ایک انسان جب کسی عمل کو انجام دینا چاھتا ھے تو اسے یہ حق حاصل ھوتا ھے کہ وہ اس عمل کی غرض و غایت، فلسفہ وحکمت اور اسرار سے واقف ھو کیوں کہ اسکی عقل کسی ایسے عمل کو انجام دینے سے منع کرتی ھے جسکی غرض وغایت ا ورحکمت معلوم نہ ھو ۔ حکمت جانے بغیریا تو وہ سرے سے عمل ھی انجام نھیں دیتا یاپھر کسی جاذبہ اور خوف مثلاً جاذبہٴ بھشت اور خوف عذاب کی بناء پر عمل تو انجام دیتا ھے لیکن اسکے تحت الشعور میں یہ نکتہ بار بار ابھرتا ھے کہ کیا یہ ممکن نھیں تھاکہ اس عمل کو انجام دیے بغیرھی مورد نظرھدف حاصل ھو جاتا اوراس خوف سے نجات مل جاتی ۔در حقیقت اگر انسان کسی عمل کے ا سرار سے واقف نہ ھو تو اسکی دلی تمنّا یہ ھوتی ھے کہ اس عمل کے انجام دئے بغیر ھی اسے بھشت اپنے تمام لوازمات کے ساتھ حاصل ھو جائے اور عذاب جھنّم سے بھی نجات مل جائے۔
یہ بھی ممکن ھے کہ حکم خداکا احترام کرتے ھوئے کوئی کسی عمل کو تعبّداً انجام دے لیکن اس طرح تعبّداً عمل انجام دینے کے لئے بھی شرط ھے کہ عمل کرنے والا ذات خدا کی عمیق معرفت رکھتا ھو ورنہ اسکے تعبّد میں دوام اور تسلسل پیدا نھیں ھو سکتا۔خدا کی معرفت اگرچہ انسان کے لئے باعث بنتی ھے کہ وہ احکام الٰھی کی تعمیل کرے تاکہ حرمت الٰھی ٹوٹنے نہ پائے لیکن اگر خود عمل پر نظر کریں تو جب تک اسکا فلسفہ اور راز معلوم نہ ھو وہ فقط ایک بے کیف ،بے جان اور بے روح عمل ھوتا ھے ۔انسان تعبّداً ایک عمل کو انجا م ضرور دے لیتا ھے لیکن اس عمل کے ثمرات اور اثرات سے محروم رھتا ھے ۔
یہ نکتہ انسان کے لئے بھت اھم ھے کہ جب وہ کسی عمل کو انجام دے رھا ھو مثلاًنماز پڑھ رھا ھو ،روزہ رکہ رھا ھو،انفاق کر رھا ھو ،حج،جھاد،امرباالمعروف و نھی عن المنکر جیسے اھم فرائض کو انجام دے رھا ھو تو وہ ان اعمال کے اثرات،ثمرات اور برکات سے بھی واقف ھو۔وہ یہ جانتا ھو کہ یہ عمل مثلاً نماز اگر اپنے اسرار کے ساتھ پڑھی جائے تو یہ اسکی زندگی میں کتنا بڑا تحوّل وتغیر ایجاد کر سکتی ھے۔ اسرار سے واقفیت انسان کے اندر تحریک ایجاد کرتی ھے اور اس کی ھمّت کو بلند کر دیتی ھے ،پھر وہ کسی بھی حال میں اس عمل کو ترک کرنے پر راضی نھیں ھوتا کیونکہ وہ اس کے ثمرات سے محروم نھیں ھونا چاھتا۔
امام علیعلیہ السلام فرماتے ھیں :
”قَدرُ الرَّجُلِ عَلَی قَدْرِ همَّتِه “(۱)
انسان کی قدروقیمت اور اسکی شناخت خوداسکی ھمتوں کے ذریعے کی جاسکتی ھے ۔ وہ جتنی بلند ھمّت کرتا ھے اتنا ھی بڑا اور قیمتی انسان ھوتا ھے۔ چھوٹے،معمولی اور پست انسانوں کی ھمّتیں بھی چھوٹی اور پست ھوتی ھیں ،جو نہ صرف یہ کہ بڑی ھمّتیں نھیں کر سکتے بلکہ اگر اسکا تذکرہ بھی سنتے ھیں تو خوفزدہ ھو جاتے ھیں اوراپنے دل میں تنگی کا احساس کرنے لگتے ھیں مثلاًبعض افراد اتنے کم ھمّت ھوتے ھیں کہ وہ روزہ رکھنے کی ھمّت ھی نھیں کر پاتے،بعض ھمّت تو کر لیتے ھیں لیکن اگر صبح میں ارادہ کرتے ھیں تو شام میں ٹوٹ جاتا ھے،اور اگر شام میں ارادہ کرتے ھیں تو سحر تک ٹوٹ جاتاھے۔
بعض افراد تھوڑی بلندھمت کرتے ھیں اور روزہ رکہ لیتے ھیں لیکن ذرا سا حلق میں خشکی کا احساس ھوتا ھے اور انھیں یہ فکر لاحق ھوجاتی ھے کہ کسی طرح کوئی ایسا بھانہ ھاتہ آجائے جسکی وجہ سے یہ روزہ توڑاجاسکے ، خواہ وہ حلق کی خشکی سحر کے وقت زیادہ کھا لینے یا زیادہ دیر تک سو لینے کی وجہ سے ھی کیوں نہ ھو ۔
بعض دیگر افراد ذرااورھمت بلند کرتے ھیں اور اپنا روزہ کامل کر لیتے ھیں لیکن دو چار روزے گزرنے کے بعد ھمّت ھار جاتے ھیں ،بعض افراد سردیوں کے موسم کو دیکہ کر اپنی ھمّت کو بلندکرتے ھیں اور پورے مھینے کا روزہ رکہ لیتے ھیں ،لیکن گرمیوں میں ھمّت جواب دے جاتی ھے ،ایسی ھمّت رکھنے والے انسان کو ایک بلند ھمّت انسان نھیں کھا جا سکتا۔کم سے کم امام علی علیہ السلام کی نظرمیں یہ ایک کم ھمّت انسان ھوگا کیوں کہ آپ(ع) کو گرمیوں کے روزے زیادہ عزیزتھے۔
ایک انسان مزید ھمّت کرتا ھے اور اپنے اوپر فرض تمام روزوں کو گرمی وسردی کی پرواہ کئے بغیر رکھتا ھے لیکن روزے کے آداب واسرار سے بے خبر ھوتاھے ،اسکی قسمت میں بھی بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نھیں آتا جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:کَم مِن صَائِمٍ لَیسَ لَه مِنْ صِیَامِه اِلّا الْجُوع وَالظَّمَاء۔ ۔ ۔ ۔ `(۲) کتنے روزہ دار ایسے ھیں جن کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نھیں ملتا‘۔
ایک انسان آداب روزہ کی بھی رعایت توکرتا ھے لیکن اسرار روزہ سے باخبر نھیں ھے لھٰذا اسے بھی ایک بلند ھمّت انسان نھیں کھا جا سکتا،اگرچہ اس کی ھمّت دوسروں کی بہ نسبت کافی بلند ھے لیکن اسکی زندگی روزہ کے اثرات و ثمرات سے بے بھرہ ھے۔ اسکے نصیب میں فقط روزہ کاثواب آتا ھے،اسے جنّت توضرور مل جاتی ھے لیکن خدا نھیں ملتا،اس کی زندگی پر روزے کا کوئی اثر نھیں ھوتا لھٰذاجس طرح ایک نمازی مسجد سے نکل کر فحشاء ومنکر کا مرتکب ھوتا ھے اور اپنے آپ کو طرح طرح کی برائیوں سے آلودہ کر لیتا ھے ،کیوں کہ وہ نماز کے اسرار سے واقف نھیں ھے اور نماز اس کی زندگی پر کوئی اثر نھیں ڈالتی اسی طرح یہ روزہ د ار بھی ماہ رمضان کے بعد یا ممکن ھے خود روزہ ھی کی حالت میں بڑے سے بڑے فردی یا اجتماعی جرم و گناہ کا مرتکب ھو اور اس کی پرواہ بھی نہ کرے کیونکہ وہ فلسفہٴ روزہ سے بے خبر ھے اور اس نے اسرار روزہ کو درک کرنے کی کوشش نھیں کی ،حتیٰ ممکن ھے وہ شب قدر میں بھی کسی بڑے جرم یا خیانت کا مرتکب ھو جائے کیوں کہ وہ اسرار شب قدرسے بے خبرتھا۔
رمضان کے باب میں ایک بلند ھمّت انسان وہ ھے جو روزے کو اسکے آداب اور اسرار کے ساتھ رکھے لیکن یہ آخری حد نھیں ھے ،مقام انسان اتنا بلند ھے کہ اس کی کوئی حد معیّن نھیں کی گئی ھے، و ہ اس سے بھی زیادہ اپنی ھمّت کوبلندکر سکتا ھے اور وہ اس طرح کہ روزے کو اسکے پورے آداب و اسرار کے ساتھ کامل کرے اور جب افطارکاوقت آئے تو اپنی افطارکی روٹیاں فقیر کو دے کر پانی پر اکتفاکر لے اور یہ عمل تین دنوں تک جاری رھے ----”و یطعمون الطعام علیٰ حبه مسکینا و یتیما و اسیرا“ (۳)یھاں پر قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ اس عمل میں ایک غیر معصوم کنیز(فضّھ) بھی شریک ھے جو اس بات کی علامت ھے کہ ایک غیر معصوم انسان بھی اپنے آپ کو ایسے بلند مقام تک پھونچا سکتا ھے جھاں وہ ایک ایسا عمل انجام دے جو معصوم کے لئے بھی فضیلت شمار کیا جاتا ھو۔یہ کسی بھی انسان کے لئے ایک بھت بڑا مقام ھے اور اس اطعام کی لذّت ان روٹیوں کے کھانے سے کھیں زیادہ ھے ۔
روزہ کا ظاھر وباطن
انسان جسم اور روح سے مرکّب ھے،جسم روح کی فعّالیت کا وسیلہ اور روح جسم کی حیات ھے۔اگر جسم سے روح نکل جائے تو جسم مردہ اور بے حرکت ھو جاتا ھے ، اور دوسری طرف روح کی فعّالیت کا سلسلہ متوقّف ھو جاتا ھے ۔انسان کے اعمال وعبادات بھی بالکل انسان کے مانند ھیں ،ان میں بھی ایک جنبہٴ ظاھری وجسمانی ھے یعنی پیکر عمل، اور ایک جنبہٴ باطنی و روحانی ھے یعنی فلسفہ واسرار عمل۔جسطرح انسان کی زندگی اسکی روح میں ھے اسی طرح عمل کی حیات بھی اسکے اسرار اور فلسفہ میں ھے اور جس طرح روح کے بغیر انسان مردہ ھے اسی طرح اسرار و فلسفہ کے بغیر اعمال مردہ ھیں ،لیکن اکثر انسانوں کی مشکل یہ ھے کہ وہ جسم پرست اور ظاھر بین ھیں ،وہ جسم کی زینت اور خدمت میں خود کو اتنا مشغول کر لیتے ھیں کہ انھیں روح کی طرف توجہ دینے کی فرصت ھی نھیں ملتی ۔ یہ پوری انسانیت کی مشکل ھے ،آج کا انسان روح اور روح کے تقاضوں سے بے خبر صرف جسم کی خدمت میں لگا ھوا ھے اور بغیر روح کے جسم کتنا ھی قوی کیوں نہ ھو جائے مردہ ھے۔ آج کے انسانی معاشروں نے بڑی مضحکہ خیز بلکہ بھیانک شکل اختیار کر لی ھے ۔شھر،سڑکیں ،گلیاں ،مکان سب سجے ھوئے ھیں لیکن ان میں حرکت کرنے والے انسان مردہ ھیں ۔جنکی حرکت ایک انسانی حرکت نھیں بلکہ ایک مشین یا روبوٹ کی حرکت کے مانند ھے ،جن کی ساری بھاگ دوڑاس لیے ھے کہ ان کے جسم کی تمام ضرورتیں اور خواھشیں پوری ھو جائیں لیکن اسکی کوئی فکر نھیں کہ روح کا کوئی تقاضا پورا ھویانہ ھو۔تعجب اس بات پر ھے کہ پھر یھی انسان شکایت کرتا ھے کہ معاشرے میں فساد اور جرائم بڑھتے جا رھے ھیں جبکہ اسے معلوم ھے کہ مردہ جسم کو اگر دفن نہ کر دیا جائے تو اس میں تعفّن اور فساد کا پیدا ھونا لازمی ھے۔
