اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

محرم الحرام اور وحدت مسلمین

محرم الحرام اور وحدت مسلمین

علامہ سید ساجد علی نقوی

محرم الحرام میں حضرت امام حسین  اور ن کے اصحاب باوفا کی مظلومانہ شہادت کی یادتازہ کرنے ثانی زہرا   حضرت سیدہ زینب کے باطل شکن خطبات اور طریق عزاداری کو زندہ کرنے کے لئے دور حاضر میں افکار حسینی کے فروغ اور کارہائے زینبی   کی ترویج کے لئے اسلام کی اصل شکل دنیا پر واضح کرنے اور یزیدیت کے روپ میں موجودہ عزاداری کی ان مقدس محافل میں دشمن قوتوں کی طرف سے رکاوٹوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حالانکہ محرم الحرام اور دیگر ایام میں محافل عزاداری کا مقصدپیغام امام حسین   دنیا تک پہنچانا اور یزیدی عزائم کا پردہ چاک کرنا ہوتا ہے لیکن یزیدیت سے متاثر بعض قوتیں اسے اپنے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہوئے اس کے خلاف بھرپور سازشیں بھی کرتی ہیں ا ور عملی طور پر اس کی بندش اور رکاوٹ کے لئے سامنے موجود رہتی ہیں۔

 

چودہ سو سال قبل ریگزار کربلا میں ۷۲ جانثار‘ حق پرست ‘ دیندار‘ وفا شعار اور متقی اصحاب کے ساتھ حضرت امام حسین   نے جام شہادت نوش کرکے رہتی دنیا تک حق اور باطل میں حد فاصل قائم کرنے کے لئے دائمی اور ابدی کسوٹی فراہم کردی اور ثابت کر دیا کہ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے صحرائے کربلا تک کا سفر اپنی ذات اور مفاد کے لئے نہیں خدا کے دین اور الہی نظام کو بندگان خدا پر نافذ کرانے کے لئے ہے۔ ظالم کو اس کے ظلم سے باز رکھنے اور مظلوم کو اس کے حق کی فراہمی کے لئے ہے۔ اسلام کی شکل بگاڑنے کی مذموم کوشش نا کام بنا کر عالم انسانیت کے سامنے حقیقی اور نبوی  اسلام کا تعارف کرانے کے لئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس معرکہ کو صرف چند نوجوانوں‘ بوڑھوںبچوں اور خواتین کی معیت میں سر کرلیا جسے بڑی معرکتہ الآراجنگوں میں نہیں جیتا جاسکتا تھا۔ امام عالی مقام کی جنگ یزید سے نہیں بلکہ یزیدیت سے تھی اس لئے آج بھی جب کہیں یزیدیت کی شکل میں کوئی فتنہ اٹھانے لگتا ہے تو حسینیت کی شکل میں اس کی سرکوبی کے لئے طاقتیں سامنے آتی ہیں۔

امام حسین   نے اس وقت یزیدی عزائم کو بے نقاب  کرکے اسلام کو درپیش خطرات سے امت کو آگاہ کیا اور اپنی عظیم قربانی پیش کی۔ اسی طرح آج بھی دنیا کے مختلف کونوں سے یزیدیت مختلف صورتوں میں سر اٹھا رہی ہے۔ ہمیں حسینی بن کر ان یزیدی صیہونی اور استعماری سازشوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

       محرم الحرام ہمیں جہاں واقعہ کی خونیں داستان کی یاد دلاتا ہے وہاں حضرت امام حسین   کے اعلی مشن و مقصد کی ترویج کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے اور عالم انسانیت کے محروم و مظلوم طبقات کے لئے امید کی کرنیں بکھیرتا ہے۔

 

       وطن عزیز کے قیام کے بعد آئین پاکستان میں موجود مذہبی و شہری آزادیوں کے تحت اسلامیان پاکستان مکمل جوش و جذبے عقیدت اور بھرپور اتحاد و یکجہتی سے محرم الحرام میں مجالس و محافل عزاداری برپا کر رہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قیام پاکستان سے قبل برصغیر میں مسلمانوں کے علاوہ ہند اور دیگر غیر مسلم مذاہب بھی محافل عزاداری میں نہ صرف شرکت کرتے تھے بلکہ ان محافل کا اہتمام بھی مسلمانوں کے ساتھ مل کر کرتے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حسین   کسی ایک مکتب و مسلک کے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے محسن ہیں۔ لہذا اپنے محسن کی یاد زندہ رکھنا باغیرت قوموں کا شعار ہے۔ قیام پاکستان کے بعد چند سال قبل تک وطن عزیز میں جلوس ہائے عزاداری اور مجالس محرم میں تمام مکاتب فکر مکمل امن و امان کے ساتھ محفل برپا کرتے رہے۔ ایک دوسرے کی محافل میں شریک ہوتے رہے۔ امن کمیٹیوں محلہ سے لے کر مرکزی سطح پر اتحاد بین المسلمین کمیٹیوں اور دیگر پلیٹ فارموں سے محرم الحرام میں محافل عزاداری کا اہتمام کیا جاتا رہا۔ یہ سلسلہ اب بھی اسی آب و تاب کے ساتھ جا ری ہے لیکن چند سال قبل ایک گروہ نے خاص مقاصد کے تحت امام عالی مقام سے منسوب ان مقدس محافل کے خلاف شرانگیز اور غلیظ پروپیگنڈہ شروع کیا جب عوام الناس اور با شعور طبقات نے اس پر کان نہ دھراتو اس گروہ نے مسلح دہشت گردی کے ذریعے جلوس ہائے عزاداری اور مجالس امام حسین   میں رکاوٹیں شروع کر دیں لیکن انہیں علم نہ تھا کہ ایسے اقدامات سے حق زیادہ بلند اور وسیع ہوتا ہے اور باطل کا چہرہ اپنے ظلم و بربریت کی وجہ سے بے نقاب ہوتا ہے۔ یہیں سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ محرم الحرام میں محافل و جلوس ہائے عزا ملک میں امن و امان کے لئے خطرہ ہیں لہذا انہیں محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض مقامات پر فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے اس تاثر کو مستحکم کرنے کی کوشش بھی کی گئی اور یک طرفہ جملوں سے انتظامیہ اور حکومتوں کا رویہ تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعض مقامات پر انتظامیہ نے رکاوٹیں بھی ڈالیں۔ لیکن مسلمانوں کے باہمی اتحاد سے یہ رکاوٹیں دور ہوئیں۔

