اہداف بعثت انبیاء
استاد محمد تقی مصباح یزدی
متر جم اشرف حسین صالح
ہدایت تشریعی
قانونی طور پر نبوت کا مسئلہ انسان کی خلقت کے وقت سے ہی پا یا جاتا ہے اور انسان کی زندگی کی بنیاد اس دنیا میں ہدایت تشریعی کی بنا پر رکھی گئ ہے اس مطلب کو مانتے ہوے کہ انسان کو اس دنیا میں خلق کرنے کا مقصد اور ہدف واضح ہے جب ہم نے جان لیا کہ اس انسان کو عالم مادہ میں وجود ملا ہے تو یہ راستہ بھی اسکے اختیار میں ہے کہ اپنی سرنوشت تقدیر کو خود معین کرنے لیکن اس کو جاننا چاہیے کہ خدا نے اس کو ایک ایسا راستہ بھی دیکھا یا ہے کہ اس کی دو جہات ہیں ایک کمال اور ایک تنزلی ایک راستہ سعادت پر ختم ہوتا ہے ایک راستہ شقاوت ختم ہوتا ہے تاکہ انسان خود اپنے اختیار سے ایک راستہ کو انتخاب کرے اس کی دلیل ہمار ے پاس قرآن کی آیت ہے کہ جب حضرت آدم ع جنت سے زمین کی طرف جب نازل ہوے اس وقت وحی نازل ہوئی کہ اے آدم جب خدا کی طرف سے ہدات آے اگر اس کو بے چوں وچرا قبول کرلو اورعمل کرکرو تو نجات اورسعادت مل جاےگی اور اگر ہدایت کو قبول نہ کروگے اورمخالفت کروگے تو شقاوت ۔۔۔۔
"قلنا اهبطوا منها جميعا فاما يأتينکم مني هدي۔ ۔ ۔ (1)"
(ہم نے کہا کہ بہشت سے باہر نکل جاو اس وقت جب ہماری طرفسے ہدایت تمہاری طرف آگئ اس صورت میں دو حالتوں سےخالی نہیں ہے یا اتباع کرے اورسعادت پے پہنچ جاوگے یا مخالفت کرے اور شقاوت پے پہنچ جاوگے )
" فمن تبع هداي فلا خوف عليهم و لا هم يحزنون*و الذين کفروا و کذبوا باياتنا اولئک اصحاب النار هم فيها خالدون "
یعنی جس وقت سے آدم کو وجود ملا ہے زمین پر ( یاجب سے زمین رہنا شروع کیا ہے ) یہ مطلب ان کے لیے واضح ہو گیا ہے کہ آپ کے پاس دو راستے ہیں اور آپ کو خدا کی طرفسے راہنمائی ملے گی
" قال اهبطا منها جميعا "
اسی آیت کی طرح :
(آدم اور حوا سے مخاطب ہے دونوں بہشت سے خارج ہو جاے اور زمین پے اتر جاے ) یا شاید یہ آیت آدم اور ابلیس سے بھی مخاطب ہے چونکہ بعد والی ایت کہتی ہے کہ :
" بعضکم لبعض عدو فاما يأتينکم مني هدي فمن اتبع هداي فلا يضل و لا يشقي (2) "
"يا بني آدم اما يأتينکم رسل منکم يقصون عليکم آياتي فمن اتقی و اصلح فلا خوف عليهم و لا هم يحزنون و الذين کذبوا باياتنا و استکبروا عنها اولئک اصحاب النار هم فيها خالدون" (3)
(اے آولاد آدم اگر تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول آئیں میری آیات سنایا کریں تو (اس کے بعد ) جو تقوی اختیار کریں اور اصلاح کرے پس انہیں نہ کسی قسم کا خوف ہوگا اور نہ محزون ہونگے - )
اس آیت میں تمام بنی نوع بشر کے لیے خطاب ہے تو اس لحاظ سے یہ توہم نہ کیا جاے کہ آدم اور حوا یا آدم اور ابلیس کے ساتھ مختص ہے بلکہ تمام انسان اس خطاب میں شامل ہیں - سورہ بقرہ میں ہے "فمن تبع"سورہ طہ وسورہ نور میں ہے :
"فمن اتبع:
یہاں پر مصداق کو بیان کرتی ہے
"فمن اتقی و اصلح"
تو اس بنا پر کہ ھدایت تشریعی ،وحی اور نبوت کے ذریعے ہدایت کا مسئلہ کیا گیا ہے ۔ ایسی چیز ہے کہ انسان کی خلقت کے ساتھ ہے کہ انسان کیلئے اس کے بغیر روی زمین پر رہنا ممکن نہیں ہے ، کیونکہ یہ حکمت الہی کے خلاف ہے تو اس بنا پر خدا نے ہر قوم اور معاشرہ اور ہر امت کے لیے ایک پیغمبر کو بھیجا ہے
(و إن من أمة إلا خلا فيها نذير)
(اور کوئی امت ایسی نہیں گذری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو ۔) تو یہاں معنی یہ ہے کہ ہر شہر میں یا جگہ میں آدم کے آولادوں میں سے کچھ تھے جو پیغمبر تھے یا ہر زمانہ میں ایک کا ہونا ضروری ہے تاکہ انبیاء کے سلسلہ میں زمان کے اعتبار سے بھی اتصال برقرار ہو جاے یا کوئی اور طر یقہ ہے ؟۔
تو اس سلسلہ میں قرآن مجید میں کوئی صراحت نہیں ہے ، صرف ایک تعبیر ہے امت کا کلمہ ہے یہ امت قرآن میں بہت وسیع معنی رکھتا ہے ، کچھ لوگوں نے تصور کیا ہے کہ یہ امت (جامعہ)یعنی معاشرہ کےمساوی ہے، لیکن حقیقت میں ایسانہیں ہے بلکہ امت کبھی قرآن میں شخص کیلئےاستعمال ہواہےاورکبھی زمانہ کےلیےبھی استعمال ہوا ہے اورجس مواردمیں انسانی گروہ پراطلاق ہواہےوہ قدرمشترک ہے، اسکا استعمال اسی گروہ کے معنی ہے میں مثال کے طور پر تمام انبیاء کو ایک امت حساب گیا کیا ہے
" ان امتکم امة واحدہ"
باوجود اسکےکہ زمان اورمکان کےاعتبارسےاوراسی طرح اقتصادی روابط کےاعتبارسےاسی طرح سیاسی حوالےسےکوئی اشتراک نہیں ہے۔بہرحال امت قرآن مجیدمیں گروہ یا جماعت کےمعنی میں ہے(۵)
امت کے نبی
اور اب سوال یہ ہے کہ ہر امت کے نبی ہےاس کا کیا مطلب ہے ؟
دقیق اعتبار سے ہم کسی معنی کو معین نہیں کرسکتے ہیں لیکن جو ہم کہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ انسان جس گروپ سے بھی ہو دوسرے انسان سے مختلف ہو معلومات کے اعتبار سے تاکہ وہ معلومات دوسرے انسان تک منتقل نہ کر سکیں ۔تو دونوں کو الگ رہنما ئی کی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن اگر ملین کے حساب سے انسان دسیوں صدیوں میں ایک دوسرے کے رابطے اتنے مضبوط ہوں کہ معلومات ایک دوسرے تک منتقل ہو سکیں اگر کوئی کتاب نازل ہو جاے تو ان کے درمیان محفوظ رہے، تو یہ سب امت واحدہ میں شمار ہوتے ہیں چنانچہ اس آیت میں بھی ارشادہوا ہے :
" و ان من امة الا خلا فيها نذير " (6)
اور کوئی امت ایسی نہیں گذری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو ۔ ظاہرا اسی معنی کی طرف اشارہ ہے لیکن جو انبیاء مبعوث ہوۓ ہیں ہم سب کو نہیں جانتے ہیں بلکہ ضروری بھی نہیں ہے ۔ کچھ روایات میں آیا ہے کہ انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی ۔ اب وہ روایات سند کے اعتبار معتبر ہے یا نہیں ہے ہماری بحث نہیں ہے ، بہر حال بہت سارے انبیاء مبعوث ہوۓ ہیں اور قرآن میں بھی ان میں سے 25 انبیاء کا نام ذکر ہوا ہے باقی کچھ انبیاء مشہور نہیں ہیں بلکہ ان کے نام بھی ہمیں پتہ نہیں ہے ، اجمالی طور پر ہر امت کے لیے نبی ہے سورہ فاطر کی آیہ شریفہ 24سےسمجھ میں آتا ہے۔ ان دلائل کےروسے جو استدلال ہم نے نبوت کےلازم ہونےکےلیے ذکر کیا تھا جو قرآن کی تائید شدہ ہیں ان سے انیباء کی ضرورت اور اہداف انبیاء بھی سمجھ میں آتے ہیں پس اس بناء پر ہم نے ثابت کیا کہ چونکہ انسان کے لیے لازمی ہے کہ راہ سعادت اور شقاوت کو خود اپنی مرضی سے انتخاب کرے اس اعتبار سے ہر دور اور ہر زمان میں کوئی شناخت ہو کہ انسان کی عقل اوردوسرے حرکات۔صحیح و غلط کی پہچان کے لیے کافی نہیں ہے پس کوئی راستہ ہو جس سےانسان صراطِ مستقیم سے نہ ہٹے اس کا نام ہم رکھتے ہیں وحی، اگر وحی نہ ہو تو انسان صحیح اور غلط راستے یا راہ حق کا انتخاب نہیں کرسکتے ہیں اور وہ مسول بھی نہی ہوگا چونکہ خدانے انساس کو مسول خلق کیا ہے یعنی انتخاب کرے تاکہ نتیجہ تک پہنچ جاے ضروری ہے کوئی راستہ ہو شناخت کے لیے۔
پس اس برہان سے بعثت انبیاء کے اہداف میں سے ہمیں ایک کا پتہ چلتاہے کہ تمام انسان راہ سعادت اورشقاوت کو پہچان لیں جس طرف بھی جاےآکاہ اورعلم کےساتھ ہو اور دیگر اس پر اتمام حجت ہو۔ اس حوالے سے قرآن میں کچھ آیات ہیں جو اس مطلب کی صراحتا تائید کرتی ہیں ان میں سے:
" رسلا مبشرين و منذرين لئلا يکون للناس علي الله حجة بعد الرسل و کان الله عزيزا حکيما (7) "
یہ سب بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے اوراللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے ۔
خصوصا آیت کے آخری حصہ سے :
" و کان الله عزيزا حکيما "
واضح ہو جاتا ہے کہ اتمام حجت حکمت الھی کا لازمہ ہے ۔ یہ وہی دلیل ہے کہ جس کو ہم نے ذکر کیا کہ حکمت الھی کا تقاضا ہے کہ نبوت کا راستہ بشریت کی ہدایت کے لیے ضروری طور پر ہونا چاہیے
بلکل اسی ایت کی طرح :البتہ کچھ آیات کو بیان کرونگا ان میں سے کچھ ایک قوم کے ساتھ خاص ہیں یا کبھی اہل کتاب سے خطاب ہے کھبی مشرکین مکہ سے، لیکن سب کا مضمون ایک ہے
" أن تقولوا انما انزل الکتاب علي طائفتين من قبلنا و إن کنا عن دراستهم لغافلين أو تقولوا لو انا انزل علينا الکتاب لکنا اهدي منهم ۔ ۔ ۔ "(8)
تاکہ کبھی تم یہ نہ کہو کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں پر نازل ہوئی تھی اور تو ان کےپڑہنےپڑھانے سےبےخبر تھے۔ یا تم یوں کہتے : اگر ہم پر بھی کتاب نازل ہوجاتی تو ہم ان سے بہتر ہدایت لیتے ،
اگر ہم تمہارے لیے پیامبر مبعوث نہ کرتے تو اس وقت تم لوگ کہہ سکتے تھے کہ خدا نے قوم یہود کی ہدایت کے لیے نبی بھیجے لیکن اس قوم میں سے اکثریت گمراہ ہوگئی اسی طرح نصاری بھی ، اگر خدا ہمارے لیے بھی پیامبر نازل کرتا تو ہم زیادہ سے زیادہ راہ حق کے اتباع کرتے اس لیے تہماری طرف بھی پیامبر مبعوث ہوا تاکہ تمہارا بھی امتحان لیا جاے
مزے کی بات یہ ہے کہ ایک دوسری جگہ پر قرآن کا ارشاد ہے کہ پیغمبر اکرم کی بعثت سے پہلے قسم کھاے ہو تھے کہ اگر خدا ہمارے لیے بھی ایک پمغمبر نازل کرتا تو ہم اس کی اس طرح اتباع کرتے کہ دوسری اقوام سے زیادہ ہم ہدایت یافتہ ہوتے۔
" و اقسموا بالله جهد ايمانهم ۔ ۔ ۔ (9) "
اور یہ لوگ اللہ کی پکی قسم کھا کرکہتے ہیں
بہت ہی محکم قسم کھاے :
" لئن جائهم نذير ليکونن أهدي من إحدي الامم۔ "
اور یہ لوگ اللہ کی پکی قسم کھا کرکہتے ہیں ان کے پاس کوئی تنبیہ کرنے والا آتا تو وہ ہر قوم سے بڑہ کر ہدایت یافتہ ہو جاتے
" فلما جائهم نذير ما زادهم الا نفورا"
لیکن جب ایک متنبہ کرنے والا ان کے پاس آیا تو ان کی نفرت میں صرف اضافہ ہی ہوا ،
پس معلوم ہوا کہ بعثت انبیاء کے اہداف میں سے ایک لوگوں پر اتمام حجت کرنا ہے اور ایک آیت اہل کتاب سے مخا طب ہے :
" يا اهل الکتاب قد جائکم رسولنا يبين لکم علي فترة من الرسل ان تقولوا ما جائنا من بشير و لا نذير فقد جاءکم بشير ونذير والله علي کل شي قدير "(10)
اے اہل کتاب ہمارے رسول بیان (احکام) کے لیے رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت تک بند رہنے کے بعد تمہارے پاس آے ہیں تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا نہیں آیا ، پس اب تمہارے پاس وہ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے آگیا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
اہل کتاب خود کو ایک نبی کے تابع مانتے تھے لیکن ایک اور نبی کے آنے کا انتظار کر رہے تھے شاید اس وحی کے مطابق جو پہلے انبیاء کو نازل ہوئی ہے اس میں بشارت دی گئ ہے کہ ایک پیغمبر خاتم نے آنا ہے ۔
