اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

حضرت نوح عليہ السلام

قرآن مجيد،بہت سى آيات ميں نوح كے بارے ميں گفتگو كرتا ہے اور مجمو عى طور پر قرآن كى انتيس سورتوں ميںاس عظيم پيغمبر كے بارے ميں گفتگو ہوئي ہے ،ان كانا م43/ مرتبہ قرآن ميں آيا ہے _

قرآن مجيد نے ان كى زندگى كے مختلف حصوں كى باريك بينى كے ساتھ تفصيل بيان كى ہے ايسے جوزيادہ تر تعليم وتربيت اور پندو نصيحت كے پہلوئوں سے متعلق ہيں _

مورخين ومفسرين نے لكھا ہے كہ نوح كا نام '' عبد الغفار ''يا عبد الملك''يا''عبدالاعلى '' تھااور ''نوح'' كا لقب انھيں اس لئے ديا گيا ہے ، كيونكہ وہ سالہا سال اپنے اوپر يا اپنى قوم پر نوحہ گريہ كرتے رہے _آپ كے والد كا نام ''لمك ''يا'' لامك ''تھا اور آپ كى عمر كى مدت ميں اختلاف ہے ،بعض روايات ميں 1490 /اور بعض ميں 2500 /سال بيان كى گئي ہے ، اور ان كى قوم كے بارے ميں بھى طولانى عمريں تقريبََا300/ سال تك لكھى گئي ہيں ،جوبات مسلم ہے وہ يہ ہے كہ آپ نے بہت طولانى عمر پائي ہے، اورقرآن كى صراحت كے مطابق آپ50 9/ سال اپنى قوم كے درميان رہے ( اور تبليغ ميں مشغول رہے)_

نوح كے تين بيٹے تھے ''حام''''سام'' يافث ''اور مو رخين كا نظريہ يہ ہے كہ كرئہ زمين كى اس وقت كى تمام نسل انسانى كى بازگشت انھيں تينوں فرزندوں كى طرف ہے ايك گروہ ''حامي'' نسل ہے جو افريقہ كے علاقہ ميں رہتے ہيں دوسرا گروہ ''سامى ''نسل ہے جوشرق اوسط اور مشرق قريب كے علاقوں ميں رہتے ہيں اور ''يافث '' كى نسل كو چين كے ساكنين سمجھتے ہيں _

حضرت نوح نے ۹۵۰ سال تبلیغ کی فقط ۷ مومن 

اس بارے ميں بھى ،كہ نوح (ع) طوفان كے بعد كتنے سال زندہ رہے ،اختلاف ہے بعض نے 50 /سال لكھے ہيں اور بعض نے 60 /سال _(1)

نوح عليہ السلام كا ايك اور بيٹا بھى تھا جس كا نام ''كنعان ''تھا جس نے باپ سے اختلاف كيا، يہاں تك كہ كشتى نجات ميں ان كے ساتھ بيٹھنے كے لئے بھى تيار نہ ہوا اس نے برے لوگوں كے ساتھ صحبت ركھى اور خاندان نبوت كے ا قدار كو ضائع كرديا اور قرآن كى صراحت كے مطابق آخر كاروہ بھى باقى كفار كے مانند طوفان ميں غرق ہوگيا _اس بارے ميں كہ اس طويل مدت ميں كتنے افراد نوح(ع) پر ايمان لائے ،اور ان كے ساتھ كشتى ميں سوار ہوئے ،اس ميں بھى اختلاف ہے بعض نے 80/اور بعض نے 7/ افراد لكھے ہيں _

نوح عليہ السلام كى داستان عربى اور فارسى ادبيات ميں بہت زيادہ بيان ہوئي ہے ، اور زيادہ تر طوفان اور آپ كى كشتى نجات پر تكيہ ہوا ہے _ نوح عليہ السلام صبر وشكر اور استقامت كى ايك داستان تھے ، اور محققين كا كہنا ہے كہ وہ پہلے شخص ہيں جنھوں نے انسانوں كى ہدايت كےلئے وحى كى منطق كے علاوہ عقل واستدلال كى منطق سے بھى مددلى (جيسا كہ سورہ نوح كى آيات سے اچھى طرح ظاہر ہے ) اور اسى بناء پر آپ اس جہان كے تمام خدا پرستوں پر ايك عظيم حق ركھتے تھے _

قوم نوح عليہ السلام كى ہلا دينے والى سرگزشت

اس ميں شك نہيں كہ حضرت نوح عليہ السلام كا قيام اور ان كے اپنے زمانے كے متكبروں كے ساتھ شديد اور مسلسل جہاد اور ان كے برے انجام كى داستان تاريخ بشر كے فراز ميں ايك نہايت اہم اور بہت عبرت انگيز درس كى حامل ہے_

قرآن مجيد پہلے مرحلے ميں اس عظيم دعوت كو بيان كرتے ہوئے كہتا ہے ''ہم نے نوح كو ان كى قوم كى طرف بھيجا اور اس نے انھيں بتايا كہ ميں واضح ڈرانے والا ہوں''_ (2)
اس كے بعد اپنى رسالت كے مضمون كو صرف ايك جملہ ميںبطور خلاصہ بيان كرتے ہوئے كہتا ہے ميرا پيغام يہ ہے كہ '' اللہ ''كے علاوہ كسى دوسرے كى پرستش نہ كرو(3) پھر بلا فاصلہ اس كے پيچھے اسى مسئلہ انذاراور اعلام خطر كوتكرار كرتے ہوئے كہا :''ميں تم پر درد ناك دن سے ڈرتا ہوں ''_(4)
اصل ميں اللہ (خدا ئے يكتا ويگانہ ) كى توحيد اور عبادت ہى تمام انبياء كى دعوت كى بنياد ہے _
اب ہم ديكھيں گے كہ پہلا ردّ عمل اس زمانے كے طاغوتوں ،خود سروں اور صاحبان زرو زوركا اس عظيم دعوت اور واضح اعلام خطركے مقابلے ميںكيا تھامسلماََسوائے كچھ بيہودہ اور جھوٹے عذر بہانوں اور بے بنياد استدلالوں كے علاوہ كہ ان كے پاس كچھ بھى نہيں تھا جيساكہ ہر زمانے كے جابروں كے طريقہ ہے _
انہوں نے حضرت نوح كى دعوت كے تين جواب دئے : ''قوم نوح(ع) كے سردار اور سرمايہ داركا فرتھے انہوں نے كہا: ہم تو تجھے صرف اپنے جيسا انسان ديكھتے ہيں''_(5)
حالانكہ اللہ كى رسالت اور پيغام تو فرشتوں كو اپنے كندھوں پر لينا چاہيئے نہ كہ ہم جيسے انسانوں كو ،اس گمان كے ساتھ كہ انسان كا مقام فرشتوں سے نيچے ہے يا انسان كى ضرورت كو فرشتہ انسان سے بہتر جانتا ہے_
(1)يہود كے منابع (موجودہ توريت ميں بھى نوح كى زندگى كے بارے ميں تفصيلى بحث آئي ہے ،جو كئي لحاظ سے قرآن سے مختلف ہے اور توريت كى تحريف كى نشانيوں ميں سے ہے ، يہ مباحث توريت كے سفر''تكوين ''ميں فصل 6،7،8 ،9 اور 10 ميں بيان ہوئے ہيں 
(2)سورہ ہود آيت 25
(3)سورہ ہود آيت 26
(4)سورہ ہود آيت27


source : http://www.maaref-foundation.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تحریک حسینی کے تناظر میں امر بالمعروف ونہی عن ...
انبیاء الہی كی حمایت اور ان كی پیروی
امام زمانہ علیہ السلام کے فرامین
امام محمد باقر (ع) کے علمی فیوض
ماہ رجب کی اہم مناسبتیں
روزہ کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں چند احادیث
اسامي قرآن کا تصور
ماہ رجب کےواقعات
نماز کی اذان دنیا میں ہر وقت گونجنے والی آواز
شہید مطہری کے یوم شہادت پر تحریر (حصّہ دوّم )

 
user comment