اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

جواں نسل اصلاح اور ہدایت کی روشن قندیل بنے

مسلمانان عالم کے عصری اجتماعی مسائل اس قدر گھمبیراور پیچیدہ ہیں کہ ان مسائل کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی جذباتی اور روایتی ”مرشدانہ“ رویوں سے ان پر قابو پایا جا سکتا ہے ،بلکہ اس عظیم اور جاں گسل کام کو مسلکی اور گروہی عصبیت سے بالاتر علماء حق اور عبقری سوچ کے مالک مسلم دانشور، محقق اور سیاسی قائدین ہی انجام دے سکتے ہیں ۔

 مسلم دنیا کے سیاسی ٹٹ پونجیوں اور شکم پرست عناصر کی منافقت اور غیر حکیمانہ رویوں سے اور اس سے بڑھ کر ان نژولیدہ فکر عناصر کی ” ڈیڑھ اینٹ کی شناختوں“ سے جنتا نقصان اسلام اور مسلمانوں کے ملّی و سیاسی مفادات اور ان کی اجتماعیت کو پہنچ رہا ہے ۔ شاید ہی اتنا کسی اسلام اور مسلم دشمن ظالم اور حاسد قوت کے ہاتھوں سے پہنچا ہو گا ۔ اسلام کے روشن چہرے کو داغدار بنانے اور مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے جہاں اسلام اور مسلم دشمن قوتیں نفسیاتی حربے استعمال کر رہی ہیں۔

وہاں اسلامی فکر وتعلیم کا سرسری اور یک چشمی آگاہی اور جانکاری رکھنے والے ’ ’اصلاح پسند“ اور ’مرشدین “ بھی نفسیاتی حربے آزما کر مسلمانوں کو منفی جذبات اور کہیں پر غیر فطری سوچ کی طرف دھکیل رہے ہیں ۔ مسلمانوں کے ملی ، قومی ،سماجی ، سیاسی اور معاشی مسائل حل کرنے کا جو لوگ دعویٰ کر رہے ہیں ، بدقسمتی سے ان کی غالب اکثریت یا تو تقلید پسند ہے یا آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کے طریقہ پر گامزن ہے یا خود ہی تضادات کے شکار ہیں یا خود پرستی کے شکار ہوئے اجتہاد کے دروازوں کو بند کئے بیٹھے ہیں ۔ ایک طرف ”اعراض “ کی حکمت عملی کے حامی افراد مسلمانوں کے مسائل سلجھانے کے لئے ”یک چشمی دلیلوں“ کو تیر بہدف علاج قرار دے رہے ہیں ۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ذہنی تحفظات کے شکار ہیں ۔

یہ لوگ افراد کی کردار سازی پر جان کھپانے کے بجائے الل ٹپ رویہ اختیار کئے ، آئے روز ”نادرشاہی احکامات“ جاری کررہے ہیں اور دعویٰ کررہے ہیں کہ ” یہی وہ راستہ ہے جو صالح اسلامی معاشرہ کے قیام کے لئے اختیار کرنا لازمی ہے ۔ ایک طرف ”اعراض “ پسند ،اعراض کی حکمت عملی کا اصل مقصد اور روح سمجھنے کے بجائے ” اعراض“ کی غلط تعبیر کرکے پورے معاملہ کو دنیاوی بنا دیتے ہیں بلکہ کہیں کہیں انسان کے جائز فطری احساسات کو سمجھنے سے قاصر بھی ہیں۔ دوسری طرف مرنے اور کٹنے کی ” آرزﺅں“ کا اظہار یوں کیا جا رہا ہے کہ جیسے اسلام کے شاندار اور بے مثال عہد رفتہ کی عظمت اوررفعت کے احیاءنو کے لئے مسلمانوں کا فکری کردار ادا کرنے کے بجائے آج کے مسلمان صرف کٹنے اور مرنے کے لئے ہی پیدا ہوئے ۔

میں مدرسہ وخانقاہ سے اٹھا بڑا نمناک

نہ زندگی ، نہ محبت ، نہ معرفت ، نہ نگاہ

آج کشمیر میں چہار سو معاشرے کے بگڑتے جا رہے حالات پر کہرام مچا ہوا ہے ۔اسلامی ضابطے ، اعلیٰ انسانی قدریں اور اخلاقی حدود پامال کئے جا رہے ہیں ۔ اس سنگین صورتحال پر سماج کے باشعور اور ذمہ دار طبقے اور معاشرے کا ہر حساس فرد اپنی صوابدید کے مطابق پیش بندیوں کے تعلق سے تجزیئے اور شفارشات پیش کررہا ہے ۔ ثقافتی ، سیاسی اورتہذیبی جارحیت کی نشاندہی کی جا رہی ہے ، جو مبالغہ آمیز بھی نہیں ،لیکن کشمیر کے انسانی معاشرے کی برائیوں پر خود آمادگی اور شوریدہ سری پر نقاب اٹھانے سے بڑی حد تک گریز کیا جا رہا ہے۔ معاشرے کی منافقت کو عیاں نہیں کیا جا رہا ہے ۔

منافقت اور دوغلے پن کا عالم یہ ہے کہ آج جو شخص کسی برائی کو دیکھ کر یا کسی شادی پر رسم ورواج پر کئے جا رہے ہوشر شاہ خرچی اور خرافات پر کان پکڑ کر ” توبہ استغفار“ کی گردان کررہا ہے کل وہی شخص اسی برائی اور انہی رسم وراج بلکہ اس میں اضافہ کرنے کے لئے شیطانی بہانے بھی ڈھونڈ رہا ہے ۔ اس غرض سے کہ معاشرہ پر میری ”دھاک“ قائم ہو ۔

تھوڑی دیر کے لئے کسی ایسے انسانی معاشرے کا تصور کیجئے جس میں کوئی قانونی اور اعلیٰ انسانی قدریں ، نافذ العمل نہیں ہو ۔ اس معاشرے کا ہر فرد اخلاقی حدود کی پابندی سے مبرا ہے جس پر بس چلتا ہے اسے لوٹ لیتا ہے جس سے عداوت ہوتی ہے اسے مار ڈالتا ہے ،جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اسے بے ایمانی سے یا چھین کر حاصل کرلیتا ہے، جو خواہش دل میں پیدا ہوتی ہے اسے جس طریقہ سے چاہا ،حاصل کرلیتا ہے ،حلال وحرام کی تمیز نہیں کررہا ہے ،جائز وناجائز کے فرق سے وہ ناوافق ہے ۔

حقوق و فرائض کے تصور سے اس کا دماغ خالی ہے ،اس کے سامنے بس اپنی خواہشات ہیں اور انہیں پورا کرنے کے لئے ممکن وسائل اور اثر و رسوخ کو استعمال کرتا ہے ۔ کیا کم وبیش کشمیر کے موجودہ انسانی معاشرے کا حال بعینہ یہی نہیں ہے کہ جیسا اوپر بیان کیا گیا ؟ کیا ہمارا حال ویسا ہی نہیں ہے جیسے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل کے لوگوں کا تھا ، جوگفتار اور تقریرمیں شریعت موسوی کے ”دفاع اور حق“ میں جزئیات اور فروغات کی باریکیوں پر جنون آمیز لمبے لمبے مناظر ے کررہے تھے لیکن عملاً حرام کے سالم اونٹ کو نگلنے میں شریعت موسوی کو آڑے آنے کی ”اجازت “ نہیں دیتے تھے

نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر

نغمہ ہے سودائے خادم خون جگر کے بغیر

طالب علموں اور نوجوانوں کی اہمیت ہر زمانے میں رہی ہے ۔ آج بھی ان کی بڑی اہمیت ہے بلکہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ اہمیت ہے ۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے ہاتھ میں کل قوم کی باگ دوڑ ہو گی ۔ اگر طاب علموں اور نوجوانوں کا یہ طبقہ صحیح فکر اورصحیح سیرت کا حامل ہوگا تو پوری قوم کو درست راہ پر لے چلے گا اور اگر وہ فکری اور عملی بے راہ روی کا شکارہوجائے تو پوری قوم کا رخ بھی غلط ہوجائے گا ۔ نوجوان قوم کے معمار ہوتے ہیں ۔ ان میں بعض ایسی خصوصیات ہوتی ہیں ‘ جو بڑی عمرکے لوگوں میں کم ہی پائی جاتی ہے ۔

اچھے خیالات کو قبول کرنے کی صلاحیت ان میں زیادہ ہوتی ہے ۔ بڑی عمر کے لوگوں کو بسا اوقات مصلحتیں اور عصبیتیں کسی فکر کو قبول کرنے سے روک دیتی ہیں ۔ نوجوانوں کے مضبوط عزائم ان زنجیروں کو کاٹ سکتے ہیں جو بڑوں کی راہ کی رکاوٹ ہوتی ہے ۔ ان ہی خصوصیات کی بناء پر نوجوان ہر تحریک کا سرمایہ ہوتے ہیں ان کو ہر تحریک اپنے ساتھ لینے اور ان سے طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ جب کسی تحریک میں جوانوں کی آمد رک جاتی ہے تو وہ ختم ہوجاتی ہے۔

