خدا کے تمام افعال حکمت اور مصلحت کے ساتھ ھوتے ھيں ۔ وہ کوئي بُرا کام نھيں کرتا اور نہ کسي ضروري کام کو ترک کرتا ھے ۔ اُس ميں حسب ذيل نکات داخل ھيں :
(۱) دنيا کے تمام افعال بجائے خود يا اچھے ھيں يا برے ۔ يہ اور بات ھے کہ کسي بات کي اچھائي ، برائي ھماري عقل پورے طور پر نہ سمجہ سکے ليکن اس کے معني يہ نھيں کہ حقيقةً بھي وہ اچھے يا برے نھيں ھيں ۔ خدا جو کام کرتا ھے وہ اچھا ھي ھوتا ھے ۔ برا کام وہ کبھي نھيں کرتا ۔ خدا ظلم اور نا انصافي سے بري ھے ، يہ نھيںھو سکتا کہ وہ بندوں کو غير ممکن باتوں کا حکم دے يا ايسے کام کرنے کا حکم دے جو بالکل فضول ھوں اور جن کا کوئي فائدہ نہ ھو ۔ اس لئے کہ يہ تمام باتيں نقص ھيں اور خدا ھر نقص سے بري ھے ۔
(۲) خدا نے انسان کو اُس کے افعال ميں خود مختار بنايا ھے يعني وہ جو کچھ کام کرتا ھے اپنے ارادہ و اختيار سے کرتا ھے ۔ بے شک يہ قدرت خدا کي طرف سے عطا کي ھوئي ھے اور جب وہ چاھتا ھے تو اس قدرت کو سلب کر ليتا ھے ليکن جب وہ قدرت کو سلب کرلے تو انسان پر ذمہ داري باقي نھيں رہ سکتي يعني اُ س صورت ميں جو کچھ سرزد ھو اُس پر کوئي سزا نھيں دي جاسکتي جيسے پاگل آدمي ۔
خدا بندوں کو اچھي باتوں کا حکم ديتا ھے اور بري باتوں سے روکتا ھے ۔ اچھے کاموں پر وہ انعام عطا کرتا ھے اور برے کاموں پر سزا ديتا ھے ۔ اگر اُس نے انھيں مجبور پيدا کيا ھو يعني وہ خود ان کے ھاتھوں سب کچھ کام کراتا ھو تو احکام نافذ کرنا اور جزا و سزا دينا بالکل غلط اور بے بنياد ھو گا ۔ خدا کي ذات ايسے غلط اور بے جا طرز عمل سے بري ھے ۔
(۳) خدا کو بندوں کے تمام افعال کا علم ھميشہ سے ھے ليکن اُس کا علم ان لوگوں کے افعال کا باعث نھيں ھوتا بلکہ چونکہ يہ لوگ ان افعال کو اپنے اختيار سے کرنے والے ھيں اس لئے خدا کو ان کا علم ھے ۔
(۴) خدا کے لئے عدالت کو ضروري قرار دينے کے يہ معني نھيں ھيں کہ وہ ظلم،فعل شر يا فعل عبث پر قادر نھيں ھے بلکہ يہ معني ھيں کہ خدا کي کامل ذات اور اُس کے علم و قدرت کے لئے يہ مناسب نھيں ھے کہ وہ ظلم وفعل شر وغيرہ کا ارتکاب کرے ۔ اس لئے اُس سے ان افعال کا صادر ھونا بالکل غير ممکن ھے ۔
source : tebyan