اردو
Tuesday 24th of December 2024
0
نفر 0

خوشی اور غم قرآن کریم کی روشنی میں

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم لوگ فطری طور پر مطلوب حالات کے طالب ہیں اور اگر اس کوثابت کرنا چاہیں کہ خوشی ایک مطلوب امر ہے تویہ ایک قسم کی توتولوژی کی طرف پلٹتی ہے ،کیونکہ خوشی وہی چیز ہے جس کو ہم پسند کرتے ہیں اس کی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہے

خوشی کا مفہوم کیا ہے ؟ اگر ہر چیز کی تعریف کی ضرورت ہے تو جوچیز ہمارے دلوں کے اندر علم حضوری کے اعتبار سے پائی جاتی ہے اس کی تعریف کی ضرورت نہیں ہے ،اگر کہا جائے کہ یہ بدیہی مفاہیم ہیں ان کی تعریف کی ضرورت نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس کا مصداق اپنے اندر پاتے ہیں یعنی خارج میں جس مفہوم کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں وہ ہمارے اندر موجود ہے اور اس کی تعریف کی ضرورت نہیں ہے لیکن چونکہ خوشی کے الفاظ ایک دوسرے سے مشابہ ہیں جس کے معنی ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ، بعض علماء ،خوش، خوشحالی، شادی، شادمانی اور سرور جیسے الفاظ کے معانی میں فرق کے قائل ہیں ، جو لغات شناس سے مربوط ہیں اور قرآنی بحثوں میں اس کا کوئی ربط نہیں ہے ہم ان تمام معانی کواجمالا بیان کریں گے ۔

نفسیاتی حالات سے جوچیز مربوط ہے وہ یہ ہے کہ جس وقت ہم اپنے نفسیاتی حالات کو دیکھتے ہیں تو وہ دو طرح کے ہوتے ہیں :

۱۔ ایک حالت یہ ہے کہ وہ ہمیں اچھی لگتی ہے اور ہم اس کو پسند کرتے ہیں ، اس حالت کے لئے بہت سے مفاہیم وضع کئے گئے ہیں جیسے : سرور، شادی، شادمانی، خوش و خرم، وغیرہ۔ کیا ان مفاہیم کا شمار احساسات ، عوطف اور ہیجانات میں ہوتا ہے ؟ یہ وہ بحثیں ہیں جن کو ماہر نفسیات بیان کرتے ہیں ، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے ، کیونکہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ جو کچھ انسان اپنے اندر احساس کرتا ہے جیسے : خوشی، خوشحالی اور خوشبختی وغیرہ اوراس کے مقابلہ میں غم و اندوھ ، غصہ،اضطراب اور پریشانی وغیرہ کا احساس کرتا ہے ،ان تمام مفاہیم کی اسلام اور قرآن میں کیا اہمیت ہے ؟