"و مبشرا برسول يأتي من بعدي اسمه احمد "(11)
اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جن کا نام احمد ہوگا ۔
بہر حال یہ لوگ انتظار کر رہے تھے کہ ایک پیامبر ضرور آئے گا خدا نخواستہ یہ بہانہ بناے کہ چونکہ کوئی ہدایت کرنے والا نہیں آیا تو ہم گمراہ ہو گے اوراسی وجہ سےہماری کتاب میں تحریف ہوگئی سابقہ انبیاء کے علوم سب ضایع ہوگے ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں ان کو بچانے کے لیے ایک پیغمبر کی ضرورت تھی بلکہ وعدہ بھی دیا تھا اس کا ہم انتظار کر رہے تھے جب نہیں آیا تو ہم شک میں پڑ ہ گے یہ سب بہانہ نہ بنائیں :
"فقد جائکم بشير و نذير"
بتحقیق تمہارے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا آگے ہیں ۔
اور ایک آیت :
" و لو انا اهلکناهم بعذاب من قبله لقالوا ربنا لولا ارسلت الينا رسولا فنتبع اياتک من قبل ان نذل و نخزی" (12)
اور اکر ہم ( نزول قرآن سے) پہلے ہی عذاب سے ہلاک کر دیتے تو ضرور کہتے : ہمارے پروردگار تو نے ہماری طرف کسی رسول کو کیوں نہیں بھیجا کہ ذلت ورسوائی سے پہلے ہی ہم تیری اتباع کرلیتے ؟
خدا نے انسانوں کو اس لیے خلق کیا ہے تاکہ انسان خود اپنے ارادہ اور اختیار سے یا راہ حق کا انتخاب کرے یا راہ باطل کا انتخاب کرے اور اگر باطل راہ کا انتخاب کیا تو اپنے اعمال کے نتیجہ کے انتظار میں رہے پس جن لوگوں نے ہدایت آنے کے بعد بھی غلط راستہ کا انتحاب کیا ہے ان کے نصیب میں عذاب ضرور ہے لیکن اگر پیغمبر کے آنے سے پہلے عذاب نازل کرتے تو کہتے کہ ہمیں صحیح اور غلط پتہ نہیں تھا کیو ں پیغمبر کو نازل نہیں کیا تاکہ ہماری ہدایت کرتے؟ ہم تو خواب غفلت میں تھے کیوں کسی کو نہیں بھیجا تاکہ ہمیں غفلت سے نکالتے ؟ پس رسولوں کا بھیجنا ان سب بہانوں سے روکنے لیے تھا ۔
اور ایک آیت :
"۔ ۔ ۔ و ما کنا معذبين حتي نبعث رسولا (13) "
اور جب تک ہم کسی رسول کو مبعوث نہ کریں عذاب دینے والے نہیں ہیں ۔
یہ سب آیات تایید کرتی ہیں کہ نبوت کےاہداف میں سے ایک کم ازکم اتمام حجت اوربہانوں سے روکنا ہے۔
لوگوں کو تعلیم دینا
اور بہت ساری دوسری آیات ہیں جو کہتی ہیں، انبیاء مبعوث ہوۓ ہیں تاکہ جو چیزیں عوام نہیں جانتے ہیں ۔ وہ انکو بتا يں سب کا مفہوم یہی ہے کہ ہر وہ چیز جو عوام جانتے ہیں اس پر عمل کریں اگر چہ کوئی پیغمبر نہ بھی آے ۔ لذا وہ دور دراز لوگ جنہوں نے کسی پیغمبر کو درک نہیں کیا وہ بھی اپنی عقل کے مطابق عمل کرنے کے ذمہ دار ہیں ۔ بعثت انبیاء کی اصلی علت بھی یہی ہے کہ عوام جو نہیں جاتے ہیں اور کوئی وسیلہ بھی نہیں ہے کہ ان کو سیکھیں ان کی تعلیم دینا ہے ۔
و يعلمکم ما لم تکونوا تعلمون "(14) ، و علمک ما لم تکن تعلم " (15)
یہ آیتیں اسی بات کی تائید کرتی ہیں
تحریف شدہ چیزوں کی اصلاح
کچھ آیتوں سے بہت سارے نکات کا ہمیں استفادہ ہو تا ہے شاید یہ تمام انبیا کے بارے میں نہ ہو بہتر ہے کہ مطلب میں داخل ہونے سے پہلے ہم مختصر تو ضیح دیتے چلیں ۔ آپ فرض کریں کہ خدا نے پیغمبر کو مبعوث کیا ہے اور لوگوں کی ہدایت کی ہے راہ حق کی طرف لیکن بعد میں زمانے کے گزر کے ساتھ یا کچھ اور اسباب کی وجہ سے اس پیغمبر کی دعوت تحریف ہوگئی اور وہی چیز جو لوگوں کی ہدایت کا سبب بنی تھی اب گمراہی کا سبب بھی وہی چیز ہے ۔ اسے ہم اپنے زمانہ میں مشاہدہ کرسکتے ہیں جیسے انجیل جو خدا کی طرف سے حضرت عیسی ع پر نازل ہوئی لیکن اس مقدس کا کوئی اصلی حصہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے شاید کسی بین الاقوامی لائبریری میں اس کا اصلی نسخہ پیدا ہوجاے ، جو ابھی ہاتھوں میں ہے وہ حضرت عیسی ع کے شاگروں کی لکھی ہوئی کتاب سے منسوب ہیں ان اناجیل کا نسبت دینا بھی یقینی نہیں ہے۔ ان اناحیل کا انداز مختلف تاریخی کتاب کا ہے جیسے ایک دن حضرت عیسی ع ا پنے شاگردوں کے پاس تشریف لاے اور گفتگو کی اور شاگردوں نے سوال کیا اور حضرت نے جواب دیا ۔ معلوم ہوتا ہے یہ کتاب وہ نہیں ہے جو حضرت عیسی پر نازل ہوئی ہے کیونکہ اسی کتاب میں کچھ ایسے مطالب بھی ہیں جو عقل اور آسمانی شریعتوں کے مخالف ہیں اس میں شرک بھی ہے اور وہ احکام جن پر تمام کتب آسمانی کا اتفاق ہے تحریف ہوگئے ہیں پس یہ ممکن امور میں سے ہے
"ادل الدليل علي امکان الشيء وقوعه"
یعنی سب سےبہترین دلیل کسی چیزکےہونےکی اس چیزکاواقع ہوناہےتو اس قاعدہ کلیہ کےبناء پرممکن ہوگیا کہ خدا پیغمبر کو مبعوث کرے اور راہ حق بھی ان کو دیکھاۓ اور اس پیغمبر پر کتاب بھی نازل کرے بعد میں وہ کتاب تحریف کا شکار ہوجاۓ ۔ پس اس صورت میں کہ وہ عوام جن کے پاس نہ پیغمبر ہے نہ کتاب وہ محتاج ہیں کہ کوئی نبی ہدایت کرنے والے آجاے اور کم ازکم جو چیزیں تحریف کا شکار ہوگئی ہیں ان میں ترمیم کریں اگر کوئی نئی شریعت لیکرآے یا نہ وہ آلگ بحث ہے یہی خود کہ لوگوں کو انحراف سے نکالیں اور حق وحقیقت لوگوں تک پہنچادیں ایک اہم اور نیا سبب ہے بعثت انبیا کا ۔
دینی اختلافات کوختم کرنا
کچھ آیات اس مطلب کی طرےاشارہ کرتی ہیں کہ اہل کتاب کےعلماءنےکچھ مطالب کوچھپاکرلوگوں کو نہیں بتاتےتھے۔وہ کچھ اختلافات تھے کہ وہ اپنے منافع کی خاطرایسےکرتےتھے یہ سبب بناکہ خداکسی پیغمبرکومبعوث کرے تاکہ اس اختلافات کوختم کرے اور حق وحقیقت لوگوں تک پہنچادے۔
" يا اهل الکتاب قد جاءکم رسولنا يبين لکم کثيرا مما کنتم تخفون من الکتاب و يعفوا عن کثير"(16)
اے اہل کتاب ہمارے رسول تمہارے پاس کتاب (خدا ) کی وہ بہت سی باتیں تمہارے لیے کھول کربیان کرنے آے ہیں جن پرتم پردہ ڈالتے ہو اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کرتے ہیں ۔
آسمانی کتاب کے بہت سارے مطالب کو تم لوگوں نے چھپایا ہے واضح ہے کہ ان میں کچھ علماء بھی تھے کہ جو جانتے تھے لیکن لوگوں کو نہیں بتاتے تھے بلکہ کچھ آیات دلالت کرتی ہیں کہ جو چیز خود کہتے تھے وہ خدا کی طرف منسوب کرتے تھے ۔:
" فويل للذين يکتبون الکتاب بايديهم ثم يقولون هذا من عندالله ''(17)
پس ہلاک ہے ان لوگوں کے لیے جو توریت کے نام سے ایک کتاب اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں
" يا " يحرفون الکلم عن مواضعه (18)
جو کلمات کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں۔یہ کام بہت سارے اہل کتاب کے علماء کیا کرتے تھے قرآن کہتا ہے کہ ہمارے پیغمبرآۓ تاکہ جو حقائق چھپاے تھے سب کو آشکار کریں
ایک اور آیت :
" کان الناس امة واحدة فبعث الله النبيين مبشرين و منذرين و انزل معهم الکتاب بالحق ليحکم بين الناس فيما اختلفوا فيه و ما اختلف فيه الا الذين اوتوه من بعد ما جائتهم البينات بينهم فهدي الله الذين آمنوا لما اختلفوا فيه من الحق باذنه و الله يهدي من يشاء الي صراط مستقيم (19) "
لوگ ایک ہی فطرت دین پرتھےان میں اختلاف رونماہواتواللہ نےبشارت دینےوالےتنبیہ کرنےوالےانبیاءبھیجے اورانکےساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کےان امورکافیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتےتھےاوران میں اختلاف بھی ان لوگوں نےکیاکہ جنہیں کتاب دی گئی تھی حالانکہ انکے پاس صریح نشانیاں آچکی تھی۔
یہ صرف اس لیے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرناچاہتے تھے پس اللہ نے اپنے اذن سے ایمان لانے والوں کو اس امر حق کا راستہ دکھایا جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے
اس آیت کے بارے میں بحث زیادہ ہے کچھ نکتے ہیں کہ آیات کا پہلے حصہ مبہم ہے اس کی بحث دسری جگہ ہونی چاہیے ان میں سے ایک آیت یہ ہے :
" کان الناس امة واحدة "
خدا ارشاد فرماتا ہے کہ ایک زمانے میں سب لوگ ایک ہی امت تھے تو یہاں سوال یہ ہے کہ امت واحدہ سے کیا مراد ہے ؟
کیا اعتقادی اعتبار سے ایک تھے ؟
یا زمان اور مکان کے اعتبار سے مساوی زندگی کرتے تھے؟
اگر واحدہ سے مراد اعتقاد لیں تو کیا یہ لوگ اہل حق تھے یا اہل باطل ؟
علامہ طباطبائی مرحوم فرماتے ہیں کہ زمان اور مکان کے اعتبار سے مساوی زندگی کرتے تھے اس جملہ سے استظہارکرتے ہوے کہ بعد والا جملہ قرینہ ہےاس وقت لوگ سب ایک سادہ اورمساوی زندگی کرتےتھےکیونکہ اس زمانے میں حضرت آدم ابتدا میں جب زمین پر زندگی کرتے تھے تو بہت کم تعداد میں انسان بستے تھے اپنے بال بچوں کے ساتھ بہت ہی سادہ اور مساوی زندگی تھی ان کی ۔ اور زندگی میں ش مختلف مسایل اور پیچدگیاں نہیں تھی کہ آج کل کی طرح اختلاف کا سبب بنیں اگر چہ اختلاف بھی تھا تو وہ انفرادی تھا نہ کہ اجتماعی ۔ لیکن بہر حال یہ علامہ کا نظریہ ہے ۔
لیکن احتمال ہے کہ علامہ کی مراد یہ ہو کہ اس زمانے میں ہر لحاظ سے ایک اعتقاد کے اور حق عقیدہ کے مانے والے تھے یعنی ایک زمانا ایسا بھی بشر پر گزرا ہے کہ اس میں سب کے سب موحد تھے اور انبیاء کے دستورات پر عمل کرتے تھے کہ حضرت آدم علیہ السلام ان کے درمیان تھے اسی کے دستور پر عمل کرتے تھے ۔ لیکن اگر کویی گناہ بھی کرتا تھا جیسے ہر دور میں ہے ۔تو وہ مسلک کے اعتبار سے نہیں تھا بلکہ کیونکہ اس وقت ایک مسلک توحیدی تھا جس کو آدم ع بنی نوع بشر کی ہدایت کے لیے لیکر آۓ تھے وہی اس معاشرہ کا مسلک ومذہب تھا۔ لیکن اس دورکےختم ہونےبعدمختلف مذاہب وجود میں آئے وہ بھی شرک آلودہ ۔ اس کے بعد اختلافات مذہبی کی جڑ آگی اور اسی کے ساتھ ہی حق اس معاشرہ میں مجہول رہ گیا کہ ضرورت پڑی کہ دوسرے انبیاء کو مبعوث کیا جاے ۔
حضرت آدم علیہ السلام خود نبی تھے اور کچھ مدت گزرگئی مثلا ایک ہزار سال اس وقت ایک ہزار سال بھی کچھ نہیں تھا روایت میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی عمرسال تھی پوری ایک نسل گزر گئی اور لوگ بھی حضرت آدم ع کے پیروکار تھے یعنی اس نبی کے دین کے ماننے والے تھے ۔ لیکن اس کے بعد کہ جب حضرت آدم علیہ السلام نے اس دنیا کو خیرباد کہدیا اس وقت اختلافات شروع ہو گئے اور مختلف مذاہب وجود میں آیے جو شرک سے آلودہ ہیں ۔
فبعث الله النبيين "
خدا نے انبیاء کو بھیجا ، یعنی خدا نے آدم پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ دیگر انبیاء کو بھیجنا شروع کیا :
" ارسلنا رسلنا تتري "
ایک کے بعد دوسرے کو بھیجا تاکہ ءحضرت آدم کے بعد جو اختلافات وجود میں آئے سب کو ختم کریں :
" فبعث الله النبيين مبشرين و منذرين و انزل معهم الکتاب بالحق "۔
اس آیت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت آدم کے پاس کتاب نہیں تھی مدون صورت میں بس فقط زبانی و شفاہی صورت میں لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دیتا تھا ـ اس دور کے بعد کہ لوگوں کے درمیان اختلافات پھوٹ پڑے خدا نے انبیاء کو کتاب کے ساتھ بھیجا ، " یعنی وحی کا متن لوگوں کے درمیان میں رہے: فرق ہے کہ حضرت آدم کو اللہ کا الہام ہوتا تھا کہ لوگوں کو بتائے مثلا حج کرو (جیسا کہ نہج البلاغہ میں ہے کہ حج خلقت اول سے ہی تھا ) اور اس وقت کے لوگ بھی جانتے تھے کہ حضرت آدم پر وحی نازل ہوتی ہے او رہم اسی پر عمل کرتے ہیں لیکن جب اختلافات وجود میں آیے اس وقت ایک متن کی ضرورت پیش آئی جو وحی ہو اور وہ لوگوں کے درمیان میں رہے چاہے کتابت کی شکل میں ہو یا غیر کتابت لیکن اسکی عبارت محفوظ رہے ۔ کتاب ہم نے کیوں نازل کی ہے
" ليحکم بين الناس فيما اختلفوا فيه "
اختلافی موارد میں یہ حاکم ہو اور انکے اختلافات کو ختم کرے ۔
" و ما اختلف فيه الا الذين اوتوه "
اس اختلافات کےعلاوہ جولوگوں کےدرمیان میں تھاخودکتاب میں بھی اختلافات وجود میں آیے۔اور کون لوگ اختلافات کرتے تھے ؟ وہ لوگ جان بھوج تحریف کرتے تھے ۔
" بغيا بينهم "۔
ظلم وستم و سرکشی کی وجہ سے خدا کے دین میں اختلاف ڈالتے تھے۔ اپنے منافع کی خاطر۔
" فهدي الله الذين امنوا لما اختلفوا فيه من الحق باذنه ۔ ۔ ۔ "
اور وہ لوگ جو ایمان لایے تھے خدا نے خود ان کی ہدایت کی ۔
" و الله يهدي من يشاء الي صراط مستقيم ":
اس آیت کے استدلال کا مطلب یہ ہے کہ جب الہی دین میں اختلاف وجود میں آیا تو یہ اختلاف سبب بنتا ہے کہ ایک اور پیغمبر کو بھیجا جاے تاکہ اس اختلاف کوختم کرے وہ اختلافات جو ایک نبی کا زمانہ گزرنے کی وجہ سے یا وہ نبی کے حاضر نہیں ہونے کی وجہ سے وجود میں ایے یہ اگر چہ طغیانی کی وجہ سے تھا اور وہ لوگ جان بھوج کر اختلافات کرتےتھے پھربھی خدانےاپنے فضل وکرم کی وجہ سے ایک نبی کو بیھجا تاکہ آیندہ آنے والی نسل گمراہ نہ ہو انبیا ء۔ کو مبعوث کرنے کی اور بھی بہت ساری حکمت ومصلحت ہمیں مل جاتیں ہیں قرآنی آیات سے اسی طرح عقلی اعتبار سے بھی ۔
فیصلے کرنا
اگرچہ بعض قرآنی آیات سےاستفادہ ہوتاہےکہ انبیاء کوبھیجنےکامقصداصلی حکم کوپہنچانےکےبعداس حکم کولاگوکرنا تھاان موارد میں جہاں پرجگڑا فساد ہو وہاں فیصلےکرنا تھا۔(ابھی سوال یہ ہےکہ سارے انبیاء ایسےتھے یا بعض انبیاء؟)حضرت داوود(ع)ان انبیاء میں سےتھےکہ جو قضاوت اورفیصلےکےلیےخدا کی طرف سےمعین تھے:ظاہرا یہ اختصاص انبیاء میں سے بعض کے ساتھ تھا " جیسے:
يا داوود انا جعلناک خليفة في الارض فاحکم بين الناس بالحق "
اے داود! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہذا لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلہ کریں-(۲۰)
اسی طرح ہمارے آخری نبی کے بارے میں ہے کہ:
" انا انزلنا اليک الکتاب بالحق لتحکم بين الناس بما اراک الله و لا تکن للخائنين خصيما " (21)
"اے رسول ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلے کریں اور خیانت کاروں کے طرفدار نہ بنیں ۔
واضح ہےکہ یہاں پرحکومت اورقضاوت سےمراد، لوگوں کے درمیان فیصلہ کرناہے جہگڑےکےموقع پر ۔
حکومت
بعض انبیاء قضاوت سے بڑھ کربھی مقام رکھتے تھے یعنی رسمی طور پر اس معاشرہ میں حاکم اور رئیس تھے اور لوگوں پر ضروری تھا کہ ان انبیاء کی اطاعت کریں ایک آیت ہے اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے : " ہم نے ہر پیامبر کو لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجا تو اس لیے تھا کہ لوگ اس نبی کی اطاعت کریں "۔ تو اس بناء پر وہ نبی جو بھی حکم کریں وہ خدا کی طرفسے ہیں ضروری ہے اس پر عمل کریں اور لوگوں پر لازمی ہے کہ اس کو قبول کریں ۔ جب نبی نے کہا کہ میں خدا کی طرف سے قضاوت و حکومت کے لیے معین ہوا ہوں تو لوگوں پر بھی ضروری ہے قبول کریں اگر اس نبی نے کہا کہ میں معاشرہ کے تمام امور کی تدبیر کے لیے مبعوث ہوا ہوں اور اس کی پیغمبری بھی ثابت ہو جاے تو لوگوں پر ضروری ہے ان کو قبول کریں کیونکہ نبی جو بھی کہتا ہے وہ سب خدا کی طرف سے ہوتا ہے:
" و ما ارسلنا من رسول الا ليطاع باذن الله "(22)
"اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے کہ باذن خدا اس کی اطاعت کی جاے "
اگر معاشرہ میں عوام کہیں کہ ہم نے خود تشخیص دینا ہے کہ کونسی بات خدا کی طرف سے ہے کونسی بات خدا کی طرف سے نہیں ہے تو اس وقت نقض غرض لازم آے گا او رکوئی اعتماد باقی نہیں رہے گا ، عوام پر ضروری ہے کہ کسی قید وشرط کے بغیر قبول کریں ۔ لیکن اگر کہیے کہ میں جو بات کررہا ہوں اپنی طرف سے ہے اس ادعا کے ساتھ کہ میرے پاس جو منصب ہے وہ خدا کی طرف سے ہے اس وقت بھی عوام پر ضروری ہے ان کو قبول کریں ۔
البتہ بعض موارد میں کچھ انبیاء خود اپنی طرفسے حکومت پر منصوب نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ایک دوسری حکومت کی تائید کی ہے ، :چنانچہ روایت میں ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ اپنے زمانے کے پیغمبر جس کا نام "صموئيل" کے پاس آیا اور کہا کہ
" ابعث لنا ملکا نقاتل في سبيل الله " (23)
"آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کریں تاکہ ہم راہ خدا میں جنگ کریں "
واضح ہوا کہ صموئیل بادشاہ نہیں تھے ورنہ اس کو نہیں کہتے کہ آپ خدا سے ہمیں ایک بادشاہ دلوائیں ۔ پس ہر پیغمبر کو خدا کی طرف سے حکومت نہیں تھی ۔ لیکن یقینی بات ہمارے نبی کے پاس حکومت تھی ۔ گذشتہ انبیاء میں سے بھی کچھ ایسے تھے ۔ جیسے حضرت سليمان، قرآن صريح کہتا ہے کہ : ہم نے ان کو ملک عطا کیا ہے۔پیغمبراسلام(ص)کے حوالے سے بھی ہمارے پاس بہت سی دلیلیں ہیں :
" النبي اولي بالمومنين "۔
اور بہت سارے موارد ہیں جو یہاں پر ہم بیان نہیں کرسکتے ہیں ۔
پس نتیجہ یہ ہوا کہ بعثت انبیاء کے اہداف میں سے ایک یہ ہے کہ روی زمین پر ایک حکومت حقہ قائم ہو اور لوگ اس حکومت حقہ کی چھتری کے نیچے اکر اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو سنواریں ۔
بعثت انبیاء کے سیاسی اہداف میں سے ایک حضرت موسي (ع) جب فرعون کی طرف آیے اور فرعون کو خداکی پرستش کی دعوت دی تو فرمایا کہ :
" فارسل معي بني اسرائيل "
یہ کچھ اہداف میں سے ایک تھا جو وہاں پر فرعون کے ساتھ ملاقات میں بیان کیا: میں خدا کی طرف سے تمہارا رسول ہوں ۔
" فارسل معي بني اسرائيل "
، یہ کام ایک اجتماعی و سیاسی کام تھا کہ ایک آدمی کو ظالم کی حکومت سے نکال کر اور ایسی جگہ پر لیکر جانا جہاں وہ آزادانہ زندگی کرسکیں اور یہ حضرت موسی ع کی رسالت کے اہداف میں سے تھا قرآن کی آیات واضح طور پر اسکی طرف اشارہ کرتی ہیں ان میں :
" و قال موسي يا فرعون اني رسول من رب العالمين حقيق علي ان لا اقول علي الله الا الحق قد جئتکم ببينة من ربکم فارسل معي بني اسرائيل " (24)
"اور موسی نے کہا : اے فرعون میں رب العالمین کا رسول ہوں مجھ پر لازم ہے کہ میں اللہ کے بارے میں صرف حق بات کروں ، میں تمہارے پاس رب کی طرف سے واضح دلیل لے کر ایا ہوں لہذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دے "
تذکر دینا (یاد دہانی کرنا )
ان نکات میں سے جو قران کریم سے استفادہ ہوتا ہے بعثت انبیاء کے اہداف میں سے ایک یہ ہے کہ لوگو ں نے جن چیزوں کر درک کیا ہے یا مبہم طور پر سمجھا ہے ان کو یاد دہانی کرانا بھی ہے ، قرآن کی اصطلاح میں خواب غفلت سے بیدار کرنا ہے ۔ کچھ تعبیرات قرآن میں ہیں خود قرآن کے بارے میں اور بہت ساری آسمانی کتابوں میں ہے کہ ۔ قرآن :
"ذکر، ذکري، تذکرة، مذکر"
ذکر، يادآوري کرنا ہے يعني ایک چیز کو انسان فراموش کرتا ہے یا نصف معلومات رکھتا ہے۔اورعلم اثر اس وقت کرتا ہے جب انسان کی توجہ اس کی طرف ہو۔ممکن ہے یہ کام پورا ایک معاشرہ میں اتفاق ہو جاے اس وقت زمانے کے بنی کا کام ہے کہ وہ اپنے علم سے لوگوں کو اس خواب غفلت سے بیدار کریں نہج البلاغہ کا وہ مشہور ومعروف جملہ ہے:
"ليستأدوهم ميثاق فطرته و يذکروهم منسي نعمته (25) "
ان تک فطری میثاق پہنچائیں اور انہیں فراموش نعمتیں یاد دلائیں ۔
خداشناسی و خدا پرستی ایک فطري کام ہے، لیکن کبھی اس سے غفلت بھی ہوسکتی ہے۔بہت ساری چیزوں کو لوگ عقل کے ذریعے سے درک کرتے ہیں لیکن یہی عقل کبھی غلط کاموں اورہوا وہوس کا اسیر بھی ہوجاتی ہے ، انبیاء کا کام یہاں کہ وہ ان عقلوں کو زندہ کریں جو دفن ہوچکی ہے :
"و يحتجوا عليهم بالتبليغ، و يثيروا لهم دفائن العقول"۔
یہ ایک مہم مسئلہ ہے جس پر ہم نے اعتماد کیا ہے یعنی لوگوں کو رسالت الہی کی تبلیغ کے ذریعے سے دعوت دینا ۔
پس نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کو غفلت سے بیدار کرنا اور ان کو توجہ دلانا فطری اورعقل کے ذریعے سے درک کرنےوالی چیزوں کی طرف انبیاء کی ذمہ داریوں میں سےہےاوریہی انبیاء کےوجودکےفوائد میں سےہے۔
ڈرانا اوربشارت دینا (انذار اور تبشیر)
قرآ ن کریم سےایک اورنکتہ واضح ہوجاتا وہ یہ کہ کبھی انسان کچھ چیزوں کوجانتاہےاورممکن ہےاسکی توجہ بھی اسطرف ہو لیکن اس پرعمل کرنےکی طرف مائل نہیں ہےاسوقت ضروری ہےکہ انسان کےاندرایک ایسی حرکت پیدا ہوجواسکوعمل کیطرف ابھارےاورانبیاءعلیہم السلام اگرآئےہیں منذراورمبشرکےعنوان سےاوریہی کام کرتےہیں کہ انسان کےاندرعمل کرنےکی صفت کو پیداکرتےہیں چھپی ہوئی صلاحیتوں کوبیدارکرتے ہیں ۔ یعنی انبیاء کا کام یہ ہےکہ ہرانسان کو عذاب الہی سےڈرانا اورجنت میں نعمات الہی کا شوق دلانا اورانسان کے تمام ارادوں کوعمل کاجامہ پہنانا۔ جیسےپہلےبھی کہا کہ انسان کی روح میں دوقسم کی مشین کام کرتی ہے ایک فکر کی اورایک شوق کی اورپیغمبران بھی انہیں دومشینوں کےذریعےسےانسان کوعذاب الہی سےڈراتےہیں اور انسان کی تمام تر صلاحیتوں کو نکھارتے ہیں ۔
اگر قرآن کی آیات میں تحقیق کریں توہم دیکھنگےکہ بہت ساری آیات اورہمارےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےاقوال اوراسی طرح انبیاء ماسبق کےاقوال بھی اسی انذاراورتبشیرکےعنوان سےہیں یعنی آخرت کےعذاب اورنعمات الہی کو یاد دلانا اور بیان کرنا بلکہ یہ اتنا مہم ہے قرآن نے ہمارے پیغمبر کو نذیر کے نام سے ہی یاد کیا ہے :
" و ان من امة الا خلا فيها نذير " (26)
"کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو "
پیغمبر کی یہ صفت مہم ترین صفات میں سے ہے اور اس کی ضرورت کا بھی احساس ہوتا ہے کیونکہ معاشرہ میں ایک فرد ایسا بھی ہو جو آئندہ آنے والے خطرات سے لوگوں کو آگاہ کرے اور آیات میں بھی ہم نے پڑھا کہ اس لفظ مبشر اورمنذرکا تکرار بھی زیادہ ہوا ہے اہمیت کی خاطر ۔
رسلا مبشرين و منذرين۔ ۔ ۔ ، فبعث الله النبيين مبشرين و منذرين۔
پيغمبر اکرم (ص) کے اوصاف کےبارے میں بھی قرآن میں کئی دفعہ ذکر ہواہے "بشیر" و "نذیر" کے لفظ سے تو یہ کام (مبشر اور منذر )بھی اہداف نبوت میں سے تھا۔
ظلم اور فساد کا مقابلہ کرنا
اہداف نبوت میں سے ایک ہدف جو آیات کریمہ سے واضح ہوتا ہے وہ اپنے زمانے کے تمام ظلم اور فساد کا مقابلہ کرنا ہے اور جس طرح قرآن سے پتہ چلتا ہے کہ ہر امت کے نبی ہیں اور اس امت میں فساد یا فسادی لوگ بھی تھے لیکن چونکہ تمام انبیاء کے مہم ترین اہداف ایک ہیں وہ یہ کہ سب نے لوگوں کو ایک خدا کی پرستش کی طرف دعوت دینا تھا :
" و لقد بعثنا في کل امة رسولا ان اعبدوا الله و اجتنبوا الطاغوت " (27)
"اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول کو بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو "
لیکن اس ہدف کے ساتھ ساتھ ایک عام قاعدہ کلیہ کا بھی ذکرملتاہےوہ خدا کی پرستش اوراوامرونواہی الہی ہے، ہرکو پیغمبر اپنے زمانے کے رائج فساد کا مقابلہ کرنا تھا جیسے جہاں پربھی حضرت شعیب کا ذکرہوتا ہے اس کے ساتھ یہ مسئلہ بیان ہوتا ہے
"وزنوا بالقسطاس المستقيم
اور جب تول کردو تو ترازو سیدہی رکہو "(۲۸)
" و لا تبخسوا الناس اشياءهم" (29)
اورلوگوں کوان کی چیزیں کم کرکےنہ دو یہ چیز بھی ساتھ ذکر ہوتی ہے۔جب حضرت لوط مبعوث برسالت ہوے تھے اس ایک خاص قسم کا فساد رائج تھا حضرت لوط نے اس کا مقابلہ کیا اس کے نمونے قرآن میں بہت زیادہ ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ ہر نبی نے اپنے زمانےکےمختص فساد کا مقابلہ کیا یہ نبوت کے اہداف میں سے تھا ۔
توحید اور قیامت کی طرف متوجہ کرنا
اس بحث کے ابتداء میں ہم نے ایک استدلال قائم کیا تھا نبوت کی ضرورت پر اس بنا پر کہ انسان کو ترقی اور کمال کےلیے خلق کیا گیا ہے
اوراس دنیامیں اپنی آخرت کوبناناہےاچھےاعمال کےذریعےسےجنت میں جاناہےیاغلط کردارکےذریعےسےدوزخی بننا ہےیعنی اپنےاعمال کےنتیجہ سےآگاہ ہو تاکہ آزادانہ طریقےسےانتخاب کرسکے،یااورایک تعبیرکےمطابق کہ ضروری ہے انسان جانتا ہو کہ کونسا کام اچھا ہے اسکو بجالانا ہے اور کونسا کام برا ہے کہ اس کو ترک کرنا ہے اور چونکہ انسان کی معلومات ان چیزوں کی درک کےلیےکافی نہیں تھی تو حکمت الہی کا تقاضا یہ تھا کہ اور ایک راستہ انسان کے اختیار میں رکھا جاے اس علم کے حاصل کرنے کے لیے کہ وہی راہ نبوت اور وحی کی راہ ہے بشریت کی نجات کی خاطر،اور دوسری بحث میں ہم نے کہا قرآن سے مدد لیتے ہوے کہ اگر خدا انبیاء کو نہ بھیجتا تو لوگوں پر اتمام حجت نہیں ہوتی اس مطلب کی تقصیل یہ ہے کہ انسان کی عقل خیر اور شر کی پہچاننے کے لے کافی نہیں تھی اور یہ بہانہ بھی بناسکتے تھے کہ ہم نہیں جا نتے تھے کہ کونسا کام کرنا ہے اور کونسا کام نہیں کرنا ہے ۔
ایک اورنکتہ بھی یہاں اس بجث سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہم ایک اور دلیل قائم کرسکتے ہیں ضرورت نبوت کے لیے وہ یہ ہے کہ انسان کی عقل کبھی کچھ چیزوں کی درک کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے لیکن کچھ عوامل کی وجہ سےوہ غافل رہ جاتا ہے،مثلا انسان کی عقل خدا کےوجودکو ثابت کرنےکےلیےکافی ہوتی ہےلیکن کبھی اجتماعی طورانسان کی یہ صفت ہاتھ سےچلی جاتی ہے۔یعنی آب وہوا ایسی ہوجاتی ہےکہ انسان غافل رہ جاتاہےاورعقل سےکام نہیں کرلیتاہےکہ آیاحق ہےیا نہیں۔یہ ایسی حقیقت ہےکہ جسےہمیں قبول کرنا پڑے گا۔آپ فرض کریں کہ چھوٹا بچہ جب دنیامیں آتاہے تودیکھتاہے کہ ان کےماں باپ اورماحول سب بت پرستی میں غرق ہیں اورجب وہ بچہ اس ماحول میں زندگی کرنےلگتا ہےتومتاثرہوجاتاہےاوراس کو بت پرستی کی تعلیم بھی مل جاتی ہے،طبیعی طورپرہرمکتب فکرکےپاس اپنےمذہب کی حقانیت کو ثابت کرنےکےلیے خاص دلیل ہے۔اس بچہ کا ذہن جو اس بت پرستی کے ماحول میں پروان چڑا ہے اصلا توحید اور معاد نامی کوئی چیز اس کے کان تک نہیں پہنچی ہے ، اس صورت حال میں طبیعی ہے کہ اس جیسےمشرک ا فرادکو معاشرہ وجود میں لاتا ہے اصلا اس کو پتہ بھی نہیں کہ یہ راہ جق ہےیا باطل؟اسی طرح ہم نےمعادکےحوالےسےکہا کہ صرف عقل کا فی ہےمعادکو ثابت کرنےکےلیےلیکن ایک آدمی ایک ایسے ماحول میں زندگی کرتا ہے کہ اس نے جو سنا اور دیکھا ہے اس پر عمل کیاہےاس انسان کی تمام حرکات وسکنات میں جو ضروری ہےاوراس کی معاشی اوراجتماعی زندگی کومنظم کیےہوہے۔معلوم ہےاس جیساآدمی خود بہ خود عالم آخرت کی فکرنہیں کرےگا اگرفکرکرےتوبھی اسکےذہن میں اتنے شکوک وشبہات واردہوجائنگےکہ شایدیقین بھی نہ کرسکیں۔پس نتیجہ یہ ہوا کہ انسان کی عقل کافی ہوتی ہے کسی چیز کو سمجھنےکےلیے ، لیکن کبھی صورت حال ایسی ہوتی ہےکہ عقل وہاں کام نہیں کرتی ہے ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ یہ دو مسئلہ توحید اور معاد
(ايمان بالله و باليوم الاخر)
تمام ادیان الہی کے مہمترین مسائل میں سے ہیں اگر یہ دو کسی کےلیےحل نہ ہوں تو آخرت کی سعادت کےلیےکوئی راستہ نہیں ہےاوراس جیسےمسائل میں کبھی ماحول ایساہوتاہےکہ انسان ان سےغافل ہوجاتا ہے۔
اس بنا پر کہ خدا نے انسان کو آخرت کی سعادت کےلیے خلق کیا ہے اگرسعادت ہےتو۔ توحیداورمعاد پر ایمان لانے پرموقوف ہے۔اورجانتا بھی ہے کہ انسان کےلیے کبھی ایسی صورت حال ہوجاتی ہے کہ ان مسائل سے غافل ہوجاتا ہے تو اس وقت خدا کی حکمت تقاضاکرتی ہے اس ماحول میں کچھ ایسے مصلحین اور معلمین کو زمین پربھیجے کہ وہ بندگان خدا جو غافل ہوگئے ہیں سب کی توجہ کرائیں اپنی فطرت اورعقل سلیم کی طرف جو توحید اور معاد پر ایمان لاتی ہے ۔
وہ جملہ جو امیر بیان کے کلام میں ہے :
"يذکروهم منسي نعمته""و يثيروا لهم دفائن العقول"
ممکن ہے اس مطلب کی طرف اشارہ ہو کہ کبھی انسان کی عقل پردوں کے پیچھے رہ جاے اور شبہات کے دلدل میں پھنس جاے تو اس کا فائدہ نہیں ہے ۔ اس جیسی عقلوں کا ہونے نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں عقل کے ہوتے ہوے نور افشانی نہ کرے ، اس وقت یہ حقیقت اور واقعیت لازمی ہے کہ خدا نے اپنی حکمت متعالیہ سے ایسے نبیوں کو مبعوث کیا کہ لوگوں کو ایسی غفلتوں سے نجات دلائیں۔اورتمام مسائل کو بیان کریں کہ توحید نامی کوئی چیز بھی ہےتم اپنی عقلوں سےکام لواورغورفکر کرو یا اگر لوگوں کے درمیان شبہات پاے جاتے ہیں توان کودورکریں تو اس برہان کے ذریعے بھی ہم ضرورت نبوت پر دلیل قائم کرسکتے ہیں۔یہ برہان پہلے والے برہان سے فرق کرتا ہے برہان اول کا ماحصل یہ تھا کہ انسان کےلیے ضروری ہے ایسے مطالب کو حاصل کرے لیکن وہ حاصل نہیں کرسکتا ہے ۔لیکن اس برہان کا خلاصہ یہ کہ لوگوں کی توجہ ایسے مطالب کی طرف دلانا ضروری ہے کہ ان سے غافل ہوں ۔
جب ہم قرآن کی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم یہ پاتے ہیں کہ بعثت انبیاء کا ہدف یہ ہے کہ ہم نے پیغمبروں کو مبعوث کیا تاکہ لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دیں اگر چہ توحید عقل کے برہان کے ذریعے سے ثابت ہوتی ہے اور قرآن نے بھی برہان قائم کیا ہے :قرآن کہتا ہے کہ بعثت انبیاء کا ہدف یہ ہے کہ لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دیں اور ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے بعثت انبیا کامقصد یہ ہےلوگوں کو معاد کی طرف متوجہ کرائیں ۔ اس حوالے سے کچھ آیات ہیں ہم ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
"ولقد بعثنا في کل امة رسولا ان اعبدو الله و اجتنبوا الطاغوت"(30)
"اوربتحقیق ہم نےہرامت میں ایک رسول کوبھیجاہےکہ اللہ کی عبادت کرواورطاغوت کی بندگی سےاجتناب کرو
" وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحي اليه انه لا اله الا انا فاعبدون (31) "
"اور جب ہم نےآپ سےپہلےجوبھی رسول بھیجا ہےاس کی طرف یہی وحی کی ہےبتحقیق میرےسوا کوئی معبود نہیں پس تم صرف میری عبادت کرو "
یہ سب آیات واضح کرتی ہیں کہ تمام انبیاء کی سب سےمہم ذمہ داری لوگوں کو خدا کی پرستش کی دعوت دینا تھا قرآن کریم نے انبیاء کے داستان کو بہت ساری جگہوں پر ذکر کیا ہے اورسب سے مہم وظیفہ توحید کے مسائلہ کو بیا ن کیا ہے یعنی سب کی ذمہ داری یہ تھی کہ یکتا پرستی کی طرف بلائیں ۔
" ما لکم من اله غيره"
اس کا مطلب وہی ہے جس کی طرف اشارہ ہوا کہ اگر چہ توحید کا مسئلہ ایک فطری چیز ہے اور عقل بھی کہتی ہے لیکن اسی وقت کہ کبھی ماحول ایسا ہوتا ہے کہ انسان غافل ہوجاتا ہے تو اس وقت بعثت انبیاء کی ضرورت پڑتی ہے کہ ایسے غفلت زدہ انسانوں کو راہ راست پے گامزن کریں ۔
معاد کے حوالے سے بھی آیات ہیں ان میں سے کچھ :
" يلقي الروح من امره علي من يشاء من عباده لينذر يوم التلاق (32) "
"وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح نازل فرماتا ہے تاکہ وہ ملافات کے دن کے بارے میں متنبہ کرے "
قیامت اور اس کے خطرات کی طرف توجہ دلانا انبیا کے مہمترین اہداف میں سے تھا۔
حوالہ جات :
1- بقرہ/38 ـ ۔ 39
2- طه/ ۔ 123
3- اعراف/35 ـ ۔ 36
4- فاطر/ ۔ 24
(۵)-مزیدمعلومات کےلیے : معاشرہ اور تاریخ از نظر قرآن کا مطالعہ کریں
6- فاطر/ ۔ 24
7- نساء/ ۔ 165
8- انعام/156 ـ ۔ 157
9- فاطر/ ۔ 42
10- مائدہ/ ۔ 19
11- صف/ ۔ 6
12- طہ/ ۔ 134
13- اسراء/ ۔ 15
14- بقرہ/ ۔ 151
15- نساء/ ۔ 113
16- مائدہ/ ۔ 15
17- بقرہ/ ۔ 79
18- نساء/ ۔ 46
19- بقرہ/ ۔ 213
20- ص/ ۔ 26
21- نساء/ ۔ 105
22- نساء/ ۔ 64
23- بقرہ/ ۔ 246
24- اعراف/104 ـ ۔ 105
25- نهجالبلاغه، خطبه اول۔
26- فاطر/ ۔ 24
27- نحل/ ۔ 36
28- اسراء/ ۔ 35
29- اعراف/ ۔ 85
30- نحل/ ۔ 36
31- انبیاء/ ۔ 25
32- غافر / ۔ 15
*****
نوٹ:
اس مقالے کا اقتباس علامہ محمد تقی مصباح یزدی کی کتاب معارف قرآن جلد ۴-۵ سے کیاگیا ہے '