اردو
Monday 25th of November 2024
0
نفر 0

انس با قرآن

انس با قرآن

  مولف: اصغر ھادوی كاشانی

مترجم: سید محمد جعفر زیدی

اس پہلی رات سے جب قرآن رسول اكرم(ص) پر نازل ھوا معنویت كی پیاسی سرزمین "حجاز" رحمت الھی كا مركز قرارپائی اور اس چشمہ فیض الھی سے ارتباط كے راستے ھموار ھوگئے اور قرآن زمین وآسمان كوملانے كی كڑی ھوگیا۔كلام الھی سے انس اور چوبیس گھنٹے اس كی آیتوں كی تلاوت كی سرگوشی اس طرح سے تھی كہ رسول اسلام(ص) گھروں كے افراد كوان كی آواز قرآن كے ذریعہ پہچانتے تھے۔ 1كچھ لوگ قرأت اور كچھ حفظ اور كچھ افراد آیات الھی میں غوروخوض كیاكرتے تھے اور اسلامی معاشرہ بھی تعلیمات قرآن پرعمل پیراتھا۔

اسكے باجود كیوں قرآن یہ كھتاھے كہ رسول اسلام(ص) قیامت كے دن قرآن كی مجھوریت كا شكوہ كریں گے؟ كیا آنحضرت(ص) اپنے زمانے كی امت سے نالاں ھیں یااس دور كے بعد والے مسلمانوں سے؟ اگر اس زمانہ میں صحابہ اور رسول اسلام(ص) كے درمیان ارتباط كو مدنظر ركھاجائے توظاھراً ایسا لگتاھے كہ یہ شكایت رسول كے بعد والی امت سے مربوط ھے۔

آیٔہ شریفہ (رب ان قومی اتخذوا ھذ القرآن مھجورا) 2 كے ذیل میں ایسی كوئی معتبر روایت نھیں پائی جاتی جس كے ذریعہ صحیح فیصلہ ھو سكے لیكن مزكورہ باتوں كو مد نظر ركھتے ھوئے بھت محتمل ھے كہ یہ شكایت پیغمبر اسلام(ص) كے بعدآنے والی امتوں سے مربوط ھے۔

مقاله حاضر كا ھدف یہ ھے كہ قرآن كے سلسلہ میں موجود روایتوں كي رتبہ بندی كرسكے تا كہ قرآن مھجوریت سے نكل آئے البتہ یہ رتبہ بندی پیغمبر(ص) اور معصومین(ع) كےتمام نورانی اقوال میں پائی جاتی ھے۔ھم نے فقط اس رتبہ بندی كوآشكار كیاھے۔قرآن سے مربوط روایتوں میں سیرطولی كاماحصل یہ ھوگا كہ ھركوئی اپنے ظرف كی وسعت اور اپنی قدرت كے برابر قرآن سے بھرہ مند ھوسكے اور ایك مرحلہ كی ناتوانی اسے قبل كے مراحل سے محروم نہ كردے ۔ جیسے نماز پڑھنے كے سلسلے میں موجود روایتوں سے فقھاء نے ایك قاعدہ اخذ كیا هي كہ جس قاعدہ كے تحت كوئی شخص ترك نماز كاعذر نھیں ركھتا اور كھاگیا "الصلوة لایترك بحال" نماز كسی حال میں بھی ترك نھیں ھونی چاھئیے۔

اسی طرح سے قرآن كے سلسلہ میں بھی اگر ھم چاھتے ھیں اسے مہجوریت سے خارج كریں تو كوئی شخص كسی بھی حال میں قرآن سے اپنا رابطہ قطع نہ كرے۔ ھاں نماز كے لئے ایك حكم الزامی ھے لیكن قرآن كے سلسلہ میں كوئی الزام وتكلیف نھیں پائی جاتی اگر قرآن سے متعلق روایتوں كو اس طرح رتبہ بندی نہ كریں توان كے درمیان سخت تعارض واقع ھوگا۔ مثال كے طور پربعض ایسی روایتیں ھیں جو صرف تلاوت كاحكم دیتی ھیں اور اس بات كی تاكید كرتی ھیں یھاں تك كہ پیغمبراسلام(ص) سے مروی ھے كہ: "اگركوئی قرآن كو غلط پڑھے اور اصلاح كرنے پرقادرنہ ھو، تو ایك فرشتہ مامور ھوگاجواسے صحیح طریقہ سے اوپرلے جائے" 3 یا بعض دوسری روایتوں میں قرآن سننے كے لئے ثواب ذكر كیا گیا ھے یھاں تك كہ غیرارادی طور پر بھی سننا مستحق اجر و جزا جانا گیا ھے۔

اس كے مقابل میں پیغمبر(ص) اور آئمہ(ع)سے بھت سی ایسی روایتیں پائی جاتی ھیں جو اشارہ كرتی ھیں كہ تدبر اور تفكر كے بغیر قرائت میں كوئی خیر و بركت نھیں ھے یا وہ روایتیں جو صرف قرآن پرعمل پیرا ھونے كے ارزش كی قائل ھیں۔ یہ تعارض برطرف ھونا چاہئیے اور تعارض برطرف كرنے كاصرف ایك طریقہ یہ ھے كہ كھا جائے یہ تمام روایتیں اپنے اپنے طبقہ كے مخاطبین سے مربوط ھیں، بعض فقط قرآن كو گھر میں ركھ سكتے ھیں حتیٰ كہ قرائت سے بھی عاجز ھیں بعض فقط اس كی طرف دیكھ سكتے ھیں، بعض اس میں غور و فكر كرتے ھیں اور بعض اس پرعمل كرتے ھیں اور جو ان تمام مراتب كو جمع كرلے " طوبیٰ لہ وحسن مآب " ۔

اس تقسیم بندی كی تائید امام صادق علیہ السلام كی ایك روایت بھی كرتی ھے آپ(ع) فرماتے ھیں: " كتاب اللہ علیٰ اربعۃ: العبارة للعوام، الاشارة للخواص، اللطائف للاولیاء والحقائق للانبیاء " ۔ 4

بعض لوگوں كا قرآن سے بھرہ مند ھونا عبارات وظواھر تك ھے بعض كے لئے وھی ظواھر اشارہ ھیں معنیٰ خاص كی طرف۔ اولیاء الھی قرآنی آیتوں سے لطائف تك پھنچتے ھیں اور انبیاء آیات الھی كے بطون اور اپنے اپنے مراتب درك كے پیش نظرحقائق كے اس اعلی مراتب پر پھنچ جاتے ھیں جھاں دوسرے پھنچنے سے عاجز ھیں ۔

البتہ اس نكتہ كی طرف توجہ ضروری ھے كہ شیعہ ائمہ بھی حقیقت قرآن سے آگاہ ھیں اور عوام جس چیز كو سمجھنے سے عاجز ھے اس كا علم ركھتے ھیں۔ یھاں بطون قرآن سے مربوط چندروایت كی طرف اشارہ كریں گے۔ 5 چونكہ قرآن كے لئے بطن كا ثابت كرنا در واقع تاكید ھے اس بات پركہ اولاً قرآن كے سلسلے میں سب كی سمجھ ایك جيسي نھیں ھے، ثانیاً ظاھر و باطن ایك امر نسبی ھے ممكن ھے كوئی چیز كسی شخص كے لئے باطن آیت ھو لیكن دوسرے كے لئے وہ ظاھر ھو یااس كے برعكس اور یہ ایك مھم بحث ھے۔ 6

بطون قرآن سے متعلق دو سوال مطرح ھیں ایك یہ كہ آیا قرآن بطن ركھتا ھے؟ دوسرے یہ كہ ان بطون كی تعداد كتنی ھے؟

پھلے سوال كے جواب میں كھناچاھئیے: قرآن ظاھر كے علاوہ باطن بھی ركھتا ھے اور روایات اس بات كو ثابت كرتی ھیں .امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: "ان للقرآن ظھراًو بطناً" 7 یہ روایت "اصول كافی" كے علاوہ "من لایحضرہ الفقیہ"، "محاسن برقی" اور "تفسیر عیاشی" میں مختلف سند كے ذریعہ نقل كی گئی ھے۔

دوسری حدیث میں جابر نقل كرتے ھیں كہ میں نے امام باقر علیہ السلام سے ایك آیت كی تفسیر پوچھی آپ نے جواب دیا: دوبارہ دریافت كیا تو آپ نے دوسرا جواب فرمایا دونوں جوابوں كے اختلاف كے بارے میں عرض كیا تو فرمایا: "یا جابر! ان للقرآن بطناً وللبطن ظھراً" 8 كتاب محاسن میں اس روایت كو دوسری طرح پیش كیا گیا ھے اور "للبطن ظھراً" كی جگہ "للبطن بطناً" آیا ھے لیكن یہ اختلاف ھمارے مدعیٰ (بطن قرآن)كے اثبات میں مانع نھیں ھے۔

اب رھا دوسرا سوال كہ قرآن كے كتنے بطن ھیں؟ مشھور ھے كہ قرآن كے لئے ستّر بطن ذكر كئے گئے ھیں لیكن نہ تو عدد سات اور نہ ھی ستر معتبر روایت ركھتے ھیں اور اگر یہ عدد درست بھی ھوں تب بھی صرف كثرت كو ثابت كرتے ھیں، چونكہ عرف میں مخصوصاً اس زمانہ كی لغت میں ان اعداد كو اسی مقصود كے لئے استفادہ كیا جاتا تھا۔

اس تمھید كے بعد روایات میں موجود دو مطلب كی تحقیق كریں گے۔

 

1۔ قرآن كے ساتھ انس كی تعریف

2۔ قرآن سے انس كے متعلق روایت كے رتبہ كو پھچاننا اس طرح كہ ھر كوئی اپنے ظرف كی وسعت كے مطابق اس منبع فیض الھی سے بھرہ مند ھوسكتا ھے ۔ یہ تقسیم بندی طولی گھر میں قرآن ركھنے سے شروع ھوتی ھے اور اس كا سب سے اونچا مرتبہ یعنی اس پر عمل پیراھونے تك پائی جاتی ھے۔

اگر یہ تقسیم بندی قبول كرلی جائے تو "اخلاق تبلیغ" كا حصول اس كے فائدوں میں سے ھے۔ لوگوں كو اسلام كی طرف جذب كرنے میں پیغمبر اسلام (ص) كی سیرت یہ ھوا كرتی تھی كہ سب كو ایك نظر سے نھیں دیكھتے تھے چاھے وہ افراد تعلیمات اسلامی كو قبول كرنے میں برابر ھی كیوں نہ ھوں؛ ایك بیك انھیں كسی حكم كے اونچے مرتبے پر پھنچنے كی دعوت نھیں دیتے تھے یہ آپ كی كامیابی كا راز تھا جو معاشرہ كے مربیوں كے لئے سبق واقع ھو سكتی ھے دوسرا فائدہ اس كا یہ ھے كہ قرآن مھجوریت سے خارج ھوجائے گااور ھركوئی اپنی حیثیت كے مطابق اس سے بھرہ مند ھوگا، ممكن ھے ایك صرف اس كی تلاوت كرسكتاھے لیكن دوسرا اس كی آیات میں غور و فكر كرسكتا ھے اور كوئی اسے اپنا راھنما بنا كر اس پر عمل كرسكتا ھے ۔

1) قرآن سے انسیت

"انس" لغت میں وحشت كے مقابل میں استعمال ھوتا ھے۔ 9 اور انسان كا كسی چیز سے مانوس ھونے كا یہ معنی ھے كہ اسے اس چیز سے كوئی خوف و اضطراب نھیں ھے اور اس كے ساتھ اسے سكون حاصل ھوتا ھے۔ كمال طلب انسان فقط مادی امور پر اكتفا نھیں كرتا عالی اھداف كی طرف قدم بڑھاتا ھے لہذااپنی وحشت اور تنھائی كو معنوی امور كے حصار میں زائل كردیتا ھے ۔روایات میں علم سے انسیت، قرآن اور ذكر خدا كی معرفت كی تاكید كی گئی ھے۔

امام علی(ع) فرماتے ھیں: "جو كوئی قرآن سے مانوس ھوگا وہ دوستوں كی جدائی سے وحشت زدہ نھیں ھوگا" ۔ 10 اسی طرح سے آپ ان افراد كے جواب میں جو وقت سفر آپ سے نصیحت كی درخواست كی تھی فرماتے ھیں: "اگر كسی مونس كی تلاش میں ھو تو قرآن تمھارے لئے كافی ھے۔" 11 آپ(ع) اپنی مناجات میں خدا سے اس طرح فرماتے ھیں:

"الّلٰھم انّك آنَسُ الآنِسین لاولیائِك۔۔۔ ان اَوحَشَتھم الغُربۃ آنَسَھم ذِكرُك"۔ 12

پروردگارا! تو اپنے دوستوں كے لئے مانوس ترین مونس ھے اور اگر غربت انھیں وحشت زدہ كرتی ھے تو تیری یاد كنج تنھائی میں ان كی مونس ھے۔

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ھیں: " اگر روئے زمیں پر كوئی زندہ نہ رھے اور میں تنھارہ رہ جاؤں جب تك قرآن میرے ساتھ ھے مجھے وحشت نھیں ھوگی" 13

كلام ائمہ میں اس طرح كی تعبیرات فراوان پائی جاتی ھے اور معمولاً! مھم موضوعات كی تاكیدات كے لئے اس طرح كے كلام ارشاد ھوتاھے خصوصاً قرآن كے سلسلے میں جو كہ: "تبیاناً لكل شیٔ" 14 ھے راہ ھدایت میں انسان جس چیزكا محتاج ھے اسے قرآن میں پاسكتاھے۔ یھاں تك انسان آیات الھی كو ترنم كے ساتھ غورسے سنے اور لذت معنوی كاقصد نہ ركھتا ھو تب بھی اس كے ایمان میں اضافہ ھوگا اور سكون محسوس كرے گا "انّما المومنون اذاذكر اللہ وجلت قلوبھم واذاتُلیت علیھم آیاتہ زادتھم ایماناً " 15 وہ افراد جوقرآنی محافل میں جاتے ھیں اور جو كچھ حد تك معانی قرآن سے بھی آشنا ھیں آیات رحمت سنكر وجد میں آجاتےھیں اور آیات عزاب سنكر كانپ اٹھتے ھیں اور محزون ھوجاتے ھیں۔ خلاصہ یہ كہ انكا ایمان اور محكم ھوگیا ھے كیونكہ قرآن جھاں لذت معنوی كو فراھم كرسكتا ھے وھیں كتاب عمل بھی ھے امام صادق(ع) فرماتے ھیں: "كسی مونس كی تلاش میں تھا تا كہ اس كی پناہ میں آرام و سكون كا احساس كروں اسے قرآن كی تلاوت میں پایا۔" 16

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اقوال حضرت امام علی النقی علیہ السلام
اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کی اھمیت اور ضرورت
فرقہٴ امامیہ جعفریہ
کيا خواتين کے لئے بھي بہشتي حور العين ہيں؟
بارش اور پانی، اللہ کی نشانی
امام شناسی امام رضا ع کی نگاہ میں
انا قتیل العبرہ
اقوام متحدہ کو ایک بار پھر تشویش
حضرت معصومہ (س) کے مختصر حالات
محافظ کربلا امام سجاد عليہ السلام

 
user comment