے مسلمانوں کے دوسرے مذاھب والوں سے روابط کو بھی مشخص و معین کیا ھے۔غیر مسلمانوں سے محبت اوران کے ساتھ احسان کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ھے۔ البتہ جو لوگ مسلمانوں سے دشمنانہ رویّہ رکھتے ھیں اور اسلام و مسلمانوں کو ظاھر بظاھر اور پوشیدہ طریقے سے نقصان پھنچانے کے در پے رھتے ھیں ان سے محبت و دوستی کو منع کر دیا ھے ۔
وہ تمھیں ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نھیں کی ھے اور تمھیں وطن سے نھیں نکالا ھے اس بات سے نھیں روکتا ھے کہ تم ان کے ساتھ نیکی و انصاف کرو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے ۔ وہ تمھیں صرف ان لوگوں سے روکتا ھے جنھوں نے تم سے دین میں جنگ کی ھے اور تمھیں وطن سے نکال باھر کیا ھے اور تمھارے نکالنے پر دشمنوں کی مدد کی ھے کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے گا یقینا ظالم ھو گا(۱۶)
ان اقلیتوں کے ساتھ جو اسلامی قلمرو میں زندگی بسر کرتی ھیں جیسے یھودی ، عیسائی ان سے اسلام دو طرفہ محبت کا قائل ھے ۔ اور اپنی مکمل حکومت و سلطنت کے با وجود اسلام ان لوگوں پر کسی قسم کی سختی نھیں کرتا ۔ مدینے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں یھودی جب تک اپنے عھد و پیمان پر باقی تھے معمولی سے ظلم کے بغیر مسلمانوں کے دوش بدوش زندگی بسر کرتے تھے ۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد خلفاء کے دور میں بھی یھی طریقہ رائج تھا ۔
سرکار دو عالم فرماتے ھیں : "کسی ذمی کو تکلیف پھنچانے والا مجھے تکلیف پھنچاتا ھے ۔ آگاہ ھو جاؤ جو غیر مسلم پر ظلم و ستم کو جائز رکھتا ھے اور اس کو روح فرسا تکلیف پر آمادہ کرتا ھے یا اس کی اجازت کے بغیر اس کا کوئی مال لیتا ھے قیامت میں میں اس سے احتجاج کروں گا ۔ "
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے دور خلافت میں ایک بوڑھے و نابینا شخص کو دیکھا تو اس کے بارے میں پوچھا ۔اصحاب نے کھا یہ نصرانی ھے ،جوانی کے عالم میں حکومت اسلامی میں ملازم تھا ( یہ سن کر ) حضرت نے فرمایا : جوانی میں اس سے کام لیتے رھے اور جب وہ بوڑھا ھو گیا تو اس کو اس کے حق سے محروم کر دیا ( یہ ظلم ھے ) اس کے بعد بیت المال کے متصدی کو بلا کر حکم دیا کہ بیت المال سے اس کے مصارف پورے کیا کرو ۔(۱۷ )
ناپل یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر واگلیری(DR'LAURAVACCEIAVAGLIERI)لکھتے ھیں :
اسلامی حکومت مفتوح قوموں کے حقوق و مالیات کی حفاظت اسی طرح سے کرتی ھے جس طرح مسلمانوں کی ۔ فاتح بدّو عرب اپنی فتح و قدرت کے باوجود ھمیشہ اس بات پر تیار رھتے تھے کہ دشمنوں سے کھیں جنگ ختم کر کے ایک معقول جزیہ دو ، اور پھر اسلام کی پوری حمایت میں آجاؤ ،پھر تم کو وھی حقوق حاصل ھو جائیں گے جو ھم لوگوں کو حاصل ھیں ۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اقوال یا صدر اسلام کے فتوحات کی طرف نظر کریں تو یہ بات بخوبی واضح ھو جاتی ھے کہ مسلمانوں پر الزام ھی الزام ھے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ۔ خود قرآن کا اعلان ھے دین کے معاملے میں کسی پر جبر نھیں ھے ۔
