آو بڑوں تمہیں ایک کہانی سنائیں ۔۔ اس سوئِ ادب پر معذرت! آپ کہیں گے بھئی کہانی تو بچوں کو سنائی جاتی ہے اور یہ ہمیں کیوں سنائی جارہی ہے۔ جی ہاں کہانی بڑوں کو بھی سنائی جاسکتی ہے فرق یہ ہے کہ بچوں کو کہانی ’’سلانے‘‘ کے لئے سنائی جاتی ہے اور بڑوں کو ’’جگانے‘‘ کے لئے۔ یقین نہ آئے تو مولا علیٴ کا یہ قول سن لیجئے جو غالباً بڑوں کے لئے ہے: ’’لوگ سورہے ہیں، مریں گے تو جاگیں گے۔‘‘
چنانچہ آئیے ایک کہانی سنئے جو خود ہمارے اپنے ملک کی کہانی ہے یعنی تشکیلِ پاکستان کی روداد۔
آپ کہیں گے کہ یہ کہانی تو ہم کئی مرتبہ سن چکے ہیں ۔۔۔ لیکن پھر بھی سن لیجئے کیونکہ تاریخ نگاروں نے تعصب کی قینچی کس قدر بے رحمی سے استعمال کی ہے کہ کبھی بھی اس کہانی کے اصل کرداروں کا حقیقی تعارف نہیں کرایا گیا۔ ہم نے اس مضمون میں کوشش کی ہے کہ ان حقیقتوں سے پردہ اٹھائیں جو تعصب اور ذاتی اناکی گرد میں کب سے دبی ہوئی ہیں اور منصب و حکمرانی کی لالچ کی دھول اس ’’Fact File‘‘ پراس قدر جم چکی ہے کہ فائل کا اصل نام ہی چھپ گیا ہے۔ اس فائل اور اس کہانی کا نام ہے ’’تشکیلِ پاکستان میں شیعیانِ علیٴ کا کردار ۔۔۔!‘‘ کہ جس میں شیعیانِ علیٴ کی کاوشوں، کوششوں، عزم و استقلال کو بیان کیا گیا ہے کہ جب ہندوستان کے ہر مسلمان کے لب پر یہی نعرہ تھا:
چشم روشن پاکستان دل کی دھڑکن پاکستان
صحرا صحرا اس کی دھوم گلشن گلشن پاکستان
لے کے رہیں گے پاکستان
بٹ کے رہے گا ہندوستان
(سید یاور حسین کیف بنارس)
٢٣ مارچ ١٩٤٠ ء
آل انڈیا مسلم لیگ کا 27 واں تاریخ ساز اجلاس 22 تا 23 مارچ 1940 لاہور میں قائد اعظم کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں ہندوستان کے تمام صوبوں کے مسلم زعمائ نے شرکت فرمائی۔ اس اجلاس میں 23 مارچ کو تقسیم برصغیر کی قرارداد پاس ہوئی جو بعد میں ’’قرار دادِ پاکستان ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہی قرارداد دراصل نظریہ پاکستان کی بنیاد بنی۔
اس قرارداد میں یہ طے پایا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں ایک خود مختار ریاست بناکر مسلمانوں کے حوالے کر دی جائے تاکہ وہ اپنی مرضی سے وہاں اسلامی طور طریقے سے زندگی بسر کر سکیں اور اس کا انتظام مکمل طور پر وہاں کے مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو۔
اس کے بعد 14 اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے خطے میں پہلا نظریاتی ملک کہ جس کی بنیاد اسلامی نظریہ حیات تھی، وجود میں آیا۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح رسول۰ اور اہلِ بیت کی کوششوں سے مسلمانوں کو پوری دنیا میں عزت و حکمرانی حاصل ہوئی لیکن انہیں اور ان کے ماننے والوں کو فراموش کردیا گیا۔ نہ صرف یہ کہ انہیں حکومتوں سے الگ رکھا گیا بلکہ ان کی خدمات کو بھی یکسر طور پر فراموش کردیا گیا۔ گویا اسلام کی سربلندی میں ان کا کوئی حصہ تھا ہی نہیں بلکہ خلافت کے حوالے سے تو بنی ہاشم کے خاموش احتجاج کو ’’اسلام کے خلاف سازش‘‘ قرار دیاگیا۔ (شبلی نعمانی، الفاروق)
