عزا ، صبرو تحمل ، سوگ او رمصیبت کے لئے استعمال ہوتا ہے (فرھنگ عمید ، کلمہ عزا)عزّی باب تفعیل سے ہے عزّیہ الرجل تسلی دینے اور صبرو تحمل وصیت کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے اور احسن اللہ عزاک یعنی خدا تمہیں صبرو نیکی عنایت فرمائے (مصباح المنیر، فیومی ، ص ۵۰۴)پس عزاداری لغت میں غمزدہ کو تسلی دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
قرآن کریم میں عزاداری کا حکم صراحتا بیان نہیں ہوا ہے لیکن کچھ آیات سے عزاداری کی تائید اخذ کی جا سکتی ہے جیسے وہ آیات جو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کو جائز مانتی ہیں لاَیُحِبُّ اﷲُ الجَہرَ بِالسُّوئِ مِن القَولِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَکَانَ اﷲُ سَمِیعًا عَلِیمًا (نسائ۱۴۸)وہ آیات جو ولایت کی تحکیم اور مضبوطی کے لئے استعمال ہوتی ہیں إِنَّمَا وَلِیُّکُم اﷲُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُم رَاکِعُونَ (مائدہ۵۵)وہ آیات جو مودت اہلبیت کی تاکید کرتی ہیں (شوری ۲۳)وہ آیات جو انبیائ کی سوگواری پر دلالت کرتی ہیں (یوسف ۸۴۔۸۵)وہ آیات جو شعائر الہی کی تعظیم کا حکم دیتی ہیں (حج۳۲)
ایام عزا کے شروع ہوتے ہی بعض حضرات عزاداری یا اس میں رائج طریقوں پر سوال و اعتراض شروع کر دیتے ہیں عزاداری کی کچھ رسموں کو ہندو وں سے متاثر مانتے ہیں تو کچھ کو صفویہ حکومت اور ایرانیوں کی ایجاد کردہ اور کچھ عیسائیوں کو عزاداری کا موجد مانتے ہیں یہی وہ سوالات ہیں جو ذہن کو عزاداری کی تاریخی حیثیت جاننے کی طرف ابھارتے ہیں ۔ہم اپنے اس مختصر مضمون میں انشاء اللہ اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرینگے اگر چہ یہ سوال اپنے جواب کے لئے مفصل تالیفات کا طالب ہے لیکن کوشش یہ ہے کہ مختصر الفاظ میں ا سکا جواب دیا جا سکے ۔
ہم تاریخ کو دو دور میں تقسیم کرتے ہیں :کربلا سے پہلے کا دور ، اور کربلا کے بعد کا دور ، ہم محرم کے اس شمارے میں کربلا سے پہلے کی عزاداری کے تاریخی شواہد کو مختصر طور پر قارئین کی خدمت میں عرض کرینگے انشاء اللہ۔
عزاداری کربلا سے پہلے :
اس دور میں عزاداری اگرچہ آج کی رائج عزاداری کی طرح تو نہ تھی لیکن غم و رنج و گریہ و بکاء اس میں بھی پایا جاتا ہے یعنی عزاداری بمعنای اعم موجود تھی جو اس کے کلی جواز کی طرف اشارہ کرتی ہے روایت میں منقول ہے :تمام انبیاء کا گذر اس سرزمین (کربلا)سے ہوا اور جو بھی نبی اس مقام سے گذرے مصائب میں مبتلا ہوئے اور جب خدا سے ان مصائب کا سبب دریافت کرتے تو جواب آتا تھا یہاں فرزند رسول(ص) امام حسین(ع) کو شھید کیا جائیگا۔
(بحارالانوار، ج۴۴، ص۳۰۱، ح۱۰)
حضرت آدم (ع) جب زمین پر حضرت حوّا کی تلاش میں سرگرداں تھے کربلا سے ان کا گذر ہواتو دل بیٹھنے لگا آنکھیں بھر آئیں اور جب محل شھادت پر پہونچے پیر وں میں لرزہ ہوا اور زمین پر گر گئے جس کے سبب پیر سے خون جاری ہو گیا آسمان کی طرف رخ کیا اور عرض کیا :بار الٰہا مجھ سے کیا خطا سرزد ہوئی جس کی سزا مجھے ملی ہے ؟میں ساری زمین کو دیکھ آیا مگر اتنے مصائب والی زمین سے گذر نہ ہوا۔ خدا وند عالم نے وحی کی اور فرمایا:اے آدم تم سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا لیکن تمہارے فرزند حسین (ع)کواس جگہ ظلم و ستم سے شھید کیا جائیگا تمہارا خون ان کے خون کی موافقت میں جاری ہوا ہے ۔ حضرت آدم نے سوال کیا ان کا قاتل کون ہے ؟ وحی ہوئی انکا قاتل یزیدہے جو اہل آسمان و زمین کے نزدیک ملعون ہے حضرت آدم نے پوچھا جبرئیل ان کے قاتل کے بارے میں کیا کروں ؟ جبرئیل نے کہا:اس پر لعنت بھیجو ۔پس حضرت آدم نے چار بار لعنت بھیجی اور عرفات کی طرف روانہ ہو گئے جہاں حضرت حوا سے ملاقات ہوئی۔
(بحارالانوار، ج۴۴ ، ص۲۴۲، ح۳۷)
اشک رواں ، ص۲۱۷)جب آدم(ع) نے اپنے ترک اولیٰ کی توبہ کرنی چاہی تو جبرئیل نے ان سے کہا: اس طرح توبہ طلب کیجئے ۔۔(یا حمید بحق محمد، یا عالی بحق علی، یا فاطر بحق فاطمہ، یا محسن بحق الحسن، یا قدیم الاحسان بحق الحسین)جب نام حسین(ع) آپ کی زبان پر آیا تو بے ساختہ آنسو آپکی آنکھوں سے جاری ہو گئے جبرئیل سے پوچھا یہ پانچواں نام کیوں میرے دل کو توڑ رہا ہے اور بے اختیار آنسو میری آنکھوں سے رواں ہو گئے ؟ جبرئیل نے کربلا کے واقعہ کو بیان کیا۔ ۔ ۔ تاریخ کہتی ہے کہ آدم(ع) و جبرئیل(ع) اس طرح روئے جیسے اک ماں اپنے جوان لال کی میت پر روئے (بحار الانوار، ج ۴۴ ص۲۴۵)
حضرت نوح(ع) کی کشتی دنیا کی سیر کے بعد جب کربلا پہونچی تو بھنور میں پھنس گئی نوح(ع) نے خدا کے حضور عرض کیا: خدایا! کہیں ایسی گرفتاری پیش نہیں آئی یہاں ایسا کیوں ہوا؟ جبرئیل نازل ہوئے اور کہا اے نوح (ع) اس جگہ حضرت حسین (ع)نواسۂ خاتم النبیین(ص) فرزند امیر المومنین(ع) شھید ہونگے (بحارالانوار، ج۴۴، ص۲۴۳، ح۳۸)
حضرت ابراہیم (ع)جب کربلا سے گذرے تو گھوڑ ا لڑ کھڑ ایا اور آپ گھوڑ ے سے گرگئے سر زخمی ہو گیا اور خون جاری ہو گیا آپ نے استغفار کیا اور عرض کیا الٰھی مجھ سے کیا خطا سرزد ہوئی؟جبرئیل نازل ہوئے اور کہا: آپ سے کوئی خطا سرزد نہیں ہوئی لیکن اس جگہ خاتم المرسلین(ص)کے نواسے اور سید الاوصیا(ع)ء کے فرزندحضرت حسین شھید کئے جائیں گے آپکا خون ان کے خون کی موافقت میں جاری ہوا ہے (بحارالانوار، ج۴۴، ص۲۴۲، ح۳۹)
حضرت اسماعیل(ع) نے اپنے گوسفندوں کو فرات کے کنارے چَرانے بھیجا چَرانے والوں نے خبر دی اے نبی خدا گوسفند کئی روز سے پانی نہیں پیتے ۔ حضرت اسماعیل نے خدا سے ا سکا سبب دریافت کیا جبرئیل نازل ہوئے اور کہا:خود گوسفندوں سے ا سکا سبب دریافت کریں ۔ اسماعیل (ع) نے گوسفندوں سے ا سکا سبب دریافت کیا :گوسفند گویا ہوئے اور عرض کیا :ہمیں خبر ملی ہے کہ آپکے فرزند حضرت محمد(ص) کے نواسے حضرت امام حسین(ع) اس جگہ پیاسے شھید کئے جائینگے ہم ان کے غم میں یہاں سے پانی نہیں پیتے (بحارالانوار، ج۴۴ ، ص۲۴۲، ح۴۰)
حضرت سلیمان(ع) اپنے تخت ہوا پر سیر میں مصروف تھے کہ زمین کربلا کے اوپر سے گذر ہوا ، ہوا نے آپکا تخت تین مرتبہ اس طرح گھمایا کہ حضرت سلیمان پر خوفِ سقوط طاری ہو گیا ہوا نے تخت کو وہیں پر اتار دیا سلیمان (ع) نے پوچھا کس لئے اتار دیا؟ ہوا نے عرض کیا: یہ وہ جگہ ہے جہاں امام حسین(ع) شھید ہونگے ، سلیمان نے پوچھا حسین (ع)کون ہیں ؟ ہوا نے کہا: حسین (ع) ، محمد(ص) مصطفے کے نواسے اور علی مرتضی(ع) کے بیٹے ہیں (بحارالانوار، ج۴۴ ، ص۲۴۴، ح۴۲)
حضرت موسی(ع) یوشع بن نون کے ساتھ سیر میں مشغول تھے کہ ان کا گذر کربلا سے ہوا اچانک ان کی نعلین پارہ ہوگئی اور کانٹا، پیر میں پیوست ہوجانے سے خون جاری ہو گیا عرض کی خداوند عظیم مجھ سے کیا خطا سرزد ہوئی ہے جو خون جاری ہو گیا؟جواب آیا: یہاں حسین(ع) شھید ہونگے تمہارا خون ان کی موافقت میں جاری ہوا ہے ۔ پوچھا حسین کون ہیں ؟فرمایا حسین(ع) محمد مصطفے (ص) کے نواسے اور علی مرتضیٰ(ع) کے بیٹے ہیں (بحارالانوار، ج۴۴ ، ص۲۴۴، ح۴۱)
حضرت عیسیٰ (ع)اپنے حواریوں کے ساتھ مشغول سفر تھے کہ انکا گذر کربلا سے ہوا اچانک ایک شیر نے انکا راستہ روک لیا حضرت عیسیٰ آگے آئے اور شیر سے پوچھا راستہ روکنے کا سبب کیا ہے ؟شیر گویا ہوا:میں یہ راستہ نہیں کھولونگا مگر یہ کہ امام حسین (ع) کے قاتل پر لعنت کرو۰۰۰ حضرت عیسیٰ(ع) نے ہاتھ اٹھائے اور یزید پر لعنت کی۔ شیر نے راستہ کھول دیا (بحارالانوار، ج۴۴ ، ص۲۴۴، ح۴۳)
مرحوم حائری مازندرانی نے اس واقعہ کے ذیل میں لکھا ہے :حضرت عیسیٰ(ع) اور حواریوں نے گریہ کیا اور حضرت عیسیٰ نے اپنے حواریوں سے فرمایا:اے بنی اسرائیل امام حسین (ع) کے قاتل پر لعنت کرو اوراگر اس زمانے میں موجود رہو تو ان کی مدد کرنا ان کی رکاب میں جام شھادت انبیاء کے ساتھ شھید ہونے کے برابر ہے (معالی السبطین ج۱، ص۱۷۶)
ام المومنین ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں :ایک شب رسول ا کرم(ص) باہر تشریف لے گئے اور کافی دیر بعد جب گھر میں تشریف لائے تو عجیب عالم تھا پریشان حال ، گرد آلود تھے اور ایک ہاتھ کی مٹھی بند تھی میں نے عرض کی: یا رسول اللہ آپکا
یہ کیا عالم ہے ؟آپ(ص) نے فرمایا:ابھی مجھے عراق میں کربلا کے مقام پر لے جایا گیا تھا وہاں میرے لال حسین اورمیرے اہل حرم کی شھادت کی جگہ دکھائی گئی میں نے ان کا خون اپنے ہاتھوں میں سمیٹ لیا ہے وہ خون میری مٹھی میں ہے ۔ پھر آپ نے وہ مٹھی میری طرف بڑ ھادی اور فرمایا:اسے لو اور محفوظ کر لو میں نے وہ سرخ خاک لی اور ایک شیشی میں حفاظت سے رکھ دی، حسین(ع) جب کوفے کی طرف روانہ ہوئے تو میں روزانہ اس شیشی کو دیکھتی اور گریہ کرتی تھی یہاں تک کہ دس محرم آ گئی صبح میں نے وہ مٹی دیکھی تو اپنی اصلی حالت میں تھی لیکن جب دن ڈھلنے لگا تو میں نے دیکھا وہ تازہ خون میں تبدیل ہوگئی تھی میں نے آہستگی سے گریہ کیا تاکہ دشمن میری آواز نہ سن سکیں یہاں تک کہ یہ خبر مدینہ پہونچ گئی۔ ۔ ۔ (اشکوارہ کربلا ، ص۳۱۔۳۲)
اس کے علاوہ تاریخی کتابوں میں جنگ صفین کے سفر میں امیر المومنین (ع) کا کربلا سے گذر اور آپکا گریہ اور اس سر زمین کی عظمت کا بیان مفصل ذکر ہے ہم اختصار کا خیال رکھتے ہوئے اسی پر اکتفا ء کرتے ہیں اور عزاداری سید الشہداء پر کربلا کے بعد ایک نظر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں