کوئي معاشرہ اگريہ چاہے کہ اُسکي تمام طاقتيں ايک نکتے پر مرکوز ہوں‘اُسکي کوئي توانائي ضائع نہ جائے اور اُسکي تمام قوتيں يکجا ہو جائيں (اپنے مخالف گروہوں ‘ صفوں اور قوتوں کے مقابل ايک بند مٹھي کي صورت کام کريں ) توايسے معاشرے کو ايک مرکز ي قوت کي ضرورت ہے ‘ اس کا ايک دل اور ايک قلب ہونا چاہئے۔
البتہ اس مرکز اور اس قلب ميں کچھ خصوصآيت ہوني چاہئيں۔اسے انتہائي دانا ہونا چاہئے ‘ قوتِ فيصلہ کا مالک ہونا چاہئے ‘ايک اندازِ فکر کا حامل ہونا چاہئے ‘اسے راہِ خدا ميں کسي چيز سے خوفزدہ نہيں ہونا چاہئے ‘ اور بوقت ِ ضرورت اپنے پ کو بھي فدا کر دينے پر تيارہونا چاہئے ۔
ہم ايسي ہستي کو کيا نام دآيتے ہيں ؟
ہم اسے امام کہتے ہيں۔
امام‘ يعني وہ حاکم اور رہنما ‘ جو پروردگارِ عالم کي طرف سے اس معاشرے کے لئے معين کيا گيا ہو ۔اسي طرح جيسے خدا وند ِ متعال نے حضرت ابراہيم ٴکے بارے ميں فرمايا :اِنِّيْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔ (١)يعني ميں نے پ کو لوگوںکے لئے امام مقرر کيا ہے ۔
ليکن يہ جو ہم کہتے ہيں کہ امام کا تعين خدا کي طرف سے ہونا چاہئے ‘ اس کي دوصورتيںہيں : آيتو خدا امام کو نام اور نشان کے ساتھ معين کرتا ہے ۔ جيسے پيغمبر اسلام ۰نے امير المومنين حضرت علي ٴ‘ امام حسن ٴ‘ امام حسين ٴاور بقيہ ائمہٴ کو معين کيا ہے ۔ يا پھر خدا ئے متعال ‘ امام کو نا م کے ساتھ معين نہيں کرتا ‘بلکہ صرف نشان کے ذريعے معين کرتا ہے ‘ جيسے امام ٴکا يہ فرمانا کہ:
’’ فَاَمّا مَنْ کٰانَ مِنَ الْفُقَھٰائِ صٰائِناً لِنَفْسِہِ حٰافِظاً لِدِيِنِہِ مُخٰالِفاً عَليٰ ھُوٰ اہُ مُطِيعاً لاَ مْرِمَوْلاٰہُ فَلِلْعَوامِ اَنْ يُقَلِّدُوہُ۔‘‘(٢)
اس روآيت ميں امام ٴنے بغير نام لئے ايک رہبر و رہنما کي خصوصآيت اور علامات کا تعين کيا ہے ۔جو کوئي ان علامات پرپورااترتا ہو ‘ وہ رہبر و رہنما ہو گا۔
ہم پ کي خدمت ميںلفظ ’’امام‘‘ کے معني بيان کرنا چاہتے ہيں۔امام‘ يعني پيشوا ‘ يعني حاکم‘ يعني حکمراں ‘ يعني وہ ہستي جو جس طرف جائے لوگوں کو اسکے پيچھے پيچھے چلناچاہئے‘ جسے خدا کي طرف سے ہوناچاہئے ‘جسے عادل ہوناچاہئے‘منصف ہوناچاہئے‘ديندارہوناچاہئے‘عزم و
ارادے کا مالک ہونا چاہئے اور اسي طرح کي اور باتيں جو امام کے حوالے سے ہيں ‘ جن کي تفصيل ميں جانے کا في الحال موقع نہيںہے۔
پس ولآيت کے قرآني اصول کي رو سے ‘ امام کا وجود لازم ہے ۔اور اگر يہ عظيم الشان پيکر ‘ جس کا نام امت ِ اسلامي ہے ‘زندہ ‘ کامياب و کامران اور ہميشہ مضبوط و مستحکم رہنا چاہتا ہے ‘ تو اُس کا اِس متحرک اورپُر ہيجان قلب اور ہميشہ مستحکم اور قدرت مند مرکز سے ربط ضروري ہے ۔
پس ولآيت کے دوسرے مظہر کے معني ہيں امت ِ اسلاميہ کے ہر فرد کا ‘ہر حال ميں اس قلب ِ امت سے محکم اورمضبوط رابطہ ۔يہ رابطہ فکري بھي ہونا چاہئے اور عملي بھي۔ امام کو نمونہ عمل قرار دينا ‘ افکار و نظرآيت ميں اسکي پيروي کرنا اور افعال ‘ رفتار ‘ سرگرميوں اور اقدامات ميں ٹھيک ٹھيک اس کے نقشِ قدم پر چلنا ولآيت ہے ۔
لہٰذا علي ابن ابي طالب ٴکي ولآيت رکھنے کے معني يہ ہيں کہ پ اپنے افکار اور اپنے افعال ميں علي ٴکے پيرو ہوں ‘پ کے اور علي ٴ کے درميان ايک مضبوط‘ مستحکم اور اٹوٹ بندھن قائم ہو۔ پ علي ٴسے جدا نہ ہوں۔ يہ ہيں ولآيت کے معني۔يہي وہ مقام ہے جہاں ہم اس حديث کے معني سمجھ سکتے ہيں کہ :
’’وِلاٰيَۃُ عَليِّ ابْنِ اَبيطالبٍ حِصْني فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِي اَمِنَ مِنْ عَذابي۔‘‘
’’علي ابن ابي طالب کي ولآيت ميرا قلعہ اور حصار ہے ‘ جو کوئي اس حصار ميں داخل ہوگا ‘ وہ خداکے عذاب سے محفوظ رہے گا ۔‘‘
يہ ايک انتہائي خوبصورت حديث ہے۔ يعني اگر مسلمان اور قرآن کريم کے پيروکار افراد فکري اور نظرآيتي لحاظ سے ‘ عمل‘ جدوجہداور سرگرميوں کے اعتبار سے علي ٴ کے ساتھ وابستہ ہوں ‘ تو خدا کے عذاب سے امان ميں رہيںگے ۔
ايک ايسا شخص جو قرآن کريم کو ناقابلِ فہم سمجھتا ہو‘ وہ کيسے يہ دعويٰ کر سکتا ہے کہ ميں علي ابن ابي طالب ٴکي ولآيت رکھتا ہوں ‘اور فکري لحاظ سے علي ٴکے ساتھ تعلق رکھتا ہوں ؟جبکہ علي ابن ابي طالب ٴنہج البلاغہ کے ايک خطبے ميں فرماتے ہيں :
’’وَاعْلَمُوا اَنَّ ھٰذَا الْقرآن ھُوَالنّٰا صفحُ الَّذِي لاٰ يَغُشُّ‘ وَالْھادِي الَّذِي لاٰ يُضِلُّ ‘وَالْمُحَدِّثُ الَّذِي لاٰ يَکْذِبُ‘ وَمٰاجَالَسَ ھٰذَا الْقرآن اَحَد اِلّا قٰامَ عَنْہُ بِزِيٰادَۃٍ اَوْنُقْصٰانٍ‘ زِيٰادَۃٍ في ھُديً وَنُقْصٰانٍ مِنْ عَميً۔‘‘
’’ اور جان لو کہ يہ قرآن ايسا ناصح ہے جو فريب نہيں دآيتا ‘ايسا رہنما ہے جو گمراہ نہيں کرتا اورايسا کلام کرنے والا ہے جو جھوٹ نہيں بولتا۔ جو بھي اس قرآن کے ساتھ بيٹھا ‘وہ اس کے پاس سے ہدآيت ميں اضافہ اور گمراہي ميں کمي کرکے اٹھا ۔‘‘(۳)
علي ٴ‘ قرآن مجيد کا اس طرح تعارف کراتے ہيں اور لوگوں کو اسکي جانب مائل کرتے ہيں ۔
جو شخص يہ کہتا ہے کہ قرآن کو سمجھنا ممکن نہيں‘ کيا وہ علي ابن ابي طالب ٴ کي ولآيت رکھتا ہے؟
ہر گز نہيں ۔
علي ٴراہِ خداميں اپنا پورا وجود فدا کرنے پر تيار ہيں۔ يہ ہے علي ٴکا کردار۔ جبکہ يہ شخص راہِ خدا ميںاپنا ايک پيسہ‘اپني جان‘اپنا معاشرتي مقام ‘اپني راحت ورام‘ اپني قيادت وسرداري قربان کرنے کو تيار نہيں۔ کيا ايسا شخص علي ٴ کي ولآيت رکھتا ہے ؟!
علي ٴ کي ولآيت ايسا شخص رکھتا ہے‘ جس کا فکري اورنظرآيتي لحاظ سے بھي اور عملي اعتبار سے بھي علي ٴکے ساتھ اٹوٹ بندھن قائم ہو۔
اگر پ درست طور پر غوروفکر کريں ‘ تو ولآيت کے جو معني ہم نے بيان کئے ہيں ‘وہ ولآيت کے کئے جاسکنے والے دقيق ترين اور ظريف ترين معني ہيں۔
اب ذرا غورفرمائيے گا ‘ہم قرآن کريم کي سورہ مائدہ سے کچھ آيت پ کي خدمت ميں پيش کرتے ہيں۔ان آيت ميں ولآيت کے ايجابي پہلو ‘ يعني داخلي تعلق کے قيام کا ذکربھي ہوا ہے‘اور ولآيت کے سلبي پہلو ‘ يعني خارجي تعلقات کے توڑنے کو بھي بيان کيا گيا ہے ۔ساتھ ہي ان آيت ميں ولآيت کا وہ دوسرا پہلو ‘ يعني ولي کے ساتھ اتصال وارتباط بھي بيان کيا گيا ہے ۔ولي ‘يعني وہ قطب ‘ يعني وہ قلب ‘ يعني وہ حاکم اور امام ۔
’’ يٰاَيُّھَا الَّذِيْنَ ٰامَنُوْا لااَا تَتَّخِذُوا الْيَہُودَ وَ النَّصٰرٰي اَوْلِيَآئَ۔‘‘
’’ اے صاحبانِ ايمان! يہود و نصاريٰ کو ( يہود يوں اور عيسائيوں کو) اپنا اوليائ نہ بناؤ ۔‘‘
اَوْلِيَآئ‘ ولي کي جمع ہے ۔ولي ولآيت سے ماخوذ ہے ۔ولآيت يعني پيوستگي ‘ ولي يعني پيوستہ اور جڑا ہوا ۔يہود و نصاريٰ کو اپنے سے نہ جوڑو ‘ ان سے منسلک نہ ہو‘ انہيں اپنے لئے اختيار نہ کرو
بَعْضُہُمْ اَوْلِيَآئُ بَعْض ( اِن ميں سے بعض ‘ بعض دوسروں کے اوليا اور ان سے جڑے ہوئے ہيں )
يہ نہ سمجھو کہ وہ عليحدہ عليحدہ بلاکوں سے تعلق رکھتے ہيں۔ قرآن کي زبان ميںوہ تمہارے دين کي مخالفت ميںيکجا ہيں۔بَعْضُہُمْ اَوْلِيَآئُ بَعْض (يہ سب پس ميں ملے ہوئے ہيں )
وَ مَنْ آيتوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْہُمْ (تم ميں سے جو کوئي ان سے توليٰ کرے گا ‘توبے شک وہ ان ہي ميں سے ہوجائے گا )
توليٰ (تفعل کے باب سے )‘يعني ولآيت کو قبول کرنا ۔جو کوئي ان کي ولآيت کے دائرے ميں قدم رکھے گااور اپنے پ کو ان سے منسلک کرے گا ‘وہ اُن ہي ميں سے ہوگا۔
اِنَّ اَ لااَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ(بے شک خدا ظالم لوگوں کي ہدآيت نہيں کرے گا )
١۔سورہ بقرہ٢۔آيت١٢٤
٢۔ علمائے دين ميں سے جو کوئي اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو ‘ اپنے د ين کي حفاظت کرتا ہو ‘ جس نے اپني نفساني خواہشات کو کچلا ہوا ہو اور خدا کے احکام (خواہ وہ انفرادي احکام ہوں خواہ اجتماعي )کا مطيع ہو‘ تولوگوں کو چاہئے کہ اس کي تقليد (پيروي) کر يں ۔ (وسائل الشيعہ ۔ج ١٨ ۔ص ٩٥)
۳۔نہج البلاغہ ‘خطبہ ١٧٤