دُنیا میں جو بڑے بڑے انقلاب آئے ہیں ان میں نوجوانوں کا ہاتھ رہا ہے ۔ ان کی قربانیوں ہی نے انہیں کامیابی سے ہمکنارکیا ہے ۔ انبیاءعلیہم السلام کے احوال بتاتے ہیں کہ نوجوانوں ہی نے سب سے پہلے ان کا ساتھ دیا ۔ موجودہ دور میں کوئی اسلامی تحریک نوجوانوں کے تئیں کبھی غفلت نہیں برت سکتی ہے ۔ آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ نوجوان کے مسائل کو سمجھیں اور انہیں حل کرنے کی کوشش کریں ۔ آ ج کے نوجوان بالخصوص مسلم نوجوان جن مسائل سے دوچارہیں ‘ و ہ نہایت ہی گمبھیر اور پیچیدہ ہیں ۔ آج کے نوجوانوں ایک طرح کے ذہنی انتشار میں گرفتار ہیں ۔

ان کے سامنے فکری تضادات نے کوئی راستہ اور کوئی واضح منزل نہ چھوڑی ۔ طرح طرح کے متضاد نظریات نے انہیں ہر طرف گھیر رکھا ہے ۔ نوجوانوں ان خدا بیزار نظریات کے درمیان حیرانی کے عالم میں کھڑا ہے اور یہ فیصلہ نہیں کر پاتا ان میں سے کس کا ساتھ دیں اور کسے مسترد کریں ؟ فکری لحاظ سے ان میں سے کسی بھی نظر میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ نوجوانوں کے تمام سماجی ، مادی اور روحانی مسائل کو حل کرسکے ۔ اگر ایک پہلو سے وہ انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسرے پہلو سے انہیں اطمینان اور انتشار کے حوالے کر دیتے ہیں ۔

اس وقت پوری دنیا اخلاقی بحران سے گذر رہی ہے ۔ آج کے نوجوان بھی اسی بحران کے شکار ہیں ۔ آ ج کا نوجوان مادی اغراض کے حصول میں ” روبوٹ“ بننے پر کمر بستہ  ہے لیکن اخلاقی قدروں کے تئیں اس قدر خاموش ہے کہ ”لاش “ کا گمان ہوتا ہے ۔ اخلاقی قدریں انسان کو بعض اصولوں کا پابند بناتی ہیں اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان کی خلاف ورزی نہیں کرے گا ۔ لیکن موجودہ دور کے انسان کے نزدیک یہ اخلاقی قدریں قدامت پرستی اور جہالت کی دلیل ہے ۔ انسان جس اخلاقی قدر کو چاہئے اسے دورِ جاہلیت کی یادگار کہہ کر پامال کرسکتا ہے ۔

اس وقت دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو زبانی طور پر اخلاقی اقدار کی مستقل اہمیت کے قائل ہیں لیکن عملاً ان کے نزدیک ان کی اتنی اہمیت نہیں ہے کہ اخلاقی قدروں کی پاسداری کے لئے کوئی نقصان برداشت کیا جائے یا ان کے تحفظ کے لئے ہونے والے ذاتی فائدے کو چھوڑ دیا جائے ۔صداقت اور راست بازی ایک اعلیٰ اخلاقی فریضہ ہے ۔لوگ اس کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں لیکن کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے فائدے کے لئے جھوٹ بول سکتے ہیں اور بہتان لگانے میں چوک نہیں سکتے ہیں ۔ غرض اس اخلاقی زوال کی وجہ سے کسی شخص کو کسی پراعتماد نہیں رہا ۔ہرشخص دوسرے سے خوف محسوس کرتا ہے ۔ آ ج کے نوجواں بھی اسی بے اعتمادی کی فضاء میں جی رہے ہیں ۔ انہیں نہ تو کسی کی دیانت ،امانت ، عہد وپیمان اور خلوص پر اعتماد ہے اور نہ کوئی دوسرا ان پر اعتماد کرنے کے لئے تیار ہے ۔

 وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ایک ایسی دنیا ملی ہے جو بے اصول اور اخلاق اور اخلاص سے محروم ہے ۔ وہ یہاں ہے اصولی اختیار کرکے ہی کامیاب ہو سکتے ہیں ورنہ انہیں قدم قدم پر دھتکار دیا جائے گا او رنقصان اٹھانا پڑے گا ۔

آج کا ایک اور بڑا فتنہ جنسی آوارگی ہے ۔ دورِ جدید کے فلسفوں نے انسان کو حیوان کی سطح پر پہنچا دیا ہے ۔ وہ سگمنڈ فرائیڈ اور ڈارون جیسے فلسفیوں کے نقطہ نظر سے ہر مسئلے کو دیکھتا ہے اور اس حیوانی اور جنسی نقطہ نظر سے ہر مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے ۔ اسے فطری نقطہ نظر سمجھتا ہے ۔ اس کا ایک نتیجہ جنسی اباحیت پسندی کی شکل میں برآمد ہوا ہے ۔ آج کا انسان حیوانوں کی طرح مکمل جنسی آزادی چاہتا ہے ۔ مغرب کے نزدیک جنسی جذبات کو مذہب اور اخلاق کے نام پر دباناغیر فطری اور نقصان دہ ہے ۔

 

 مغرب نے جنسی جذبات ابھارنے کے لئے پورا ماحول تیار کر رکھا ہے ۔ ریڈیو ،ٹیلیویژن، اخبار و رسائل ، گندے اشتہارات اور گندی کتابیں ،غرض کہ نشر واشاعت کے تمام ذرائع اس اباحیت پسند ماحول کو بنانے اور ترقی دینے میں لگے ہوئے ہیں ۔اس شیطانی ماحول سے آج کے نوجوانوں پر جنسی جنون سوار ہے اور کسی سنجیدہ کام اور اعلیٰ قدروں کی پاسداری میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔

تعلیم کو موجودہ دور کی خرابیوں اور برائیوں کا علاج سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ تعلیم جیسے جیسے عام ہو گی یہ خرابیاں اور برائیاں دور ہوتی چلی جائیں گی ۔ اس میں شک نہیں کہ تعلیم اصلاح اور ترقی کا ایک عمدہ اور لازمی ذریعہ ہے ۔ اس سے انسان کو بنانے اور سنوارنے میں بڑی مدد ملتی ہے لیکن موجودہ تعلیم سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے ۔ موجودہ نظام تعلیم اور تعلیم سے وابستہ آج کے انسان کے اغراض نہایت ہی خطرناک ہیں ۔ موجودہ تعلیم انسان کے اندر خالص مادی نقطہ نظر پیدا کرتا ہے اور انسان کو خودغرض اور ذاتی مفاد کا پرستار بناتا ہے ۔

وہ اسی پہلو سے اسے دیکھتا ہے اور اسی لحاظ سے عملی قدم بھی اٹھاتا ہے ۔ کم از کم مشرقی ملکوں میں موجودہ تعلیمی ”مقاصد“ اس قدر ناقص ہیں کہ نوع انسانی کا خیر خواہ بننا تو درکنا ر ایک اچھا اور قابل قبول شہری ہونا بھی مبالغہ لگ رہا ہے۔ اسی نظام تعلیم اور ” مقصد “ تعلیم کے تحت آج کے طلباء کی ذہنی وفکری تربیت ہو رہی ہے اور اس کے زیر اثر پروان چڑھ رہے ہیں ۔اس تعلیمی ماحول کے نتیجے میں ہمیں ایک ایسی نسل مل رہی ہے جو صرف اپنی ذات کے لئے جی رہی ہے اور جس کے سامنے کوئی اعلیٰ نصب العین اور مقصد نہیں ہے ۔ موجودہ دور کی ساری خرابیوں کی بنیاد یہ ہے کہ انسان بالخصوص نوجوانوں کے سامنے کوئی اعلیٰ مقصد حیات نہیں ہے ۔

مقصد حیات جتنا بلند اور پاکیزہ ہوگا اتنی ہی نیکیاں اور خوبیاں انسان کے اندر ابھریں گی اور خامیوں اور کمزوریوں پر قابو پا سکے گا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اسلام کے حوالے سے مسلم نوجوان ایک اعلیٰ و ارفع مقصد حیات رکھتے ہیں ۔ سب سے پہلے ان پاکیزہ لوگوں کو اس بات کا گہرا شعور ہونا چاہئے جو نوجوانوں بالخصوص مسلم نوجوانوں میں کام کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری منزل صحیح اور ہمارا مقصد پاکیزہ اور حق ہے ۔ اس کے علاوہ جتنے بھی نظریات ہیں وہ سب باطل ہیں ۔ پھر آپ کی زندگی  پر اس کی چھاپ ہونی چاہئے کہ آپ کے تمام اعمال اسلام کے اصولوں کے تابع ہیں اور آپ کے قولی اور فعلی طرز عمل پر کہیں بھی مسلکی ، گروہی شخصیاتی اور طبقاتی عصبیت کا شائبہ بھی نہیں ہونا چاہئے اور خود آپ کو تعلیمی اعتبار سے اس حد تک فائق اور برتر ہونا چاہئے کہ آپ آسانی کے ساتھ باطل نظریات کو دلیل اور برہان سے زیر کرسکیں ۔