       یہ بات کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ کہ دنیا کا ہر کلمہ گو حسینی  ہے اس لئے اس کی ذمہ داری ہے کہ یزیدیت کے خلاف ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کرے اور سیرت امام حسین   کو اپنے کردار پر نافذکرتے ہوئے پیغام حسینیت   دنیا کے کونے کونے میں پہنچائے۔ کیونکہ موجودہ مشکل دور میں اسوہ حسینی   کواجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ امام حسین   کی ہمہ گیر جدوجہد کا ایک پہلو فاسد نظام کو قبول نہ کرناہے۔ امام عالی مقام یزید کے سامنے نہیں جھکے بلکہ یزید کے خلاف لوگوں کے ضمیر کو بیدار کیا کہ وہ طاغوت اور ظلم کے خلاف سرتسلیم خم نہ کریں بلکہ اپنی جدوجہد ممکنہ ذرائع استعمال کرتے ہوئے جاری رکھیں۔

 

       تحریک جعفریہ پاکستان وطن عزیز میں اتحاد بین المسلمین اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو اپنا نصب العین   قرار دے کر عزاداری سید الشہداء   کے تحفظ اور ترویج میں سرگرم عمل ہے۔ یہ بات طے ہے کہ عزاداری سید الشہداء عوام کامذہبی‘ آئینی‘ قانونی اور معاشرتی حق ہے۔ اصولاً مجالس امام حسین   اور جلوس ہائے عزاء کے لئے کسی روٹ پرمٹ‘ لائسنس‘ اجازت نامے وغیرہ کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یہ عوام کا شہری حق ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کے جان و مال اور ان کے مذہبی و دیگر پروگراموں کے تحفظ کے لئے خود اقدامات کرے۔ ان پروگراموں میں رکاوٹ بننے والے اشخاص‘ عناصر اور گروہوں کے خلاف بھرپور اقدامات کرے۔

       ہمیں ا یک دوسرے کے عقائد و نظریات کو تحمل سے برداشت کرنا چاہئے باہمی وحدت کو فروع دینے کے لئے ایسے ایام میں باہمی تعاون کرنا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ اتحاد بین المسلمین اور امن کمیٹیوں میں امن و اتحاد کے فروغ کے لئے کوشاں افراد اور جماعتوں کو شامل کرے۔ مختلف سطح پر بنائی گئی امن کمیٹیوں میں مختلف مسالک اور طبقہ ہائے فکر کے سنجیدہ افراد کو شامل کیا جائے۔ علماء کرام‘ذاکرین عظام‘ خطباء حضرات اور صاحبان ممبر اپنی تقاریر میں قیام امام حسین   اور یزیدی عزائم بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں اتحاد و یکجہتی کے فروع اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر زور دیں۔

       حکومت محرم الحرام کے دوران خوف و ہراس اور کرفیوں کی کیفیت پیدا نہ کرے۔ سنگینوں کے سائے تلے مراسم عزاداری کا انعقاد انتہائی غلط ہے۔ اس سے دہشت پسندوں اور فتنہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور وہ قانون کے راستے میں رخنہ انداز ہوتے ہیں۔ لہذا مکمل آزادی اور تحفظ کے ساتھ ان محافل کا انعقاد حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جو لوگ اور گروہ کسی مسلک ومکتب کی مذہبی و قانونی اور شہری آزادیوں اور حقوق کا احترام نہیں کرتے اور رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں حکومت کو چاہئے کہ ایسے افراد کا سخت محاسبہ کرے اور انہیں قانون کے مطابق سزا دے۔ قانون کا نفاذ ہی تمام مسائل کا حل ہے۔

 

