اتفاق سے تاریخی واقعات اور اسلامی معاشرہ کے مطالعہ سے بھی یہی بات ظاہر ہوتی ہے چنانچہ عمر نے کہا کہ: ھم نے جو علی (علیہ السلام) کو خلافت کے لئے منتخب نہیں کیا وہ "حِیۡطَۃً عَلیٰ الاِسلَام " تھا، یعنی ہم نے اسلام کے حق میں احتیاط سے کام لیا کیونکہ لوگ ان کی اطاعت نہیں کرتے اور انہیں (خلیفہ) نہیں مانتے!! یا ایک دوسری جگہ ابن عباس سے گفتگو کے دوران ان سے کہا: قریش کی نگاہ میں یہ عمل صحیح نہیں تھا کہ امامت بھی اسی خاندان میں رہے جس خاندان میں نبوت تھی۔ مطلب یہ تھا کہ نبوت جب خاندان بنی ہاشم میں ظاہر ہوئی تو فطری طور پر یہ اس خاندان کے لئے امتیاز بن گئی لہٰذا قریش نے سوچا کہ اگر خلافت بھی اسی خاندان میں ہوگی تو سارے امتیازات بنی ہاشم کو حاصل ہوجائیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ قریش کو یہ مسئلہ (خلافت امیرالمومنین) ناگوار تھا اور وہ اسے درست نہیں سمجھتے تھے۔ ابن عباس نے بھی ان کو بڑے ہی محکم جواب دیئے اور اس سلسلہ میں قرآن کی دو آیتیں پیش کیں جوان افکار و خیالات کا مدلّل جواب ہیں۔
بہر حال اسلامی معاشرہ میں ایک ایسی وضع و کیفیت پائی جاتی تھی جسے مختلف عبارتوں اور مختلف زبانوں میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن اُسے ایک صورت اور ایک انداز سے بیان کرتا ہے اور عمر اسی کو دوسری صورت سے بیان کرتے ہیں یا مثال کے طور پر لوگ یہ کہتے تھے کہ چونکہ علی علیہ السلام نے اسلامی جنگوں میں عرب کے بہت سے افراد اور سرداروں کو قتل کیا تھا، اور اہل عرب فطرتاً کینہ جو ہوتے ہیں لہٰذٓ مسلمان ہونے کے بعد بھی ان کے دلوں میں علی سے متعلق پدر کشی اور برادر کشی کا کینہ موجود تھا (لہٰذا علی علیہ السلام خلافت کے لئے مناسب نہیں ہیں) بعض اہل سنت بھی اسی پہلو کو بطور عذر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ اس منصب کے لئے علی (علیہ السلام) کی افضلیت سب پر نمایاں اور ظاہر تھی لیکن ساتھ ہی یہ پہلو بھی تھا کہ ان کے دشمن بہت تھے۔
بنابر ایں اس حکم سے سرتابی کے لئے ایک طرح کے تکدر وتردد کی فضا عہد پیغمبر میں ہی موجود تھی اور شاید قرآن کا ان آیات کو قرائن و دلائل کے ساتھ ذکر کرنے کا راز یہ ہے کہ ہر صاف دل اور بے غرض انسان حقیقی مطلب کو سمجھ جائے لیکن ساتھ ہی قرآن یہ بھی نہیں چاہتا کہ اس مطلب کو اس طرح بیان کرے کہ اس سے انکار و رو گردانی کرنے والوں کا انحراف قرآن اور اسلام سے انحراف و انکار کی شکل میں ظاہر ہو۔ یعنی قرآن یہ چاہتا ہے کہ جو لوگ بہر حال اس مطلب سے سرتابی کرتے ہیں ان کا یہ انحراف قرآن سے کھلّم کلھلّا انحراف و انکار کی شکل میں ظاہر نہ ہو بلکہ کم از کم ایک ہلکا سا پردہ پڑا رہے۔ یہی وجہ ہے جو ہم دیکھتے ہیں کہ آیت تطہیر کو ان آیات کے درمیان میں قرار دیا گیا ہے لیکن ہر سمجھدار، عقلمند اور مدبّر انسان بخوبی سمجھ جاتا ہے کہ یہ ان سے الگ ایک دوسری ہی بات ہے۔ اسی طرح قرآن نے آیت "الیَومَ اکملت" اور آیت "یَااَیَّها الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ " کو بھی اسی انداز میں دوسری آیتوں کے درمیان ذکر کیا۔
آیت اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ الله
اس سلسلہ میں بعض ایسی آیتیں بھی ہیں جو انسان کو سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کردیتی ہیں کہ یہاں ضرور کوئی خاص بات ذکر کی گئی ہے اور بعد میں متواتر احادیث و روایت سے بات ثابت ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر آیت "اِنَّمَا وَلِیُّکمُ الله وَرَسُولُه وَالَّذِبنَ اٰمَنُوا الَّذِبنَ یُقِبمُوۡنَ الصَّلوٰۃَ وَیُؤتُونَ الذَّکوٰۃَ وَهمۡ رَاکِعُوۡنَ" (مائدہ/ ۵۵) عجیب تعبیر ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ " تمہارا ولی خدا ہے اور ان کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ حالت رکوع میں زکوٰۃ دینا کوئی معمولی عمل نہیں ہے جسے ایک اصل کلی کے طور پر ذکر کیا جائے بلکہ یہ مطلب و مفہوم کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ یہاں اس کی تصریح و وضاحت بھی نہیں کی گئی ہے کہ اس سے سرتابی دوست و دشمن کے نزدیک براہِ راست قرآن سے روگردانی شمار کی جائے۔ لیکن ساتھ ہی کمالِ فصاحت کے ساتھ اسے اس انداز سے بیان بھی کردیا گیا ہے کہ ہر صاف دل اور منصف مزاج انسان سمجھ جائے کہ یہاں کوئی خاص چیز بیان کی گئی ہے اور کسی اہم قضیہ کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔
الَّذِبنَ یُؤتُوۡنَ الزَّکوٰ ۃَ وَهمۡ رَاکِعُونَ۔ وہ لوگ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دیتے ہیں "یہ کوئی عام سی بات نہیں ہے بلکہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے جو وجود میں آگیا۔ آخر یہ کون سا واقعہ تھا ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ بلا استثناء تمام شیعہ و سنی روایات کہتی ہیں کہ یہ آیت حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
عرفاء کی باتیں
دوسری آیتیں بھی ہیں جن پر گہرائی کے ساتھ غور وفکر سے مطلب واضح اور حقیقت روشن ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرفاء ایک زمانہ سے اس سلسلہ میں اظہارِ خیال کرتے رہے ہیں۔ در اصل یہ شیعی نقطۂ نظر ہے۔ لیکن عرفاء نے اسے بڑے حسین انداز میں بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ امامت و ولایت کا مسئلہ باطن شریعت سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی وہی اس تک رسائی حاصل کرسکتا ہے جو کسی حد تک شریعت اور اسلام کی گہرائیوں سے آشنا ہو یعنی اس نے پوست اور چھلکے سے گزر کر اس کے مغز و جوہر تک رسائی حاصل کرلی ہو اور بنیادی طور پر اسلام میں امامت و ولایت کا مسئلہ لُبّی اور اصل مسئلہ رہا ہے یعنی بہت مدیرانہ فکر عمیق رکھنے والے افراد ہی اسے درک اور سمجھ سکے ہیں۔ دوسروں کو بھی اس گہرائی کے ساتھ غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ اس مفہوم تک پہنچتے ہیں اور کچھ نہیں پہنچ پاتے۔
اب ہم اس سے متعلق بعض دیگر آیات پر توجہ دیتے ہیں ہمارا مقصود یہ ہے کہ شیعہ جو دلائل پیش کرتے ہیں ہم ان سے آگاہ ہوں اور ان کی منطق کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
امامت شیعوں کے یہاں نبوّت سے ملتا جلتا مفہوم
قرآن میں ایک آیت ھے جو ان ھی مزکورہ آیات کے سلسلہ کا ایک حصہ بھی ہے اور بظاہر عجیب آیت ہے۔ البتہ یہ خود امیرالمومنین(علیہ السلام) کی ذات سے متعلق نہیں ہے بلکہ مسئلۂ امامت سے متعلق ہے، ان ہی معنٰی میں ہے جسے ہم ذکر کرچکے ہیں اور یہاں اشارتاً اسے دوبارہ ذکر کرتے ہیں۔
ہم کہہ چکے ہیں کہ عہد قدیم سے ہی اسلامی متکلمین کے درمیان ایک بہت بڑا اشتباہ موجود رہاہے اور وہ یہ کہ انہوں نے اس مسئلہ کو اس انداز میں اٹھایا ہے کہ : امامت کے شرائط کیا ہیں ؟ انہوں نے مسئلہ کو یوں فرض کیا کہ امامت کو ہم بھی قبول کرتے ہیں اور اہل سنت بھی لیکن اس کے شرائط کے سلسلہ میں ہم دونوں میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ ہم کہتے ہیں شرائط امام یہ ہیں کہ وہ معصوم ہو اور منصوص ہو یعنی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے معیّن و مقرر کیا گیا ہو۔ اور وہ کہتے ہیں ایسا نہیں ہیں جب کہ شیعہ جس امامت کا عقیدہ رکھتے ہیں، اہل سنت سرے سے اس کے معتقد نہیں ہیں اہل سنت امامت کے عنوان سے جس چیز کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ امامت کی دنیوی حیثیت ہے جو مجموعی طور سے امامت کا ایک پہلو ہے جیسے نبوت کے سلسلہ میں ہے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک شان یہ بھی تھی کہ وہ مسلمانوں کے حاکم تھے لیکن نبوّت خود حکومت کے مساوی اور ہم پلّہ نہیں ہے۔ نبوت خود ایک ایسی حقیقت اور ایسا منصب ہے جس کے ہزاروں پہلو اور ہزاروں معانی و مطالب ہیں۔ پیغمبر کی شان یہ ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی اور مسلمانوں کا حاکم نہیں ہوسکتا۔ وہ نبی ہونے کے ساتھ مسلمانوں کا حاکم بھی ہے، اہل سنت کہتے ہیں کہ امامت کا مطلب حکومت ہے اور امام وہی ہے جو مسلمانوں کے درمیان حاکم ہو، یعنی مسلمانوں میں کی ایک فرد جسے حکومت کے لئے انتخاب کیا جائے گویا یہ لوگ امامت کے سلسلہ میں حکومت کے مفہوم سے آگے نہیں بڑھے۔ لیکن یہی امامت شیعوں کے یہاں ایک ایسا مسئلہ ہے جو بالکل نبوت کے ہی قائم مقام قدم بقدم ہے بلکہ نبوت کے بعض درجات سے بھی بالاتر ہے یعنی انبیاء اولوالعزم وہی ہیں جو امام بھی ہیں۔ بہت سے انبیاء امام تھے ہی نہیں۔ انبیاء اولوالعزم اپنے آخری مدارج میں منصب امامت پر سرفراز ہوئے ہیں۔
غرض یہ کہ جب ہم نے اس حقیقت کو مان لیا کہ جب تک پیغمبر موجود ہے کسی اور کے حاکم بننے کا سوا ہی نہیں اٹھتا۔ کیونکہ وہ بشریت سے مافوق ایک پہلو کا حامل ہے، یوں ہی جب تک امام موجود ہے حکومت کے لئے کسی اور کی بات ہی پیدا نہیں ہوتی۔ جب وہ نہ ہو (چاہے یہ کہیں کہ بالکل سے موجود ہی نہیں ہے یا ہمارے زمانہ کی طرح نگاہوں سے غائب ہے) اس وقت حکومت کا سوال اٹھتا ہے کہ حاکم کون ہے؟ ہمیں مسئلہ امامت کو مسئلۂ حکومت میں مخلوط نہیں کرنا چاہئیے کہ بعد میں یہ کہنے کی نوبت آئے کہ اہل سنت کیا کہتے ہیں اور ہم کیا کہتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہی دوسرا ہے۔ شیعہ کے یہاں امامت بالکل نبوت سے ملتا جلتا ایک مفہوم ہے اور وہ بھی نبوت کے عالی ترین درجات سے۔ چنانچہ ہم شیعہ امامت کے قائل ہیں اور وہ سرے سے اس کے قائل نہیں ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ قائل تو ہیں مگر امام کے لئے کچھ دوسرے شرائط تسلیم کرتے ہیں۔
امامَت ابراہیم علیہ السلام کی ذرّیت میں
یہاں ہم جس آیت کی تلاوت کرنا چاہتے ہیں وہ امامت کے اُسی مفہوم کو ظاہر کرتی ہے جسے شیعہ پیش کرتے ہیں۔ شیعہ کہتے ہیں، اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امامت ایک الگ ہی حقیقت ہے، جو نہ صرف پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بلکہ انبیاء ماسلف کے زمانے میں بھی موجود رہی ہے اور یہ منصب حضرت ابراہیم کی ذرّیت میں تا صبح قیامت باقی ہے وہ آیت یہ ہے: "وَاِذِابتَلیٰ اِبرَاهبمَ ربُّه بِکَلِمَاتٍ فَاَتَمَّهنَّ قَالَ اِنَّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماً قَالَ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ قَالَ لَا یَنَالُ عَهدِی الظَّالِمِبنَ" جب خداوند عالم نے چند امور و احکام کے ذریعہ ابراہیم کو آزمایا اور وہ ان آزمائشوں میں پورے اُترے تو (خدا نے) فرمایا:میں بلا شبہ تمہیں لوگوں کا امام بناتا ہوں (ابراہیم علیہ السلام نے) کہا: اور میری ذرّیت سے: فرمایا؛ میرا عھد ظالموں تک نہیں پہونچے گا۔
ابراہیم معرض آزمائش میں
حجاز کی جانب ہجرت کا حکم خود قرآن حکیم نے جناب ابراہیم علیہ السلام کی آزمائشوں سے متعلق بہت سے مطالب ذکر کئے ہیں۔ نمرود اور نمرودیوں کے مقابلہ میں ان کی استقامت و پائداری کہ نارِ نمرودی میں جانے سے نہ ہچکچائے اور ان لوگوں نے انہیں آگ میں ڈال بھی دیا اور اس کے بعد پیش آنے والے دوسرے واقعات۔ ان ہی آزمائشوں میں خداوند عالم کا ایک عجیب و غریب حکم یہ بھی تھا جسے بجالانا سوائے اس شخص کے جو خدا کے حکم کے سامنے مطلق تعبّد و بندگی کا جذبہ رکھتا ہو اور بے چون و چرا سرِ تسلیم خم کردے کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک بوڑھا جس کے کوئی اولاد نہ ہو اور ستّر اسّی سال کے سن میں پہلی مرتبہ اس کی زوجہ ہاجرہ صاحب اولاد ہوتی ہے اور ایسے میں اسے حکم ملتا ہے کہ شام سے ہجرت کرجاؤ اور حجاز کے علاقہ میں اس مقام پر جہاں اس وقت خانۂ کعبہ ہے، اپنی اس بیوی اور بچہ کو چھوڑدو اور خود وہاں سے واپس چلے آؤ۔ یہ حکم سوائے مطلق طور پر تسلیم و رضا کی منطق کے کہ چونکہ یہ حکم خدا ہے لہٰذا میں اس کی اطاعت کررہا ہوں (جسے حضرت ابراہیم نے محسوس کیا تھا کیونکہ آپ پر وحی ہوتی تھی) کسی اور منطق سے میل نہیں کھاتا۔
"رَبَّنَا اِنِّیۡ اَسکَنتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرَذِیۡ زَرۡعٍ عِندَ بَیتِکَ المُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِبمُوۡاالصَّلاۃ" پروردگارا : میں نے اپنی ذرّیت کو اس بے آب گیاہ وادی میں تیرے محترم گھر کے نزدیک ٹھرا دیا تاکہ یہ لوگ نماز ادا کریں البتہ آپ خود وحی الٰہی کے ذریعہ یہ جانتے تھے کہ انجام کار کیا ہے ؟ لیکن منزل امتحان سے بخوبی گزر گئے۔
------
سورۂ بقرہ آیت ۱۲۴
سورۂ ابراہیم آیت