ایک سنجیدہ مسئلہ
انسانوں ھی کی طرح انسانی اعمال اور عبادتیں بھی اگر بغیر روح کے انجام دی جائیں تو نہ صرف یہ کہ ان کا انسانی زندگی پر کوئی مثبت اثر نھیں پڑتا بلکہ در حقیقت وہ مزید فساد کا باعث بنتی ھیں ۔تصنّع،ریا کاری ،فریب، تکبّر،اور خود نمائی جیسے اخلاقی مفاسد بعض اوقات انھیں بے روح عبادتوں کے نتیجے میں پیدا ھوتے ھیں جن میں اکثر عباد ت گزار مبتلا ھوجاتے ھیں ۔عبادتوں کے ان نتائج کو دیکہ کر ایک بڑا طبقہ ان سے دور ھو جاتا ھے اور دور ھونا بھی چا ھیے کیونکہ مردہ چیزوں سے ھر شخص دوری اختیار کرتا ھے۔ پھر یہ شکایت کی جاتی ھے کہ جوان نسل مسجد میں نھیں آتی،جوان روزہ نھیں رکھتے اور یہ درست بھی ھے لیکن وہ مسجد میں اس لئے نھیں آتے کیوں کہ انھیں اسرار نماز نھیں معلوم ،وہ روزہ اسلئے نھیں رکھتے کیوں کہ انھیں فلسفھٴ روزہ نھیں بتایا گیا ھے ۔
راہ حل
آج جب کہ پوری بشریت شدّت سے اپنے اندر معنویت اور روحانیت کا خلا محسوس کر رھی ھے او ر دوسری طرف ان بے روح عبادتوں کو قبول بھی نھیں کیا جا سکتا تو ضرورت اس بات کی ھے کہ ان تمام عبادتوں کے اسرار و فلسفے بیان کیے جائیں ، ،لوگوں کو جتنے احکام بتائے جائیں اس سے کھیں زیادہ ان کے اسرار بتائے جائےں ،احکام کا فلسفہ بیان کیا جائے۔
ممکن ھے کوئی یہ راہ حل پیش کرے کہ جو چیز بے روح ھو جائے اسے ترک کردیا جائے لھٰذا یہ بے روح نمازیں ، بے روح روزے ،بے روح حج،بے روح عبادتےں ، بے روح عزاداری،حتّیٰ بے روح دین ان سب کو ترک کر دیا جائے ۔اگر اس ترک کرنے سے مراد یہ ھو کہ ان بے روح عبادتوں اور اعمال کو ترک کر کے زندہ عبادتےں ، زندہ اعمال اور زندہ دین کو اپنایا جائے تو یہ وھی راہ حل ھے جو پھلے بیان کیا گیاھے یعنی ان میں روح پیدا کی جائے ان کے اسرار وفلسفے بیان کئے جائیں ، لیکن اگر اس سے مراد یہ ھو کہ سرے سے دین کو ترک کر دیا جائے،سرے سے عبادتےں ھی نہ انجام دی جائےں ،سرے سے عزاداری ھی نہ کی جائے تو یہ راہ حل ایسا ھے جیسے کوئی کھے کہ آج اکثر انسان اور انسانی معاشرے روحانیت اور معنویت سے خالی ھیں لھٰذاان سب کا خاتمہ کر دیا جائے۔یہ کوئی راہ حل نھیں ھے کہ ابرو سنوارنے میں آنکھیں پھوڑ دی جائیں ۔
اھل مغرب کی روش اور اس کا انجام
اھل مغرب نے بجائے اصلاح کے ترک کی روش کو اختیار کیا یعنی انھیں منحرف شدہ عیسائی مذھب ،ساکت، جامد ،بے ھدف اور بے روح نظر آیاتو بجائے اسکے کہ وہ دین کو زندہ ،متحرک اور باھدف بناتے انھوں نے اسے ھی ترک کر دیا۔ انھیں مسیحی عبادتےں کھوکھلی اور بے جان نظر آئیں تو بجائے اسکے کہ وہ عبادتوں کوغنی کرتے انھیں سرے سے ترک کر دیا ،انھیں کلیسا کی روحانیت میں خرافات نظر آئے توبجائے اسکے کہ خرافات کو ھٹا کر اسکی جگہ عمیق معنویت کو جاگزیں کرتے انھو ں نے سرے سے کلیسا اور روحانیت کو ترک کر دیا جسکے نتیجے میں اب وہ ایک متمدّن حیوان بن کر مادّیت کے پیچھے تیزی سے بھاگ رھے ھیں ۔انھوں نے شکم پرستی ،جسم پرستی اور شھوت رانی کا مقابلھ(Competition)شروع کر رکھا ھے اور بشریت کو ایک ایسے موڑ پر پھونچا دیا ھے کہ اس کی ھلاکت کے آثار بھت صاف نظر آنے لگے ھیں اگرچہ علوم وفنون میں آج کے انسان کی ترقی بھی بھت صاف نظر آتی ھے لیکن دین و معنویت سے خالی اس ترقی کے تحفے بھت جانسوز اور دردناک ھیں ۔پھلی اور دوسری جنگ عظیم سے لیکر فلسطین ،افغانستان،اور عراق میں ھونے والی بربریت اور درندگی کے تمام مناظراسی ترقی کے ارمغان ھیں ۔
اھل مغرب نے جس راہ حل کا انتخاب کیا آج دنیائے انسانیت کو اسکی بھت بڑی قیمت ادا کرنی پڑرھی ھے اور ابھی مزید تلخ سے تلخ ترحالات سے دو چار ھونا پڑے گا،جسکی وجہ یہ ھے کہ انھوں نے قرون وسطیٰ (middle ages)کی بے جان مسیحیت سے تنگ آ کرجو طریقہ اپنایا وہ سرے سے راہ حل ھی نھیں تھا بلکہ وہ ایک مشکل سے فرار تھا جس نے اور بڑی مشکل میں گرفتار کر دیا۔
دین اور معنویت کے بغیر انسان اندر سے بالکل کھوکھلا ھو گیا ھے اگرچہ اسکا ظاھر بھت حسین ھے اور اب اس مشکل کا حل یہ ھے کہ انسان پھر دین کی طرف پلٹے لیکن ایک ایسے دین کی طرف جو زندہ ھو ،جسکے پاس انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے لئے لائحہ عمل موجود ھو۔ آج انسان کی بھلائی اسمیں ھے کہ وہ پھر خدا کی طرف پلٹے لیکن ایسے خدا کی طرف جس نے اپنے تمام امور راھبوں اور راھب صفت ملّاؤں کے سپرد نھیں کر دیئے ھیں بلکہ تدبیر عالم اسکے ھاتھوں میں ھے،آج انسانیت کا سکون و اطمینان اسمیں ھے کہ وہ پھر سے عبادت خدا اور ذکر خداکی طرف پلٹے”اَلا بِذِکْرِاللّٰه تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ“ (۴)لیکن ایسی عبادت اور ایسا ذکر جس میں اسرار ،فلسفہ اور حکمت موجود ھو اور انسان اس کے اسرار و فلسفہ سے واقف بھی ھو ورنہ نادانی کی دینداری ، اور اسرار و فلسفہ سے خالی اعمال وعباتیں بعض اوقات بے دینی اور بے عملی سے زیادہ مضر ثابت ھوتی ھیں ۔
قرآن میں روزہ کا حکم
قرآن نے جس آیھٴ کریمہ میں روزے کا حکم بیان فرمایا ھے اسی آیت میں دو مطلب کی اور بھی وضاحت کی ھے ۔اوّل یہ کہ روزہ ایک ایسی عبادت ھے جسے امّت مسلمہ سے قبل دیگر امّتوں کے لیے بھی فرض قرار دیا گیا تھا”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“(۵)یعنی روزہ کے ذریعے انسان کو جوھدف حاصل کرنا ھے وہ امّت مسلمہ سے مخصوص نھیں ھے بلکہ دیگر امتوں کے لیے بھی تھا ۔
یھاں طبیعی طور پر انسان کے ذھن میں یہ سوال اٹھتا ھے کہ وہ ھدف کیا ھے ؟اور حکم روزہ کا فلسفہ کیا ھے ؟اسمیں کون سے اسرار اور رموز پوشیدہ ھیں جنکی بنا پر اسے نہ صرف امّت مسلمہ بلکہ اس سے قبل دیگر امتوں پر بھی واجب قرار دیا گیا ؟ان سوالوں کے جواب کے لیے قرآن نے اس آیت کے آخری حصّہ میں روزہ کا فلسفہ بیان کیا ھے ۔” لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون “ تاکہ شاید تم صاحب تقویٰ بن جاوٴ۔ پس ایک ھی آیت میں قرآن نے تین چیزیں بیان کی ھیں :
ایک روزہ کا حکم کہ تم پر روزہ واجب ھے ”کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ“(۶)
دوسرے سابقہ امّتوں کا تذکرہ کہ ان پر بھی روزہ واجب تھا ”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“(۷)تا کہ جن افراد کے لئے یہ حکم سخت اور ناگوار ھو وہ نفسیاتی طور پر اسے آسان اور قابل عمل محسوس کریں ۔
تیسرے روزے کا فلسفہ ”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون “ تا کہ انسان کی نظر فقط روزہ کے ظاھر پر نہ ھو بلکہ وہ اسکی حقیقت اور روح تک پھونچ سکے ،روزے کے اسرار کو درک کر کے اسکے اھداف کو حاصل کر سکے ۔
روزہ انسان کی روحانی اور جسمانی تربیت کے لیے ھے لھٰذا اس آیت کا لھجہ بھی نھایت مشفقانہ ھے ۔جس طرح ایک ماں اگر اپنے مریض بچّے کو کوئی ایسی تلخ دوا پلانا چا ھے جس کے بغیر اسکا علاج ممکن نہ ھو تو وہ پھلے بچّے کو پیار سے بلاتی ھے پھر اسے نھایت نرمی کے ساتھ دوا پینے کو کھتی ھے ،دوسرے بچّوں کی مثال دیتی ھے پھر اسکے فوائد بیان کرتی ھے کہ اگر دوا پی لو گے تو بالکل ٹھیک ھو جاؤ گے ۔
