اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

قضاوت سنت:

ج۔قضاوت سنت:

(اھل سنت کے سلسلوں سے مروی روایات کے ذریعے امامت امیر الموٴمنین (علیہ السلام) پر استدلال کا مقصد اتمام حجت اور جدال احسن ھے۔ ورنہ متواتر احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت هونے کے بعد کہ قرآن و سنت میں بیان کردہ امامت کی شرائط، آپ کے نفس قدسی میں موجود ھیں، مذکورہ بالا طریقہٴ استدلال کی قطعاً ضرورت نھیں۔اھل سنت سے منقول روایات پر ”صحیح“ کا اطلاق انھی کے معیار و میزان کے مطابق کیا گیا ھے، اور شیعہ سلسلوں سے منقول روایات پر صحیح کا اطلاق اھل تشیع کے مطابق روایت کے معتبر هونے کی بناء پر ھے۔ اب خواہ یہ روایات اصطلاحاً صحیح هوں یا موثق، اور اس کا انحصار شیعہ علم رجال کے معیار و میزان پر ھے۔)

سنت رسول کی پیروی، ادراکِ عقل کے تقاضے اور حکم کتاب خدا کے مطابق ھے کہ معصوم کی پیروی کرنا ضروری ھے <وَمَا اٴَتَاکُمُ الرَّسُوَلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا>[11]

اور ھم سنت میں سے فقط ایسی حدیثیں بیان کریں گے جس کا صحیح هونا مسلّم اور فرمان خدا کے مطابق ان کا قبول کرنا واجب ھے۔ اس حدیث کو فریقین نے رسول خدا  (ص) سے نقل کیا ھے اور آنحضرت  (ص) سے صادر هونے کی تصدیق بھی کی ھے۔ اگر چہ اس حدیث کو متعدد سلسلہ ھائے اسناد کے ساتھ نقل کیا گیا ھے، لیکن ھم اسی ایک پر اکتفا کرتے ھیں جس کا سلسلہ سند زیادہ معتبر ھے۔ اور وہ روایت زید بن ارقم سے منقول ھے:

((قال:لما رجع رسول اللّٰہ (ص) من حجة الوداع ونزل غدیر خم اٴمر بدوحات فقممن، فقال:کاٴنی قد دعیت فاٴجبت، إنی قد ترکت فیکم الثقلین اٴحدھما اٴکبر من الآخر کتاب اللّٰہ و عترتی فانظروا کیف تخلفونی فیھما، فإنھما لن یتفرقا حتی یردا علیّ الحوض، ثم قال: إن اللّٰہ عزّ و جلّ مولای و اٴنا مولی کل موٴمن، ثم اٴخذ بید علی رضی اللّٰہ عنہ فقال: من کنت مولاہ فہذا ولیہ، اللّھم وال من والاہ و عاد من عاداہ، وذکر الحدیث بطولہ ))[12]

 امت کی امامت آنخضرت  (ص) کی نگاہ میں اتنی زیادہ اھمیت کی حامل تھی کہ آپ  (ص) نے نہ صرف حجة الوداع سے لوٹتے وقت بلکہ مختلف مواقع پر، حتی زندگی کے آخری لمحات میں موت کے بستر پر، جب اصحاب بھی آپ کے کمرے میں موجود تھے، کتاب وعترت کے بارے میں وصیت فرمائی، کبھی ((انی قد ترکت فیکم الثقلین))[13] اور کبھی ((انی تارک فیکم خلیفتین))،[14] بعض اوقات ((انی تارک فیکم الثقلین))[15] کے عنوان سے اور کسی وقت ((لن یفترقا))[16] اور کبھی((لن یتفرقا))[17] کی عبارت کے اضافے کے ساتھ اور بعض مناسبتوں پر ((لا تقدموھما فتھلکوا ولا تعلموھما فإنھما اٴعلم منکم ))[18] اور کبھی اس طرح گویا هوئے ((إنی تارک فیکم اٴمرین لن تضلوا إن اتبعتموھما))[19]

اگرچہ کلام رسول خدا   (ص) میں موجود تمام نکات کو بیان کرنا تو میسر نھیں، لیکن چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ھیں :

۱۔جملہ ((انی قد ترکت))اس بات کو بیان کرتاھے کہ امت کے لئے آنحضرت   (ص) کی طرف سے قرآن وعترت بطور ترکہ ومیراث ھیں، کیونکہ پیغمبر اسلام   (ص) کو امت کی نسبت باپ کا درجہ حاصل ھے، اس لئے کہ انسان جسم وجان کا مجموعہ ھے اور روح کو جسم سے وھی نسبت ھے جو معنی کو لفظ او ر مغز کو چھلکے سے ھے۔ اعضاء اور جسمانی قوتیں انسان کو اپنے جسمانی باپ سے ملی ھیں اور عقائد حقہ، اخلاق فاضلہ واعمال صالحہ کے ذریعے میسر هونے والے روحانی اعضاء وقوتیں، پیغمبر   (ص)کے طفیل نصیب هوئی ھیں،جو انسان کے روحانی باپ ھیں۔روحانی سیرت وعقلانی صورت کے افاضے کا وسیلہ اور مادی صورت وجسمانی ھیئت کے افاضے کا واسطہ، آپس میں قابل قیاس نھیںھیں،جس طرح مغز کاچھلکے سے، معنی کا لفظ سے اور موتی کا سیپ سے کوئی مقابلہ نھیں۔

ایسا باپ اپنے اس جملے ((کاٴنی قددعیت فاجبت ))سے اپنی رحلت کی خبر دینے کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کے لئے میراث وترکہ معین فرما رھا ھے کہ امت کے لئے میرے وجود کا حاصل اور باقی دو چیزیں ھیں ((کتاب اللّٰہ وعترتی ))

 قرآن امت کے ساتھ خدا، اور عترت امت کے ساتھ رسول  (ص)کا رابطہ ھیں۔ قرآن سے قطع رابطہ خدا کے ساتھ قطع رابطہ او ر عترت سے قطع رابطہ پیغمبر اکرم  (ص) کے ساتھ قطع رابطہ ھے اور پیغمبر خدا سے قطع رابطہ خود خدا سے قطع رابطہ ھے۔

اضافہ کی خصوصیت یہ ھے کہ مضاف، مضاف الیہ سے کسب حیثیت کرتا ھے۔ اگرچہ قرآن کا خدا کی جانب اور عترت کا پیغمبر خاتم  (ص)،جو کائنات کے شخص اول ھیں، کی طرف اضافہ، قرآن وعترت کے مقام و منزلت کو واضح وروشن کر رھا ھے لیکن مطلب کی اھمیت کو مد نظر رکھتے هوئے   آنحضرت  (ص) نے ان دو کو ثقلین سے تعبیر کیاھے جس سے پیغمبر اکر م  (ص) کی اس میراث کی اھمیت اور سنگینی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ھے۔

قرآن کے معنوی وزن کی سنگینی اور نفاست،ادراک عقول سے بالاتر ھے، اس لئے کہ قرآن مخلوق کے لئے خالق کی تجلی ھے اور عظمت قرآن کو درک کرنے کے لئے یہ چند آیات کافی ھیں<یٰسٓةوَالْقُرآنِ الْحَکِیْمِ>[20]ٓ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ>[21]، ِٕنَّہ لَقُرْآنٌ کَرِیْمٌة فِی کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍةلاَ  یَمَسُّہ إِلاَّالْمُطَہَّرُوْنَ >[22]<لَوْ اٴَنْزَلْنَا ھٰذَا القُرْآنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاٴَیَتَہ خَاشِعاً مُّتَصَدِِِّعاً مِِّنْ خَشْیَةِ اللّٰہِ وَ تِلْکَ اْلاٴَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ>[23]

اور عترت وقرآن کو ایک ھی وصف سے توصیف کرنا اس بات کا کھلا ثبوت ھے کہ کلام رسول اللہ (ص) کے مطابق عترت، قرآن کی ھم پلہ وشریک وحی ھے۔

پیغمبر خاتم  (ص)کے کلام میں، جو میزان حقیقت ھے، عترت کا ھمسرِ قرآن هونا ممکن نھیں مگر یہ کہ عترت <تِبْیَاناً لِِّکُلِّ شَیْءٍ>[24] میں شریک علم اور <لاَ یَاٴْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہ>[25] میں شریک عصمت قرآن هو۔

۲۔جملہ ((فإنھما لن یتفرقا)) قرآن وعترت کے لازم وملزوم اور ایک دوسرے سے ھر گز جدا نہ هونے پر دلالت کرتا ھے۔ یعنی ان دونوں میں جدائی هو ھی نھیں سکتی، اس لئے کہ قرآن ایسی کتاب ھے جو تمام بنی نوع انسان کی مختلف ظرفیتوں اور قابلیتوں کے حساب سے نازل هوئی ھے جس میں عوام کے لئے عبارات، علماء کے لئے اشارات، اولیاء کے لئے لطیف نکات اور انبیاء کے لئے حقائق بیان هوئے ھیں اور بنی نوع انسان کے پست ترین افراد، جن کا کام فقط مادی ضرورتوں کو پورا کرنا ھے، سے لے کر بلند مرتبہ افراد، جن کے روحی اضطراب کو ذکر ِخد ا کے بغیر اطمینان حاصل نھیں هوتا اور جو ھمیشہ اسمائے حسنی،امثال علیا اور تحمل اسم اعظم کی تلاش میں ھیں، کو اس کی ھدایت سے بھرہ مند هونا ھے۔

اور یہ کتا ب سورج کی مانند ھے کہ ٹھنڈک محسوس کرنے والا اس کی حرارت سے خود کو گرم کرتا ھے، کاشتکار اس کے ذریعے اپنی زراعت کی پرورش چاہتا ھے، ماھر طبیعیات اس کی شعاعوں کا تجزیہ اور معادن ونباتات کی پرورش میں اس کے آثار کی جستجو کرتاھے اور عالم ربانی دنیاومافیھا میں سورج کی تاثیر، طلوع وغروب اور قرب وبعد میں موجود سنن وقوانین کے ذریعے اپنے گمشدہ کوپاتاھے، جو سورج کا خالق ومدبر ھے۔

ایسی کتاب کے لئے، جو تمام بنی نوع انسان کے لئے ھے اور دنیا وبرزخ وآخرت میں انسانیت کی تمام ضرورتوں کوپوراکرتی ھے، ایسے معلم کی ضرورت ھے جو ان تمام ضرورتوں کا علم رکھتا هو، کیونکہ طبیب کے بغیر طب، معلم کے بغیر علم اور مفسر کے بغیر زندگی ومعاد کو منظم کرنے والا الٰھی قانون ناقص ھیں اور نہ فقط یہ بات <اَلْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ>[26] کے ساتھ سازگار نھیں بلکہ قرآن کے نزول سے نقضِ غرض لازم آتی ھے اور <وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْءٍ>[27]کے ساتھ قابل جمع نھیں ھے۔ جب کہ حکیم وکامل علی الاطلاق سے قبیح  ھے کہ دین کو ناقص بیان کرے اورمحال ھے  کہ نقص غرض کرے،اسی لئے فرمایا((لن یتفرقا))

۳۔ایک روایت کے مطابق فرمایا((یا اٴیھا الناس إنی تارک فیکم اٴمرین لن تضلوا إن اتبعتموھما)) اور جیسا کہ سابقہ مباحث میں اشارہ کیا جاچکا ھے کہ خلقت کے اعتبار سے انسان، جو موجودات جھان کا نچوڑ اور دینوی، برزخی، اخروی، ملکی وملکوتی موجود هونے کی وجہ سے عالم خلق وامر سے وابستہ ھے اور ایسی مخلوق ھے جو بقا کے لئے ھے نہ کہ فنا کے لئے، ایسے انسان کی ھدایت، سعادت ِابدی اوراس کی گمراھی شقاوت ِابدی کا باعث هو سکتی ھے اور یہ تعلیم وتربیت، وحی الٰھی کی ھدایت کے بغیر نا ممکن ھے،جو ظلمات کے مقابلے میں نور مقدس ھے <قَدْ جَائَکُمْ مِنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِیْنٌ>[28]اور قانون تناسب وسنخیت کے مطابق، معلمِ قرآن کا بھی خطا سے معصوم هونا ضروری ھے، کیونکہ انسان، با عصمت ھدایت اور معصوم ھادی کے ساتھ تمسک کے ذریعے ھی فکری، اخلاقی وعملی گمراھیوں سے محفوظ رہ سکتا ھے، لہٰذا آپ  (ص) نے فرمایا ((لن تضلوا إن اتبعتموھما ))۔

۴۔اور آپ (ص) کے اس جملے ((ولا تعلموھما فإنھما اٴعلم منکم ))کے بارے میں ایک انتھائی متعصب سنی عالم کا یہ قول ھی کافی ھے کہ ((وتمیزوا بذلک عن بقیة العلماء لاٴن اللّٰہ اٴذھب عنھم الرجس وطھرھم تطھیرا)) یھاں تک کہ کہتا ھے ((ثم اٴحق من یتمسک بہ منھم إمامھم و عالمھم علیّ بن اٴبی طالب کرّم اللّٰہ وجھہ لما قدمناہ من مزید علمہ ودقائق مستنبطاتہ ومن ثم قال اٴبوبکر: علیّ عترة رسول اللّٰہ اٴی الذین حث علی التمسک بھم، فخصہ لما قلنا، وکذلک خصہ بما مر یوم غدیر خم))[29]

اس نکتے کی طرف توجہ ضروری ھے کہ اس تصدیق کے باوجود کہ آیت تطھیر کی وجہ سے علی (ع) باقی تمام علماء سے افضل ھیں، کیونکہ اس آیت کے مطابق  رجس سے بطورمطلق  پاک ھیں، اور اس اقرار کے باوجود کہ پیغمبر اکرم  (ص) علی(ع) کو باقی تمام امت سے اعلم شمار فرماتے تھے اور خدا بھی فرماتا ھے<قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اٴُوْلُو اْلاٴَلْبَابِ>[30]اور<اٴَفَمَنْ یَّھْدِیْ إِلَی الْحَقِّ اٴَحَقُّ اٴَنْ یُّتَّبَعَ اٴَمَّنْ لاَّ یَھِدِّیْ إِلاَّ اٴَنْ یُّھْدٰی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ>[31] اور اس حدیث ((إنی تارک فیکم اٴمرین لن تضلوا إن اتبعتموھما وھما کتاب اللّٰہ و اٴھل بیتی عترتی)) کے صحیح هونے کے اعتراف کے ساتھ، ضلالت وگمراھی سے نجات پانے کے لئے پوری امت کو علی    (ع) کی پیروی کا حکم دیا گیا ھے اور اس طرح علی    (ع)کی متبوعیت وعموم امت کی تابعیت کے بارے میں بغیر کسی استثناء کے حجت قائم ھے <قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ>[32]

۵۔قانون کو بیان کرنے کے بعد مصداق کو معین کرنے کی غرض سے حضرت علی    (ع) کا ھاتھ پکڑ کر آپ کا تعارف کروایا کہ یہ وھی ثقل ھے جو قرآن سے ھر گز جدا نہ هوگا اور اس کی عصمت، ھدایت ِامت کی ضامن ھے اور جس طرح پیغمبر  (ص) تمام مومنین کے مولاھےں اسی طرح علی (ع) کا مولاہونا بھی ثابت ھے ِٕنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلاَةَ وَیُوٴْتُوْنَ الزَّکوٰةَ وَھُمْ رَاکِعُوْنَ>[33]

اگر چہ خلافت، امامت عامہ اور امامت خاصہ کا مسئلہ عقل،کتاب اور سنت کے حکم سے روشن هو چکا ھے اور امام کے لئے ضروری اوصاف، ائمہ معصومین علیھم السلام کے علاوہ کسی اور میں نھیں پائے جاتے، لیکن اتمام حجت کے پیش نظر، حدیث ثقلین کے علاوہ، حضرت سید الوصییّن امیر الموٴمنین    (ع) کی شان میں چند اور احادیث کو پیش کیا جارھا ھے جن کا صحیح هونا محدثین کے نزدیک ثابت ومسلم ھے۔

پھلی حدیث

عن ابی ذر رضی اللّٰہ عنہ قال:قال رسول اللّٰہ (ص):((من اطاعنی فقد اطاع اللّٰہ ومن عصانی فقد عصی اللّٰہ ومن اطاع علیا فقد اطاعنی ومن عصی علیا فقد عصانی ))[34]

اس حدیث میں، جس کے صحیح هونے کی اکابر اھل سنت تصدیق کرتے ھیںھے، بحکم فرمان رسول  (ص)، جن کی عصمت گفتارکا تذکرہ خداوند متعال نے قرآن میں کیا ھے اور اس بات پر عقلی دلیل

بھی قائم هوچکی ھے، علی   (ع) کی اطاعت وعصیان دراصل اطاعت وعصیان پیغمبر  (ص) ھے اور اطاعت وعصیان پیغمبر  (ص) دراصل خدا کی اطاعت وعصیان قرار پاتی ھے۔

اس توجہ کے ساتھ کہ اطاعت و عصیان کا تعلق امر ونھی سے ھے اور امر ونھی کی وجہ ارادہ وکراہت ھے،لہٰذا علی   (ع) کی اطاعت وعصیان کا خدا کی اطاعت وعصیان قرار پانا اسی وقت ممکن ھے جب  علی   (ع) کا ارادہ و کراہت، خدا کے ارادے وکراہت کا مظھرہو۔

اور جس کا ارادہ وکراہت، خدا کے ارادے وکراہت کا مظھر هو اس کے لئے مقام عصمت کا هونا ضروری ھے، تاکہ اس کی رضا وغضب، باری تعالی کی رضا وغضب هو اور کلمہ ((مَنْ ))کی عمومیت کا تقاضا یہ ھے کہ جو بھی خدا  وپیغمبر  (ص) کی اطاعت کے دائرے میں ھے علی   (ع) کے فرمان کے آگے سر تسلیم خم کردے، اور اگر ایسا نہ کرے تو اس نے خدا و رسول  کی نافرمانی کی ھے: <وَمَنْ یَعْصِ اللهَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِینًا>[35] <وَمَنْ یَعْصِ اللهَ وَرَسُولَہُ فَإِنَّ لَہُ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِدِینَ فِیہَا اٴَبَدًا>[36]

اور جس نے حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کی اس نے خدا اور اس کے ر سول کی اطاعت کی ھے: < وَمَنْ یُطِعِ  اللهَ وَرَسُولَہُ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْہَارُ>[37] <وَمَنْ یُطِعِ اللهَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیمًا>[38] <وَمَنْ یُطِعِ اللهَ وَالرَّسُولَ فَاٴُوْلَئِکَ مَعَ الَّذِینَ اٴَنْعَمَ اللهُ عَلَیْہِمْ>[39]

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نہج البلاغہ کتاب حق و حقیقت
دین فهمی
خوشبوئے حیات حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ ...
مقدس میلانات
حضرت نوح عليہ السلام
اسلام و عیسائیت
خوشی اور غم قرآن کریم کی روشنی میں
بنت علی حضرت زینب سلام اللہ علیہا ، ایک مثالی ...
آخری معرکہ۔۔۔۔؟
کردار زینب علیہا السلام

 
user comment