پس مذھب تشیع کی نظر میں خمس کا دائرہ بھت وسیع ھے ۔یھاں پر ایک دوسرا سوال باقی بچتا ھے کہ درست ھے کہ خمس سادات کے لئے اقتصادی امتیاز نھیں ھے لیکن اسلام نے سادات کے لئے ایک خاص حساب کیوں کھولا ھے ۔ اگر ھم مان لیں کہ سادات کے لئے اقتصادی امتیاز کی ضرورت نھیں ھے لیکن ایک قلبی اور نفسیاتی امتیاز یا ایک خصوصیت تو موجود ھے کہ وہ پیغمبر یا امام علیہ السلام یا نائب امام کے زیر سایہ زندگی گذارتے ھیں ۔
غیر سید کی زکات سید کو نھیں دی جاسکتی بلکہ وہ صرف خمس کے مال کو استعمال کر سکتا ھے ، یہ فرق کس لئے ھے ؟
اس میں کوئی شک نھیں کہ بعض احکامات شرع صرف سادات سے مخصوص ھیں اور اس سے پتہ چلتا ھے کہ اسلام چاھتا ھے کہ نسب سادات اور اس نسل خاص کا سلسلہ باقی رھے ۔ ھماری نظر میں سادات کےلئے اسلام میں اس سے بڑہ کر اور کیا غایت ھو سکتی ھے کہ اولاد رسول کھیں اس طریقے سے دوسروں سے مخلوط نہ ھو جائیں اور اپنا نسب گم کر بیٹھیں ۔ البتہ دوسروں سے شادی کرنے میں کوئی حرج نھیں ھے سید غیر سید کی لڑکی سے اور غیر سید ، سید کی لڑکی سے شادی کر سکتا ھے ۔ لیکن اسلام انکے نسب کو باپ کی جانب سے محفوظ رکھنا چاھتا ھے ۔ جس کے نتیجہ میں ایک نفسیاتی احساس افراد میں پیدا ھوتا ھے اور وہ کھتے ھیں کہ میں اولاد رسول سے ھوں میں اولاد علی بن ابی طالب سے ھوں ، میں اولاد حسین بن علی سے ھوں ،ھمارے اجداد سابق میں ایسے تھے اور ان فضیلتوں کے حامل تھے ۔ یہ چیزیں باعث بنتی ھیں کہ اس خاص طبقہ میں اسلام کی سمت حرکت کرنے کا جذبہ پیدا ھو اور یہ جذبہ اقتصادی امتیاز کے حصول کی خاطر نہ ھو بلکہ اس لئے کہ اسلام کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خدمت کریں ۔ اور تاریخ بھی بتاتی ھے کہ سادات جلیلہ کا سلسلہ مخصوصاً علوی سادات کے وجود میں صدر اسلام سے عصر حاضر تک انکے وجود میںایک ھی رگ پائی جاتی رھی ھے جو انکو دوسروں کے مقابلے میں اسلام کی حمایت کے لئے زیادہ ابھارتی رھی ھے ۔
اموی اور عباسی دور میں اکثر قیام علویوں کے ذریعہ انجا م پائے اور بعد کے دور میں بھی علماء، حکماء اور ادباء کے مختلف طبقوں میں ایسے افراد موجود تھے جو رسول کے نسب سے تھے اور دوسروں کی بہ نسبت اسلام کی راہ میں زیادہ سر گرم تھے ۔ اس لئے کہ اسلام کی فطری خاصیت کے علاوہ ان کو اپنی نفسیاتی کیفیت کی بنا پر یہ احساس ھو گیا تھا کہ ھم اولاد پیغمبر میں سے ھیں اور دوسروں سے زیادہ حق رکھتے ھیں کہ اس دین کو زندہ رکھیں اور اس پر عمل کرنے والے بنیں ۔ اسلام کی زیادہ سے زیادہ حمایت کریں ۔
اس کے باوجود سادات کی تعداد دوسروں کے مقابل میں بھت ھی کم ھے لیکن جس وقت حوزات علمیہ پر نظر ڈالتے ھیں تو معلوم ھوتا ھے کہ جنکو تحصیل علم دین کی زیادہ فکر ھے اور جو طالب علم دین کے خواھش مند ھیں انمیں سے شاید ایک تھائی سادات ھیں اور یہ وھی سادات ھونے کا احساس ھے جو انھیں زیادہ تر اس کام کے لئے ابھارتا ھے ۔ عصر حاضر میں ھم دیکھتے ھیں کہ مراجع کرام جنکی تقلید ھوتی ھے سید ھیں ۔ البتہ گذشتہ زمانہ میں غیر سید مراجع تھے لیکن انکی تعداد بھت ھی کم تھی ۔ آپ جانتے ھیں کہ سید جمال الدین اسد آبادی ایک بزرگ اسلامی مصلح تھے، انکے زمانہ میں اور آج کے زمانہ میں بڑا فرق ھے یعنی ملت اسلام انکے زمانہ میں اس وقت سے بھت اچھی تھی اور اب بھی اچھی ھے انھوں نے زیادہ تر اسلامی ملکوں کا دورہ کیا اور ھر جگہ سر گرم عمل رھے انھوںنے اپنی قومیت کو چھپائے رکھا اور کبھی اس کا اظھار نھیں کیا کہ میں کس ملک کا رھنے والا ھوں ،جیسا کہ ایرانی محققین نے تحقیق کی ھے او ر ظاھر ا درست بھی ھے کہ وہ ایرانی تھے لیکن جھاں جاتے تھے یہ نھیں بتاتے تھے کہ میں ایرانی ھوں اس لئے کہ اگر وہ یہ کھتے کہ میںایرانی ھوں تو عرب اور افغانی حساس ھو جاتے اور کھتے کہ ھم ایک ایرانی کی بات کیوں مانیں ؟ خاص طور سے اگر سنیوں کے درمیان یہ کھتے کہ میں ایرانی اور شیعہ ھوں تو ھرگز کامیاب نہ ھوتے ۔
اس لئے کہ ایک شخص ایران سے اٹھے اور مصر میں جا کر کھے کہ میں ایرانی اور شیعہ ھوں پھر تمام مصری علماء اسکی خدمت میں حاضر ھوں اور انکے سامنے زانوئے ادب تھہ کریں اور ان کی شاگردی اختیار کریں ، یہ کام نا ممکن تھا ۔ وہ اکثر فرماتے تھے کہ میں افغانی ھوں کیونکہ ایک عرصہ تک افغانستان میں رھے اور چونکہ اکثر افغانی سنی تھے ۔ اور وہ احساس ضدیت نھیں کرتے تھے ۔
یا کم از کم انکے بارے میں بد بین نھیں تھے کہ یہ کھیں کہ یہ شخص یھاں اس لئے آیا ھے کہ ھم کو ھمارے مذھب سے منحرف کر دے ۔ وہ اپنی دستخطوں کو کبھی ایک طرح سے نھیں کرتے تھے ،جس زمانے میں مصر میں تھے مصریوں کی طرح دستخط کی اور جب افغانستان میں تھے تو افغانیوں کی طرح ، لیکن جیسا کہ انکے بارے میں ملتا ھے ھمیشہ ایک چیز اپنے نام یا دستخط کے ساتہ ضرور لکھتے تھے وہ کلمھٴ”حسینی “ ھے، وہ ھمیشہ جمال الدین حسینی کے نام سے دستخط کرتے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ھو جائے کہ وہ اولاد حسین بن علی علیہ السلام سے ھیں اور حقیقت بھی ھے کہ وہ سید تھے اور اپنے اندر اس طرح کا احساس کرتے تھے کہ جیسے خون حسین بن علی علیہ السلام میں سے کوئی چیز ان کی رگوں میں موجود ھے ۔
ھم نے خمس کے بارے میں موجود تمام احکامات اور قوانین اسلام کے ذریعے استدلال پیش کیا ،اب اگر ھم آیھٴ انفال اور آیھٴ خمس کو ایک ساتہ رکہ کردیکھیں تو اس نتیجے تک پھونچتے ھیں کہ مسئلہ خمس کا دائرہ بھت وسیع ھے جیسا کہ شیعوں نے کھا ھے ، نہ یہ کہ خمس جھاد کے فرعی مسائل میں سے ایک مختصر اور محدود مسئلہ ھے جیسا کہ اھل سنت کا کھنا ھے ۔
اور فقہ اسلام کسی طرح کا اقتصادی امتیاز سادات کو نھیں دیتا بلکہ صرف اسلئے کہ ایک روحی حالت انکے اندر باقی رھے اور انکا نسب محفوظ رھے یہ کام انکے بارے میں کیا ھے ،جیسا کہ انھوں نے بھی ایسا ھی کیا ھے اور انکی اکثریت اپنے نسب کے سلسلہ کو جانتی ھے کہ کس طرح سے ان کا سلسلہ پیغمبر تک پھونچتا ھے اور اسلام چاھتا ھے کہ ان کے اس نفسیاتی حالت سے فائدہ اٹھائے اور یہ نتیجہ نکالے جیسا کہ اسنے نتیجہ بھی نکالا ھے ۔
” و اعلموا انما غنمتم من شئی فان للّہ خمسہ ““اور یہ جان لو کہ تمھیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ھو اس کا پانچواں حصہ اللہ .........“
وہ خدا ، پیغمبر اورذوی القربیٰ کا حق ھے اور شیعہ سنی سب کے نزدیک یہ حکم زمان ِپیغمبر اور زندگی پیغمبر سے مخصوص نھیں ھے بلکہ انکے بعد بھی خمس ھے اور چونکہ وہ دنیا سے چلے گئے لھذا اس سے پتہ چلتا ھے کہ خمس صرف پیغمبر سے مخصوص نھیں ھے ،بلکہ انکے اھل بیت علیھم السلام کو بھی شامل ھے ۔ قرآن میں” ذی القربیٰ “یعنی تمام رشتہ داروں کا لفظ نھیں آیا ھے بلکہ رشتہ دار یعنی کلمہ ذی القربیٰ آیا ھے جیسا کہ ھماری روایات نے یھی تفسیر کی ھے یعنی اس سے معصومین علیھم السلام مراد ھیں ۔ اور قرآن میں ان کا مرتبہ ھے ۔” و الیتامیٰ و المساکین و ابن السبیل “ یعنی ، سادات تییموں ، مسکینوں اور ابن سبیل پر یہ رقم خرچ ھونی چاھئے، نہ یہ کہ جو بھی خمس ملے صرف انھیں پر خرچ ھو ۔
source : tebyan