حسین ابن علی  

       اب‘ دل تھام کر‘ نگاہ اٹھایئے‘ علی   کے سورما بیٹے اور محمد کے لہولہان نواسے‘ حسین  کی جانب جو‘ گریاں تاریخ کے سینے کا ناسور‘ اورگزراں وقت کی پیشانی کا نور ہے۔

 

       وہ حسین   جس کے نظام انفاس کی‘ اطمینان آمیز‘ ہمواری کی زدپر‘ میدان کربلا کی باد سموم کا دم ٹوٹ گیا تھا ۔۔۔ جس کے لبوں کی خشکی دیکھ کرفرات کی موجیں‘ آب آب ہو کر رہ گئی تھیں۔ اورجس کے چہرے کی شادابی کو دیکھ کرکربلا کے تپتے سورج کے ماتھے سے پسینے کی بوندیں ٹپکنے لگی تھیں۔

       وہ حسین   ۔۔۔۔ جس نے اس رادے سے کہ ایوان حق کے چراغاں پر کوئی آنچ نہ آسکے۔ اپنے گھر کے تمام چراغوں کو بجھا دیا تھا ۔۔۔ اور ناموس انسانی کو بچانے کی خاطر‘ جس نے‘ فولاد کو پگھلادینے والے عزم‘ اور ‘ زلزلوں کی سانس اکھاڑ دینے والے ثبات کے ساتھ موت سے ٹکر لی تھی۔‘ اور ایسی ٹکر کہ موت کی پیشانی سے لہو کا فوارہ جاری ہوگیا تھا۔ حسین   ناتواں تھے یزید توانا تھا قانون قدرت کے مطابق ہونا چاہئے تھا کہ یزید حسین   کو شکست دے کر حسینیت   کا چراغ گل کردیتا۔

       لیکن ہوا یہ کہ قانون قدرت کے علی الرغم‘ حسین   کی ناتوانی نے یزید کی توانائی کا گلاگھونٹ کر رکھ دیا ۔۔۔ اور اپنی مقتولیت کی ایک ضرب سے‘ قاتل کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ وہ موت جس کے صرف تصور سے بڑے بڑے ساونتوں کی پنڈلیاں کانپنے لگتی ہیں۔‘ وہ موت‘ منہ کھولے‘ جب حسین   کے سامنے آئی تو حسین   اس کو دیکھ کر ایسی حقارت کے ساتھ مسکرائے کہ خود موت کی نبضیں ساقط ہو کر رہ گئیں۔

       سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ اس وقت بھی جب کہ تیروں کا موسلادھار مینہ برس رہا تھا اور حسین   اپنے رفیقوں اور جگر گوشوں کی لاشیںمیدان سے اٹھا اٹھا کر‘ بار بار‘ خیمے کی طرف جارہے تھے۔ اور اس سے زیادہ حیرت یہ ہے کہ جب ان کے تمام انصار و اقرباء۔ موت کی نیند سوچکے تھے اور ان کا قتل ایک یقینی امر بن چکا تھا عین اس نازک ترین‘ اور مہلک لمحہ میں بھی ان کے حواس بجا تھے ۔۔۔ اور یہ دیکھ کر کہ ہیبت باطل سے حق کا چہرہ سفید ہوچلا ہے وہ اس پر سرخی دوڑانے کے لئے بڑے اطمینان کے ساتھ‘ اپنا خون روانہ کر رہے تھے۔ صرف یہی نہیں کہ اس یقینی ہلاکت کے موقع پر ان کے حواس بجا تھے۔ بلکہ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی قربانی دے چکنے کے بعد بھی ان کے چہرے پر اس فخر و مباہات کی ایک ایسی معمولی سی دھاری بھی رونما نہیں ہوئی تھی اور ان کی زبان سے ایک ایسا آدھا لفظ بھی ادا نہیں ہوا تھا جس سے پتہ چلتا کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اے اہل اسلام میں نے غیرت اسلام کے آفتاب کو ڈوبنے سے بچا کر تم پر احسان کیا ہے‘ اور میں نے اپنے واسطے یہ حق خرید لیا ہے کہ تم مجھ کو ایثار کا دیوتا سمجھ کر میرے سامنے اپنی گردنیں جھکالو۔

       اے حسین   ۔۔۔ اے دریائے زہر سے آب حیات پینے والے ۔۔۔۔ اے بھپرے طوفان کو اپنے سفینے میں ڈبو دینے والے ۔۔۔ اے حریم شہادت کے سب سے اونچے منارے اے ہمت مردانہ کے اوتار اور اے ثبات و عزم کے پروردگار ۔۔۔ ازل سے لے کر ابد تک کی انسانیت کا غلامانہ سلام قبول کر!

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام علی کا مرتبہ شہیدمطہری کی نظرمیں
علم کا مقام
وحی کی حقیقت اور اہمیت
امام خمینی معاصر تاریخ کا مردِ مجاہد
خدا کا غضب کن کے لیۓ
علم کا مقام
انساني اخلاق کي درستي ميں قرآن کا کردار
اہل سنّت بھائیوں کے منابع سے پیغمبر اعظم ﷺکی ...
مياں بيوي کے نازک تعلقات
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...

 
user comment