آپ اسلام کے حوالے سے جس نصب العین کے حامل ہیں ، اس کا اپنے حلقہ احباب میں کرایں اور مسلسل تعارف کرایں ۔ آپ کو جو بھی وقت ملے اسی کام میں صرف کیجئے یہاں تک کہ آپ سے ملنے والا ہرشخص یہ سمجھ لے کہ آپ جس برتر مقصد کے تحت زندگی گزار رہے ہیں اس کو دوسروں کی زندگی کا بھی مقصد دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ آپ کے رویہ سے یہ ظاہر نہ ہو کہ لوگ آپ کو خودپرستوں میں شمار کریں ۔

اسلام نے شروع ہی سے عقائد وعبادات کے بعد جس چیز پر زیادہ زور دیا ہے وہ اخلاق ہے ۔ آپ قرآن مجید میں دیکھیں گے کہ اسلام جگہ جگہ ان اخلاقی اوصاف کو نمایاں کرکے دکھاتا ہے جنہیں وہ انسان کے اندر پیدا کرنا چاہئے ۔اسلام کی پوری دعوت میں اخلاقیات اس طرح رچی بسی ہے کہ ان کے بغیر اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے ۔

خود بھی ان اخلاقیات کی پابندی کیجئے اور نوجونواں کو بھی ان کا پابند بنائے ۔ نوجوانوں کو لوگوں کی جان ، مال وعزت و آبرو کا محافظ اور پاسبان بنا کر کھڑا کیجئے ۔ چند خودپرست اور شکم پرست لوگ اپنے غلط مقاصد کے لئے نقصان دہ طریقے سے طلباء اور نوجوانوں کو استعمال کرتے ہیں ،لیکن آپ اپنی منصبی ذمہ داریوں اور پاکیزہ مشن کے حوالے سے طلباء اور نوجوانوں سے غلط کام  نہ لے سکتے ہیں اور نہ آپ کو لینا چاہئے ۔ آخری بات یہ کہ اس مادہ پرست دور میں آخرت کے تصور کو ہنسی مذاق میں اڑایا جاتا ہے ۔ آج کے نوجوانوں میں یہی عقیدہ آخرت مستحکم کرنا ہے ۔

 بظاہر یہ بڑا مشکل کام ہے لیکن عزم و ایثار پسند لوگوں کے سامنے کوئی مشکل ، مشکل نہیں رہتی ۔ مسلم نوجوانوں اور طلبہ وطالبات سے گذارش ہے کہ وہ پہلے مبارک قدم کے طور پر اس کا م کا بیڑا اٹھائیے کہ وہ پرامن انداز سے اور بڑی خوش اخلاقی سے اسلامی نقطہ نظر میں والدین اور معاشرے کے معزز افراد اور بزرگوں کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ جہیز لینا دینا بند کریں اور شادی بیاہ میں جاری شیطانی رسم ورواج کو بند کریں اور دعوتوں پر فضول خرچی کو بند کریں اگر یہ کام نوجوانوں اور طلبہ وطالبات ہو سکے تو یقین جانیے کہ معاشرہ کی آدھی سے زیادہ برائیوں اور گناہوں کا سدباب ہو سکتا ہے ۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو !


source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=78328
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

"صنائع اللہ " صنائع لنا" صنائع ربّنا " ...
مجلسِ شبِ عاشوره
اولیائے الٰہی کیلئے عزاداری کا فلسفہ کیا ہے؟
امام محمد باقر (ع) كى سوانح عمري
اھداف عزاداری امام حسین علیه السلام
قمر بنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام)
قوم لوط (ع) كا اخلاق
عید مسلمان کی خوشی مگر شیطان کے غم کا دن ہے
علامہ اقبال کا حضرت فاطمة الزہراء (س) کی بارگاہ ...
جرمنی کے ایک شخص نے شیراز میں اسلام قبول کر لیا

 
user comment