خوشی اورخوشحالی کو طلب کرنا فطری ہے

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم لوگ فطری طور پر مطلوب حالات کے طالب ہیں اور اگر اس کوثابت کرنا چاہیں کہ خوشی ایک مطلوب امر ہے تویہ ایک قسم کی توتولوژی کی طرف پلٹتی ہے ،کیونکہ خوشی وہی چیز ہے جس کو ہم پسند کرتے ہیں اس کی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ ایک قسم کی تحلیل ہے ،البتہ مفاہیم میں کچھ تصرف کیا جاسکتا ہے ،ایک مرتبہ اس میں کسی چیز کا اضافہ کرتے ہیں اور ایک مرتبہ اس سے کسی چیز کو کم کرتے ہیں ، لیکن ان سب میں مطلوب حالات پوشیدہ ہیں اور انسان اس کو تلاش کرکے حاصل کرنا چاہتا ہے ۔اس بناء پر اس کا تصوری اور تصدیقی مصداق معلوم ہے جس سے انسان خوش ہونا چاہتا ہے ،گویا کہ” خوش ہونا چاہئے“ اور” خوش“ ہے ، میںکچھ فرق ہے ، معرفت شناسی کے موضوع میں اس سلسلہ میں بحث ہوئی ہے کہ ”ہے“ اور ”چاہئے“ کے درمیان کیا رابطہ ہے؟اگر چہ یہاں پر اس کی بحث کرنے کی جگہ نہیں ہے لیکن ایک معنی میں ”چاہئے “ کو ”ہے“ کی طرف پلٹانا صحیح ہے ، چاہے وہ ضرورت بالغیر کی صورت میں ہو یا ضرورت بالقیاس کی صورت میں ہو۔ (بہر حال ہم اپنے اندر احساس کرتے ہیں کہ ہمیں خوشحال رہنا چاہئے،یعنی خوش رہیں، یہ ”چاہئے“ وہی فطری حالت ہے جو زندگی میں خوشحال رہنے کو بیان کرتا ہے ، پس ان میں ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ہم اس کے مفہوم کے بارے میں بحث کریں یا اثبات کریں کریں کہ خوشی اور خوشحالی ، مطلوب امر ہے ۔

قرآن کریم کی نظر میں دنیوی خوشحالی

قرآن کریم جس وقت لوگوں کو نیکی ، خود سازی، اصلاح، تہذیب نفس، خیر، عدالت اورظلم و ستم سے جنگ کرنے کی دعوت دیتا ہے تو ان سے وعدہ کرتا ہے کہ ایک روز وہ آئے گا کہ تم بہت زیادہ خوشحال ہوں گے ۔ خداوندعالم نے سورہ ہل اتی میں اہل بیت (صلوات اللہ علیہم) کی تعریف کرنے کے بعد فرمایا : ”وَ یُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلی حُبِّہِ مِسْکیناً وَ یَتیماً وَ اٴَسیراً ، إِنَّما نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللَّہِ لا نُریدُ مِنْکُمْ جَزاء ً وَ لا شُکُوراً ، إِنَّا نَخافُ مِنْ رَبِّنا یَوْماً عَبُوساً قَمْطَریراً، فَوَقاہُمُ اللَّہُ شَرَّ ذلِکَ الْیَوْمِ “ اس کے بعد فرمایا : ”وَ لَقَّاہُمْ نَضْرَةً وَ سُرُورا“ ۔ یہ اس کی محبت میں مسکین یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں ، ہم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمہیں کھلاتے ہیں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ ، ہم اپنے پروردگار سے اس دن کے بارے میں ڈرتے ہیں جس دن چہرے بگڑ جائیں گے اور ان پر ہوائیاں اڑنے لگیں گی ، تو خدا نے انہیں اس دن کی سختی سے بچالیا اور تازگی اور سرور عطا کردیا۔

یہ خداوند عالم کے بہترین اور لائق بندے ہیں ،یہ انسانوں کے لئے نمونہ عمل ہیں ، اسی وجہ سے اسلام ،ان کا تعارف کراتا ہے ،ان سے زیادہ بہتر اور سزاوار کوئی نہیں ہے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، امیرالمومنین، فاطمہ زہرا اور حسنین (علیہم السلام) اس آیت کے مصداق ہیں ، یہ آیت ان کی شان میں نازل ہوئی ہے ،خداوند عالم فرماتا ہے : ” ہم نے ان کو روز قیامت کی سختیوں سے محفوظ کردیا اور ان کو خوشی اور خوشحالی عطاء کردی“ ۔ یہ بات کس لئے ارشاد فرمائی ہے ؟دوسروں کو ترغیب دلانے کے لئے تاکہ وہ بھی ایسا ہی کام انجام دیں،حضرت موسی (علیہ السلام) کی والدہ اور حضرت مریم کو بھی اس طرح غم کے بعد خوشی نصیب ہوئی تھی ۔

فرعون کی حکومت میں جہاں بنی اسرائیل کو غلام سمجھا جاتا تھا وہاں پر ایک مدت کے بعد پوشیدہ طور حضرت موسی (علیہ السلام) کی والدہ حاملہ ہوگئیں اور چونکہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کردیا جاتا تھا اس لئے حضرت موسی کی والدہ نے پوشیدہ طور سے اپنے بچے کو جنم دیا لیکن وہ پریشان تھیں کہ ابھی فرعون کے سپاہیوں کو معلوم ہوجائے گا اور وہ اس بچہ کا سر تن سے جدا کردیں گے ، ایک ایسی شدید پریشانی (جس کو ہم مرد لوگ تصور نہیں کرسکتے )خداوند عالم فرماتا ہے : ہم نے حضرت موسی کی والدہ کو الہام کیا : ”وَ اٴَوْحَیْنا إِلی اٴُمِّ مُوسی اٴَنْ اٴَرْضِعیہِ فَإِذا خِفْتِ عَلَیْہِ فَاٴَلْقیہِ فِی الْیَمِّ وَ لا تَخافی وَ لا تَحْزَنی إِنَّا رَادُّوہُ إِلَیْکِ وَ جاعِلُوہُ مِنَ الْمُرْسَلینَ “ (سورہ قص، آیت ۷)۔ اور ہم نے مادر موسٰی کی طرف وحی کی کہ اپنے بچّہ کو دودھ پلاؤ اور اس کے بعد جب اس کی زندگی کا خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دو اور بالکل ڈرو نہیں اور پریشان نہ ہو کہ ہم اسے تمہاری طرف پلٹا دینے والے اور اسے مرسلین میں سے قرار دینے والے ہیں 

ہم اس بچہ کو واپس تمہاری طرف پلٹائیں گے لہذا تم پریشان نہ ہو ، غم نہ کرو بلکہ خوشحال ہوجاؤ ۔ کس چیز پر خوش ہوجاؤ، اسی وعدہ پر جو ہم نے تمہیں دیا ہے کہ ہم تمہارے بچہ کو تم تک واپس پلٹائیں گے اور صرف بچہ ہی کو نہیں پلٹائیں گے بلکہ ان کا شمار بڑے انبیاء میں ہوگا ، اللہ کی اس بشارت سے حضرت موسی کی والدہ کا دل ٹھنڈا ہوگیا اور ان کو سکون مل گیا ۔ ”فَرَدَدْناہُ إِلی اٴُمِّہِ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُہا وَ لا تَحْزَنَ“ (سورہ قصص ، آیت ۱۳)۔ پھر ہم نے موسٰی کو ان کی ماں کی طرف پلٹا دیا تاکہ ان کی آنکھ ٹھنڈی ہوجائے اور وہ پریشان نہ رہیں ۔ قرآن کریم کی چند آیتیں انہی تعبیرات میں اسی واقعہ سے متعلق نقل ہوئی ہیں ۔ خدا وند عالم جس وقت اپنے لایق بندے جیسے حضرت موسی کی والدہ پر احسان کرنا چاہتا ہے تو اس طرح ان کے دلوں سے پریشانیوں کو ختم کردیتا ہے اور ان کو خوشحال کردیتا ہے ۔ اگر یہ خوشحالی مطلوب نہ ہوتی تو قرآن کریم یہ احسان نہ رکھتا کہ ہم نے حضرت موسی کی والدہ کی اس طرح خدمت کی ۔

