اردو
Monday 30th of December 2024
0
نفر 0

وجوب تقيہ کے موارد اوراس کا فلسفہ

وجوب تقیہ کے موارد اور اس کے اہداف کو باہم بررسی کریں گے . کیونکہ یہ دونوں (وجوب و هدف)ایک دوسرے سے مربوط ہے . اگر تقیہ کے اصلی موارد کوبیان کرے تو ہدف اصلی بھی خود بخود واضح ہوجاتا ہے .بطور خلاصہ تقیہ کو کئی اہداف کے خاطر واجب جانا گیا ہے : 

۱. طاقت کی محافظت

کبھی انسان کیلئے ایسا موقع پیش آتا ہے کہ جہاں اپنا عقیدہ اگر عیان اور آشکار کرے تو بغیر کسی فائدے یااپنے اہداف سے قریب ہونے کے بجاے اس شخص یا اور کئی افراد کی جان نابود یا ناقابل تلافی نقصان کا شکار ہو سکتی ہے .ایسے مواقع پر عقل اور منطق حکم دیتی ہے کہ احساسات میں بے دلیل گرفتار ہوکر اپنی طاقت کو ضائع کرنے سے باز آئیں .بلکہ آئندہ کیلئے ذخیرہ کریں ؛ تاکہ قدرت و طاقت اس قدر زیادہ ہوجائے کہ جس کے ذریعے اپنا عظیم ہدف تک رسائی ہوسکے .کیونکہ کسی بھی شخص میں اتنی وافر مقدار میں قدرت یا طاقت نہیں ہے کہ جنہیں کھلے دل و دماغ سے ہاتھ سے جانے دیں . 

کبھی ایک لائق اور مفید شخص کی تربیت کیلئے کئی سا ل ایک معاشرے کو زحمت اٹھانی پڑتی ہے اور اپنی طاقت کو خرچ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے . تویہ کیسے ممکن هے که اپني ذمه داري کا احساس نہ کریں ؟!

مخصوصا ًایسے معاشرے میں جہاں اچھے اور نیک انسانوں کیافرادي قوت اور طاقت بہت کم ہو ؟

یہی وجہ تھی کہ پيدائش اسلام کے شروع میں پیامبر(ص) نے تقریباً تین سال اپنا عقیدہ سواے ایک خاص گروہ کے دوسرے لوگوں سے چھپا رکھا . آہستہ آہستہ مسلمانوں میں افرادی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا ، یہاں تک کہ تقیہ کی بندش تین سال بعد ٹوٹنے لگی اور اسلام کی طرف علی ٰ الاعلان لوگوں کو دعوت دینے لگے .لیکن پھر بھی آپ کے اوپر ایمان لانے والوں کی تعداد کم تھی ؛دشمنوں کے ہاتھوں اسیر ہوجاتے اور قسم قسم کی اذیت اور آزار برداشت کرنا پڑتے .اور ایک معمولی بات پر انہیں قتل کردئے جاتے تھے . تو پیامبر اسلام ﷺ ایسے افراد کو تقیہ کرنے کی اجازت دیتے تھے .تاکہ اپنی دفاعی طاقت اور قوت کو اس نومولود مکتب کی حفاظت کی خاطر محفوظ کرلے اور بیہودہ اور بے ہدف اوربے دلیل اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے .

۲. پروگرام کو چھپانے کے خاطر تقیہ

چونکہ تقیہ زیادہ تر نیک اور صالح افراد جو تعداد کے لحاظ سے کم ہیں ؛ سے مربوط ہے تاکہ وہ اس ظالم اور جابر گروہ کے شر سے اپنے دین یا جان یا ناموس کو بچائیں .یہ بھی معلوم ہے کہ اقلیت اپنی زندگی کو جاری رکھنے اور عالی ہدف تک جانے کیلئے تقیہ کے طور و طریقے سے استفادہ کرنے پر مجبور ہیں . ورنہ اگر اکثریت کے سامنے اپنا عقیدہ برملا کرے تو وہ لوگ مزاحمت کرنے لگیں گے .اس لئے مجبور ہیں کہ اپنے عقائد ، پروگرام اور دیگر کاموں کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے تقیہ کرلیں .اس قسم کا تقیہ ظہور اسلام کے وقت بہت زیادہ پایا جاتا تھا .

هجرت پیامبر(ص) کانقشہ كه جو انقلاب اسلامی کی تکمیل اور کامیابی کا پہلا قدم تھا ،آپ کا مخفیانہ طور پر نکلنا اور امير المؤمنين(ع) کا بستر پيامبرگرامی اسلام (ص)پر جا کر آرام کرنا اور آنحضرت کا رات کی تاریکی میں غار حرا کی طرف حرکت کرنا اور اس غار میں کئی دن تک ٹھہرنے کے بعد مدینہ کی طرف مخالف سمت میں چلنا ،وغیرہ اسی تقیہ کے انواع میں سے ہے .سوال یہ ہے کہ کیا ان موقعوں پر تقیہ کرنا واجب ہے یا نہیں؟!

کیا اگر پیامبر(ص) اور مسلمانان اپنا عقيده اور فكر کو دشمن سے نہیں چھپاتے تو کیا کامیابی ممکن تھی؟!

کیا ایسے موارد میں تقیہ کرنا ہی اپنی کامیابی اور دشمن کی نابودی کا سبب نہیں ہے ؟ 

اسی طرح اللہ کے خلیل حضرت ابراهيم(ع) نے جو تقیہ کیا تھا ،عرض کر چکا ، جو اگر اپنا عقیدہ نہ چھپاتے اور توریہ نہ کرتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ لوگ اسے اکیلا شہر میں رکنے دیتے ؟ ہرگز نہیں.اس صورت میں آپ کو بت خانے کی طرف جانے کی فرصت بھی کہاں ملتی ؟!لیکن آپ نے جو اپنا عقیدہ چھپایا اور جو نقشہ آپ نے تیار کیا ہوا تھا اسے اپنی انتہا کو پہنچانے کیلئے تقیہ ہی سے کام لیا.اور یہی آپ کی کامیابی کا راز بنا.

ان تمام روايات میں كه تقيہ کو بہ عنوان ايك دفاعي سپر یا ڈھال « جنّة المؤمن، ترس المؤمن» معرفي کرایا گیا ہے وہ سب تقیہ کے اسی قسم میں سے ہیں .

۳ ـ تقيہ دوسروں کی حفاظت کیلئے

کبھی اپنے عقیدے کا اظہار کرنا اپنے اثر رسوخ ہونے کی وجہ سے اپنی ذات کیلئے تو کوئی ضرر یا ٹھیس نہیں پہنچتا ، لیکن ممکن ہے دوسروں کیلئے درد سر بنے . ایسی صورت میں بھی عقیدہ کا اظہار کرنا صحیح نہیں ہے .

اهل بيت اطہار (ع) کے بعض اصحاب اور انصار کی حالات زندگی میں ایسے موارد دیکھنے میں آتا ہے کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم و جابر حکمرانوں کی طرفسے لوگ ان کا پیچھا کررہے تھے ، ان کا اپنے اماموں کے ساتھ رابطہ قائم کرنا حکمران لوگ ان کے جانی دشمن بننےکا باعث تھا.ان میں سے کچھ موارد یہ ہیں :

ایک دن زرارہ نے جو امام باقر(ع) اور امام صادق (ع)کے خاص صحابیوں میں سے تھے ؛ امام جمعہ کو امام کی طرف سے ایک خط پہنچایا ، جس میں امام نے جو لکھا تھا اس کا مفہوم یہ تھا : میری مثال حضرت خضر کی سی ہے اور تیری مثال اس کشتی کی سی ہے جسے حضرت خضر(ع) نے سوراخ کیا تاکہ دشمن کے شرسے محفوظ رہے .اور تیرے سر پر ایک ظالم اور جابر بادشاہ کھڑا ہے ، جو کشتیوں کو غصب کرنے پر تلا ہوا ہے ، جس طرح حضرت خضر(ع) نے اس کشتی کو سوراخ کیا تاکہ غاصب اس کو نہ لے جائے، اسی طرح میں بھی تمہیں محفلوں میں کبھی کبھی ڈراتااور مذمت کرتا رہوں گا ، تاکہ تو فرعون زمان کے شر سے محفوظ رہے . 

امام حسين(ع)سے جو تقيہ کے حدود کو سرکرنےنے والوں کا سردار ہیں، فرماتے ہیں : انّ التقية يصلح اﷲ بہا امّة لصاحبہا مثل ثواب اعمالهم فان تركها اهلك امّة تاركها شريك من اهلكهم. (1 )

ایسا تقيہ کرنے والاجوامت کی اصلاح کا سبب بنے ، اس کا انجام دینے والے کو اس پوری قوم کے اچھے اعمال کا ثواب دیا جائے گا . کیونکہ اس قوم کی طاقت اور قوت کو زیادہ خدمت کرنے کیلئے محفوظ کیا . لیکن اگرایسے موارد میں تقیہ کو ترک کرے اور ایک امت کو ہلاکت میں ڈالے تو ہلاک کرنے والوں کے جرم میں یہ بھی برابر کے شریک ہے .اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے موارد میں تقیہ کا تر ک کرنا قاتلوں کے جرم میں برابر کے شریک بنتا ہے. (2 )

وہ روایات جو وجوب تقيہ پردلالت کرتی ہیں :

۱ ـ راوی امام صادق (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے اس آیہ شریفہ« اوليك يؤتون اجرهم مرّتين بما صبروا » کے ذیل میں فرمایا: بما صبروا علي التقية و يدرؤن بالحسنة السيّئة، قال : الحسنة التقية و السيّئة الاذاعة. (3 )

صبر سے مراد تقیہ پر صبر کرنا ہے .حسنات کے ذریعے اور سیئات کو دور کرتے ہیں اور فرمایا:حسنہ سے مراد تقیہ ہے اور سیئات سے مراد آشکار کرنا ہے .

۲ . حسن كوفي نے ابن ابي يعفورسے اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ امام (ع) نے فرمایا:قال اتقوا علي دينكم احجبوہ بالتقيہ. فانّه لا ايمان لمن لا تقية له انّما انتم في الناس كالنحل في الطير ولو انّ الطير يعلم ما في اجواف النحل ما بقي منها شيء الّا اكلته. ولو ان الناس علموا ما في اجوافكم انّكم تحبونا اهل البيت(ع) لاكلو كم بالسنتهم و لنحلوكم في السرّ والعلانية. رحم الله عبدا منكم كان علي ولايتنا. (4 ) 

امام(ع)نے فرمایا: اپنے دین اور مذہب کے بارے میں هوشيار رہو اور تقیہ کے ذریعے اپنے دین اور عقیدے کو چھپاؤ ، کیونکہ جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئي ایمان نہیں . اور تم لوگوں کے درمیان ایسے ہیں جیسے پرندوں کے درمیان شہد کی مکھی . اگر پرندوں کو یہ معلوم ہو کہ شہد کی مکھی کے پیٹ میں میٹھا شہد ہے تو کبھی شہد کی مکھی کو زندہ نہیں چھوڑتے .اسی طرح اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ تمھارے دلوں میں ہم اہل بیت(ع) کی محبت موجود ہے ، تو زخم زبان کے ذریعے تمہیں کھا جائیں گے .اور تم پر مخفی اور علانیہ طور پر لعن طعن کریں گے .خدا ان لوگوں پر اپنی رحمت نازل کرے جو ہماری ولایت کے پیرو ہیں . 

۳ . عن ابي جعفر(ع): يقول لاخير فيمن لا تقية له، ولقد قال يوسف(ع): ايّتها العير انّكم لسارقون و ما اسرقوا. لقد قال ابراهيم(ع): انّي سقيم و اﷲ ما كان سقيما. (5 ) 

امام باقر (ع)نے فرمایا : جس میں تقیہ نہیں اس میں کوئی خیر نہیں . اور بہ تحقیق حضرت یوسف نے فرمایا: ايّتها العير! بیشک تم لوگ چور ہو . جبکه انہوں نے کوئی چیز چوری نہیں کی تھی . اور حضرت ابراہیم نے فرمایا میں بیمار ہوں.خدا کی قسم !درحالیکہ آپ بیمار نہیں تھے .

کیا بطورتقیہ انجام دئے گئے اعمال کی قضا ہے

ہمارے مجتہدین سے جب سوال هوا : هل يجب الاعاده و القضاء في مقام التقيہ ام تقول بالاجزاء؟ يعني کيا تقيہ کے طور پر انجام دئے گئے اعمال کا اعاده يا قضا کرناواجب هے يا نهيں ؟کے جواب میں فرماتے ہیں کہ علم فقہ کی دو قسم ہے :

الف: عبادات

ب : معاملات.

عبادات سے مراد یہ ہے کہ اس کا امتثال یا انجام دینا تعبدی ہے اور جس میں قصد قربت شرط ہے جیسے نماز ، روزہ . جب عبادت ایک زمانے سے مختص ہو مانند نماز ظہر و عصر جو مقید ہے زوال شمس اور غروب شمس کے درمیان . کہ اسی وقت کے اندر اسے ادا کی جائے ، ورنه قضا ہوجائے گی.پس عبادت خود دو قسم کی ہے: ( ادائيه و قضائيه)

اگر عبادات ناقص شرائط يا اجزا کے سا تھ ہو تو اس کا اعاده وقت کے اندر اورقضاء ،خارج از وقت واجب ہے . اور یہی قضاء و اداء اور اعاده ا ور اجزاءکامعنی ہے . 

اب جو تقیہ کے طور پر انجام پایا ہے وہ اگر عبادت ہے تو تقیہ میں داخل وقت اور خارج وقت کامسئلہ ختم ہوجاتا ہے .

شيخ انصاري (رہ)اس سؤال کے جواب میں کہ کیا اعاده يا قضاء واجب ہے ؟ فرماتے ہیں اگر شارع اقدس نے واجب موسع کےتقیہ کے طور پر انجام دینے کی اجازت دی ہے ، تویہ اجازت یا کسی خاص مورد میں ہے یا عام موارد میں . بعنوان مثال شارع اقدس نے اجازت دی ہے کہ نماز یا مطلق عبادات کو تقیہ کے طور پر انجام دیا جائے ، وقت ختم ہونے سے پہلے تقیہ کی علل و اسباب دور ہوجائے تو یہ سزاوار ہے کہ وہ اجزا جو تقیہ کی وجہ سے ساقط ہوا ہے انجام دیا جائے لیکن اگر شارع نے واجب موسع کو تقیہ کی حالت میں انجام دینے کی اجازت دی ہے خواہ خصوصی ہو یا عمومی ، تو بحث اسی میں ہے کہ کیا یہ تقیہ والا حکم کو بھی شامل کرے گا یا نہیں ؟

بلكه آخر کلام یہ ہے کہ حالت تقیہ میں دیا گیا حکم مکلف سے ساقط ہو جاتا ہے ، اگرچہ وقت وسیع ہی کیون نہ ہو. (6 )

اس کے بعد شيخ انصاري(رہ) تفصيل کے قائل ہوگئے ہیں کہ فرماتے ہیں : كه کیا کافی ہے یا ساقط یا عادوہ و قضا ضروری ہے ؟ہم یہاں دلیل کی طرف رجوع کریں گے اور انہی اجزاء وشرائط کو جو تقیہ کی وجہ سے کم یا زیادہ ہو ا ہے اعادہ کریں گے .

اگر یہ شرائط اور اجزاءکا شمول عبادات میں کسي بھي صورت ميں ضروري ہے خواہ اختیاری ہو یا اضطراری ہو ، تو یہاں مولی کا حکم مکلف سےساقط ہو جاتا ہے کیونکہ اجزاء میں کمی بیشی تقیہ کی وجہ سے ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ معذور تھا .اگر چہ یہ تعذر سارا وقت باقی رہے . جیسے نماز کا اپنے وقت میں ادا کرنا ممکن نہیں مگر یہ کہ سرکہ کے ساتھ وضو کرے .باوجودیکہ سرکہ میں کوئی تقیہ نہیں .درنتیجہ نماز کا اصل حکم منتفی ہوجاتا ہے ، کیونکہ نماز کیلئے شرط ہے کہ پانی کے ساتھ وضو کرے . 

لیکن اگر یہ اجزاءاورشرائط دخالت رکھتا ہو اور مکلف کیلئے ممکن بھی ہو تو واجب ہے ورنہ نہیں . اگر یہ اجزاء تمام وقت میں ادا ہو تو اس کا حکم پہلے ہی سے ساقط نہیں ہوتا بلکہ وہ اسے جتنا ممکن ہو انجام دیتے جائیں

اور اگراجزاء میں عذروقت کے اندر ہو ،خواہ اس عذر کا رفع ہونے کی امید ہو یا نہ ہو ، فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ وہ آخر وقت تک انتظار کرے یا انجام دیدے . 

لہذا جو بھی تقیہ کے طور پر انجام دیا گیا ہے ؛ یہ عبادات صحیح ہیں کیونکہ شارع نے اسے تقیہ کی حالت میں انجام دینے کی اجازت دی ہے . (7 )

..............

(1 ). وسائل الشيعه، ج۴ ،باب ۲۷ . 

(2 ). تقيہ سپري عميقتر، ص ۸۲. 

(3 ) . وسائل الشيعه ، باب امر بالمعروف، ص۴۶۰ . 

(4 ) . همان ، ص ۴۶۱. 

(5 ) . همان ، ص ۴۶۴. 

(6 ) . التقيہ في رحاب العلمين ، ص ۲۷. 

(7 ) . همان ، ص ۲۸. 

 

 

 


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

فلسفہٴ خمس
کیا حکمت اور علم میں کوئی فرق هے؟
اللہ کو قرضِ حسنہ دیجے!
قرآن کریم میں الله کے لئے کبھی ضمیر واحد اور کبھی ...
خدا کے غضب سے بچو
علم ایک لازوال دولت ہے
خدا كی بارگاہ میں مناجات كافلسفہ
حضرت علی علیہ السّلام کی حیات طیّبہ
دین اسلام کی چوتهی اصل امامت
قیامت، قرآن و عقل کی روشنی میں

 
user comment