قرآن نے فرمایا ”یَا اَیُّهاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا“صاحب ایمان کھہ کر ایک محترمانہ لھجے میں خطاب کیا،پھر نرمی سے حکم بیان کیا -”کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَام “تم پر روزہ لکہ دیا گیا ھے ، ”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“جس طرح تم سے قبل دیگر امّتوں پر بھی فرض کیا جا چکا ھے ،اسکے بعد روزے کی غرض ،غایت اور فلسفہ بیان کیا ”لعلّکم تتّقون “(۸)تاکہ انسان نہ صرف یہ کہ اس عمل میں تلخی محسوس نہ کرے بلکہ فلسفہ اور اسرار سے واقف ھونے کے بعد اسی سخت اور دشوار عمل میں اسے لذّت کا احساس ھونے لگے۔
فلسفہ بیان کرنا اس لئے بھی ضروری ھے کیوں کہ ممکن ھے انسان کے ذھن میں اور بھت سے سوال اٹھیں اور اگر ان سوالوں کو صحیح جواب نہ ملے تو وہ سوال اعتراض کی شکل میں تبدیل ھو جائیں مثلاً:
(۱)روزہ رکھنے کی صورت میں انسان کو معمول کی زندگی ترک کرنی پڑتی ھے جو اس کے لئے سخت ھے۔
۲) ۔۔۔۔۔ روزہ رکھنے سے انسان ضعیف ھو جاتا ھے ۔
۔۔۔۔۔ دن بھر کی بھوک اور پیاس اگر نا قابل برداشت نھیں توناگوار اور سخت ضرور ھے ، ۔۔۔۔۔ کھانا اور پانی انسانی جسم کا تقاضا ھے جو اسے ملنا چاھیے۔
اپنی محنت سے حاصل کی ھوئی حلال چیزیں انسان پر کیوں حرام ھو جاتی ھیں ؟
(۳)یوں تو تمام عبادتوں میں پابندیاں ھیں لیکن رمضان میں انسان ایک مھینے تک شدید قسم کی پابندیوں میں مقیّدھو جاتا ھے۔
(۴)ایک اعتراض جو روزہ کے علاوہ تمام عبادتوں بلکہ پورے دین پر کیا جاتا ھے وہ یہ کی اگر دین اوراحکام ِدین مطابق فطرت ھیں تو ان کو انجام دینے میں سختی و ناگواری کا احساس کیوں ھوتا ھے؟
(۵)اگر انسان روزہ نہ رکھے تو اس کے اندر کون سا نقص پیدا ھو جاتا ھے؟
مندرجہ بالا سوالات و اعتراضات پر گفتگو کرنے سے پھلے اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے کہ اسطرح کے سوالات اور اعتراضات در حقیقت روزہ کے اسرار و فلسفہ سے ناواقفیت کی بنا پر ھیں لھٰذا ابتداء ً مذکورہ اعتراضات و مسائل پر گفتگو کے دوران انشاء اللہ بعض اسرار بیان کئے جائیں گے ،اسکے بعد روزہ کے بقیہ اھم اسرار میں سے ان بعض اسرار کی طرف اشارہ ھو گا جو قرآن و احادیث میں بیان ھوئے ھیں ۔
ترک معمولات یازندگی کی یکسانیت سے نجات ؟
روزے پر ایک سنجیدہ قسم کا اعتراض یہ ھے کہ روزہ رکھنے سے انسان کی زندگی کے معمول(Routine)میں خلل(Disturbance)ایجاد ھو جاتا ھے اور اسکی روزمرّہ زندگی موجودہ نظم (Discipline)سے خارج ھوجاتی ھے لھٰذا بھت سے افراداپنے روزہ نہ رکھنے کی وجہ یہ بتاتے ھیں کہ ھمارے کام کی نوعیت اس طرح کی ھے کہ ھم روزہ نھیں ر کہ سکتے اور اس طرح اپنے آپ کو مطمئن کر لیتے ھیں ،بلکہ بعض اوقات اس بات پر افتخار کرتے ھیں کہ ھم اھل کسب و کار ھیں ،ھماری زندگی کا ایک معمول ھے جسے ترک کر کے روزہ رکھنا ھمارے لئے سخت یا ناممکن ھے گویا وہ دبے لفظوں میں یہ تاثر دینا چاھتے ھیں کہ روزہ رکھنا یا اس طرح کے دیگر امور کو انجام دینادر حقیقت ھمارے لئے مناسب نھیں ھے بلکہ یہ ریٹائرڈ اور بے کسب و کار لوگوں کے لئے ھے جن کے پاس ان کو انجام دینے کے لئے کافی مقدار میں وقت موجود ھوتاھے ۔
اب اگر ھم انسان کی اس ذھنیت کی تحلیل (Analyse)کریں اور تلاش کریں کہ اس میں یہ تفکّر کھاں سے پیدا ھواتو معلوم ھوگا کہ یہ طرز فکر در حقیقت روزہ اور اسکے علاوہ دیگر بھت سی عبادتوں کے ایک بھت ھی اھم فلسفہ اور راز سے نا آگاھی کا نتیجہ ھے اور وہ ھے روز مرّہ زندگی اورمعمولات کے زندان سے نجات ،جسکی وضاحت کے لئے ایک مختصر سی گفتگو ضروری ھے ۔
انسان اپنی زندگی میں ایک طرح کے خود ساختہ معمولات (Routine)اورروز مرّہ عادتوں کے ایک دائرے (Circle)میں گرفتار ھے اور معمولات کا یہ دائرہ اتنا مضبوط ھے کہ یہ انسان کو باھر جانے کی اجازت نھیں دیتا ۔ھر طبقے کے لئے اپنی روزمرّہ زندگی کی عادتوں کا ایک خاص دائرہ ھے ،تاجروں کا اپنا الگ دائرہ ھے ،سروس پیشہ افراد کا الگ،ٹیچرس(Teachers)کا الگ ،اسٹوڈنٹس(Students)کا الگ اور کسانوں کا الگ بلکہ یہ کھا جا سکتا ھے کہ ھر انسان کا اپنا مخصوص دائرہ ھے ، لیکن ایک چیزسب میں مشترک ھے کہ سب کے سب اپنی ان روز مرّہ عادتوں کے دائرے میں سختی سے گرفتار ھیں ،مثلاًصبح اٹھ کر ناشتہ کرنا پھررزق کے انتظام میں بازار،آفس،کھیت یا کسی تعلیمی وغیر تعلیمی ادارے کی طرف چلے جانا، وھاں بھی کچھ معمول کے کام انجام دینا ،واپس آکر کچھ روز مرّہ کے امور انجام دینا مثلاً کھانا پینا،چند لوگوں سے کچھ محدوددائرے میں باتیں کرنا،ٹیلی ویژن وغیرہ دیکھنا اور پھر نیند کی آغوش میں چلے جانا تاکہ تر و تازھ( Refreshed and Recharged)ھو کر پھر کل اسی معمول( Routine )میں مشغول ھوجائیں ۔
اسطرح انسان کی زندگی ایک مثلث (triangle)کے گرد چکّرلگا رھی ھے جس کے تین زاویوں میں سے وہ کسی ایک زاویے پر اپنا قیمتی وقت گذار رھا ھوتا ھے۔
(۱)کھانے کے لئے مواد فراھم کرنا۔
(۲)فراھم شدہ مواد کو کھانا۔
(۳)مزید مواد فراھم کرنے کے لئے استراحت کرنا۔
یہ سو فیصد ایک حیوانی نظام زندگی (system of life)ھے اور اس میں اگر کچھ چیزیں اور اضافہ کر لی جائیں مثلاًاس مثلث سے بچے ھوئے وقت اور اسباب کو اگر وہ اپنی پسندیدہ تفریح ،عیّاشی اور خود نمائی میں گزارے تو حیوانی زندگی سے کھیں زیادہ بد نما صورت حال پیدا ھو جاتی ھے ۔وہ انسان جسے مسجود ملائکہ بننے تک کا سفر طے کرنا تھا اسکی ایک عجیب و غریب تصویر بن جاتی ھے اور حیرت اس بات پر ھے کہ پھر وہ اسی زندگی پر افتخار کرتا ھے کہ ھماری مشغولیت اجازت نھیں دیتی کہ ھم کسی ایسے عمل کو انجام دیں جو ھمارے معمول (Routine)سے خارج ھو۔
حکم روزہ اور اس کے علاوہ اور بھت سے احکام کا ایک بڑامقصد اور فلسفہ یہ ھے کہ انسان کو اسکی روزمرّہ عادتوں کے نھایت تنگ اور محدود دائرے سے خارج کیا جائے ۔اس اخراج کے کچھ اھم اھداف ھیں جو ذیل میں بطور اشارہ مختصراً بیان کیے جارھے ھیں ۔
(۱)۔خود شناسی
روزمرّہ زندگی کی گرفتاریاں انسان کو اجازت نھیں دیتی تھیں کہ وہ اپنے اندر جھانک کر دیکھے اور اپنے آپ کو پھچاننے کی کوشش کرے ۔اب اسے روزہ کے ذریعے اپنے روٹین سے نکالا گیا ھے تا کہ اپنے آپ کو پانے کی کوشش کرے، اپنے اندر جھانک کر دیکھے کہ اسے اتنی قوّتوں ،صلاحیتوں اور استعداد(Abilities)کے ساتھ کیوں پیدا کیا گیا؟
(۲)۔جھان شناسی
انسان اپنے باھر کی دنیاکو دیکھے کہ اتنی وسیع کائنات اور اس میں موجود لا محدود نعمتیں کس لئے ھیں اور ان سب کو کیوں انسان کی خدمت میں قرار دیا گیا ھے؟
(۳)۔ھدف شناسی
انسان اگر اپنے اندر موجود صلاحیتوں و قوتوں اور اس عظیم کائنات کی وسعتوں کو کسی حد تک پھچان لے گا تو لا محالہ اپنی منزل اور اپنے اھداف کو بھی پھچان لے گا کہ ان فوق العادّہ صلاحیتوں اور ان بے شمار نعمتوں کے ذریعے اسے کن اھداف تک پھونچنا ھے، پھر ایک خود شناختہ انسان کی حرکت کا رخ اس مذکورہ شھوانی مثلث کی طرف نھیں ھو گا کیونکہ یہ شھوات وخواھشات خدا نے انسان کے اندراس لئے رکھی ھیں تا کہ یہ ناقص مخلوق اپنے اندر تکامل پیدا کر سکے مثلاً شھوت جنسی کو اس لئے قرار دیاھے تا کہ انسان وجود میں آسکے یعنی اسکے ذریعے تولید نسل کا سلسلہ جاری رھے ۔خواھش آب و غذا اس لئے رکھی گئی تا کہ انسان انھیں استعمال کر کے اپنے آپ کو باقی رکہ سکے لیکن صرف تو لید نسل اور اپنے وجود کی بقاھی انسان کا کل ھدف نھیں ھے ،بلکہ اسکا اصل ھدف اپنے اس ناقص وجود کو کمال تک پھونچانا ھے ۔اسطرح خود شناسی ،جھان شناسی اور ھدف شناسی کے بعد انسان کی حرکت کا رخ کمالات کی طرف مڑ جاتا ھے جو اسکے اندر کا ایک فطری تقاضا ھے ۔
(۴)۔خدا شناسی
کسب کمالات بھی انسان کا آخری ھدف نھیں ھے ۔اسکا آخری ھدف ان کمالات سے متصّف ھو کر کمال مطلق یعنی ذات خدا تک پھونچنا ھے ----”یَا اَیُّها الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلَی رَبِّکَ کَدْحاً فَمُلَاقِیْه“(۹)انسان کا سفر خدا کی طرف ھے اور اسے خدا سے ملاقات کرنی ھے ۔یہ انسان کا نھائی ھدف (Last Target)ھے،یہ ھدف کثرت عبادات سے نھیں بلکہ عبادات کے باطن اور اسرار سے حاصل ھوتا ھے ،عبادات کا باطن اپنی تطھیرکرکے کمالات کو حاصل کرنا ھے ،پس انسان اپنے عمل کے ذریعے جتنا پاکیزہ اور با کمال ھو گا اتنا ھی ذات خدا سے قریب ترھوگا”اِلَیْہ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُھ“(۱۰)خدا کی طرف پاکیزہ نفوس بلند ھوتے ھیں اور ان کے بلندکرنے کا وسیلہ اسکے اعمال صالحہ ھیں ۔عمل صالح یعنی ایسا عمل جس میں انسان کو باکمال اور بلند کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ھو ،اسطرح خودشناسی و جھان شناسی انسان کو ھدف شناسی اور کمال طلبی کے راستے سے خدا شناسی تک لے آتی ھے ۔
روزہ در حقیقت خود شناسی سے خدا شناسی تک سفر کرنے کی ایک مشق ھے اورایک مھینہ مشق کرنے کے بعدانسان کو پورے سال اسی سفر کو جاری رکھنا ھے۔
(۵)۔دشمن شناسی
اس سفر کی راہ میں ایک بھت قوی اورنامرئی دشمن بھی موجود ھے جس نے خدا کی عزّت کی قسم کھا کر اعلان کیا ھے کہ صراط مستقیم پر بیٹھ کر اس راہ کے مسافروں کو گمراہ کرے گا”۔ ۔ ۔ ۔ لَاَقْعُدَنَّ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لَآتِیَنَّهمْ مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهمْ وَمِنْ خَلْفِهمْ وَ عَنْ شَمَائِلِهمْ ۔ ۔ ۔ ۔“(۱۱) صراط مستقیم پر بیٹھ کرمیں بندگان خدا کو ھر سمت سے گمراہ کروں گا، لھٰذا ایسے دشمن کی عمیق شناخت کے بغیرانسان اس سفر کو طے نھیں کر سکتا ،یہ ایک ایسا دشمن ھے جسکا سب سے بڑا اسلحہ خود انسان کے اندر موجود ھے ”اعدی عدوک نفسک التی بین جنبک“(۱۲)تمھارا سب سے بڑا دشمن خودتمھارا نفس ھے جوخود تمھارے اندر موجود ھے ،یہ شیطان کا اندرونی اسلحہ ھے ، اور اگر اپنے وجودسے باھر نگاہ کریں تو اسکے فراوان لشکر موجود ھیں جن میں انسان اور جنّات دونوں شامل ھیں ”من الجنّة و النّاس “(۱۳)پس اتنے بڑے دشمن جن کا قرآن نے ”عدو مبین“ (۱۴)کہہ کرتعارف کرایا،کے ھوتے ھوئے اس سفر کو طے کرنا بھت آسان نھیں ھے ۔
آج شیطانی طاقتوں نے میڈیا ،سٹ لائٹ ،انٹرنیٹ اور یوروپین کلچر کے ذریعے انسان سے اسکے کمال کا راستہ چھین لیا ھے آج کا انسان یہ اچھی طرح محسوس کر رھا ھے کہ انٹرنیٹ کے عھد کی نسلیں انسانی اقدار (Human Values)سے خالی ھوتی جا رھی ھیں مثلاًغیرت ایک قدر (Value)ھے جو انسان کے کمال میں دخیل ھے لیکن ایک جوان جس نے ساری رات انٹرنٹ کی فحش سائٹوں میں گزاری ھے اسے اگر صبح کے وقت عراق کے ابو غریب جیل کی تصویریں دکھائی جائیں تو اسے ذرا بھی غیرت نھیں آتی ،جبکہ انسانی غیرت کا معیار یہ ھے کہ لشکر معاویہ نے یمن میں یھودی عورت کے پیروں سے پازیب اتارا تو امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اس عمل پر ایک انسان غیرت سے مر جائے تو وہ اسکا مستحق ھے ۔(۱5)
روزہ کا ایک فلسفہ یہ ھے کہ انسان اس مھینہ میں اپنے ان دشمنوں کے خلاف آمادہ ھو جنھوں نے اس سے اس کے تکامل کا راستہ چھین لیا ھے ،دشمن سے مقابلہ کرنے اور اس پر غلبہ پانے کے لئے صبر و استقامت کی مشق کرے ،شیطانی فریب سے بچنے وھوائے نفس پر غالب ھونے کے لئے جھاداکبر کی مشق کرے ، شایداسی لئے اس مبارک مھینے میں شیطان کو سخت زنجیروں میں مقیّد کر دیا جاتا ھے تا کہ انسان کی اس آمادگی میں رکاوٹ ایجاد نہ کر سکے ۔
یھیں سے اب ھم دوسرے سوال کی طرف متوجہ ھوتے ھیں کہ کیا روزہ انسان کے اندر ضعف ایجاد کرتا ھے ؟
ضعف یا قوت؟
یہ درست ھے کہ حالت روزہ میں انسان کو بعض اوقات نقاھت کا احساس ھوتا ھے جو پیا س اور گرسنگی کا ایک طبیعی تقاضا ھے ،اسی نقاھت کو بعض افراد ضعف سے تعبیر کرتے ھیں جبکہ ضعف اورنقاھت میں فرق ھے ۔نقاھت ایک وقتی احساس ھے جو بھت جلدی ختم ھو جاتا ھے بلکہ انسان اگر اسرار و فلسفھٴ روزہ سے واقف ھو توشدیدترین گرمیوں کے روزے میں بھی اسے بجائے سستی اور نقاھت کے لذّت ،نشاط اور طمانینت کا احساس ھوتا ھے جیسا کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے منقول حدیث میں بیان ھواھے کہ آپ گرمیوں کے روزوں کوبے حد عزیز رکھتے تھے۔
یہ بھی درست ھے کہ روزہ بعض افراد کے لئے جسمانی ضعف کا بھی باعث بنتا ھے لیکن جسمانی ضعف اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ اس سے ا نسان بھی ضعیف ھو جائے---- بلکہ ممکن ھے کہ اس جسما نی ضعف کے باوجود انسان خود کو عزم و ارادے اور استقامت کے لحاظ سے اتنا قوی کر لے کہ جسمانی ضعف اسکے عزم و ارادے کی راہ میں رکاوٹ ایجاد نہ کر سکے کیونکہ یہ بات علمی اور تاریخی شواھدکے اعتبار سے مسلّم ھے کہ مضبوط عزم و ارادے کے سامنے جسمانی تھکاوٹ یا ضعف مانع ایجاد نھیں کر سکتا ۔اس کے بر خلاف جسم کتنا ھی قوی کیوں نہ ھو لیکن عزم و ارادے کی سستی اسکے حوصلوں کو سرد کر دیتی ھے اور انسان عمل کے میدان میں پیچھے رہ جاتا ھے ۔ پس روزہ ممکن ھے بعض افراد کے لئے وقتی ضعف کا سبب بنے لیکن دوسری طرف یھی روزہ انسان کے اندر صبر ،تحمّل،استقامت ،قوت برداشت اور قوت عزم و ارادہ پیدا کرتا ھے ۔ان معنوی قوتوں کے حاصل ھونے کے بعد جسمانی ضعف کسی طرح کی رکاوٹ ایجاد نھیں کر سکتا اور انسان کی بلند رو ح جسمانی ضعف پر غالب آجاتی ھے ۔یہ اس صورت میں ھے کہ جب یہ فرض کیا جائے کہ روزہ رکھنے سے جسمانی ضعف پیدا ھوتا ھے ورنہ حقیقت یہ ھے کہ روزہ انسان کو جسمانی اعتبار سے سالم اورمتعدد قسم کے امراض سے محفوظ کر دیتا ھے۔
یھیں سے ھمیں تیسرے اور چوتھے سوال کا جواب بھی مل جاتا ھے اور وہ یہ کہ آب و غذا اگر چہ جسم کا تقاضا ھے اور عام حالات میں انسان کے لئے بھوک اور پیاس ناگوار اور سخت ھوتی ھے ،لیکن مذکورہ اھداف وفوائد اور بعد میں بیان ھونے والے عظیم اسرار کی خاطر انسان کے لئے یہ ناگوار چیز نھایت عزیز، لذّت بخش اور پسندیدہ ھوتی ھے یھاں تک کہ وہ عاشق اور محب روزہ ھو جاتا ھے جس طرح امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور نماز کے لئے فرمایاتھا کہ خداجانتا ھے ” اِنِّی اُحِبُّ الصَّلَوٰةَ “ (۱۶) میں عاشق نماز ھوں یا امام سجاد علیہ السلام ماہ رمضان کے آخر میں شدید ترین گریہ کے عالم میں اس مبارک مھینہ کو الوداع کرتے ھیں :
” اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَکْرَمَ مَصْحُوبٍ مِنَ الْاَوْقَاتِ “(۱۷) اے کریم ترین ساتھی تجھ پر سلام ۔
روزہ کے ان اھداف کو دیکھتے ھوئے انسان بھت خوشی کے ساتھ اپنے ھاتھوں سے حاصل کی ھوئی حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیتا ھے جس طرح ایک طبیب کے مشورے پر انسان بھت سی حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیتا ھے حتّیٰ ضرورت پڑنے پر قطع اعضا اور آپریشن کے لئے بھی تیار ھوجاتا ھے بلکہ اس عمل کے لئے ڈاکٹر کو بڑی سے بڑی مقدار میں اجرت دیکر بعد میں شکر گزار بھی ھوتا ھے ۔
حلال چیزوں کے حرام ھونے کا ایک اور بڑا مقصد وھی ھے جو پھلے بیان ھوا یعنی زندگی کی یکسانیت سے نجات تاکہ انسان ان روزمرّہ عادتوں کے زندان سے نکل کر بلند امور و معارف کی طرف متوجہ ھو سکے ۔
آزادی یا پابندی؟
انسان کے ذھن میں اٹھنے والے سوالوں میں سے ایک اھم سوال یہ تھا کہ روزہ کے وقت انسان شدید پابندی کی حالت میں ھوتا ھے اور یہ درست بھی ھے لیکن یہ بھی درست ھے کہ انسان کو بلند اھداف تک پھونچنے کے لئے اپنے اوپر پابندیاں عائد کرنی پڑتی ھیں ۔ پابندیاں اگر چہ سخت ھوتی ھیں لیکن بغیر پابندی کے کوئی ھدف اور کمال قابل حصول نھیں ھے ۔
ایک طالب علم ، دانشمند اور فنکار کو اپنے بلند اھداف تک پھونچنے کے لئے اپنے اوپر سخت پابندیاں عائد کرنی پڑتی ھیں جنمیں سر فھرست وقت کی پابندی ھے ۔اس کے علاوہ بھت سی حلال چیزیں اپنے اوپر حرام کرنی پڑتی ھیں ورنہ کامیابی حاصل نھیں ھوتی ۔
خاندان ، قبیلہ ،شھر ، ملک اور دنیا کو ھرج و مرج سے بچانے کے لئے انسان کو اپنے اوپر خاندانی ، قبائلی ، شھری ، ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی پابندیاں عائد کرنی پڑتی ھیں ۔ اسی طرح دین و شریعت اورانکے احکام بھی ایک پابندی ھیں جنکے دو ھدف ھیں :
۱۔ انسان کو فردی و نفسیاتی مشکلات اور اجتماعی ھرج ومرج سے محفوظ رکھنا ۔
۲۔ انسان کے اندر مادی و معنوی ،جسمانی و روحانی اور فردی و اجتماعی تکامل پیدا کرنا ۔
روزہ بھی دیگر احکام دین کی طرح ایک پابندی ضرور ھے لیکن ایک ایسی پابندی جو ایک طرف انسان کے اندر تکامل پیدا کرتی ھے اور دوسری طرف اسکو بھت سے نقائص ،رذائل اور شھوات کے زندان سے آزاد کر دیتی ھے ۔
انسان کےلئے سب سے محکم زندان خود اسکے نفسانی ھویٰ و ھوس اور خواھشات ھیں اور حقیقت میں آزاد انسان وہ ھے جس نے اپنے آپ کو اس زندان سے آزاد کر لیا ھو۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ھیں :
” مَنْ تَرَکَ الشَّهوَاتِ کَانَ حُرّاً“(۱۸)
جو اپنی خواھشات کو ترک کرنے میں کامیاب ھو جائے وہ ایک آزاد انسان ھے
اورروزہ اپنے اسرار کے ساتھ رکھا جائے تو اسکا سب سے بڑا اثر یہ ھے کہ وہ انسان کو نفسانی خواھشات سے آزاد کر کے بلند اھداف کی طرف متوجہ کر دیتا ھے ۔
فطرت کے تقاضے
ایک سوال انسان کے ذھن میں بارھا اٹھتا ھے کہ دین اور احکام دین اگر فطرت انسانی کے مطابق ھیں جیسا کہ منابع دینی اس بات کا دعویٰ کرتے ھیں تو پھر انسان کو دینداری اور احکام دین پر عمل کرنے میں تکلیف اور بعض اوقات ناگواری کا احساس کیوں ھوتا ھے خاص کر روزہ میں یہ احساس مزید بڑھ جاتا ھے ۔ شریعت نے بھی ان احکام کو تکلیف سے تعبیر کیا ھے جبکہ فطری چیزیں انسان کو ناگوار نھیں گزرتیں ۔ اس سوال کے جواب میں دوباتیں قابل توجہ ھیں :
۱۔ فطری چیزیں
انسان کو اس وقت تک عزیز ھوتی ھیں جب تک اس نے اپنی فطرت پر غیر فطری چیزیں تحمیل نہ کی ھوں یعنی فطرت جب تک سالم ھوتی ھے وہ مسلسل اپنے فطری تقاضے جاری رکھتی ھے لیکن اگر فطرت پرمسلسل غیر فطری چیزیں تحمیل کی جائیں تو وہ اپنے تقاضے ترک کر دیتی ھے مثلا خدا پرستی انسان کی فطرت میں داخل ھے لیکن مسلسل غیر خدا سے وابستگی کے نتیجے میں انسان کی فطرت ضعیف ھو جاتی ھے بلکہ ایک منزل وہ آتی ھے جب فطرت کی موت ھو جاتی ھے اوراس حالت میں آنے کے بعد پھر اسے دوبارہ فطرت تک پلٹانا تقریبا نا ممکن ھو جاتا ھے لھذا قرآن نے رسول(ص) کو منع کیا کہ اس گروہ کے لئے اپنے دل کو رنجیدہ نہ کریں کیونکہ یہ ایمان لانے والے نھیں ھےں ۔ ” سَوَاءٌ عَلَیْهمْ ءَ اَنْذَرْتَهمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهمْ لَا یُوٴمِنُون “ (۱۹)۔
جس طرح طبیعت پر جب غیر طبیعی چیزیں تحمیل کی جانے لگیں تو طبیعت اپنی طرف سے مزاحمت کرنا ترک کر دیتی ھے اور اسی غیر طبیعی چیز کو نہ صرف قبول کرلیتی ھے بلکہ اسکو پسند بھی کرنے لگتی ھے اور اسی میں لذت محسوس کرتی ھے مثلاً سگریٹ ، شراب و دیگر نشہ آور اشیاء یا بھت سی غذائیں ،جنکے غیر طبیعی ھونے کی دلیل یہ ھے کہ انسان جب انھیں پھلی مرتبہ استعمال کرتا ھے تو سخت ناگواری کا احساس کرتا ھے لیکن کچھ دنوں بعد انھیں چیزوں میں لذت محسوس کرنے لگتا ھے۔
۲۔ دوسری بات
یہ ھے کہ دین مطابق فطرت ھے، نہ مطابق طبیعت ، لیکن چونکہ ھمارے اذھان میں طبیعت و فطرت کے مفھوم میں خلط واقع ھو گیا ھے اور ھم نے فطرت و طبیعت میں تمیز نھیں کی ھے لھذا فطری تقاضوں کو طبیعی تقاضوں کے تناظر میں دیکھتے ھیں جبکہ فطری تقاضے طبیعی تقاضوں کی بالکل ضد ھیں طبیعی تقاضے یعنی انسان کے جسم اور مادی وجود کے تقاضے اور فطری تقاضے یعنی انسان کی روح اور معنوی وجود کے تقاضے ۔ چونکہ انسانی جسم کے اندرجمادی ، نباتی اور حیوانی پھلو پایا جاتا ھے لھذا اسکے اندر جمادی ،نباتی اور حیوانی تقاضے بھی پائے جاتے ھیں مثلا انسانی جسم کے جمادی پھلوکا تقاضا یہ ھے کہ انسان اپنی جگہ پڑا رھے، کوئی حرکت نہ کرے ، رات دن صبح و شام ھر وقت صرف آرام اور استراحت کی فکر میں ھو۔ جسم کے نباتی پھلوکا تقاضا یہ ھے کہ انسان اپنے جسم میں اضافہ کرتا رھے ،وہ خود اپنی جگہ قائم ھو اور دوسرے اسکے لئے مناسب غذا ئیں فراھم کرتے رھیں ۔ جسم کے حیوانی پھلوکا تقاضا یہ ھے کہ وہ اپنے لئے پسندیدہ غذائیں فراھم کرے، اپنی محبوب غذا کے سراغ میں وہ مسلسل حرکت کرتا رھے ، غذا ملنے پر کھائے اور اسے ھضم کرنے کے بعد مزید غذا کی تلاش میں نکل پڑے ۔ یہ تمام تقاضے انسان کے جسمانی اور طبیعی تقاضے ھیں اور ممکن ھے ان میں سے اکثر تقاضوں کو پورا کرتے وقت انسان کی فطرت اور روح کو سخت کوفت اور اذیت کی منزل سے گذرنا پڑتا ھو ۔
اسکے بر خلاف انسان جب اپنے روحانی تقاضوں کو پورا کرتا ھے مثلاً علم حاصل کرتا ھے، بلند اھداف کے لئے سخت محنت کرتا ھے ،کمالات کو حاصل کرنے کے لئے جسم سے مستقل استفادہ کرتا ھے یااپنے خالق اور پروردگار کہ جس نے اسکو خلق کیا اور لمحہ بہ لمحہ اسکی پرورش کر رھا ھے ، کی اطاعت و عبادت کرتا ھے تو جسم کو سخت اذیت ھوتی ھے لیکن انسان کی روح اس میں لذت محسوس کرتی ھے اور یہ لذت ان جسمانی لذتوں سے کھیں زیادہ نشاط آور ھوتی ھے۔ مثلا علم کی لذت ، کمالات کی لذت ، یا اطاعت و عبادت کی لذت کا لذیذ ترین کھانوں کی لذت سے قیاس بھی نھیں کیا جا سکتا ۔
اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ انسان جسمانی تقاضوں کو بالکل ترک کر دے اور خود کو موت کی آغوش میں ڈال دے ۔ اھم یہ ھے کہ ایک انسان اپنے اندر کے حالات سے آگاہ ھو اور وہ سمجھ سکے کہ اس پر غلبہ کس کا ھے ؟ جسمانی و طبیعی تقاضوں کا یا روحانی و فطری تقاضوں کا ۔
روزہ در حقیقت انسان کے اندر طبیعی و مادی تقاضوں کو ضعیف اور روحانی و معنوی تقاضوں کو قوی کرنے کی ایک مشق ھے ۔ بلندھمت اور صاحب عزم انسان اپنے حقیقی انسانی اور معنوی تقاضوں پر طبیعی و جسمانی تقاضوں کو غالب نھیں آنے دیتا کیوں کہ جسمانی اور طبیعی تقاضوں میں اسیر انسان اپنی زندگی میں کوئی بڑا اقدام یا کسی بلندھدف کا تعاقب نھیں کر سکتا ۔
آخری سوال
سابقہ بحث کے بعد آخری سوال کہ روزہ نہ رکھنے کی صورت میں انسان کے اندر کون سا نقص پیدا ھوتا ھے ؟ کا جواب بھت آسان ھو گیا ۔ یہ سوال ایسے ھی ھے جیسے کوئی کھے کہ کھانا نہ کھانے سے انسان کے اندر کون سا نقص پیدا ھوتا ھے، پانی نہ پینے ، سانس نہ لینے یا حرکت نہ کرنے سے انسان کو کیا مشکل پیش آتی ھے ؟
روزہ نہ رکھنے سے انسان در حقیقت ان تمام اسرار سے محروم ھو جاتا ھے جو روزہ کے اندر قرار دئے گئے ھیں اور ساتھ ھی ساتھ روزہ کے فوائد سے بھی محروم ھو جاتا ھے ،جس طرح سے کھانا پانی اور حرکت کے بغیر انسان زندگی سے محروم ھو جاتا ھے اسی طرح دین اور احکام دین کو ترک کر دینے سے انسان کی معنوی و حقیقی موت واقع ھو جاتی ھے اگر چہ ظاھر ًا وہ زندہ اور حرکت کر رھا ھوتا ھے”سواء محیاھم و مماتھم “ (۲۰)کچھ لوگ ایسے ھیں جن کی موت اور حیات خدا کے نزدیک برابر ھے ۔
سابقہ ابحاث کے ضمن میں روزہ کے کچھ فلسفے و اسرار بیان ھوئے لیکن روزہ کے اسراراتنے زیادہ ھیں کہ انھیں اس مختصر مقالے میں جمع نھیں کیا جا سکتا،دوسرے یہ کہ تمام اسرار سے ھرشخص واقف بھی نھیں ھے۔ لھٰذا یھاں پر بعض اھم اسرار کو چند فصلوں میں بیان کیا جارھا ھے ۔
تطھیر وتزکیہ
تطھیر اگر چہ تمام عبادتوں کا فلسفہ ھے اور خدا انسان کو زندگی کے تمام مراحل میں پاک و پاکیزہ دیکھنا چاھتا ھے ” وَ اللّٰه یُحِبُّ الْمُتَطَهرِیْن “(۲۱) لیکن ماہ رمضان میں یہ معنی زیادہ وسیع اور قابل لمس شکل میں ظاھر ھوتا ھے ۔ اس با برکت مھینہ میں انسان ایک خاص آمادگی کے ساتھ اپنی تطھیر کے لئے کوشش کرتا ھے ۔تطھیر روزہ کے ان اھم ترین اسرار میں سے ھے جسکے ذریعے نہ صرف روزہ میں بلکہ روزہ دار اور اس کے تمام اعمال میں وزن پیدا ھو جاتا ھے ۔
ماہ رمضان میں کرم الٰھی کے دسترخوان سے انسان کو بھت سے صفات وکمالات کسب کرنے ھیں ،لیکن کسی بھی صفت اور کمال کا حصول اس بات پر متوقف ھوتاھے کہ انسان نے اپنے اندر کتنی طھارت پیدا کی ھے کیونکہ کمالات کا مسکن پاک انسان اور اسکی پاکیزہ روح ھے ، آلودہ مقامات پر یا تو کمالات پیدا ھی نھیں ھوتے یا اگر پیدا ھوتے ھیں تو وہ بھی آلودہ ھو جاتے ھیں ۔ ماہ رمضان میں انسان کو جو ایک سب سے بڑا کام کرنا ھے وہ یہ ھے کہ اس مبارک مھینے میں اسے اپنی تطھیر کرنی ھے کیونکہ تطھیر کے بغیر انسان کو نہ تو روزوں سے کچھ حاصل ھو گا ،سوائے بھوک اور پیاس کے ، نہ تلاوت قرآن سے اسکے اندر کوئی کمال پیدا ھو گا سوائے تھوڑے سے ثواب کے ، اور نہ ھی شب قدر سے کچھ کسب کر سکے گا سوائے بوریت اور تھکاوٹ کے ۔
مراحل تطھیر و طریقہ تطھیر
تطھیر کوئی ذھنی اور مفھومی شئی نھیں ھے کہ انسان ذھن میں یہ تصور کر لے کہ میں پاک ھونا چاھتا ھوں اور وہ پاک ھو جائے بلکہ تطھیر کے لئے انسان کو چند مراحل سے گزرنا ھوتا ھے ۔
لباس و بدن کی تطھیر
تطھیر کا سب سے ابتدائی اور آسان مرحلہ یہ ھے کہ انسان اپنے ظاھر یعنی اپنے لباس اور بدن کو پاک وصاف کرے۔ اتفاقاً اسلام نے اسی پھلے مرحلے کے لئے بھت تاکید کی ھے حتی کہ نظافت کو نصف ایمان قرار دیا ھے کیونکہ یہ بعد کے مراحل کو طے کرنے کے لئے ایک آغاز ھے۔ انسان جس طرح لباس و بدن کے ظاھرکی تطھیر کو اھمیت دیتا ھے اسی طرح اسے باطنِ بدن کی بھی تطھیر کرنی چاھئے اور باطن بدن کی تطھیر کا بھترین وسیلہ روزہ ھے۔اسی لیے روایات میں روزہ کو زکات بدن سے تعبیر کیا گیا ھے۔
رسول اللہ(ص) نے فرمایاھے:”لِکُلِّ شَیٴٍ زَکَاةٌ وَ زَکَاةُ الْاَبْدَانِ الصِّیَامُ“(۲۲)ھر شی کی ایک زکات ھے اور بدن کی زکات روزہ ھے۔
یعنی جس طرح زکاة مال کو پاک کرتی ھے اسی طرح روزہ بدن کو پاک وسالم کرتا ھے ۔
حواس کی تطھیر
دوسرے مرحلہ میں انسان کو اپنے حواس کی تطھیر کرنی ھے ، حواس سے مراد انسان کی سماعت، بصارت، زبان اور دیگر حواس کی تطھیر ھے ۔ انسان اپنی آنکہ یعنی بصارت کی تطھیر کرے تاکہ” خائنة الاعین“ (۲۳)یعنی خیانتکار آنکھوں کا مصداق نہ بن جائے ، انسان اپنی سماعت کی تطھیر کرے تاکہ آلودہ سماعت سے خدا کا کلام نہ سنے ، ماہ رمضان میں خدا کی طرف انسانوں کو دعوت دی جاتی ھے لیکن گناھوں سے آلودہ سماعتیں اس دعوت کو نھیں سن سکتیں ۔انسان اپنی زبان اور قوت گویائی کی تطھیر کرے تاکہ غیبت ،فحش ، چاپلوسی ، اور غیر منطقی باتوں سے آلودہ زبان پر نام خدا نہ آئے کیوں کہ انسان کبھی اس بات پر راضی نھیں ھوتا کہ وہ ایک نھایت پاک و پاکیزہ چیز کو کسی گندے اور نجس ھاتہ میں پکڑا دے ۔
ماہ رمضان میں حواس کی تطھیر کے لئے کثرت سے روایات وارد ھوئی ھیں ۔
حضرت زھرا سلام اللہ علیھا فرماتی ھیں :”مَا یَصْنَعُ الصَّائِمُ بِصِیَامِه اِذَا لَمْ یُصِنْ لِسَانَه وَسَمْعَه وَبَصَرَه وَ جَوَارِحَه“(۲۴)روزہ دار اپنے اس روزے کا کیا کرے گاجس میں وہ اپنی زبان، سماعت،بصارت اوراعضاء کو محفوظ نہ رکھے۔
خیال کی تطھیر
انسان کی ایک بھت بڑی اورباطنی آلودگی تخیّل کی آلودگی ھے ۔ آلودہ تخیّلات راہ علم و کمال میں ایک سنگین رکاوٹ ھوتے ھیں لھذا انسان کے لئے اھم ھے کہ وہ اپنے تخیلات کو پاک کرے اور اگر انسان کو اپنے خیالات کی پاکیزگی کا اندازہ لگانا ھے تو یہ دیکھے کہ وہ حالت خواب میں کیا دیکھتا ھے کیوں کہ حالت خواب میں حواس کے سو جانے کے بعد تخیل زیادہ فعّال ھو جاتا ھے اور حالت بیداری کے تخیلات کو مجسم شکل میں پیش کرتا ھے ۔
فکر کی تطھیر
یہ ایک بالاتر مرحلہ ھے لھذا سابقہ مراحل سے سخت تر بھی ھے۔ انسان خدا کی مدد کے بغیران مراحل تطھیر کو طے نھیں کر سکتا اور مرحلہ جتنا سخت تر ھو اسی مقدار میں خدا سے استمداد کی ضرورت بھی زیادہ ھے ۔ شیطان مسلسل فکر انسانی میں وسواس ڈالتا رھتا ھے ”یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ “ (۲۵)اور انسان پر شیطانی وحی کا سلسلہ جاری رھتا ھے ” اِنَّ الشَّیَاطِیْنَ لَیُوحُونَ اِلی اَوْلْیَائِهمْ “(۲۶) تاکہ انسان کے اندر فکری انحراف پیدا کر دے اور فکری انحراف انسان کے دین ،مذھب اور اعتقادات سب کو منحرف کر دیتا ھے یھاں تک کہ یھی فکری انحراف لشکر امام علی علیہ السلام کے مقدس سپاھیوں کو خوارج کی شکل میں تبدیل کر کے خود امیر الموئمنین علیہ السلام کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیتا ھے ۔ لھذا اس شیطانی شر سے بچنے کے لئے خدا نے جو طریقہ بتایاھے وہ یہ ھے کہ اپنے پروردگار کے ذریعے شیطانی وسواس سے پناہ طلب کرو: ”قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِکِ النَّاسِ اِلٰه النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الخَنَّاسِ “ (۲۷)یعنی خدا سے مدد طلب کرو ۔
جب انسان کی فکر پاک ھوجاتی ھے تو اسکے تعقّل، ادراک اور طرز فکر میں بھی طھارت پیدا ھو جاتی ھے اور انسان افواھوں و تخیلات کے بجائے عقل و وحی کو اپنے ادراک کا منبع قرار دیتا ھے ۔
تطھیر قلب
یھاں قلب سے مراد دھڑکتا ھو ا دل نھیں بلکہ اس سے مرادحقیقت انسان اور روح انسان ھے ۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد انسان کا دل عرش خدا اور حرم خدا بن جاتا ھے:” اَلْقَلْبُ عَرْشُ الرَّحْمٰن “ قلب انسان عرش خدا ھے۔
” اَلْقَلْبُ حَرَمُ اللّه وَ لَا تُسْکِنْ فِی حَرَمِ اللّٰه غَیْرَه “
”تمھارا دل حرم خدا ھے ۔اس میں غیر خدا کوسکونت نہ دو۔“
تقویٰ
روزہ کے اھم ترین اسرار میں سے ایک تقویٰ ھے بلکہ اگر تقویٰ کو اپنے وسیع معنی کے تناظر میں دیکھا جائے تو تمام اسرار کی بازگشت تقویٰ کی طرف ھوتی ھے۔ شاید اسی لئے قرآن نے جب فلسفہٴ روزہ بیان کیا تو اسی مطلوبہ صفت کو روزہ کا فلسفہ قرار دیا۔”یَا اَیُّهاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن“(۲۸)دیگر امّتوں کی طرح تم پر روزہ واجب قرار دیا گیاکہ شاید تم صاحب تقویٰ بن جاؤ۔لیکن تقویٰ قرآن اور معارف اسلامی کے ان مظلوم ترین الفاظ میں سے ھے جسکے معنی میں اس حد تک تحریف کی گئی ھے کہ اس لفظ کو تقویٰ کے بالکل بر عکس معنی میں استعمال کیا جانے لگاھے ۔سستی ، جمود اور سادہ لوحی کو تقویٰ کا نام دیدیاگیاھے۔
سستی و جمود یا نشاط وارتقاء؟
مسلمان معاشروں میں مسیحی،یھودی اور ھندو تھذیب و افکار کا یہ اثر ھوا کہ دیگر اسلامی معارف کی طرح تقویٰ کوبھی بالکل بے روح اور بے کیف کر دیا گیا ھے۔ تقویٰ کوغاروں ،تھہ خانوں اور گوشئہ عافیت کی بے روح عبادتوں سے مخصوص کر دیا گیا ھے ۔ساری دنیا سے بے خبر ، معاشرے سے دور،انسانوں سے روگرداں اور دوست و دشمن سے لا پرواہ ایک سادہ لوح انسان کو متّقی کا نام دے دیا گیاھے جبکہ یہ تقویٰ اس تقویٰ کی بالکل ضد ھے جو رسول اللہ(ص)، امیرالمومنین علیہ السلام اور دیگر ائمّہ و انبیاء علیھم السّلام کے پاس تھا۔ اگرتقویٰ کا بھترین نمونہ رسول اللہ(ص) اور امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی ھے تو یہ دونوں شخصیتیں ھمیشہ میدان عمل میں نظر آئیں ،دشمنوں سے مبارزہ کرتے ھوئے نظر آئے ،مسلمانوں کے حالات و مسائل کو حل کرتے ھوئے نظر آئے ،کبھی بازار میں ،کبھی مسجد میں ،کبھی گھر میں اور کبھی اصحاب کے درمیان۔اسلام میں تقویٰ سستی اور جمود کا نام نھیں ھے بلکہ تقویٰ یعنی ایک مسلسل حرکت اور ارتقاء ۔قرآن نے سورئہ حمد کے بعد سورئہ بقرہ کی ابتدا ھی متّقین کے صفات بیان کرنے سے کی ھے اورمتقین کے تمام صفات کو صیغئہ مضارع میں بیان کیا ھے (۲۹)یعنی عمل مسلسل اور ایمان مترقّی۔
تقویٰ وقایةسے ھے اور وقایة یعنی سپر ۔چونکہ انسان کو ایمان اور عمل کے ذریعے مسلسل تکامل کرنا ھے اور اس تکاملی سفر کا جو راستہ ھے اس پر شیطان قسم کھا کر بیٹھا ھے کہ انسان کو گمراہ کرے گا لھٰذا اسے شیطانی حملوں سے بچنے کے لئے الٰھی سپر کی ضرورت ھے اوروہ سپر تقویٰ ھے ۔ تقویٰ یعنی انسان کے اندر موجود ایک ایسی دفاعی قوت جو شیطان کے ھر حملے کو پسپا کر کے انسان کو اپنے مقصود تک پھونچا دے۔
امام علی علیہ السلام نے فرمایا :”فَاِنَّ التَّقْوَیٰ الْیَومَ حِرْزٌ وجُنَّةٌ وَ فٖی غِداًالطَّرِیْقُ اِلَی الْجَنَّةِ“ (۳۰)تقویٰ آج پناہ و سپر ھے اور کل جنّت کا راستہ ھے۔
تقویٰ کا ایک منفی معنی ھے اور ایک مثبت ۔منفی معنی وھی ھے جورھبانیت سے متاثّر بعض صوفی سلسلوں کے ذریعے ھمارے معاشروں میں رائج ھواھے،یعنی چونکہ اپنی زندگی کو پاک اورسالم رکھنے کے لیے خود کو شیطان کی دسترس سے محفوظ رکھنا ھے لھٰذا اپنے آپ کو ایسے مقام پر قرار دیاجائے جو شیطانی دسترس سے باھر ھو۔ لھٰذا وہ اپنی فردی،خاندانی اور سماجی ذمّہ داریوں سے فرار کر کے کسی گوشئہ تنھائی میں پناہ لیتے ھیں اور گمان یہ کرتے ھیں کہ یہ جگہ شیطان کی دسترس سے محفوظ ھے جبکہ اس طرح شکست خوردہ اور زندگی سے فرار کرنے والا انسان زیادہ شیطان کی دسترس میں ھوتاھے۔
اسلام اور قرآن کی نظر میں مثبت تقویٰ وہ ھے جو انسان کو دشمن کے سامنے سے فرار کی دعوت نہ دے بلکہ اسے دشمن پرغلبہ پانے کے لئے آمادہ کرے۔ انسان کے اندر ایسی معنوی قوت اور بصیرت پیداکردے جو اسے سماج میں لوگوں کے درمیان رھتے ھوئے بھی محفوظ رکھے اور نہ صرف اپنے آپ کو محفوظ رکھے بلکہ دوسروں کی نجات کے لئے بھی کوشاں رھے ۔خدا کی دی ھوئی نعمتوں سے فرار کرنے کے بجائے انھیں اپنے اور معاشرے کے تکامل کا وسیلہ قرار دے۔
صاحب تقویٰ انسان خدا کی دی ھوئی نعمتوں کو استعمال کرتا ھے لیکن ان کا اسیر نھیں ھوتالھٰذا ضرورت پڑنے پر اپنی جان سے لے کر اپنی عزیز ترین چیزوں تک کو قربان کرنے کے لئے تیّار ھو جاتا ھے،بر خلاف اس شخص کے جودنیا کی نعمتوں کو ترک کرنے کے بعد بھی ان کا اسیر ھوتاھے اور ضرورت پڑنے پراک معمولی سی بھی قربانی دینے کی جراٴت نھیں کر پاتا۔جواپنے گوشئہ تنھائی میں خدا کی یاد کے بجائے ھمیشہ ان چیزوں کی یاد میں رھتا ھے جو اسے نصیب نھیں ھوئیں یا جنھیں وہ ترک کر کے آیا ھے۔یھاں پر شیطان اسکی شکست خوردہ ذھنیت اور تنھائی سے فائدہ اٹھا کران کی اشیاء کی یادو محبّت کو اور شدید کر دیتا ھے اور اس طرح اسے اپنے دام میں گرفتار کر لیتا ھے۔
مشکلات پر غلبہ
جیسا کہ بیان کیا گیا کہ تقویٰ انسان کے اندر پیدا ھونے والی ایک معنوی قوّت کا نام ھے جو نہ صرف یہ کہ انسان کو نقائص اور گناہ سے محفوظ رکھتی ھے بلکہ اسی قوّت کی مدد سے انسان اپنی روزمرّہ مشکلات پر بھی غلبہ پا سکتا ھے ۔
انسان جس عالم میں زندگی گزار رھا ھے وہ عالم طبیعت ومادّہ ھے اور عالم مادّہ عالم تزاحم واختلاف ھے۔ اس عالم میں ایک طرف خود طبیعت کے تقاضے مختلف ھیں اور دوسری طرف انسان کے میلانات، رجحانات اور تقاضے مختلف ومتضاد ھیں اور ھر ایک اپنے تقاضوں کی تکمیل چاھتا ھے۔ لھٰذاانسان کو طرح طرح کی مشکلات سے دو چار ھونا پڑتا ھے ۔ان مشکلات کی سنگینی اور اپنی ناتوانی کو دیکھتے ھوئے انسان کو ایک ایسی قوت سے وابستہ ھونے کی ضرورت ھے جس کی مدد سے وہ ھر مشکل پر غلبہ پا سکے ۔ اس کے لئے انسان اگرچہ طرح طرح کی قوتوں کو آزماتا ھے لیکن نتیجے میں اسے عجز و ناتوانی کے سوا کھیں کچھ نظر نھیں آتا کیونکہ منبع قوت، ذات خدا ھے اورپھر جب وہ خدا کی طرف رخ کرتا ھے اور اس سے مدد طلب کرتا ھے -”ایّاک نستعین“ پروردگار ھم صرف تجھ سے مدد چاھتے ھیں تو خدائے کریم اسکی معجزاتی نصرت کرنے کے بجائے نصرت کے ایک قانون اور نظام (System) کی طرف راھنمائی کر دیتا ھے تاکہ اس کے ذریعے وہ زندگی کی ھر مشکل پر غلبہ پاتا رھے ۔لھٰذاارشاد فرمایا ”وَاسْتَعِیْنُوا بِالصّبْرِ وَالصَّلَواةِ“(۳۱) ”صبر اور نماز کے ذریعے مدد حاصل کرو “۔نماز سے اس لئے کیونکہ بڑی قوّتوں سے ارتباط انسان کی چھوٹی مشکلات کو حل کر دیتا ھے اور خدا سے بڑی کوئی قوّت نھیں ھے جس سے ارتباط کا بھترین طریقہ نماز ھے،اورصبر سے اس لئے مدد حاصل کرو کیونکہ صبر انسان کے اندر قوّت ،استقامت ،پائیداری اور استحکام پیدا کرتا ھے ،بلکہ صبر کے معنی ھی استقامت اور پائیداری کے ھیں ۔یہ استقامت کبھی ظلم کے مقابلے میں ھے ۔ کبھی امتحانات و مشکلات کے مقابلے میں اور کبھی علم و فضل وکمالات کو حاصل کرنے کے لئے صبر واستقامت کی ضرورت پڑتی ھے۔ روزہ کا ایک سرّیہ ھے کہ روزہ انسان کے اندر صبرو استقامت پیدا کرتاھے۔صبر کے مصادیق میں سے ایک مصداق روزہ ھے اسی لئے اس آیت ”وَاسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ“میں صبر کی تفسیر روزہ سے کی گئی ھے۔ اس مقام پر فلسفہ روزہ یعنی تقویٰ کے معنی میں اور وسعت پیدا ھو جاتی ھے ۔اب روزہ کے نتیجے میں انسان کے اندر ایک ایسی معنوی قوّت پیدا ھو جاتی ھے جس میں شدید استقامت اور پائیداری بھی پائی جاتی ھے اور اسکے بعد انسان ھر مشکل سے باآسانی عبور کر جاتا ھے۔روزہ انسان کو معنوی اعتبار سے اتنا بلند کر دیتا ھے کہ مادّی مشکلات اس کے تکامل کے سفر میں رکاوٹ ایجاد نھیں کر سکتیں ۔
کرم الٰھی کے دسترخوان پر روایات میں ماہ رمضان کو ”شھراللھ“یعنی ماہ خدا سے تعبیر کیا گیا ھے اور شھراللہ میں داخل ھونے والے کے لئے یہ اھتمام کیا گیا ھے کہ انسان اس سے قبل دو مھینوں یعنی رجب و شعبان جنھیں ماہ امیرالمومنین علیہ السلام وماہ رسول خدا(ص) یا شھر ولایت وشھر رسالت سے تعبیر کیا گیاھے میں اپنے آپ کو آمادہ کرے تاکہ شھراللہ میں وہ ضیافت پروردگار میں جانے کے لائق ھو جائے ۔
رسول اکرم(ص) نے فرمایاھے:”اَیُّهاالنَّاسُ اِنَّه قَداَقْبَلَ اِلَیْکُمْ شَهرُاللّٰه․․․وَقَدْ دُعِیتُمْ فِیه اِلَی ضِیَافَةِاللّٰه“(۳۲)خداکامھینہ آگیا ھے اور اس مھینہ میں تمھیں خدا کی ضیافت کے لئے بلایا گیا ھے ۔الٰھی دسترخوان پر انسان کو جو کچھ بھی ملے گا وہ خدا کے کرم کے سائے میں ھوگا ۔خدا کی ھر عطا کریمانہ ھے اور اس حد تک کریمانہ ھے کہ اسکی لاتعداد نعمتیں انسان استعمال کرتا ھے اور یہ محسوس بھی نھیں کرپاتا ھے کہ یہ نعمتیں کھاں سے آرھی ھیں حتّی کہ نادانی میں ا نھیں کسی دوسرے کی طرف منسوب کر دیتا ھے اوراسی کا شکر ادا کرتا ھے ۔وہ اپنے کریم سے اتنا غافل ھے کہ واسطوں کا شکریہ ادا کرتا ھے لیکن منبع نعمت سے بے خبر ھے ،جیسے بارش ھونے پر کوئی بادلوں کا شکریہ ادا کرے لیکن سمندر سے بے خبر ھو ۔کرم الٰھی کا عالم یہ ھے کہ اسکی کتنی مادی اور معنوی نعمتیں انسان کی خدمت میں لگی ھوئی ھیں اور انسان پوری زندگی ان نعمتوں میں گزار کر بھی یہ نھیں سمجھ پاتا کہ ھم ا ن سے بھی استفادہ کررھے تھے،یہ کرم کی معراج ھے ۔
ماہ رمضان میں انسان مھمان خدا ھوتا ھے اور میزبان مھمان کے سامنے وھی پیش کرتا ھے جو اسکے پا س موجود ھوتاھے۔ خدا کے خزانے میں ناقص ، آلودہ اور پست چیزیں نھیں ھیں ،اسکے خزانے میں جس چیز کی فراوانی ھے وہ کمالات ھیں اور وہ ایسا میزبان بھی نھیں ھے جسکی عطا میں کسی طرح کے بخل کا شائبہ ھو لھٰذا اس مبارک مھینے میں ا نسان کو اختیار ھے کہ جتنے کمالات چاھتا ھے کرم الٰھی کے دسترخوان سے حاصل کرلے۔
قرآن اور انسان
کرم الٰھی کا دسترخوان قرآن ھے ”اَلقُرَآنُ مَآدُبَةُ الله“(۳۳)اس کتاب میں انسانی کمالات کے تمام نسخے موجود ھیں ۔یہ کتاب اسی مھینے میں نازل ھوئی یعنی اس دسترخوان کو اسی مھینے میں بچھایا گیا تاکہ مھمان کی ضیافت کا سامان فراھم ھو جائے اور جس شب میں قرآن نازل ھوا اسی شب یعنی شب قدر میں بنی آدم سے متعلق تمام امور کے فیصلے ھوتے ھیں ۔اسی شب میں انسانی اور غیر انسانی مقدرات طے ھوتے ھیں ۔ ”تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَ الرُّوحُ فِیْها بِاِذْنِ رَبِّهمْ مِنْ کُلِّ اَمْر“(۳۴) اس شب میں انسان کو اختیار ھے کہ وہ اپنے ھاتھوں سے اپنی تقدیر لکھے اور جو کچھ چاھتا ھے الٰھی دستر خوان سے حاصل کرلے --۔
رسول اللہ (ص) کی خدمت میں ایک بدّو عرب آیا اور اس نے قرآن سننے کی درخواست کی ۔رسول اللہ (ص) نے کسی صحابی سے قرآن سنانے کو کھا۔ اس صحابی نے سورہ”الزّلزلة “سنایا جس میں یہ آیت موجود ھے ”فَمَن یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیراًًًًًًیَّرَه وَمَن یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاًیَرَه“(۳۵)جس نے ذرّہ برابر بھی نیکی کی ھے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرّہ برابر بھی برائی کی ھے وہ اسے دیکھے گا۔یہ آیت سن کر وہ واپس پلٹ گیا ،صحابی کو حیرت ھوئی کی وہ صرف اتنا ھی قرآن سننے کے لئے آیا تھا !صحابی کی حیرت کو دیکہ کر رسو ل ا للہ نے فرمایاکہ یہ شخص فقیہ بن کر واپس پلٹا ھے یعنی اس ایک آیت نے اسکی زندگی میں انقلاب برپا کر دیاھے کیونکہ اب وہ اس یقین کے ساتھ پلٹ رھا ھے کہ اس کا ھر عمل دیکھا اور محفوظ کیاجا رھا ھے۔
اگر ایک آیت ایک جاھل عرب کو فقیہ بنا سکتی ھے تو پورا قرآن انسانی معاشروں میں کتنا بڑا تحوّل ایجاد کرسکتا ھے ،لیکن مشکل یہ ھے کہ ابھی ھم نے شاید قرآن کی ایک آیت کو بھی اپنی عملی زندگی میں داخل نھیں ھونے دیا ھے۔
محبوب کی بارگاہ میں
مھمان اور میزبان کے درمیان متعدّد قسم کے رابطے ھو سکتے ھیں لیکن اگر یہ رابطہ عشق و محبّت کا رابطہ ھو تو ایسی مھمانی اور میزبانی میں شیرین ترین و لطیف ترین نکتہ عاشق ومعشوق کی ملاقات اور ایک دوسرے سے ھمکلام ھونا ھوتا ھے۔عشق کی ملاقات میں مقصود اصلی خود معشوق ھوتا ھے،نہ کہ اسکی عطا کردہ نعمتیں اور اس ملاقات میں عاشق و معشوق کی سب سے بڑی تمنّا یہ ھوتی ھے کی ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ ھمکلام رھیں ۔
روزہ کے فلسفہ و اسرار میں سب سے عمیق فلسفہ و سرّ اپنے معبود اور معشوق سے ملاقات کرنا اور ھمکلام ھونا ھے ۔ یہ انسانیت کا بلندترین مقام اور ایک انسان کے لئے بھترین لذّت ھے۔ اس لذّت تک پھونچنے کے لئے اس نے روزہ کے ذریعے اپنے آپ کو تمام حیوانی اور شھوانی لذّتوں سے بلند کیا ھے ۔ روزہ رکہ کر اب وہ ذھنی و تخیّلی لذّتوں سے آزاد ھو چکا ھے اب اسے غیبت کرنے یا سننے میں لذّت کے بجائے کرب واذیت کا احساس ھوتا ھے۔ اب اس نے اپنی نظر کی تطھیر کر لی ھے،اب وہ آب و غذا کی لذّتوں سے بلند ھو چکاھے اس لئے کہ اب وہ وصال محبوب کی لذّت سے آشنا ھو چکا ھے۔
روایت میں ھے ” لِلصَّائِمِ فَرحَتَان حِیْنَ ی-َفْطُرُوَحِینَ یَلْقٖی رَبَّه عزّ و جلّ“(۳۶) روزہ دار کودو مواقع پر فرحت و لذّت کا احساس ھوتا ھے ۔ایک افطار کے وقت کہ خدا نے توفیق دی اورروزہ مکمّل ھو گیا،مریض نھیں ھوا ،سفر در پیش نھیں آیا، شیطان نے مجھ پر غلبہ نھیں کیااور خدا نے کسی دوسرے امر میں مشغول نھیں کیا اس لئے کہ خدا ھر ایک کو اپنی بارگاہ میں آنے کا موقع نھیں دیتا، وہ جنھیں اپنی بارگاہ کے لائق نھیں سمجھتا انھیں دیگر امور میں مشغول کر دیتا ھے ، کبھی سختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ھے توکبھی کثرت سے نعمتیں دے کر مشغول کر دیتا ھے۔
روزہ دار کی خوشی کا دوسرا موقع اپنے پروردگار کی ملاقات کے وقت ھے جب وہ خدا سے ھمکلام ھوتا ھے۔ یہ ایک انسان کے لئے سب سے بڑی نعمت ھے۔روز قیامت ایک گروہ کے لئے سب سے بڑا عذاب یہ ھو گا کہ ”لَا یُکَلِّمُهمُ الله یَومَ الْقِیَامَةِ“(۳۷) خدا ان سے کلام نھیں کرے گا۔ روز ہ دار کبھی قرآن پڑھتا ھے تاکہ خدا اس سے ھمکلام ھو، کبھی دعا کرتا ھے تاکہ وہ خدا سے ھمکلام ھواور کبھی وہ کچھ بھی نھیں کرتا،زبان بھی خاموش ھوتی ھے لیکن پھر بھی خدا سے ھمکلام ھوتا ھے کیونکہ خدا سے ھمکلام ھونے کے لئے زبان اور آواز کی ضرورت نھیں ھے۔
اگر انسان اس نکتے کو اچھی طرح درک کر لے کہ قرآن کلام خدا ھے اور وہ جب قرآن پڑھتا ھے خدا اس سے محو کلام ھوتا ھے تو پھر وہ قرآن کو فقط ثواب کے لئے نھیں پڑھے گابلکہ قرآنی آیات کو اپنی زندگی میں ڈھالنے کی کوشش کرے گا کیونکہ ایک انسان جب اپنے محبوب سے گفتگو کر رھا ھوتا ھے تو وہ اپنے پورے وجود سے اسکی باتوں کو سننے ، سمجھنے اور اپنانے کی کوشش کرتا ھے ۔انسان اور قرآن کارابطہ اتناعمیق ھے کہ امام سجّاد علیہ السلام فرماتے ھیں :”لَو مَاتَ مَنْ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَمَّا اسْتَوحَشْتُ بَعْدَ اَن یَکُون القُرَآنُ مَعی“(۳۸)اگر مشرق و مغرب میں رھنے والے تمام افراد مر جائیں اور اس دنیا میں میں تنھا رہ جاؤں اور قرآن میرے ساتھ ھو تو میں ھرگز وحشت کا احساس نھیں کروں گا۔“
اسی طرح انسان اگر اس نکتہ کو بھی درک کر لے کہ دعا کرتے وقت وہ خدا سے ھمکلام ھوتا ھے اور خدا بھت قریب سے اسکی دعاؤں کو سن رھا ھے ”وَاذَا سَئَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیْبٌ “(۳۹) تو پھر وہ خدا کی بارگاہ میں معمولی اور پست چیزیں نھیں طلب کرے گا بلکہ وہ چیزیں طلب کرے گا جو مقام انسانیت کے شایان شان ھیں اور یہ بھی ممکن ھے کہ وہ کچھ طلب کرنے کے بجائے صرف اپنے معبود سے ھمکلام ھونے کے لئے دعا کر رھا ھواور اگر وہ کچھ طلب کر رھا ھو تو خدا سے خدا ھی کو طلب کر رھا ھو،اس لئے کہ اگر انسان کوخدا مل جائے تو کچھ نہ ھوتے ھوئے بھی اسے سب کچھ مل گیا اور اگر خدا نہ ملے تو سب کچھ پا کر بھی اسے کچھ نھیں ملا۔
” مَا ذَا وَجَدَ مَنْ فَقَدَکَ وَ مَاالَّذِی فَقَدَ مَنْ وَجَدَکَ۔“
پروردگارا!اس نے کیا پایا جس نے تجھے کھو دیا اور اس نے کیا کھویا جس نے تجھے پا لیا۔
امام حسین علیہ السّلام (دعائے عرفہ)
حوالے:
(۱)نھج البلاغہ:کلمات قصار:۴۷
(۲)نھج البلاغہ:کلمات قصار:۱۴۵
(۳)سورہ انسان:۸
(۴)سورہ رعد:۲۸
(۵)سورہ بقرہ:۱۸۳
(۶) سورہ بقرہ:۱۸۳
(۷) سورہ بقرہ:۱۸۳
(۸) سورہ بقرہ:۱۸۳
(۹) سورہ انشقاق:۶
(۱۰) سورہ فاطر/۱۰
(۱۱) سورہ اعراف:۱۶۔۱۷
(۱۲) بحار:ج۷۰،ص۶۴
(۱۳)سورہ ناس:۶
(۱۴)سورئہ بقرہ:۱۶۸
(۱۵)نھج البلاغہ:خطبہ۲۷
(۱۶)مقتل الحسین مقرم:ص۲۳۲
(۱۷)صحیفئہ سجّادیہ: دعاء۴۵، دعائے وداع ماہ رمضان
(۱۸)بحار:ج۷۴،ص۲۳۹
(۱۹)سورہ بقرہ:۶
(۲۰)سورہ جاثیہ:۲۱
(۲۱)سورہ توبہ:۱۰۸
(۲۲)میزان الحکمة:ج۴،حدیث۱۰۹۲۵
(۲۳)سورہ غافر/۱۹
(۲۴)دعائم الاسلام:ج/۱ ص/۲۶۸
(۲۵)سورئہ ناس/۵
(۲۶)سورئہ انعام/۱۲۱
(۲۷)سورئہ ناس/۱۔۴
(۲۸)سورئہ بقرھ:۱۸۳
(۲۹)سورئہ بقرھ:۲۔۴
(۳۰)نھج البلاغھ: خطبھ۱۸۹
(۳۱)سورئہ بقرھ:۴۵
(۳۲)خطبھء شعبانیھ:اربعین،شیخ بھائی،حدیث۹
(۳۳)بحار:ج۹۲،ص۱۹،حدیث۱۸
(۳۴)سورئہ قدر:۴
(۳۵)سورئہ زلزلھ:۷۔۸
(۳۶)وسائل الشیعھ:ج۱۰،ص۴۰۰
(۳۷)سورئہ بقرھ:۱۷۴
(۳۸)کافی:ج۲،ص۶۰۲
(۳۹)سورئہ بقرھ: