”و اعلموا انما غنمتم من شئی فان للّه خمسه و للرسول و لذی القربیٰ والیتٰمیٰ و المساکین و ابن السبیل و ان کنتم آمنتم بالله و ما انزلنا علی عبدنا یوم الفرقان یوم التقی الجمعان و الله علی کل شئی قدیر “ (۱)
” اور یہ جان لو کہ تمھیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ھو اس کا پانچواں حصہ اللہ ،رسول ،رسول کے قرابتدار ، ایتام ،مساکین اور مسافران غربت زدہ کے لئے ھے اگر تمھارا ایمان اللہ پر ھے اور اس نصرت پر ھے جو ھم نے اپنے بندے پر حق و باطل کے فیصلہ کے دن جب دو جماعتیں آپس میں ٹکرا رھی تھیں نازل کی تھی ، اور اللہ ھی ھر شئی پر قادر ھے “ ۔
آیت کی تفسیر سے پھلے مسئلہ ”خمس “ میں شیعہ و سنی نظریات کی تھوڑی وضاحت ضروری ھے ۔
خمس مذھب شیعہ کی نظر میں
علمائے شیعہ کے نظریہ کے مطابق ، خمس کا تعلق کسی خاص منفعت و فائدہ سے نھیں بلکہ ھر طرح کی زاید منفعت سے ھوتا ھے ۔
فرض کیجئے ! آپ پچاس ھزار روپیہ میں کوئی مال خریدتے ھیں اور پھر اسے اسی قیمت میں فروخت کردیتے ھیں ، ایسی صورت میں آپ کو کوئی فائدہ نھیں پھونچتا ، لیکن اگر آپ اسے خریدی ھوئی قیمت سے زیادہ میں بیچیں تو آپ کو حصولِ سرمایہ کے ساتہ ساتہ فائدہ بھی ھوتا ھے ، پچاس ھزار روپیہ آپ کا سرمایہ ھے اور باقی پیسے آپ کی منفعت و درآمد ھے ۔
چونکہ آپ نے اس معاملہ ا و رخرید و فروخت میں اپنا وقت و محنت صرف کی ھے اسی لئے آپ اس حاصل شدہ منفعت و درآمد سے اپنا اور اپنے اھل و عیال کے ایک سال کا خرچ نکال سکتے ھیں ، اس شرط پر کہ اسراف نہ کریں ۔ اسکے بعد جو پیسہ بچتا ھے اسے در آمد زائد و منفعت اضافی کھتے ھیں اور اسی زائد درآمد پر خمس واجب ھوتا ھے۔یعنی اصل سرمایہ و سالانہ خرچ سے جو رقم بچ جائے اس میں خمس نکلتا ھے ۔ البتہ نا جائز در آمد و منفعت میں خمس بے معنی ھے ۔
حصول منفعت اوردر آمد کے مختلف ذرائع ھیں کہ جن میںسے ایک کا ذکر اوپر گزر چکا ھے ۔
فائدہ حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ ایسا خزانہ اور دفینہ وغیرہ ھے جس کے مالک کا علم نہ ھو ۔ چونکہ گزشتہ زمانے میں آج کی طرح بینک وغیرہ نھیں تھالھذا لوگ اپنے روپیہ ،پیسہ ،زر و جواھرات کو چور ڈاکوؤں کے خوف سے زمین کے اندر دفن کر دیا کرتے تھے پھر بسا اوقات اس جگہ کو فراموش کر دیتے یا ورثاء کو اطلاع دینے کی فرصت نہ مل پانے کے سبب مالکین اپنی قیمتی چیزیں کھو بیٹھتے تھے ۔ آج اگر اس طرح کی چیزیں کسی کے ھاتہ لگ جائیں تو اس پر بھی خمس واجب ھو گا ۔ کان اور غوطہ خوری کے ذریعہ ملنے والی اشیاء کا بھی یھی حکم ھے ۔ فقہ شیعہ ( جسکا اصلی منبع قرآن مجید اور احادیث معصوم علیھم السلام ھے ) کے مطابق حصول منفعت کا ایک ذریعہ غنائم جنگی بھی ھے ۔ جس کا پانچواں حصہ بعنوان خمس جدا کر کے بقیہ اموال سپاھیوں میں تقسیم ھونا چاھئے ۔
خمس اھل سنت کی نظر میں:
علمائے اھل سنت کا نظریہ یہ ھے کہ خمس کا تعلق ھر طرح کی در آمد و منفعت سے نھیں بلکہ ایک خاص منفعت سے ھے جسے جنگی غنائم کھتے ھیں ۔
صاحب تفسیر ” الجامعِ لاَحکام القرآن “ اپنی تفسیر میں لکھتے ھیں کہ سارے علماء کا اتفاق اس بات پر ھے کہ غنیمت سے مراد صرف جنگی غنیمت ھے ۔
” واعلم ان الانفاق حاصل علی ان المراد بقوله تعالیٰ ”غنتم من شئی.........“ مال الکفار و اذا ظفر بہ المسلمون علی وجه الغلبة و القهر “ (۲)
علماء شیعہ و اھل سنت کے درمیان اختلافی موارد
۱۔ متعلق خمس
۲۔ تقسیم خمس
۳۔ مصارف خمس
متعلق خمس : ( وہ اشیاء جن پر خمس واجب ھوتا ھے )
اھل سنت علماء کا کھنا ھے کہ : خمس فقط غنائم جنگی سے نکلتا ھے ، اسکے سوا دوسری چیزوں میں خمس نھیں ھے۔جبکہ علمائے شیعہ کا نظریہ یہ ھے کہ خمس غنائم جنگی سے مخصوص نھیں ھے بلکہ اسکا تعلق ھر قسم کی زائد منفعت سے ھے خواہ اسے میدان جنگ میں حاصل کیا جائے یا زندگی کے دیگر میدانوں میں ۔
اھل سنت ”خمس “ کو دار الحرب ا و رایام جنگ سے مخصوص جانتے ھیں جو ایک وقتی امر ھے ، کبھی ھے اور کبھی نھیں ھے ۔ لیکن شیعہ مذھب میں ”خمس “ زمان جنگ سے مخصوص نہ ھونے کے سبب دائمی ھے اور مسلمانوں کی پوری اقتصادی زندگی کو شامل ھوتا ھے ۔
اختلاف کی وجہ
دونوں مذھب میں نظر یاتی اختلاف کا سبب لفظ ”غنمتم “ ھے ۔ شیعہ کھتے ھیں کہ ھمارے اماموں نے فرمایا ھے :” غنمتم “ سے مراد ھر وہ منفعت ھے جو سالانہ خرچ سے زیادہ ھو جبکہ اھل سنت اس کو نھیںمانتے اور کھتے ھیں کہ یہ آیت ایام جنگ سے مربوط ھے لھذا صرف غنائم جنگی میں خمس ھونا چاھئے ۔
دلایل مذھب شیعہ دلیل اول : روایت
” عن علی ابراهیم عن ابیہ عن ابن ابی عمیر عن الحسین عثمان عن سماعة قال : سمعت ابا الحسن علیه السلام عن الخمس فقال علیہ السلام : فی کل ما افاد الناس من قلیل او کثیر “ (۳)
” امام علیہ السلام فرماتے ھیں : ”خمس ھر طرح کی منفعت میں ھے خواہ وہ کم ھو یا زیادہ “ ھمارے لئے آئمہ علیھم السلام کے اقوال کافی ھیں ،لیکن اھل سنت ائمھعلیھم السلام کی عصمت کے قائل نھیں ھیں لھذا ان کو قانع کرنے کے لئے استعمالات قرآن ا ور روایات و عربی لغت کو دیکھنا چاھئے کہ وہ کیا کھتی ھے ۔ اگر لفظ ”غنمتم “ ( غنم ، یغنم ،غانم و مغنوم ) میدان جنگ میں ھاتہ آنے والے مال کے معنی میں استعمال ھوتاھے اور غنائم جنگی سے مخصوص ھے تو اس صورت میں اھل سنت کا نظریہ صحیح ھو گا ، لیکن اگر لفظ ”غنمتم “ اور اسکے دیگر مشتقات ، تمام منفعت و فائدہ کے معنی میں استعمال ھوئے ھوں ، اور غنائم جنگی سے مخصوص نھیں ھیں تو اس صورت میں اھلسنت کے پذیرفتہ قواعد کے مطابق بھی شیعوں کا نظریہ درست ھو گا ۔
دلیل دوم :
قرآنی و روائی استعمالات اور عربی لغت :
۱۔ قرآن مجید
قوله تعالیٰ : ”و اعلموا انما غنمتم من شئی .........“(۴)
اس آیت میں استعمال شدہ لفظ ”غنمتم “مورد بحث ھے کہ اسکا معنی کیا ھے ؟
خدا وندعالم کا ارشاد ھے :” .........فکلوا مما غنمتم .........“(۵)”پس اب جو مال غنیمت حاصل کر لیا ھے اسے کھاوٴ کہ و حلال اور پاکیزھ.........“۔
اس آیت میں استعمال شدہ لفظ ”غنمتم“ بھی پھلے ”غنمتم “ کی طرح ھے جو معنی اسکا ھو گا وھی معنی اسکا بھی ھوگا ۔
دوسری آیت میں ارشاد ھو رھا ھے:” ......... فعند الله مغانم کثیرة .........“ (۶)” اور خدا کے پاس بکثرت فوائد پائے جاتے ھیں “۔
” اللہ کے پاس بھت سارے مغانم ھیں “
مذکورہ آیت شریفہ یہ سمجھانا چاھتی ھے کہ وہ سارے فوائد و منافع جسے تم اس دنیا میں تلاش کر رھے ھو ، خدا وند متعال کے پاس ھیں ۔
بالکل واضح ھے کہ اس آیت کا مطلب ھرگز یہ نھیں ھے کہ غنائم جنگی خدا کے پاس ھیں بلکہ ”مغانم “ سے مراد تفضل الھی ھے یعنی جو کچہ بھی خدا سے ملتا ھے اسکا فضل ھے۔ خدا کسی کا مقروض نھیں ھے ، وہ جو کچہ بھی دیتا ھے اسکا احسان اور تفضل الھی ھے ۔ تفضل ایک عام معنی ھے جو خدا سے ملنے والی ھر نعمت کو شامل ھوتا ھے ۔
ایک عام معنی و مراد کو بیان کرنے کے لئے لفظ ”مغانم “ کا استعمال خود اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ ”مغانم “ کا معنی عام ھے ۔اگر ”مغانم “ فقط غنائم جنگی کے معنی میں ھوتا تو اس آیت میں ”مغانم “ کے بجائے کسی ایسے لفظ کا استعمال ھونا چاھئے تھا کہ جس کے معنی عام ھوں ۔
۲۔ حدیث شریف
پیغمبر اسلام کی معروف حدیث جسے ابن کثیر نے نھایہ میں ذکر کیا ھے اسکا مضمون یہ ھے :” من لہ الغنم علیہ الغرم “ علماء اھل سنت فقہ میں بکثرت اس حدیث سے تمسک کرتے ھیں اور متفق ھیں کہ اس حدیث کے معنی یہ ھیں”جوشخص کسی چیز سے فائدہ اٹھائے گا وھی اس کا نقصان بھی سھے گا “ یہ حدیث اس قدر معروف ھے کہ ضرب المثل بن چکی ھے ۔
یہ بات اظھر من الشمس ھے کہ اس حدیث میں ”غنم “ آیا ھے کہ جس کے معنی جنگی منفعت و فائدہ نھیں ھیں بلکہ عام فائدہ کے معنی میں ھے ۔ یعنی غنیمت کے معنی غنایم جنگی میں منحصر نھیں ھیں۔
۳۔ لغت :
علمائے لغت میںصاحب ” المنجد“ ایسے صاحب لغت ھیں جو عرب تو ھیں لیکن نہ شیعہ ھیں نہ سنی بلکہ وہ ایک لبنانی مسیحی ھیںجو اپنی کتاب المنجد میں ”غنم یغنم “ کے یوں معنی کرتے ھیں ” من غنم مالا “ یعنی جو مفت اور بغیر عوض کے کوئی مال حاصل کرے ،مزید وضاحت کرتے ھوئے لکھتے ھیں :غنم و غنیمت کے معنی غنائم جنگی میں منحصر نھیں ھے بلکہ غنم و غنیمت کے مصادیق میں سے ایک غنائم جنگی ھے یعنی عرب کے اس مسیحی لغت شناس نے بھی مذکورہ لفظ کے وھی معنی کیئے ھیں جو معنی شیعہ علماء نے آئمہ معصومین علیھم السلام کے اقوال کی روشنی میں کئے ھیں ۔
اب انصاف کا تقاضا ھے کہ ھمارے آئمہ علیھم السلام کی جانب سے بیان شدہ ”غنمتم “ کے معنی صرف ھمارے لئے ھی نھیں بلکہ اھل سنت کے لئے بھی لازم الاتباع ھونا چاھئے ۔کیونکہ ھمارے آئمہ علیھم السلام کی روایات میں جو معنی بیان کئے گئے ھیں وھی معنی ، استعمالات قرآنی اور روائی و لغوی معنی کے مطابق ھیں ۔
ایک مثال : عرب کا دستور ھے کہ جب مسافر وطن واپس آتا ھے تو اسے سلام کے بعد ایک دعائیہ جملہ ”خیر مقدم “ کھتے ھیں، یعنی خوش آمدید ۔ اسی طرح سفر پر جانے والے کو ” سالما غانما “ کھہ کر رخصت کرتے ھیں ۔”سالما “ کے معنی ھیںکہ سلامتی کے ساتہ واپس آؤ اور ”غانما “ یعنی غنیمت اور فائدہ کے ساتہ واپس آؤ اگر ”غانما “ کے معنی غنائم جنگی سے مخصوص ھوتے تو فقط میدان جنگ کی جانب سفر کرنے والوں کے لئے اس لفظ کا استعمال ھونا چاھئے تھا ۔جبکہ عرب ھر مسافر کےلئے اس لفظ کا استعمال کرتا ھے ۔ اس سے معلوم ھوتا ھے کہ لفظ ”غانم “ کے معنی غنائم جنگی میں منحصر نھیں ھیں بلکہ عربی زبان میں ھر قسم کی منفعت و فائدہ کو مغنم و غنیمت کھتے ھیں ۔
دلیل سوم: اطلاق آیت شریفہ
اگر آیت شریفہ اس طرح ھوتی کہ ” و اعلموا انما غنمتم من شئی (فی دار الحرب.........)“ تو اھل سنت کا کھنا صحیح تھا کہ غنیمت سے مراد فقط غنائم جنگی ھے۔ لیکن آیت شریفہ میں لفظ ” غنمتم “ مطلق ھے یعنی جو کچہ بھی تمھیں فائدہ پھونچے خواہ میدان جنگ میںیا زندگی کے دیگر میدانوں میں ․․․․اور جب لفظ ”غنمتم “ کے ساتہ خدا وند عالم نے کسی قسم کی کوئی قید و شرط نھیں لگائی تو پھرھمیں بھی اسکے معنی میں جنگ و حرب کی قید نھیں لگانی چاھئے ۔
دلیل اھل سنت علماء
اھل سنت کھتے ھیں :”غنمتم “ سے مراد غنائم جنگی ھی ھے کیونکہ اس سے قبل کی آیتیں جنگ کے متعلق ھیں اگر ” غنمتم “ کے معنی مطلق غنیمت ھوں۔یعنی ھر قسم کا فائدہ ، تو ان آیات کا آپس میں کوئی ربط نھیں رھتا ۔لھذا مذکورہ آیات کے باھمی ارتباط کی بقا کےلئے ضروری ھے کہ ”غنمتم “ کے معنی غنائم جنگی ھوں ۔
جواب : اس شبھہ کا جواب روشن ھے ، مذکورہ آیات کے بے ربط ھونے کا اندیشہ اسی وقت متصور ھے جب شیعہ یہ کھیں کہ لفظ ”غنمتم “ جنگی غنائم کو شامل نھیں ھے ۔ شیعہ یہ نھیں کھتے بلکہ ان کا یہ کھنا ھے کہ ”غنمتم “ جنگی غنائم کے شمول کے ساتہ ساتہ دوسرے غنائم کو بھی شامل ھے ۔لھذا آیات کے بے ربط ھونے کا خوف بے بنیاد ھے ۔
دوسرا اختلاف :
تقسیم خمس خواہ ”غنمتم “ عام منفعت پر دلالت کرتا ھو یا فقط جنگی منافع پر ، بھر کیف ھر دو مذھب کے علماء اس بات پر متفق ھیں کہ خمس ( ۵/۱ ) کو دوبارہ مختلف حصوں میں تقسیم ھونا چاھئے ، لیکن حصوں کی تعداد میں اختلاف ھے ۔
علمائے شیعہ کے نظریہ کے مطابق خمس کو چھہ (۶) حصوں میں تقسیم ھونا چاھئے ۔
۱۔ سھم خدا ۔۲۔ سھم پیغمبر ۔۳۔ سھم ذو القربیٰ ۔۴۔ سھم یتیم ۔۵۔ سھم مسکین ۔۶۔ سھم مسافر ۔
لیکن علمائے اھل سنت خمس کو فقط ۵ حصوں میں تقسیم کرنا ضروری سمجھتے ھیں اور وہ سھم خدا کے منکر ھیں ۔
علمائے شیعہ کی دلیل
آیت شریفہ :” .....فان للّہ خمسہ و للرسول .........․“
علمائے شیعہ کھتے ھیں آیت شریفہ میں صراحت کے ساتہ اللہ کا نام آیا ھے ” فان للہ “۔ خمس پانے والوں میں اللہ کا نام سر فھرست ھے ۔ پھر ھم کیوں اسکے حصہ کا انکار کریں ۔ اتنی واضح اور روشن دلیل ھوتے ھوئے آخر کیا وجہ ھے کہ اھل سنت سھم خدا کے منکر ھیں اور اسے غیر ضروری سمجھتے ھیں !
علماۓ اھل سنت کی دلیل
علماء اھل سنت کھتے ھیں کہ ظھور آیت کے مطابق ایک حصہ خدا کا ھے اور اسے چاھئے ،تو کیا خدا مال خرچ کرتا ھے کہ اسے دینا چاھئے !!!
رسول کو دینا صحیح ھے ، بھرحال وہ بھی انسان ھیں ان کو ضرورت پڑ سکتی ھے وھی حکم ذو القربیٰ و غیرہ کا ھے ۔ لیکن خدائے بے نیاز کو کچہ دینا بے معنی ولغو ھے اور جب خدا کو دینا معقول نھیں ھے تو اسکے لئے حصہ بنانا بھی فضول ھے ۔ لھذا خمس کو چھھ(۶) حصوں کے بجائے صرف پانچ (۵) حصوں میں تقسیم کرنا چاھئے ۔
اگر کوئی اعتراض کرے کہ جب خد اکو اپنا حصہ لینا نھیں تھا تو پھر خمس پانے والوں کی فھرست میں سب سے پھلے اسکا نام کیوں ھے ؟ اسکا جواب یہ دیتے ھیں کہ آیت شریفہ میں اللہ کا نام اسکی تعظیم و احترام کےلئے آیاھے ورنہ خدا وند کو اسکی ضرورت نھیں ھے ۔
دلیل اھل سنت کا جواب
اھل سنت کے مذکورہ استدلال کے جواب میں علمائے شیعہ کھتے ھیں : بسا اوقات غنائم جنگی کی مقدار بھت زیادہ ھوتی ھے یا غنائم جنگی میں بے حد نفیس و قیمتی زر و جواھرات ھوتے ھیں جیسے صدر اسلام کی جنگوں کے غنائم یا جنگ ایران کے غنائم کہ جسے ایک انسان تنھا خرچ بھی نھیں کر سکتا ۔
اب اگر ان غنائم جنگی کی تقسیم کے دوران ، سھم خدا کو یہ کھہ کر نہ نکالاجائے کہ خدا کو اس کی ضرورت نھیںھے تو چونکہ پیغمبر اکرم کی زندگی نھایت سادہ اور معوملی زندگی ھے اور سارے غنائم کا پچیسواں حصہ ایک عظیم سرمایہ ھے جوآپ کی سادہ زندگی کی ضرورت سے بھت زیادہ ھے ، آپ کی جیسی سادہ و معمولی زندگی کی ضرورت کو مھیا کرنے کے لئے مال غنیمت میں ھاتہ آئے قیمتی زر و جواھرات کی یقینا ضرورت نھیں ھے لھذا خدا کی طرح رسول کو بھی مال غنیمت کی ضرورت نھیں ھے اور جب رسول کو ضرورت نھیں ھے تو سھم خدا کی طرح سھم پیغمبر کو بھی ختم کر دینا چاھئے ۔ پیغمبر ھی کی طرح ذو القربیٰ کی زندگی بھی نھایت سادہ و معمولی ھے لھذا انھیں بھی خمس کی ضرورت نھیں ھے ۔
مختصر یہ کہ اگر سھم نہ بننے کا معیار بے نیازی ھے تو سھم خدا کے ساتہ سھم پیغمبر اور سھم ذو القربیٰ کو بھی ختم ھونا چاھئے کیونکہ وہ بھی خمس کے محتاج نھیں ھیں ۔ اور اگر پیغمبر اکرم اور ذو القربیٰ کے بے نیاز ھونے کے باوجود انکا سھم بن سکتا ھے تو خدا وند متعال کا حصہ ( سھم ) بھی خمس میں ھونا چاھئے ۔
حقیقت امر یہ ھے کہ صرف خدا کا ھی نھیں بلکہ پیغمبر و ذو القربیٰ کا ذکر بھی صرف انکی عظمت کو اجاگر کرنے اور انکی منزلت کا اعلان کرنے کے لئے ھے اور خمس کے یہ تین سھام ، زمان پیغمبر میں پیغمبر کے اختیار میں، زمان امام میں امام کے اختیار میں اور نائب امام کے زمانے میں نائب امام کے اختیار میں ھوتا ھے جسے وہ اپنے ذاتی کاموں میں خرچ کرنے کے بجائے اسلام و مسلمین کے اصلاحی و ارتقائی امور میں خرچ کرتا ھے ۔ اسکا مطلب یہ نھیں ھے کہ پیغمبر کو اپنے ذاتی امور میں سرف کرنے کا حق نھیں ھے بلکہ انھیں اسکی ضرورت نھیں ھوتی ۔
علاوہ برایں ، پیغمبر اکرم کو اگر مال دنیا کی ضرورت ھے تو صرف اس دنیا میں ھے ، بعد از وفات آپ کو ھر گزاسکی ضرورت نھیں ھے ۔ ایسی صورت میں آپ کے حصّے کا خمس کیا ھو گا اورکسے دیا جائے گا؟
بعض علمائے اھل سنت کھتے ھیں کہ زمانہ وفات میں سھم پیغمبر بھی سھم خدا کی طرح ساقط ھو جانا چاھئے اور خمس بقیہ چارگروھوں میں تقسیم ھونا چاھئے ۔ یہ راہ حل آیت شریفہ کے اطلاق کے منافی ھے ، آیت میں موت یا حیات کی قید و شرط کا ذکر نھیں ھے ۔
بعض دیگر کھتے ھیں کہ بعد وفات بھی سھم رسول باقی ھے اور اسے خلیفہ وقت تک پھونچنا چاھئے ۔ یہ راہ حل خود انھیں کے بنائے ھوئے معیار پر پورا نھیں اترتا، کیونکہ بعد از وفات یقینا رسول کسی چیز کے محتاج نھیں ھیں ۔
اور اگر بعد از وفات ، رسول کے محتاج و ضرورت مند نہ ھونے کے باوجود آپ کا سھم باقی ھے تو پھر آپ سھم خدا کے منکر کیوں ھیں؟ اور اگر بے نیاز ھونے کے سبب سھم خدا ساقط ھو جاتا ھے تو سھم پیغمبر بھی کم از کم زمانہ وفات میں ساقط ھو جانا چاھئے ۔
اس مختصر بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ مذھب شیعہ کا نظریہ بر حق و قرآن مجید کے مطابق ھے جبکہ اھل سنت کا قول کتاب خدا کے صریح احکام کے خلاف ھے ، مزیدیہ کہ ان کا ایجاد کردہ معیار بھی ثابت نھیں ھے ۔
سورہ انفال کی پھلی آیت یہ ھے :” یسئلونک عن الانفال ، قل الانفال للّہ و الرسول “ (۷)” پیغمبر ! یہ لوگ آپ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ھیں تو آپ کھہ دیجئے کہ انفال سب اللہ اور رسول کے لئے ھیں ۔
انفا ل کیا ھے ؟ اھل سنت کھتے ھیں کہ انفال سے مراد جنگی غنائم ھیں اور آیہ انفال جنگی سے مربوط ھے ۔تعجب اس پر ھے کہ بعض حضرات نے قرآن کے فارسی ترجمہ میں سورہ انفال کا نام سورہ غنائم ( یا جنگی غنائم ) رکھا ھے جبکہ یہ غلط ھے ۔ ھمارے ائمہ علیھم السلام نے فرمایا ھے کہ انفال صرف جنگی غنائم سے مخصوص نھیں بلکہ انفال ھر اس سرمایہ کو کھتے ھیں جو بغیر زحمت اور کام کے ، مفت ھاتہ لگ جائے جیسے وہ چیزیں جو خود بخود پیدا ھوئی ھیں مثلا جنگل اور پھاڑوں کے دامن میں زرخیز زمین وغیرہ ۔یہ سب اللہ اور رسول کا مال ھے اور رسول اور امام علیہ السلامھر ایک اپنے دور میں حاکم مسلمین ھونے کی حیثیت سے راہ خدامیں جھاں مصلحت سمجھیں خرچ کرتے ھیںاور انھیں انفال میں ایک جنگی غنائم ھیں۔ لھذا آیت میں جنگی غنائم کو انفال کا جزء قرار دیا گیا ھے ۔ اور آیھٴ خمس میں خدا وند عالم نے پیغمبر کو یہ اذن دیا ھے کہ اس عمومی مال کا چار حصہ فوجیوں میں تقسیم کریں ۔جو در حقیقت فوجیوں کا مال نھیں ھے اور فوجیوں کو یہ حق بھی نھیں ھے کہ وہ یہ کھیں کہ جنگ ھم نے کی ھے لھذا یہ ھمارا مال ھے ۔ اسی لئے یہ کھا جاتا ھے کہ اگر تم نے غنیمت کے لئے جنگ لڑی ھے تو تمھارا جھاد سرے سے باطل ھے اور اگر خدا کے لئے جنگ کی ھے تو خدا چاھے گا تو تمھیں کچہ عطا کر دے گا ۔ شیعوں کی نگاہ میں جنگی غنائم انفال کا حصہ ھیں اور یھیں سے ھمیں ایک دوسرے قانون کا سراغ ملتا ھے کہ جو چیزیں پھاڑوں کی چوٹیوں اور گھاٹیوں میں ملتی ھیں ۔وہ بھی انفال کا حصہ ھیں ، اور اس پر خدا اور رسول کا اختیارھے یعنی کسی کی ذاتی ملکیت نھیں ھے ۔
ھمارے آئمہ علیھم السلام نے یہ بھی فرمایا ھے کہ انفال میں صرف مذکورہ چیزیں نھیں ھیں بلکہ اگر تم خزانہ اور معدنیات کو بھی حاصل کرو تو وہ بھی در حقیقت کسی کی ذاتی ملکیت نھیں ھے ۔حتی کہ اگر کوئی کاروبار کرے تو جتنا کام کرے اور خرچ کرے اسکی ذاتی ملکیت ھوتی ھے اور بقیہ جو بچے وہ گویا اسکی ملکیت نھیں ھے لیکن خدا اور رسول نے اسے یہ اذن دیا ھے کہ ان تمام مقامات پر ( اسکے باوجود کہ اس کا مال نھیں ھے ) زائد مال کا چار حصے اپنے اوپر خرچ کرے اور پانچواں حصہ جسکے مالک خدا اور رسول ھیں، انھیں دے یعنی سماج کے اوپر خرچ ھو ۔
آیھٴ انفال اور آیھٴ خمس کی تفسیر جس طرح سے شیعہ اور اھل سنت کرتے ھیں دونوں میں بڑا فرق ھے ،جس انداز سے شیعہ تفسیر کرتے ھیں اس کا مطلب بھت ھی عام اور جامع ھے اس میں اسلام کے عبادی، اقتصادی ،حکومتی اور سیاسی سبھی نظام شامل ھو جاتے ھیں ۔
یھاں پر ایک سوال پیدا ھوتا ھے جس کا جواب ھمیں آئمہ طاھرین علیھم السلام کی روایات سے ملتا ھے ۔ ھماری شیعہ فقہ میں در حقیقت خمس کے چھہ سھم (حصے ) ھوتے ھیں سھم خدا ، سھم رسول ، سھم امام ، اور تین دوسرے سھم ھیں جنھیں سھم سادات کھتے ھیں جو یتیم ، فقیر اور مسکین سادات کا ھوتا ھے ۔ آج کل بھت سے لوگ خمس کے بارے میں دو بنیادی سوال کرتے ھیں ۔
فلسفہ خمس
۱۔ اسلام نے خمس کا حکم کیوں دیا ھے ؟
۲۔کیا یہ ایک طرح کا امتیاز نھیں ھے ؟
اسلام رسول کی اولاد اور قرابت داروں کے لئے مخصوص سھم کاقائل ھے جبکہ اسلام کے قوانین میں کسی طرح کا امتیاز نھیں پایا جاتا ۔ یہ ایک بڑا اقتصادی امتیاز ھے اوراس سے قطع نظر سادات کا مسئلہ غیر سادات سے الگ کیوں رکھا گیا ھے ؟ فرض کیجئے اگر دنیا کے سارے لوگ مسلمان ھو جائیں اور خمس دینا چاھیں( حضرت حجت کے زمانہ میں حتماً ایساھی ھو گا )تو اس سے اتنا بڑا بجٹ بن جائے گا کہ امریکہ جیسے مالدار ملک کا بجٹ بھی اتنا نھیں ھو گا ۔ آپ کھتے ھیں کہ اس رقم کا نصف حصہ یعنی سھم امام مسلمانوں کے اوپر خرچ کریں اور بقیہ نصف حصہ سادات کو دیں ۔ اگر دنیا کے سارے سادات کو جمع کریں اور انھیں سھم سادات دیں تو ایک سال کے اندر ان میں ھر ایک ارب پتی بن جائے گا ، اور اگر ھر سال یہ کام انجام پائے تو کیا حال ھوگا ۔
اس وقت دنیا میں جتنے شیعہ موجود ھیں اگر وھی اپنا خمس نکالیں اور اس کا نصف حصہ سادات کو دیں اور اس کا حساب لگایا جائے تو ایک عظیم بجٹ شمار ھوگا ۔ جبکہ سارے سادات بھی فقیر نھیں ھیں انکے درمیان کچہ ثروت مند بھی ھیں جنکے اوپر خمس واجب ھے ۔ لھذا اس عظیم بجٹ کا مصرف کیا ھوگا ؟ کیا یہ سادات کے لئے امتیاز نھیںھے ؟ اسکے علاوہ اگر ایک دوسرے مسئلہ کو مد نظر رکھیں تو یہ اعتراض دوسری شکل میں ھوتا ھے کہ جب ھم احکام شرعیہ کی کتابوں کو پڑھتے ھیں اور روایات اور شیعہ فقہ کا مطالعہ کرتے ھیں تو پتہ چلتا ھے کہ ھر سید کو خمس نھیں دیا جا سکتا بلکہ ایسے سید کو خمس دیں جسکے اندر سارے شرائط موجود ھوں جیسے وہ متجاھر بالفسق (علی الاعلان گناہ کرنے والا ) نہ ھو ، پیسے کو حرام طریقے سے خرچ نہ کرتا ھو اور فقیر ھو یعنی اتنا مال نہ ھو کہ زندگی گذار سکے اور نہ ھی اسے حاصل کرنے کی طاقت رکھتا ھو ۔
لھذا اگر کوئی ایسا سید ھو جو اتنی طاقت و قدرت رکھتا ھو کہ کاروبار کے ذریعہ اپنی زندگی معمول کے مطابق چلا سکے تو اسکو خمس نھیں دیا جائے گا ۔ پس ھر سرمایہ دار اور طاقتور سادات کو خمس نھیں دیا جا سکتا بلکہ سید فقیر جنکی تعداد بھت کم ھے صرف انھیں کو خمس دیا جائے گا ۔
یھاں پر ایک دوسرا اعتراض یہ ھوتا ھے کہ اگر ھر فقیر غیر سید کو زکات دینا چاھیں تو ایک دفعہ میں اتنا دیں کہ وہ مالدار ھو جائے دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیئے کہ ایک شخص سید نھیں ھے لیکن فقیر ھے اور خمس کے علاوہ رقم موجود ھے مثلا زکات کی رقم ھے تو کیا ھم اکٹھا اس کو مثلا ایک لاکہ روپئے دے سکتے ھیں جبکہ اس کا سالانہ خرچ صرف دس ھزار روپئے ھے اور بقیہ نوے (۹۰) ھزار روپئے اسکا سرمایہ قرار پاتا ھے ،تو جواب دیا گیا کہ ھاں ! ایسا کیا جاسکتا ھے ۔
سادات کے بارے میں کیا مسئلہ ھے ؟ کیا ایک سید کو اکٹھا اتنا خمس دیا جا سکتا ھے جو اسکے سالانہ خرچ سے زیادہ ھو اور بقیہ وہ اپنے لئے سرمایہ قرار دے تو کھا گیا کہ ایسا نھیں کر سکتے ۔
اس طرح کے شرائط سادات کے بارے میں ھیںکہ جو شخص خمس لے وہ فقیر ھو ، اسے صرف سالانہ اخراجات کی مقدار بھر خمس دیا جا سکتا ھے، اسکو خمس کی رقم سے غنی نھیں کیا جا سکتا ۔ لھذا ھم یھاں ایک دوسری مشکل میں گرفتار ھو گئے ،ابھی تک ھم کھتے تھے کہ اگر دنیا کے لوگ خمس دینے لگیں اور اسکی رقم سادات کو دیدیں تو وہ ارب پتی بن جائیں گے ،یھاں پر ا چانک ھمارا سامنا ایک نئے قانون سے ھوا کہ خمس کی رقم سرمایہ داروں اور طاقتور لوگوں کو نہ دیں بلکہ ان میں جو فقیر ھیں ان کو دیں وہ بھی صرف سال بھر کے خرچ کے مقدار بھر ،لھذا اس خمس کے بجٹ کا کوئی مصرف نھیں رھا ۔ ھم کس طرح سے اس کو خرچ کریں ؟
سابقہ بحث کو دیکھتے ھوئے یہ کھا جاسکتا ھے کہ خمس سادات کے لئے امتیاز کھنا ، غلط ھے ، اسلئے کہ اسلام کھتا ھے کہ صرف فقیر سید کو خمس دو ، اسکے علاوہ یہ بھی شرط ھے کہ اسے سال بھرکے خرچ سے زیادہ نہ دو ۔ لیکن ھمارے لئے ایک دوسری شکل میںیہ اعتراض باقی رہ جاتا ھے کہ اس عظیم بجٹ کو اسلام نے کس مصرف کے لئے معین کیا ھے ؟ تو ھمارے آئمہ نے اس کا جواب یہ دیا ھے کہ در اصل اس آیہ میں جو سھم خدا ، سھم رسول ، سھم قرابت دار ، سھم یتیم ، سھم مسکین اور سھم ابن سبیل کا ذکر آیا ھے اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ ان میں جا کر مال خمس کو تقسیم کرو ۔بلکہ یہ لوگ ان سھموں کے عنوان ھیں ۔ خمس کا بنیادی اور اصل مقصد یہ ھے کہ رسولکے دست مبارک میں پھونچے اور انکے بعد آئمہ کے پاس پھونچے ۔ کیونکہ رسول اور امام علیہ السلام اس بجٹ سے سادات کی کفالت کرتے ھیں۔ اگر ایک وقت ایسا آجائے کہ خمس کی رقم ان حضرات کے پاس نہ پھونچ سکے تو دوسرے مَد سے انکی کفالت کریں اور اگر یہ رقم پھونچ گئی تو معمول کے مطابق انکی کفالت کریں ۔ اور بقیہ رقم کو عمومی کاموں پر خرچ کریں ۔ یھی وجہ ھے کہ اگر چہ ھمارے زمانے میں فقیر سید زیادہ ھیں اور ان سے زیادہ خمس دینے والے موجود ھیں لیکن بعض علماء احتیاط کرتے ھیں اور فرماتے ھیں کہ سادات کو خمس بغیر مجتھد اور حاکم شرع کی اجازت کے نہ دیں ۔ اسی بنا پر آئمہ علیھم السلام نے فرمایا ھے کہ ” لہ فضل و علیہ ،نقص “یعنی سادات امام علیہ السلامیا نائب امام کی کفالت میں رھیں اگر مال خمس میںکمی واقع ھو جائے تو امام علیہ السلامیا نائب امام دوسری مدسے انکی ضرورت پورا کریں اور اگر خمس زیادہ مل جائے تو اسے سادات فقیر کو نہ دیں بلکہ مسلمانوں کی عام ضروریات پر خرچ کریں ۔ لھذا اگر کوئی یہ خیال کر ے کہ شیعہ مذھب نے سادات کے لئے ایک عظیم بجٹ قرار دیا ھے اور اس طرح سے انھیں ثروت مند بنانا چاھا ھے، غلط ھے اور یہ عوامی کھاوت کہ ”سید کو خمس ملتا ھے چاھے اسکے گھر کا ناؤ دان سونے کا ھو، جھوٹ ھے بلکہ سچ یہ ھے کہ اگر وہ کام کرنے کی طاقت رکھتا ھے تو چاھے اسکے گھر میں کچہ بھی نہ ھو اسے خمس نھیں مل سکتا ھے ۔ ھمارا اسلام اور ھماری فقہ جس بات کو کھتی ھے اور جو چیز احکام شرعی کی کتابوں میں تحریر ھے وہ وھی ھے جو یھاں پر عرض کیا گیا ۔
پس مذھب تشیع کی نظر میں خمس کا دائرہ بھت وسیع ھے ۔یھاں پر ایک دوسرا سوال باقی بچتا ھے کہ درست ھے کہ خمس سادات کے لئے اقتصادی امتیاز نھیں ھے لیکن اسلام نے سادات کے لئے ایک خاص حساب کیوں کھولا ھے ۔ اگر ھم مان لیں کہ سادات کے لئے اقتصادی امتیاز کی ضرورت نھیں ھے لیکن ایک قلبی اور نفسیاتی امتیاز یا ایک خصوصیت تو موجود ھے کہ وہ پیغمبر یا امام علیہ السلام یا نائب امام کے زیر سایہ زندگی گذارتے ھیں ۔
غیر سید کی زکات سید کو نھیں دی جاسکتی بلکہ وہ صرف خمس کے مال کو استعمال کر سکتا ھے ،یہ فرق کس لئے ھے ؟
اس میں کوئی شک نھیں کہ بعض احکامات شرع صرف سادات سے مخصوص ھیں اور اس سے پتہ چلتا ھے کہ اسلام چاھتا ھے کہ نسب سادات اور اس نسل خاص کا سلسلہ باقی رھے ۔ ھماری نظر میں سادات کےلئے اسلام میں اس سے بڑہ کر اور کیا غایت ھو سکتی ھے کہ اولاد رسول کھیں اس طریقے سے دوسروں سے مخلوط نہ ھو جائیں اور اپنا نسب گم کر بیٹھیں ۔ البتہ دوسروں سے شادی کرنے میں کوئی حرج نھیں ھے سید غیر سید کی لڑکی سے اور غیر سید ، سید کی لڑکی سے شادی کر سکتا ھے ۔ لیکن اسلام انکے نسب کو باپ کی جانب سے محفوظ رکھنا چاھتا ھے ۔جسکے نتیجہ میں ایک نفسیاتی احساس افراد میں پیدا ھوتا ھے اور وہ کھتے ھیں کہ میں اولاد رسول سے ھوں میں اولاد علی بن ابی طالب سے ھوں ، میں اولاد حسین بن علی سے ھوں ،ھمارے اجداد سابق میں ایسے تھے اور ان فضیلتوں کے حامل تھے ۔ یہ چیزیں باعث بنتی ھیں کہ اس خاص طبقہ میں اسلام کی سمت حرکت کرنے کا جذبہ پیدا ھو اور یہ جذبہ اقتصادی امتیاز کے حصول کی خاطر نہ ھو بلکہ اس لئے کہ اسلام کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خدمت کریں ۔اور تاریخ بھی بتاتی ھے کہ سادات جلیلہ کا سلسلہ مخصوصاً علوی سادات کے وجود میں صدر اسلام سے عصر حاضر تک انکے وجود میںایک ھی رگ پائی جاتی رھی ھے جو انکو دوسروں کے مقابلے میں اسلام کی حمایت کے لئے زیادہ ابھارتی رھی ھے ۔ اموی اور عباسی دور میں اکثر قیام علویوں کے ذریعہ انجا م پائے اور بعد کے دور میں بھی علماء ، حکماء اور ادباء کے مختلف طبقوں میں ایسے افراد موجود تھے جو رسول کے نسب سے تھے اور دوسروں کی بہ نسبت اسلام کی راہ میں زیادہ سر گرم تھے ۔ اس لئے کہ اسلام کی فطری خاصیت کے علاوہ انکو اپنی نفسیاتی کیفیت کی بنا پر یہ احساس ھو گیا تھا کہ ھم اولاد پیغمبر میںسے ھیں اور دوسروں سے زیادہ حق رکھتے ھیں کہ اس دین کو زندہ رکھیں اور اس پر عمل کرنے والے بنیں ۔ اسلام کی زیادہ سے زیادہ حمایت کریں ۔ اسکے باوجود سادات کی تعداد دوسروں کے مقابل میں بھت ھی کم ھے لیکن جس وقت حوزات علمیہ پر نظر ڈالتے ھیں تو معلوم ھوتا ھے کہ جنکو تحصیل علم دین کی زیادہ فکر ھے اور جو طالب علم دین کے خواھش مند ھیں انمیں سے شاید ایک تھائی سادات ھیں اور یہ وھی سادات ھونے کا احساس ھے جو انھیں زیادہ تر اس کام کے لئے ابھارتا ھے ۔ عصر حاضر میں ھم دیکھتے ھیں کہ مراجع کرام جنکی تقلید ھوتی ھے سید ھیں ۔ البتہ گذشتہ زمانہ میں غیر سید مراجع تھے لیکن انکی تعداد بھت ھی کم تھی ۔ آپ جانتے ھیں کہ سید جمال الدین اسد آبادی ایک بزرگ اسلامی مصلح تھے، انکے زمانہ میں اور آج کے زمانہ میں بڑا فرق ھے یعنی ملت اسلام انکے زمانہ میں اس وقت سے بھت اچھی تھی اور اب بھی اچھی ھے انھوں نے زیادہ تر اسلامی ملکوں کا دورہ کیا اور ھر جگہ سر گرم عمل رھے انھوںنے اپنی قومیت کو چھپائے رکھا اور کبھی اس کا اظھار نھیں کیا کہ میں کس ملک کا رھنے والا ھوں ،جیسا کہ ایرانی محققین نے تحقیق کی ھے او ر ظاھر ا درست بھی ھے کہ وہ ایرانی تھے لیکن جھاں جاتے تھے یہ نھیں بتاتے تھے کہ میں ایرانی ھوں اس لئے کہ اگر وہ یہ کھتے کہ میںایرانی ھوں تو عرب اور افغانی حساس ھو جاتے اور کھتے کہ ھم ایک ایرانی کی بات کیوںمانیں ؟ خاص طور سے اگر سنیوں کے درمیان یہ کھتے کہ میں ایرانی اور شیعہ ھوں تو ھرگز کامیاب نہ ھوتے ۔ اس لئے کہ ایک شخص ایران سے اٹھے اور مصر میں جا کر کھے کہ میں ایرانی اور شیعہ ھوں پھر تمام مصری علماء اسکی خدمت میں حاضر ھوں اور انکے سامنے زانوئے ادب تھہ کریں اور انکی شاگردی اختیار کریں ، یہ کام نا ممکن تھا ۔ وہ اکثر فرماتے تھے کہ میں افغانی ھوں کیونکہ ایک عرصہ تک افغانستان میں رھے اور چونکہ اکثر افغانی سنی تھے ۔ اور وہ احساس ضدیت نھیں کرتے تھے ۔یا کم از کم انکے بارے میں بد بین نھیں تھے کہ یہ کھیں کہ یہ شخص یھاں اس لئے آیا ھے کہ ھم کو ھمارے مذھب سے منحرف کر دے ۔ وہ اپنی دستخطوں کو کبھی ایک طرح سے نھیں کرتے تھے ،جس زمانے میں مصر میں تھے مصریوں کی طرح دستخط کی اور جب افغانستان میں تھے تو افغانیوں کی طرح ، لیکن جیسا کہ انکے بارے میں ملتا ھے ھمیشہ ایک چیز اپنے نام یا دستخط کے ساتہ ضرور لکھتے تھے وہ کلمھٴ ”حسینی “ھے، وہ ھمیشہ جمال الدین حسینی کے نام سے دستخط کرتے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ھو جائے کہ وہ اولاد حسین بن علی علیہ السلام سے ھیں اور حقیقت بھی ھے کہ وہ سید تھے اور اپنے اندر اس طرح کا احساس کرتے تھے کہ جیسے خون حسین بن علی علیہ السلام میں سے کوئی چیز انکی رگوں میں موجود ھے ۔
ھم نے خمس کے بارے میں موجود تمام احکامات اور قوانین اسلام کے ذریعے استدلال پیش کیا ،اب اگر ھم آیھٴ انفال اور آیھٴ خمس کو ایک ساتہ رکہ کردیکھیں تو اس نتیجے تک پھونچتے ھیں کہ مسئلہ خمس کا دائرہ بھت وسیع ھے جیسا کہ شیعوں نے کھا ھے ،نہ یہ کہ خمس جھاد کے فرعی مسائل میں سے ایک مختصر اور محدود مسئلہ ھے جیسا کہ اھل سنت کا کھنا ھے ۔ اور فقہ اسلام کسی طرح کا اقتصادی امتیاز سادات کو نھیں دیتا بلکہ صرف اسلئے کہ ایک روحی حالت انکے اندر باقی رھے اور انکا نسب محفوظ رھے یہ کام انکے بارے میں کیا ھے ،جیسا کہ انھوں نے بھی ایسا ھی کیا ھے اور انکی اکثریت اپنے نسب کے سلسلہ کو جانتی ھے کہ کس طرح سے انکا سلسلہ پیغمبر تک پھونچتا ھے اور اسلام چاھتا ھے کہ انکے اس نفسیاتی حالت سے فائدہ اٹھائے اور یہ نتیجہ نکالے جیسا کہ اسنے نتیجہ بھی نکالا ھے ۔
” و اعلموا انما غنمتم من شئی فان للّہ خمسہ “ ”اور یہ جان لو کہ تمھیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ھو اس کا پانچواں حصہ اللہ .........․․“ وہ خدا ، پیغمبر اورذوی القربیٰ کا حق ھے اور شیعہ سنی سب کے نزدیک یہ حکم زمان ِپیغمبر اور زندگی پیغمبر سے مخصوص نھیں ھے بلکہ انکے بعد بھی خمس ھے اور چونکہ وہ دنیا سے چلے گئے لھذا اس سے پتہ چلتا ھے کہ خمس صرف پیغمبر سے مخصوص نھیں ھے ،بلکہ انکے اھل بیت علیھم السلام کو بھی شامل ھے ۔ قرآن میں” ذی القربیٰ “یعنی تمام رشتہ داروں کا لفظ نھیں آیا ھے بلکہ رشتہ دار یعنی کلمہ ذی القربیٰ آیا ھے جیسا کہ ھماری روایات نے یھی تفسیر کی ھے یعنی اس سے معصومین علیھم السلام مراد ھیں ۔ اور قرآن میں ان کا مرتبہ ھے ۔” و الیتامیٰ و المساکین و ابن السبیل “ یعنی ، سادات تییموں ، مسکینوں اور ابن سبیل پر یہ رقم خرچ ھونی چاھئے، نہ یہ کہ جو بھی خمس ملے صرف انھیں پر خرچ ھو ۔
حوالہ:
۱۔سورہ انفال/ ۴۱
۲۔ الجامع لاحکام القرآن ، ابو عبد اللہ محمد بن احمد الانصاری القرطبی، ج۸، ص ۱
۳۔کافی ج ۱ ،ص ۵۴۵،باب الفی و الانفال
۴۔سورہ انفال /۴۱
۵۔سورہ انفال /۶۹
۶۔سورہ نساء /۹۴
۷۔سورہ انفال /