یہی کچھ پاکستان کے قیام کے حوالے سے ہوا۔ تشکیلِ پاکستان میں شیعیانِ علیٴ کاجو کردار رہا اور جس طرح اہلِ بیتٴ کی تعلیمات کی روشنی میں اور اہلِ بیتٴ کے متوالوں نے جس طرح اس تحریک کو اپنا خون دے کر پروان چڑھایا بالکل اس کے برعکس ان ہی لوگوں کو تحریک پاکستان کے باب سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا گیا اور آج جب لوگوں کو شیعیانِ علیٴ کی تحریکِ پاکستان کے حوالے سے قربانیاں گنوائی جاتی ہیں تو لوگ حیرت و استعجاب سے دیکھنے لگتے ہیں۔ جب پھل کھانے کا وقت آیا تو وہی لوگ صفِ اول میں نظر آئے جو کبھی تحریکِ پاکستان کے مخالفین کی اولین صفوں میں شامل تھے
منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
سرسید احمد خان
مسلمانوں کی انتہائی کسمپرسی، ابتری اور زوال و انتشار سے متاثر ہوکر سرسید احمد خان نے 1890 میں ’’کمیٹی خواستگارانِ ترقی تعلیم مسلمانانِ‘‘ قائم کی۔ اس کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کی اعلیتعلیم کے لئے ایک کالج کھولا جائے۔ یہی وہ فیصلہ تھا کہ جس نے مسلمانانِ ہند کے سوچنے کے انداز بدل ڈالے۔ چنانچہ ’’محمڈن کالج فنڈ کمیٹی‘‘ قائم ہوئی۔ اس فنڈ میں سرمایہ کی فراہمی اور پھر یونیورسٹی کے قیام میں جن شیعیانِ علیٴ نے نمایاں خدمات انجام دیں، ان میں سالارِ جنگ حیدرآباد خلیفہ محمد حسن، وزیرِ اعظم پیٹالہ نواب صاحب رام پور، سر فتح علی قزلباش، مہاراجہ سر محمد علی خان محمود آباد، مولوی سید حسین علی بلگرامی، بہادر حسین بخش، میر تراب علی آگرہ اور جسٹس سید امیر علی شامل تھے۔
مخالفین
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سرسید کے خلاف جو محاذ کھڑا ہوا اُس میں مولانا قاسم نانوتوی (سرپرست دیوبند)، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا حالی، شبلی نعمانی اور ابو الکلام آزاد جیسے علمائ شامل تھے۔ یہ لوگ آپ کی مخالفت میں اتنے آگے بڑھے کہ آپ کے خلاف فتاویبھی جاری ہوئے اور آپ کو لامذہب، کرسچین، دہریا، کافر، دجال وغیرہ کہہ کر مخاطب کیا گیا۔ گویا سید احمد خان کے لئے بات کرنا مشکل ہوگیا۔ سر سید احمد خان کو جب شدید مخالفت کا سامنا ہوا تو سر سید احمد خان نے تمام ہندوستان کو چھوڑ کر ’’علی گڑھ‘‘ کو منتخب کیا جس کی وجہ وہ خود بتاتے ہیں۔
علی گڑھ۔۔ وجہ تسمیہ