مسلمانوں نے غیر قوموں کے ساتھ جو بُردباری اور لطف و مھربانی برتی ھے اس کے متعدد نمونے تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ رکھے ھیں جیسے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود شخصی طور پر نصاریٰ نجران کی عبادت گاھوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی تھی ۔ اور یمن جانے والے ایک گورنر کو حکم دیا تھا کہ تمھارے حدود سلطنت میں کسی یھودی کو کسی قسم کی تکلیف نہ پھنچنے پائے ، اسی طرح مسلمانوں نے بھی دوسری قوموں کو مذھبی آزادی دے رکھی تھی اور ان سے جزیہ کے نام سے ٹیکس لے کر ( جزیہ مسلمانوں کے ٹیکس سے کم ھوتا تھا)ان کی حفاظت اسی طرح سے کی جاتی تھی جس طرح دوسرے مسلمانوں کی ۔
آدم مٹز(ADAM METZ)لکھتا ھے :
اسلامی ممالک کو یورپی ممالک سے جس چیز نے ممتاز کیا ھے وہ غیر مسلموں کا نھایت آزادی کے ساتھ اسلامی ممالک میں زندگی بسر کرنا ھے ۔ کیونکہ یہ بات یورپی ممالک میں نا پید تھی ۔ اسی طرح یہ بات بھی سبب امتیاز تھی کہ عیسائیوں اور یھودیوں کی عبادت گاھیں اسلامی ممالک میں اتنی آزاد تھیں کہ خیال ھوتا تھا یہ دائرے اسلامی ممالک سے خارج ھیں ۔ اس قسم کی مذھبی آزادی کا تصور قرون وسطیٰ میں یورپ کے اندر قابل تصور بھی نہ تھا ۔( ۱۸)
جان ڈیون پورٹ(JOHN DAVENPORT)لکھتا ھے :
اسلام نے عدالت کے اصول نہ صرف اپنے ماننے والوں پر لازم قرار دئے تھے بلکہ غیر مسلم اقوام جو حکومت اسلامی کی پناہ میں زندگی بسر کرتی تھیں ان پر بھی لاگو کئے تھے ۔ تمام مذھبی علماء سے عبادت گاھوں پر صرف ھونے والی رقم کو ٹیکس سے مستثنیٰ کر دیا تھا اسی طرح حکومتی ٹیکس سے بھی تمام مذاھب کے علماء کو معاف کر دیا تھا ۔( ۱۹)

مسلمان اور یورپ کا ارتقاء فرانسیسی مشھور مورخ ڈاکٹر گوسٹاوے لیبون (GUSTAVE LEBON) لکھتا ھے:

چند ھی صدیوں کے اندر مسلمانوں نے اسپین کے اندر علمی و مالی اعتبار سے عظیم انقلاب پیدا کر دیا تھا اور اسپین کو یورپی ممالک کے سر کا تاج بنا دیا تھا ۔ یہ انقلاب صرف علمی و مالی اعتبار ھی سے نھیں بلکہ اخلاقی اعتبار سے بھی تھا ۔ مسلمانوں نے ایک بھت ھی اھم اصول نصاریٰ کو سکھایا تھا یا سکھانا چاھا تھا اور وہ ” باھم زندگی بسر کرنا “ تھا غیر مسلم اقوام کے ساتھ ان کا برتاؤ اتنا نرم تھا کہ پادریوں کو مذھبی اجتماعات منعقد کرنے کی خصوصی اجازت دی گئی تھی ۔چنانچہ اشبیلیہ میں ۸۷۲ءء اور قرطبیہ میں ۸۵۲ءء کے اندر مذھبی تحقیقی اجتماعات بر پا کئے گئے تھے ۔
مسلمانوں کے دور میں بکثرت کلیساؤں کے تعمیر سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ھے کہ یہ لوگ غیر مسلم اقوام کا کتنا احترام کرتے تھے ۔ بھت سے عیسائی مسلمان ھو گئے تھے حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نھیں تھی ۔ اسلامی حکومت میں یھودی و عیسائی مسلمانوں کے حقوق میں برابر کے شریک تھے ۔ دربار خلافت میں ھر قسم کے عھدے ان لوگوں کو دئے جا سکتے تھے ۔ (۲۰)

مسلمانوں کی فتوحات و جوانمردی کا صلیبی جنگوں میں عیسائیوں کے شرمناک اعمال سے مقابلہ کریں تو اسلام کا جنگ کے بارے میں صحیح موقف معلوم ھو سکتا ھے ۔عیسائیوں نے نھایت ھی وحشیانہ طریقے سے بیت المقدس پر قبضہ کیا تھا ۔بد ترین اعمال و بے حساب قتل و غارت گری اس شھر والوں کے ساتھ روا رکھی گئی تھی ، بیت المقدس کے میدانوں اورراستوں میں ، سروں ،پیروں اور ھاتھوں کے ٹیلے بنائے گئے تھے ۔ مسجد عمر میں دسیوں ھزار مسلمانوں (جو پناہ گزیں ھوئے تھے) کو بے دردی سے قتل کیا گیا تھا ۔ معبد سلیمان میں اتنا خون بھایا گیا تھا کہ گھوڑے زانو تک خون میں تر ھو جاتے تھے ۔ اور اس میں مرنے والوں کے جسم غوطے کھاتے تھے ۔
یورپی قلم کار کلارک ( KENNETH CLARK) کھتا ھے :
یقینی اور قطعی بات یہ ھے کہ دنیائے اخلاق نے صلیبی بھادروں سے کسی بھی خیر و برکت کو نھیں دیکھا ۔کیونکہ کسی بھی زمانے میں کسی شھر کے اندر اتنی شرارت ، بے شرمی ، شھوت رانی ، فسق و فجور کا ظھور نھیں ھو اجتنا ”مقدس جنگ “ کے نام پر اس شھر میں ھوا ۔ صلیبی بھادروں نے وھم پرستی و خرافات کو ابدی نشانی بنا دیا تھا ۔ معمولی معمولی تعصب کے نمونوں کو پھاڑ بنا دیا کرتے تھے ، جنگ مقدس وظیفہ بن گئی تھی ۔ دعا ، احسان ، کار خیر کے بدلے گناھوں کا کفارہ مسلمانوں کا قتل عام قرار دیا تھا ۔(۲۱)
صلیبیوں کے ۸۸ سالہ دور حکومت کے بعد مسلمانوں کو فلسطین واپس لینے کی فکرھوئی ، اور جنگ کا آغاز کر دیا ۔ یورپ نے بیت المقدس پر اپنا تسلط باقی رکھنے کے لئے اپنی ساری قوت ایشیا میں صرف کر دی مگر کوئی فائدہ نہ ھوا ۔ اور آخر کار فلسطین میں صلیبی حکومت کا خاتمہ ھوگیا ، اصلاح الدین ایوبی کی فلسطین پر حکومت قائم ھو گئی اوریورپی اپنے وطن واپس چلے گئے ۔
اکتوبر ۱۱۸۷ءء میں بیت المقدس پر اسلامی پرچم دوبارہ لھرایا شھر کے دروازے مسلمان سپاھیوں کے لئے کھل گئے اور بادشاہ اسلام صلاح الدین ایوبی نے مسلمانوں کے بیدردی سے قتل اور صلیبی بھادروں کے ظلم و ستم کے بدلے عام معافی کا اعلان کر دیا ۔ اور عیسائیوں کو قتل و پھانسی سے بچا کر اسلامی فتوحات کی تاریخ افتخار میں ایک باب کا اضافہ کر دیا ۔ اس پوری جنگ میں مسلمان سپاھیوں کے اندر اسلامی روح شدت سے اثر انداز تھی اور یہ لوگ ھر قسم کی قساوت و بے رحمی سے پاک تھے ۔
صلاح الدین ایوبی نے عام معافی کا اعلان کیا اور یہ بھی اعلان کیا کہ مرد دس دینار ، عورتیں پانچ دیناراوربچے دو دینار دے کر اپنی پوری پونجی لے کر جھاں جانا چاھیں جا سکتے ھیں ۔ اور چونکہ تمام شھروں میںبیت المقدس ھی محفوظ ترین شھر تھااسی لئے بڑے لوگ اپنے با ل بچوں کو بیت المقدس میں رکھتے تھے اور خود دوسرے شھروں میں رھتے تھے ( اس لئے صلاح الدین نے جانے کی اجازت دے دی ) اسی وقت سب سے بڑا پادری اپنی بے پناہ دولت لے کر جانا چاھتا تھا ۔ کچھ لوگوں نے صلاح الدین کو مشورہ دیا کہ اس پادری کا مال چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے ۔ صلاح الدین نے کھا یہ بات نا ممکن ھے میں ایسی خیانت نھیں کر سکتا ۔ کسی بھی شخص سے دس دینار سے زیادہ نھیں لوں گا ۔

عیسا یٔیوں کی وحشت گری

جان دیون پورٹ ( JOHN DAVENPORT)لکھتا ھے :
شامی بادشاہ صلاح الدین ایوبی نے جب دوبارہ اس شھر بیت المقدس کو واپس لیا تو ایک آدمی بھی قتل نھیں کیا اور عیسائی اسیروں کے ساتھ حد سے زیادہ ترحّم کا برتاؤ کیا ۔(۲۲)
اسپین میں عیسائیوں کی وحشت گری، مشرق میں صلیبی جنگوں کی وحشت گری سے کسی طرح کم نہ تھی ۔اسپین میں مسلمانوں نے جو کارھائے نمایاں انجام دئے تھے اور ملک کو جتنی ترقی عطا کی تھی اس کے بدلے عیسائی مذھب کے رھبروں نے مسلمانوں کے بوڑھوں ، جوانوں ، عورتوں ، بچوں کے قتل عام کا حکم دے دیا تھا۔ پوپ فلیپ دوم( POPE Philipe2 )نے مسلمانوں کو اسپین چھوڑنے کا حکم دے دیا ۔ لیکن مسلمان ملک چھوڑنے سے پھلے پھلے کلیسا کے حکم سے قتل کر دئے گئے ۔ اور جو لوگ اپنی جان بچا کر بھاگ رھے تھے ان کو عدالت میں پیش کیا گیا اور عدالت نے ان کے قتل کا حکم دے دیا ۔ اس مدت میں تقریباً تیس لاکہ مسلمان عیسائیوں کے تعصب کی وجہ سے قتل ھوئے ۔
جان دیون پورٹ (JOHN DAVENPORT)لکھتا ھے :
کون ایسا ھے جو جوانمردی کے زوال یعنی اسپین میں اسلامی حکومت کے خاتمے پر سوگوار نھیں ھے ؟ کون ھے جس کے سینے میں اس شجاع و غیرت مند ملت کا احترام موجود نھیں ھے ؟ یہ وھی ملت تو ھے جس نے آٹھ سو سال تک اسپین پر حکومت کی لیکن مخالف مورخین بھی ان کے معمولی سے ظلم و ستم کو قلم بند نہ کر سکے کیونکہ ان کا پورا دور عدل و انصاف سے بھر پور تھا ۔ کون ھے جو تحریک عیسائیت سے شرمندہ نھیں ھے ؟ اس تحریک سے مراد وہ تحریک ھے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے خلاف شیطانی مظالم کی انتھا کر دی گئی تھی اور یہ سارے مظالم ان مسلمانوں پر کئے جا رھے تھے جنھوں نے اسپینیوں کو انسانیت کا درس دیا تھا ۔ (۲۳)
مشھور مورخ جرجی زیدان تحریر کرتے ھیں :
اسپین پر عیسائی قبضے کے بعد مسلمانوں کو یھودیوں اور بد کاروں کی طرح اپنے ساتھ نشانی رکھنے پر مجبو ر کیا گیا تاکہ اس نشانی کے ذریعے سے یہ معلوم کیا جاسکے کہ یہ مسلمان ھے اور پھر آخر میں مسلمانوں کو موت یا عیسائیت کے لئے اختیار دے دیا گیا ۔
عیسائیوں نے اسپین پر قبضہ کرنے کے بعد مسجدوں کو کلیسا میںبدل دیا ، مسلمانوں کی مذھبی آزادی چھین لی ، مسلمانوں کے قبرستانوں کو برباد کر دیا ۔ ان کو حمام میں جانے سے( جو ایک ضروری کام ھے )روک دیا گیا ۔اور خود مسلمانوں کے حماموں کو ویران و برباد کردیا ۔
”ھنری“ چھارم کے زمانے میں اسپینی نام نھاد مجاھدوں نے (جن کو قصبہ دولان کے برخلاف ابھارا گیا تھا اور جن کی آبادی چار ھزار نفوس پر مشتمل تھی ) دولان کے تمام مسلمانوں کو گلا گھونٹ کر مارڈالا ۔(۲۴)
پوری تاریخ میں عیسائیوں کے صلح جوئی کا یہ مفھوم رھا ھے ۔!
آج کی دنیا میں بھی متمدن استعمار گروں کے چنگل میں پھنسی ھوئی ھے ۔قوموں کے ساتھ ان لوگوں کے برتاؤ کی طرف توجہ کی جائے تو پتہ چل جائے گا کہ روبہ ترقی اقوام کی عزت و شخصیت کو کس طرح پامال کیا جا رھا ھے ۔ اور ان کو ان کے واقعی تمدن سے کس طرح محروم کر دیا ھے ۔ ان کی پوری تعلیم کا مقصد ۔ خواہ وہ مرئی ھو ں یا غیر مرئی، نفوس کی روح و افکار کو استعمار کرنا ھے ۔ انھوں نے اپنے مخصوص مصالح کے لئے لوگوں کو آزادی رائے و فکر سے محروم کر دیا ھے اور ان کو اس طرح جکڑ دیا ھے کہ ان کے مصالح کے خلاف وہ لوگ کوئی اقدام نہ کر سکیں ۔جھاں بھی انصاف کی آواز بلند ھوتی ھے اس کو بلند ھونے سے پھلے ھی گھونٹ دیتے ھیں ۔

اسلام اور صلح

صلح کی طرفداری بھی ایک ایسی چیز ھے کہ بڑی بڑی حکومتیں جس کا نعرہ لگاتی ھیں لیکن کیا ان صلح کے حامیوں نے جنگ چھوڑدی ؟ کیا ان لوگوں نے اپنے تمام اختلافات کو ختم کر دیا ۔ کیا ان کے سیاسی نقشہ ٴجنگ کی کوئی قدر و قیمت لگائی جا سکتی ھے ؟
اسلام نے صلح کو تھذیب و اسباب کے کنٹرول کی بنیاد پر مضبوط کیا ھے ۔صلح کی ابتدا لوگوں کے دلوں کی گھرائیوں سے قرا ردی ھے ۔ پھر بین المللی اور عالمگیر پیمانے پر ترقی کی ھے ۔ کیونکہ جب تک لوگوں کے قلوب مطمئن نہ ھوں گے، دنیا کے اندر آرام و سکون نا ممکن ھو گا ۔جب تک لوگوں کے افکار پر ایک اخلاقی حکومت کی ضمانت نہ ھوگی صلح کی تمام کوششیں نقش بر آب ثابت ھوں گی اور بشری معاشرے میں صلح ناممکن ھو جائے گی ۔
در حقیقت معاشرے کا سنگ بنیاد فرد ھے اسی لئے اسلام نے ایمان و عقیدے کے سھارے سکون و آرام کے بیج کو افراد کے وجدان میں کاشت کیا ھے اور پھر رفتہ رفتہ یھی ایمان و عقیدہ اس کی رفتارو کردار میں بھی اثر انداز ھو تا ھے اور پھر افراد کے سدھار سے معاشرے کا قھری طور پر سدھار ھو جاتا ھے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ صرف فرد کے اندرونی عقیدے ھی پر بھروسہ نھیں کرتا بلکہ کچھ قابل اطمینان قانون وضع کرتا ھے جس میں ھر فرد احساس مساوات کے علاوہ کچھ اور سوچ بھی نھیں سکتا ۔ جو لوگ اسلامی محیط میں زندگی بسر کرتے ھیں انھیں احساس ھو گا کہ ان کی جان ، مال ، آبرو سب ھی مکمل طور پر امان میں ھے ۔
بعض مکاتیب فکر رابطھٴ فرد با فرد دیگر کو رابطہ تصادم سمجھتے ھیں لیکن اسلام چاھتا ھے ان سب کا رابطہ تعاون پر اور ایک دوسرے سے محبت و دوستی کی بنیاد پر ھو اور فردی و اجتماعی آداب ، درخشاں اخلاقی تعلیمات سے اس مقدس مقصد کو مدد پھنچائی جائے اور دلوں سے روح عداوت و بغض و کینہ کو ختم کر دیا جائے ۔
جب لوگوں کے دلوں میں لطیف احساسات پیدا ھوں گے اور ان کے دلوں میں برادری اور نزدیکی کے چراغ روشن ھو ں گے تو پھر ان کے دل بھی رحمت کے نور سے منور ھو جائیں گے اور پھر آپسی اختلافات ، رنجشیں کشمکش ، جدائی ، جنگ ، بے ایمانی رفتہ رفتہ ختم ھو تی جائیں گی اور صلح و صفائی کا معاشرہ اپنے بال و پر کھول دے گا ۔
دنیا کا کوئی بھی نظام تمام افراد بشر کے لئے تمام حالات میںعادلانہ عمل نھیں کر سکتا ۔ دنیا میں اجتماعی عدالت چاھے جتنی مضبوط ھو جائے لوگوں کے تمام مظالم کو دور کرنے پر قادر نھیں ھے سب کے بارے میں مکمل عدالت انسانی جملہ وسائل کے باوجود ممکن نھیںھے کیونکہ دنیا میںبھت سے ایسے بھی مظالم ھوتے ھیں جن کا احساس دنیاوی عدالت کر ھی نھیں سکتی ۔ حد یہ ھے کہ کبھی ایسی بھی بے انصافی ھوتی ھے کہ خود صاحب حق کو احساس نھیں ھو پاتا کہ اس نے اپنے حق سے تجاوز کیا ھے ۔ جب تک قیامت میں خدا الٰھی عدالت کے ذریعے ظالموں سے مظلوموں کا انتقام نہ لے لے اس وقت تک ایسی توقع بیکا ر سی ھے ۔
اب آیئے ذرا دیکھا جائے اسلام اور متمدن د نیا کی نظر میں صلح کا مفھوم کیا ھے ؟ اسلام جس صلح کا خواھشمند ھے وہ رؤسائے مملکت کی صلح سے بنیادی طور پر مختلف ھے ۔ کیونکہ ان لوگوں کی نظر میں صلح کا مطلب یہ ھے کہ بڑی بڑی حکومتیں چھوٹے ممالک کے منابع ثروت کو صلح کے نام پر آپس میں بانٹ لیں اوربخیال خود دوسروں کو اپنے زیر نفوذ کر کے ان کو راحت و آرام پھونچائیں ۔
دوسرے لفظوں میں ان کے یھاں صلح کا مطلب دوسروں کو تاراج کرنا ھے ۔ اسی لئے یہ لوگ مصالحت کی راہ میں کوئی مثبت اقدام اور خلوص نیت کا اظھار نھیں کرتے ،جلسے جلوس بحث و مباحثہ یہ صرف رسمی چیزیں ھو کر رہ گئی ھیں اور کسی نتیجے کے بغیریہ اختتام پذیر ھو جاتی ھیں ۔
لیکن اسلام ایسی صلح کا خواھش مند ھے جس کی بنیاد دنیا کی مختلف قوموں کے تساوی حقوق پر استوار کی گئی ھے ۔ اور بغیر کسی تفاوت کے جس کا سایہ دنیا کے تمام اقوام پر خواہ وہ کمزور ھوں یا طاقتور ، برابر پڑے۔ اسلام پوری بشریت کے لئے مکمل صلح چاھتا ھے ۔
اقوام متحدہ نے اپنے منشور میں اپنے مقصد صلح کو عالمگیر پیمانے پر رکھنے اور اسباب جنگ و علل اختلافات کو دور کرنے کا دعویٰ کیاھے لیکن اگر کسی دن منشور کا مقصد پورا بھی ھو جائے تو کیاآزادی افکار کا مقصد پورا ھو سکے گا ؟ کیا مختلف اقوام میں زمانھٴ صلح میں بھی اختناق فکری اور استعمار کا وجود نھیں ھے ؟
مشرقی بلاک والے اور سرمایہ دار کھتے ھیں : ھم ایک عالمگیر سسٹم کی بر قراری کے خواھش مند ھیں لیکن آزادی کے بغیر کو ن سا عالمگیر سسٹم ھو سکتا ھے ۔؟
مشرق و مغرب میں حکمراں طبقے کے مخالفین کو عملی طور پر زندہ رھنے کا حق نھیں ھے ، یہ حکمراں چاھتے ھیں کہ جبر و ظلم سے دوسروں کے مسلک و عقائد کو ختم کر دیں ۔ یکن اسلا م صرف صلح کو انسانوں کی سعادت و خوش بختی کا ضامن نھیں سمجھتا بلکہ کچھ اصول کو بھی اجتماعی زندگی کی بنیاد قرار دیتا ھے ۔ اسلام لوگوں کی آزادی فکر و رائے کو بھی بر قرار رکھنا چاھتا ھے تاکہ بشری معاشرہ سعادت بخش و صحیح راستے کی تشخیص کر کے اس کو اپنے لئے اختیار کر لے ۔ اسی لئے اپنی عالمگیر دعوت میں جبر و ظلم کو نا پسند کرتا ھے اور مختلف قوموں میں پیش رفت کی علت صرف عقل و رشد فکری کو سمجھتا ھے ۔ارشاد ھوتا ھے: "دین میں کسی طرح کا جبر نھیں ھے ھدایت گمراھی سے الگ اور واضح ھو چکی ھے " ۔(۲۵)
"تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی طرف سے دلائل آچکے ھیں اب جو بصیرت سے کام لیگا وہ اپنے لئے اور جو اندھا بن جائے گا وہ بھی اپنا ھی نقصان کرے گا اور میں تم لوگوں کا نگھبان نھیں ھوں ۔ "(۲۶)
"لھذا تم نصیحت کرتے رھو کہ تم صرف نصیحت کرنے والے ھو ۔ تم ان پر مسلط اور انکے ذمہ دار نھیں ھو ۔"(۲۷)
اسلام آزادی عقیدے کا قائل ھے اس لئے دین قبول کرنے کے لئے کسی بھی قسم کے جبر و اکراہ کو غلط سمجھتا ھے ۔ اس کے علاوہ بھی خود عقیدے اور ایمان کا تعلق امور قلبی سے ھے اس لئے باطنی میلان کے بغیر جبراً اس کا تحقق ممکن ھی نھیں ھے مختلف قسم کے اسباب و عوامل انسانی افکار و عقائد میں موثر ھوا کرتے ھیں ۔ اس لئے اصلاح کی خاطر صحیح تعلیم و تربیت اورمنطق و استدالال کی ضرورت ھے ورنہ زبر دستی انسانی خیالات کو بدلنا نا ممکن سی بات ھے ۔ چونکہ اسلام نے لوگوں کو حیرت فکر بخشی اور ھر قسم کے فکری خفقان کو ختم کر دیا اس لئے لوگ بلا کسی جھجھک اور خوف کے اسلام یا کسی بھی آسمانی مذھب کو قبول کر سکتے ھیں ۔ اسی لئے اسلام نے قبولیت اسلام کے لئے کسی بھی قسم کے جبر و ظلم کو جائز نھیں قرار دیا ھے۔
اس تمھید سے یہ بات معلوم ھو گئی کہ اسلام کے ابتدائی جھاد کو دیکہ کرعیسائی مبلغین کا یہ فیصلہ کر دینا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ھے قطعاً حقیقت سے دور ھے۔ ان لوگوںنے جھاد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا قانون جھاد سے اگر یہ غلط نتیجہ نکالا ھے تو جائے تعجب نھیں ھے کیونکہ ان لوگوں کے یھاں سوائے جنگ و جدال ، جبر و استعمار کے علاوہ کچھ ھے ھی نھیں۔حد یہ ھے کہ ان کے مقدسین ، پوپ ، تارک الدنیا قسم کے لوگوں نے عیسائیت کی تبلیغ میں اور غیر عیسائی لوگوں کو عیسائی بنانے کے سلسلے میں وہ ظلم و ستم ڈھائے ھیں جن کے سامنے مغلوں اور تاتاریوں کی سختیاں ھیچ نظر آتی ھیں ۔(۲۸)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مشرکین قریش کے ساتھ جو معاھدہ کیا تھا جس کو صلح حدیبیہ کھا جاتا ھے وہ عربستان میں ایک صلح عمومی اور امن اجتماعی کی داغ بیل ڈالتا ھے اس معاھدے سے اسلامی اور انسانی اصول کا اندازہ لگایا جا سکتا ھے ۔جو لوگ اسلام پر یہ الزام لگاتے ھیں کہ وہ تلوار کے زور سے پھیلا ، یہ معاھدہ ان کا منہ توڑ جواب بھی ھے ۔ اس معاھد ے کی ایک اھم شرط یہ تھی ۔
”مشرکین مکہ کی کوئی بھی فرد اگر بھاگ کر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام کے پاس آجائے اور اسلام قبول کر لے اور اس نے اپنے بزرگ سے اجازت نہ حاصل کی ھو تو رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لازم ھے کہ اس کو مکہ واپس کر دیں لیکن اگر کوئی مسلمان بھاگ کر قریش کے پاس چلا جائے تو قریش اس کو واپس نھیں کریں گے “ ۔کچھ مسلمان معاھدے کی اس دفعہ سے بھت رنجیدہ ھوئے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کھنے لگے آخر قریش کے پناہ گزینوں کو ھم کیوں واپس کر دیں ؟ جبکہ وہ ھمارے پناہ گزیں کو واپس کرنے پر مجبو ر نھیں ھیں تو رسول اسلام نے اس کا جواب اس طرح دیا ۔
اگر کوئی مسلمان قریش کے پاس بھاگ جاتا ھے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ اس نے صدق دل سے اسلام قبول ھی نھیں کیا تھا ۔ ظاھر ھے ایسا مسلمان ھمارے لئے مفید نھیں ھو سکتا اس لئے اس کا جانا ھی بھتر ھے اور ھم اگر قریش کے پناہ گزینوں کو واپس کر دیتے ھیں تو ھم کو اطمینان ھے کہ خدا ان کے نجات کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور پیدا کرے گا ۔ (۲۹)
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمانا :” خدا ان کے نجات کا کوئی راستہ پیدا کرے گا “ بالکل سچ نکلا کیونکہ کچھ ھی مدت کے بعد قریش نے خواھش کی کہ اس دفعہ کو ختم کر دیا جائے ۔
دنیا کے مختلف حصوں میں جنگ و خونریزی کا وجود خود مادی تمدن کے کمزور ھونے کی دلیل ھے ۔ صلح اور جنگ کے مواقع پر اسلام کے کلی اصول و اسباب ایجاد جنگ کو برابر نا پسند کرتے رھے ھیں ۔مادی منافع کی خاطر اور دوسروں کو غلام بنانے کی خاطر متمدن دنیا کی ساری جنگوں کو اسلام برا سمجھتا ھے ۔
جب تک انسانی قدر و قیمت اور دوسروں کے حقوق کا احترام نہ کیا جائے گا دنیا کو صلح و آرام دیکھنا نصیب نہ ھوگا ۔ جس دنیا میں اخلاقی قوانین اور انسانی اصول فراموش کر دئے گئے ھوں اس میں اس سے بھتر وضع کا انتظار نھیں کیا جاسکتا ۔
جب تک ٹیکنالوجی اور مادی تمدن ترقی پذیر رھے گا ، اور لوگ صلح کے بھانے مشغول جنگ رھیں گے ، نئے نئے خطرناک ترین اسلحے ایجاد کرتے رھیںگے اس وقت تک یہ حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ھے کہ بشریت کو اپنے لئے دو راھوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ھوگا ۔تیسرا راستہ نھیں ھے ۔ ایک تو یہ ھے کہ دنیا جنگ کی بھٹی میں جلتی رھے اور اقوام تباہ و برباد ھو جائیں ۔ اور دوسری صورت یہ ھے کہ لوگ خدا پرایمان لے آئیں ۔ ان اخلاقی و انسانی اصول کی پابندی کریں جن کو انبیا ء بشریت کے لئے بطور تحفہ لائے تھے تاکہ دنیا اپنی جسمانی و فکری قوتوں کو راہ فنا میں صرف کرنے کے بجائے خوش بختی کے راستے پر لگائے ۔مختصر یہ ھے کہ انسان یا خدا کو اختیار کرے یا پھر تباھی و بر بادی کو ۔ ھمارا عقیدہ ھے کہ ایک نہ ایک دن بشر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام کی تعلیمات سے آشنا ھو گا اور پھر نیکی و سعادت کے راستے پر چل کر اپنے لئے فائدہ ھی فائدہ حاصل کرےگا کیونکہ بحران ، گمراھی ، تباھی سے مجبور ھو کر انسان ایک دن دامن اسلام میں پناہ لے ھی لے گا ۔ جیسا کہ روسی فلسفی( TALESTVE RUSSE) کھتا ھے کہ شریعت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عقل و حکمت کے موافق ھونے کی وجہ سے آئندہ ساری دنیا پر چھاجائے گی ۔

حوالہ:

۱۔سورہ حج /۳۹۔۴۰
۲۔سورہ بقرھ/ ۱۹۰
۳۔وسائل کتاب جھاد باب ۱
۴۔ سورہ نساء/ ۷۴
۵۔وسائل ج۲ ص ۴۲۱
۶۔ سورہ صف/۴
۷۔ سورہ انفال/ ۶۷
۸۔جنگ و صلح در اسلام ص ۲۱۴
۹۔رسول اکرم در میدان جنگ ص ۹
۱۰۔وسائل ج۲ /ص ۴۲۴
۱۱۔سورہ بقرھ/ ۱۹۱
۱۲۔سورہ مائدہ / ۱۱
۱۳۔سورھٴ مائدہ /۳
۱۴۔سورہ حجرات / ۳
۱۵۔تاریخ عرب ج۲ /ص ۶۳۸
۱۶۔سورہ ممتحنہ آیات ۸۔۹
۱۷۔ وسائل
۱۸۔روح الدین الاسلامی
۱۹۔عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمدصلعم و قران ص ۱۰۵۔۱۰۶
۲۰۔تمدن اسلام و عرب ص ۳۴۵
۲۱۔عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمد صلعم و قرآن ص ۱۳۹
۲۲۔ عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمدصلعم و قرآن ص ۱۳۹
۲۳۔عذر تقصیر بہ پیشگاہ محمدصلعم و قرآن ص ۱۳۳
۲۴۔ جنگ ھائے صلیبی ج۱ ص ۴۷
۲۵۔سورہ بقرھ/ ۲۵۶
۲۶۔سورہ انعام/ ۱۰۴
۲۷۔سورہ غاشیھ/ ۲۲
۲۸۔ اسلام مکتب مبارز ومولد ص۹
۲۹۔ بحار ج ۲۰ ص

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

واقعہ کربلا سے حاصل ہونے والي عبرتيں (حصّہ دوّم )
اہلبیت علیہم السلام کی احادیث میں حصول علم
امام حسین علیہ السلام کا وصیت نامہ
نہج البلاغہ کی عظمت
حدیث معراج میں خواتین کے عذاب کا ذکر
نمازِ شب کتاب و سنّت کی روشنی میں
خطبات حضرت زینب(سلام اللہ علیہا)
یا عورتوں کو بھی پیغمبر[ص] کی نماز کے مانند نماز ...
فلسفہ نماز شب
پيغمبراکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) پيکر صلح و ...

 
user comment