اسی واقعہ کی طرح حضرت عیسی(علیہ السلام) کی والدہ کا واقعہ ہے ۔ جس وقت حضرت مریم (علیہا السلام)بغیر شوہر کے حاملہ ہوگئیں اور حضرت عیسی (علیہ السلام) کی ولادت کا وقت قریب آگیا تو آپ اس بچہ کی ولادت کی وجہ سے بہت پریشان ہوئیں کہ ابھی سب لوگ آپ پر بہت زیادہ تہمتیں لگائیں گے ، جو عورت اپنی پیدائش سے لے کر آخر عمر تک عفت و پاکیزگی کا نمونہ ہو اس پر اس طرح کی تہمتیں لگائی جائیں ، تو یہ مرحلہ اس عورت کے لئے بہت سخت اور پریشانی کا سبب ہے ۔ قرآن مجید ، حضرت مریم کے اس وقت کو یاد کرتا ہے اور ان کے بقول نقل کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا : اے کاش میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور یہ دن نہ دیکھتی! سادے مومن افراد بھی خداوند عالم سے موت طلب نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حیات و زندگی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اگر وہ موت کو طلب کریں گے تو یہ ناشکری ہوگی ، لہذا انسان بہت سخت وقت پڑنے پر کہتا ہے : خدایا ! مجھے موت دیدے ، چہ جائیکہ حضرت مریم (علیہا السلام) فرمائیں : ” فَاٴَجاء َہَا الْمَخاضُ إِلی جِذْعِ النَّخْلَةِ قالَتْ یا لَیْتَنی مِتُّ قَبْلَ ہذا وَ کُنْتُ نَسْیاً مَنْسِیًّا“ ۔ ”پھر وضع حمل کا وقت انہیں ایک کھجور کی شاخ کے قریب لے آیا تو انہوں نے کہا کہ اے کاش میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور بالکل فراموش کردینے کے قابل ہوگئی ہوتی ۔ اور لوگ یہ نہ کہتے کہ یہ بچہ کہاں سے لائی ہو ، ایسی حالت میں آپ سے خطاب ہوتا ہے :”فَناداہا مِنْ تَحْتِہا اٴَلاَّ تَحْزَنی قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا ، وَ ہُزِّی إِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُساقِطْ عَلَیْکِ رُطَباً جَنِیًّا ،فَکُلی وَ اشْرَبی وَ قَرِّی عَیْنا“۔ آپ پریشان نہ ہوں خدا نے آپ کے قدموں میں چشمہ جاری کردیا ہے اور خرمے کی شاخ کو اپنی طرف ہلائیں اس سے تازہ تازہ خرمے گر پڑیں گے ، پھر اسے کھائیے اور پیجئے اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی رکھئے ۔شاید اسی الہی الہام کے ذریعہ حضرت مریم کی روح میں تصرف کرکے کلام خدا نے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کردیا تاکہ ان کی پریشانی دور ہوجائے اور ان کی روح خوشحال ہوجائے ۔ اس کے بعد فرمایا : اگر لوگ تمہارے پاس آئیں اور کہیں کہ یہ بچہ کہاں سے لائی ہو تو کہدینا کہ اس بچہ سے خود معلوم کرلو ․․․ بچہ نے گہوارہ میں بولنا شروع کیا اور کہا : ” َ إِنِّی عَبْدُ اللَّہِ آتانِیَ الْکِتابَ وَ جَعَلَنی نَبِیًّا“(سورہ مریم ، آیت ۳۰) ۔ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے ۔یہاں پر میری مراد یہ ہے کہ اس طرح کی پریشانیوں اور غم کی حالت میں ان دونوں عورتوں پر خدا کا لطف ہوا اور ان کا غم و اندوھ برطرف ہوگیا اور ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوگیں ”“۔


source : http://www.taqrib.info/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن مجید کے ناموں کی معنویت
سفیانی کا خروج علامات حتمیہ میں سے ہے؛ سفیانی کا ...
خاتم النبیینۖ ایک نظر میں
قرآن کریم میں قَسَم کی اقسام
اسلامی اخلاق میں ایمان کی تاثیر
مرسل آعظم کی بعثت انسانوں کیلئے عظیم نعمت الھی ہے
قرآن مجيد اور نسائيات
ماہ رمضان میں سحری کے اعمال اوردعائیں
امام صادق ؑ کی علمی عظمت
اسلامي انقلاب اور محکوم قوميں کي اميد

 
user comment