یہ شہر آگرہ۔۔ بھرت پور کے علاقے کی سادات کی بستیوں کے قریب ہے جس کے رئیس شیعہ ہیں۔ مجھے ان تمام لوگوں سے اور ان کی اولادوں سے بھی زیادہ توقع ہے کہ یہ سب نہایت دل سے مدرسہ کے حامی اور سرپرست رہیں گے۔ یہ خاص صفت جو میں نے علی گڑھ کی نسبت بیان کی اور جس کو سب سے اعلیاور مقدم سمجھتا ہوں، میں نہایت مضبوطی اور تقویت سے کہہ سکتا ہوں کہ تمام اضلاع شمال اور مغرب میں، کسی دوسری جگہ نہیں ہے۔ بس ان وجوہات سے میں نے علی گڑھ کو دارالعلوم بنانے کے لئے عمدہ مقام تجویز کیا ہے۔ اب میں اپنی رپورٹ کو اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ ’’علی گڑھ‘‘ ایک پیارا نام ہے۔ ہمارے پیغمبر رسول۰ کا یہ قول مشہور ہے کہ ’’انا مدینۃ العلم و علی بابھا‘‘۔۔ پس یہ پہلا ’’مدرسۃ العلوم‘‘ ہم مسلمانوں کا جو درحقیقت علم کا دروازہ ہوگا علی گڑھ میں ہی ہونا چاہیے۔ (سید احمد سی۔ ایس۔ آئی سیکٹری)
(مقالات سرسید جلد شانزدہم صفحات ٧٦٤ تا ٧٧١)
سندھ مدرسہ الاسلام ، کراچی
1884میں جسٹس سید امیر علی کی کوششوں سے کراچی میں بھی ایک مدرسہ قائم کیا گیا جو علی گڑھ کی طرز پر تھا اور اس کا نام ’’سندھ مدرسۃ الاسلام‘‘ رکھا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح بھی اسی مدرسہ کے طالب علم رہے ہیں۔
اسی طرح کا مدرسہ بنگال میں ہگلی کے مقام پر قائم ہوا۔ جس میں ایک حصہ امام باڑہ کے لئے بھی مختص تھا۔
راجہ صاحب محمود آباد
کہتے ہیں، پاکستان سرسید احمد خان کی تعلیمی خدمات ، قائد اعظم کی رہنمائی اور راجہ صاحب محمود آباد کی دولت کے مرہونِ منت ہے۔
راجہ صاحب محمود آباد (لکھنو کے قریب ایک علاقہ) ریاست محمود آباد کے راجہ تھے لیکن مخدوم ہونے کے باوجود خادم نظر آتے اور شاید خدمت کی یہ میراث ان کو اپنے والد مہاراجہ محمد علی خاں سے ملی تھی۔
ان کے والد ’’مہاراجہ علی محمد خاں‘‘، نے ایک دفعہ کانپور مسجد کے حادثے میں گرفتار ہونے والے مسلمانوں کی ضمانت کے طور پر اپنی پوری ریاست پیش کردی تھی۔ لوگوں نے کہا بھی ’’آپ بلاامتیاز سب کی ضمانت دے رہے ہیں، ان کی اکثریت سے آپ واقف بھی نہیں ہیں‘‘ تو آپ نے کہا ’’ایک مسلمان کے بچانے کے لئے میری ریاست ختم ہوجائے تو میں اسے معمولی سمجھوں گا۔ اور یہ سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ ان کے تحفظ کے لئے میں اپنی جان اور آن کے لئے بھی خطرہ مول لے سکتا ہوں، ریاست کیا چیز ہے‘‘۔
آپ کی دریادلی
راجہ صاحب نے جس طرح دل کھول کر تحریکِ پاکستان میں اپنی دولت کو لٹایا ہے اس کی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے۔ گاندھی جی، جواہر لال نہرو، مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی، مولانا حسرت موہانی، چودھری خلیق الزماں، غرضیکہ ہندوستان کا ہر شعلہ بیاں مقرر آپ کی رہائش گاہ ’’قیصر باغ‘‘ لکھنو میں محفلوں کو گرماتا۔ جب آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تو گورنر ’’سرہنری ہیگ‘‘ سے ٹکر لی۔ انھیں بلایا گیا اور دھمکی دی گئی کہ اگر آپ نے مسلم لیگ نہ چھوڑی تو ریاست ضبط کرلی جائے گی۔ لیکن آپ کا شعلہ آتش اور تیز ہوگیا۔
لوگوں کی خدمت
راجہ صاحب مسلم لیگ کے اجلاس اور جلسوں کا خرچہ برداشت کرتے تو دوسری طرف ذاتی طور پر ایک بیکس و نادار کی مدد کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے۔ بیٹے ’’سلیمان میاں صاحب‘‘ کی ولادت ہوئی تو لوگوں نے جشن منانے کا مشورہ دیا۔ آپ نے ایک عجیب انداز سے اللہ کی اس نعمت کا شکرادا کیا۔ وہ اس طرح کہ ریاست کی تمام ٢٤ تحصیلوں سے کل ایسے آدمیوں کی فہرست منگوائی جو موتیا کے مرض کا شکار تھے۔ چنانچہ انھوں نے گیارہ سو اٹھاون 1158 مریضوں کو اپنے علاقے کے کیمپ میں ٹھہرایا اور تمام لوگوں کا مفت آپریشن ڈاکٹر ٹی پرشاد (جو اس وقت آنکھوں کے مشہور ڈاکٹر تھے) سے کروایا ۔
قائد اعظم کی انسان شناسی
قائد اعظم نے آپ کی صلاحیتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ کو مسلم لیگ کا خزانچی مقرر کردیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی شعلہ بیانی سے بھی آپ نوجوانوں کے دلوں کو گرماتے رہتے، یوں زبانی جمع خرچ کے ساتھ ساتھ جیبی خرچ کی ذمہ داریاں بھی انجام دیتے رہے۔
لیکن پاکستان بننے کے بعد آپ کو اپنی ریاست سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جس کے بعد آپ کو پاکستان میں تین فیکٹریاں لگانے کی پیشکش بھی ہوئی لیکن آپ نے اسے ٹھکرا دیا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام بڑی کسمپری کے ساتھ جو کی روٹی اور بسوں میں سفر کرتے ہوئے گزار دی
وہ محوِ نالہ جرسِ کارواں رہے
یارانِ تیزگام نے محمل کو جالیا
علامہ اقبال
جو کام تحریکِ پاکستان کے رہنما مل کر کرتے رہے وہی کام علامہ اقبال نے اپنے قلم اور شاعری سے تن تنہا کر ڈالا۔ آپ کو شاعرِ مشرق بجا طور پر کہا گیا لیکن آپ کی شاعری میں اصل لطف اس وقت پیدا ہوا جب آپ نے مسلمانانِ برِ صغیر کو اہلِ بیت کے پیغام کے ذریعے جگانا شروع کیا۔جب اتحاد کی بات ہوئی آپ نے کہا:
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
اقبال اور ایران
وہ مغرب کی عیاشی اور سہل پسندی کی زندگی کو جب دیکھتے تو ایران کی عزاداری کو اس کا تریاق سمجھ کر لوگوںکے سامنے پیش کرتے اور کہتے
سازِ عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن
اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ۔۔!
علامہ اقبال ایران (تہران) کو صرف برِ صغیر کے مسلمانوں کے لئے ہی امید کی کرن نہیں سمجھتے بلکہ وہ تو کرہ ارض کی تقدیر کو ایران کی سرزمین سے مشروط کرتے تھے
تہران اگر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
مذہبِ اقبال
علامہ اقبال کی شاعری پر اہلِ بیت کی محبت ، مودت اتنی غالب آگئی تھی کہ لوگ کو شک ہو چلا تھا کہ آپ مذہبِ تشیع سے تعلق رکھتے ہیں اور شک یقین میں بدلنے لگتا جب لوگ ان کا یہ شعر پڑھتے
اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
اک ضربِ ید اللّٰہی ایک سجدہ شبیری
اس شک کا اظہار انھوں نے بالآخر کرہی ڈالا
ہے اس کی طبیعت میں تھوڑا سا تشیع بھی
تفضیلِ علیٴ ہم نے سنی اُس کی زبانی۔۔!
لیکن جب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو بالآخر وہ اپنے مذہب کا اقرار کرہی بیٹھے
پوچھتے کیا ہو مذہب ِ اقبال
یہ گناہ گار بوترابی ہے۔۔!
قائد اعظم محمد علی جناح
قائد اعظم محمد علی جناح برطانیہ کی پرعشرت زندگی چھوڑ کر علامہ اقبال کی درخواست پر مسلمانانِ ہند کے دکھ درد کو سمجھ کر ہندوستان تشریف لائے اور اس کے بعد مسلمانوں کے ہر دلعزیز لیڈر بن گئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ایک غیر متعصب شیعہ تھے۔ مذہبِ اہلِ بیت سے تعلق رکھنے کے باوجود کبھی آپ نے کسی فرقے کی ضرور ت سے زیادہ حمایت نہیں کی۔
تبلیغی شیعہ
قائد اعظم محمد علی جناح نہ صرف یہ کہ اثنائ عشری شیعہ تھے بلکہ انھوں نے آغا خان کو یہ ترغیب دینے کی کوشش بھی کی کہ وہ اسماعیلیوں کی سربراہی سے سبکدوش ہوکر اثنا عشری جماعت میں شامل ہوجائیں۔ (شاہراہِ پاکستان صفحہ ٥٢٠)
شفیق بریلوی صاحب نے اپنی کتاب ’’محمد بن قاسم سے محمد علی جناح تک‘‘ شائع کردہ نفیس اکیڈمی کراچی کے صفحہ ١٠٥ کے مقابل نکاح کے رجسٹر سے قائد اعظم کے نکاح کے اندراج کا عکس شائع کیا ہے جس میں آپ کو ’’محمد علی ولد جینا خوجہ اثنائ عشری‘‘ تحریر کیا گیا ہے ۔
محبتِ رسول
جنابِ رسول۰ سے والہانہ عقیدت کا اظہار اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ قائد اعظم نے ’’لنکن ان‘‘ یونیورسٹی میں صر ف اس لئے داخلہ لیا تھا کہ اس کے دروازے پر دنیا میں ممتاز قانون دینے والوں کی فہرست میں پیغمبر ۰ کا نام شامل تھا۔ (قائد اعظم میری نظرمیں صفحہ ١٦٤)
محبتِ علیٴ
اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے جس سے قائد اعظم کی حضرت علی سے عقیدت اور ان کے یومِ شہادت پر دنیوی کاروبار سے لا تعلقی اور اصول پسندی کا اظہار ہوتا ہے۔ جناب صدیق علی خان صاحب اپنی کتاب ’’بے تیغ سپاہی‘‘ کے صفحہ ٤١٣ پر رقمطراز ہیں کہ ایک مرتبہ گاندھی جی ٢١ رمضان کو بات چیت کرنا چاہتے تھے۔ قائد اعظم نے بذریعہ اخباری بیان یہ کہہ کر معذرت کی کہ چونکہ اس دن حضرت علیٴ مشکل کشائ کا یومِ شہادت ہے اس لئے وہ گفت وشنید نہیں کریں گے۔ قائد اعظم کا یہ بیان پڑھ کر مولانا ظفر الملک صاحب نے لکھنو سے قائد اعظم پر اعتراض کیا کہ شیعہ عقیدہ کو مسلمانوں سے منسوب کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں۔۔ انھوں نے مولانا کو اپنے روایتی انداز میں مختصر جواب دیا، ’’مجھے علم نہیں تھا آپ جیسے کو تاہ نظر مسلمان ہنوز موجود ہیں۔ یہ صرف شیعہ عقیدہ کا سوال نہیں ہے۔ حضرت علیٴ خلیفہ چہارم بھی تھے۔ رمضان کی ٢١ تاریخ کو بیشمار شیعہ سنی بلا لحاظِ عقائد یومِ شہادت مناتے ہیں‘‘۔
محبت حسینٴ
ایک تاریخی واقعہ ہے جو قائد اعظم کی محبتِ امام حسینٴ اور احترامِ عظمت واقعہ کربلا کا آئینہ دار ہے۔ شہنشاہِ جارج ششم کے زمانہ میں حکومتِ برطانیہ کی دعوت پر قائد اعظم ہندوستانی مسلمانوں کے لئے مزید اصلاحات حاصل کرنے انگلستان تشریف لے گئے۔ قصر بکھنگم کی طے شدہ دعوت کو عاشور محرم کی وجہ سے مسترد کردیا۔ آج تک کسی شخصیت نے برطانیہ کی شاہی دعوت کو مسترد کرنے کی جرآت نہیں کی تھی لیکن قائد اعظم نے عاشور کے احترام میں وہ دعوت قبول نہ کی۔ اس کا تذکرہ ڈاکٹر ممتاز حسن صاحب کی کتاب ’’قائد اعظم کا ایک سفر‘‘ کے صفحہ ٦٥ پر موجود ہے۔
حقیقی مسلمان
حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم بااعتبار عقائد شیعہ اثنا عشری ضرور تھے لیکن انھو ںنے خود کو ہمیشہ عہدِ نبوی کا مسلمان سمجھا، جیسا کہ ١٩٤٠ کے ایک مشہور واقعہ سے ظاہر ہے۔ ہوا یوں کہ انگریزوں کو جب اس امر کا یقین ہوگیا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت قائد اعظم کے ہر حکم کی اندھی مقلد ہے تو انھوں نے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی غرض سے چند کانگریسی علمائ کی خدمات حاصل کیں اور انھیں اس امر پر مامور کیا کہ وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوکر عقائد کے متعلق استفسار کریں۔ ان علمائ نے جب قائد اعظم سے یہ دریافت کیا کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ آپ نے برجستہ جواب دیا کہ میں مسلمان ہوں۔ پھر سوال کیا گیا کہ آپ کا کس فرقہ سے تعلق ہے؟ یہ سنتے ہی قائد اعظم ان کا اصل مقصد سمجھ گئے اور خود انھیں سے یہ سوال کر دیا کہ آپ بتلائیں کہ رسول اللہ ۰ سنی تھے یا شیعہ؟ یہ سنتے ہی وہ علمائ پہلے تو خاموش رہے پھر جواب دیا کہ اس زمانے میں یہ فرقے نہ تھے! آپ نے فرمایا میں عہدِ نبوی کا مسلمان ہوں جب یہ فرقے نہیں تھے، جن کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح قائد اعظم نے انگریزوں کی شاطرانہ چال کو بھی ناکام بنادیا۔
قائد اعظم ۔۔ ایک عابد
شملہ کانفرنس کے اجلاس کے اختتام پر قائد اعظم جب اپنے ہوٹل تشریف لائے تو رات ہوچکی تھی۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں سے نماز پڑھنے کے لئے جائ نماز طلب کی۔ آپ نے ایک ساتھی سے کہا ’’مستری جعفر‘‘ سے جو بلتستان کے رہنے والے تھے اور ہوٹل کے قریب ہی ان کی دکان تھی، جائ نماز لے آو۔ ان کے ساتھی جائ نماز لائے تو اس میں موجود خاکِ شفا کی تسبیح اور سجدہ گاہ رکھ لی کہ شاید قائد اعظم کو اس کی ضرورت نہ ہو۔ آپ نے فوراً حکم دیا ’’مستری جعفر‘‘ سے تسبیح اور سجدہ گاہ بھی لے کر آو۔ اس وقت ان کے ساتھی پر یہ آشکار ہوا کہ قائد اعظم خوجہ شیعہ اثنائ عشری ہیں اور وقتِ نماز ان دونوں چیزوں کے استعمال کرنے کے پابند ہیں۔ کہتے ہیں وہ رات قائد اعظم نے یا تو گریہ میں یا نماز میں گذار دی اور ہوٹل میں ان کے ساتھ رہنے والوں پر یہ عقدہ پہلی بار کھلا کہ دن میں بظاہر مغربی ثقافت اپنائے ہوئے یہ شخص رات میں کس طرح فقط بندہ خدا کی طرح نظر آتاہے۔
ادارے
٭ اخبار:
پاکستان کا پہلا انگلش اخبار DAWN۔ اس میں اہم کردار قائد اعظم، راجہ صاحب محمود آباد اور اصفہانی برادران نے ادا کیا۔
٭ بینک:
پاکستان کا سب سے پہلا بینک ’’حبیب بینک‘‘ شیعہ (خوجہ فیملی) کے مرہونِ منت تھا۔ جبکہ دوسرا بینک ’’مسلم کمرشل بینک‘‘ قائد اعظم کی خواہش اور سر آدم جی داود اور مرزا احمد اصفہانی کی کوششوں کے نتیجے میں وجود میں آیا۔
٭ PIA:
قائداعظم کے کہنے پر مرزا ابوالحسن اصفہانی نے اپنے بڑے بھائی مرزا احمد علی اصفہانی، سر آدم جی سے مشورہ کیا اور اس طرح تقسیم سے قبل پہلی مسلم ہوائی کمپنی یعنی ’’اورینٹ اےئرویز‘‘ نے باقاعدہ پروازیں شروع کردیں۔ جو بعد میں PIA کے نام سے مشہور ہوئی۔
شکر کرنے کے لئے امیدِ فردا اَب اٹھے
ایشیا میں جان آئی یعنی شیعہ اب اٹھے
(اکبر آلہ آبادی)
ایران کا کردار
پاکستان بننے کے بعد جس ملک نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا اور جس کے وفد نے پاکستان کا دورہ کیا وہ کوئی اور ملک نہیں تھا بلکہ شیعہ اکثریتی آبادی والا ملک ایران تھا۔
خود قائد اعظم کے الفاظ ہیں کہ ’’آزاد خود مختار پاکستان کے وجود میں آتے ہی سب پہلے ایران نے اسے تسلیم کیا‘‘۔ ٢ اپریل 1948 کو تین رکنی وفد ایران سے پاکستان آیا۔ قائد اعظم نے اس کا بڑی گرمی جوشی سے استقبال کیا۔ گفتگو میں دو طرفہ معاملات پر بات چیت ہوئی۔ وفد نے جاتے ہوئے قائد اعظم کو ایک نادر و نایاب تحفہ دیا جو درحقیقت ہرن کی کھال کے ایک ٹکڑے پر امام محمد باقرٴ کے دستِ مبارک کی تحریر کردہ آیاتِ قرآنی تھیں۔ جس کو دیکھ کر قائد اعظم بہت متاثر ہوئے اور وفد کے اس بیش بہا تحفہ کا بہت شکریہ ادا کیا۔
دوسرا رُخ
اب آئیے تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ بعض علمائ نے تحریکِ پاکستان کی مخالفت کی جن میں مولانا مودودی، مولانا حسین محمد مدنی، مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی، سید عطائ اللہ شاہ بخاری، مولانا عبد الکلام آزاد اور علامہ عنایت شرقی جیسے جید علمائ کے نام نظر آتے ہیں (سوائے چند علمائ کہ جن میں عبدا لحامد بدایونی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا احتشام الحق تھانوی شامل ہیں)۔
مولانا مودودی نے کہا، ’’کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ ہم کانگریس سے تصادم چاہتے ہیں۔ ہرگز نہیں! ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے تو ہمارا مقصد وہی ہے جو کانگریس کا ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس مشترکہ مقصد کے لئے بالآخر کانگریس کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔‘‘ (مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ،صفحہ ٦٤، حصہ اول)
اس طرح بعض مذہبی تحریکیں بھی تحریکِ پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش رہیں، مثلاً جمعیت العلمائ ہند، جماعتِ اسلامی، خدائی خدمتگار، خاکسار تحریک اور مجلس احرار نے نہ صرف پاکستان بننے کی مخالفت کی بلکہ ساتھ ساتھ کانگریس کی حمایت بھی کی۔ ’’مجلسِ احرار‘‘ کے رہنما، مولانا حبیب الرحمن اور محسن لدھیانوی کا تحریکِ پاکستان کے رہنماوں سے نفرت کا اندازہ ان کے اس جملہ سے لگایا جاسکتا ہے:
’’دس ہزار جناح، شوکت، ظفر، جواہر لال نہرو کی جوتی کی نوک پر قربان کئے جاسکتے ہیں‘‘۔
تحریکِ خلافت
مولوی احمد رضا خان بریلوی (مجدد حاضر) اور اشرف علی تھانوی (حکیم الامت) جیسے دو بڑے علمائ، کہ جنھوں نے میلاد شریف میں قیام و عدم قیام جیسے جزئی مسئلے پر اصولی جبر و قدر کی طرح موشگافیاں کی ہیں اور دریائے تحقیقات بہائے ہیں، انہوں نے خلافت جیسے عظیم الشان مسئلہ میں کچھ نہیں بولا۔ جب کہ شیعیانِ علیٴ (راجہ صاحب محمود آباد، وزیر حسن ، سید امیر علی) نے تحریکِ خلافت کی بھرپور حمایت کی۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے بھی انھیں خیالات کا اظہار کیا ہے۔
’’گویا شیعہ اپنے مسلک کے اعتبار سے ترکی کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے تھے لیکن انھوں نے مسلمانوں کی سیاسی قوت کو معدوم ہونے سے بچانے کے لئے خلافت بچانے کی تحریک میں کام کیا‘‘۔ (بحوالہ اوراقِ گم گشتہ، صفحہ ٢٣٠)
حرفِ آخر
اکتوبر 1945 میں حسین بھائی لال جی نے شیعہ کانفرنس منعقد کی تو شمس العلمائ خواجہ حسن نظامی کو بھی مدعو کیا۔ آپ بیماری کی وجہ سے نہ آسکے مگر خط میں جو پیغام لکھا وہ تاریخ میں امر ہوگیا۔ انھوں نے لکھا:
’’۔۔ یہ وقت ذاتی اغراض و مفاد پر نظر رکھنے کا نہیں اور یہ وقت درحقیقت حضرت علیٴ کا وقت ہے۔ ۔۔ حضرت علیٴ حقدار تھے مگر انھوں نے وقت کی مصلحت سے صبر کیا تھا اور تین خلافتوں کی مدد کرتے رہے اور مسلمان قوم کی وحدت اور اخوت کو سنبھال لیا تھا۔ اور یہ اتنا بڑا احسان مسلمانوں پر کیا تھا جس کی مثال دنیا کی کسی قوم کی تاریخ میں نہیں ہے۔ اس لئے میں اپنے دادا اور اپنے مرشد اعظم علیٴ کی سنت پر عمل کر کے یہ خط لکھتا ہوں کہ شیعہ جماعت کو بھی اپنے آقا اور مالک کی طرح صبر سے کام لینا چاہیے ورنہ آنے والا مورخ اور آنے والی مسلمان نسلیں شیعہ جماعت کو مطعون کریں گی۔ ۔۔۔ والے کانگریس کے آدمی ہیں ان کی اشتعال انگیزی سے بے توجہ رہنا شیعہ جماعت کی دانش مندی کو حیاتِ دائم عطا کردے گا۔ (حیات محمد علی جناح صفحہ ٧٦٤)
الحمدللہ شیعیانِ علیٴ نے علیٴ کی سنت کو زندہ کیا، حکومت و منصب کو قربان کردیا مگر اسلام کو پارہ پارہ ہونے سے بچالیا۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفقہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے