توسل سے مراد یہ نھیں ھے کہ انسان پیامبر اکرم (ص)یا ائمہ علیھم السلام سے مستقل طور پر کوئی چیز طلب کرے بلکہ توسل سے مراد یہ ھے کہ اعمال صالحہ یا پیغمبر اور امام کی اطاعت و پیروی کے ذریعہ یا ان حضرات کی شفاعت یا خداوندعالم کو ان حضرات کے عظیم مرتبہ کی قسم دے کر( جو خود ایک طرح سے ان کی عظمت اور بلندی کا احترام کرنا ھے اور ایک طرح سے خداکی عبادت ھے) خداوندعالم سے کوئی چیز مانگی جائے تو اس میں نہ کسی طرح کا کوئی شرک ھے اور نہ ھی یہ قرآنی آیات کے مخالف ھے۔
اس کے علاوہ قرآنی آیات سے واضح طور پر معلوم ھوتا ھے کہ خداوندعالم کو کسی صالح اور نیک انسان کی عظمت کا واسطہ دے کر اس سے کوئی چیز طلب کرنے میں کوئی قباحت نھیں اور توحید خدا سے بھی منافی نھیں ھے، جیسا کہ سورہ نساء میں ارشاد ھوتا ھے:
<وَلَوْ اٴَنَّہُمْ إِذْ ظَلَمُوا اٴَنفُسَہُمْ جَاوٴُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَحِیمًا>[1]
”اور کا ش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناھوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ھی توبہ قبول کرنے والا اور مھربان پاتے“۔
توسل اور اسلامی روایات
توسل کے سلسلہ میں اھل سنت اور شیعہ کتابوں میں بہت سی روایات بیان ھوئی ھیں جن سے مکمل طور پر یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ توسل اور وسیلہ قرار دینے میں کوئی اشکال نھیں پایا جاتا، بلکہ ایک نیک کام ھے، اس سلسلہ میں بہت زیادہ روایات ھیں اور بہت سی کتابوں میںنقل بھی ھوئی ھیں، ھم نمونہ کے طور پراھل سنت کی مشھور و معروف کتابوں سے چند روایات کو نقل کرتے ھیں:
۱۔ مشھور ومعروف سنی عالم دین ”سمھودی“ اپنی کتاب ”وفاء الوفاء“ میں رقمطراز ھیں: پیغمبر اکرم (ص)یا آپ کی عظمت و بزرگی کے واسطہ سے خدا کی بارگاہ میں مدد طلب کرنا، شفاعت چاھنا ، آنحضرت کی خلقت سے پھلے بھی جائز تھا ،آپکی پیدائش کے بعد اور آپکی وفات کے بعد ، عالم برزخ اور روز قیامت میں بھی جائز ھے، اس کے بعد حضرت عمر بن خطاب سے روایت نقل کرتے ھیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے پیغمبر اکرم (ص)سے توسل کیا: جناب آدم علیہ السلام پیغمبر اکرم کی خلقت کے بارے میں علم حاصل کرنے کے بعد خداوندعالم کی بارگاہ میں اس طرح عرض کرتے ھیں:
”یَا ربِّ اٴسئلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لِمَا غَفرتَ لِی“[2]
”پالنے والے! تجھے محمد( (ص))کا واسطہ، تجھ سے سوال کرتا ھوں کہ مجھے معاف کردے“۔
اس کے بعد اھل سنت کے مشھور و معروف دانشوروں جیسے ”نسائی“ اور ”ترمذی“ سے ایک حدیث نقل کرتے ھیں او ر اس کو توسل کے جواز پر شاھد کے عنوان سے نقل کرتے ھیں، جس حدیث کا خلاصہ یہ ھے:ایک نابینا شخص نے پیغمبر اکرم (ص)سے اپنی بیماری کی شفاء کے لئے درخواست کی تو پیغمبر اکرم (ص)نے حکم دیا کہ اس طرح دعا کرو:
”اَللَّھُمَّ إنِّی اٴسئلُکَ وَاٴتَوجَّہُ إلَیْکَ بِنَیِّکَ مُحَمَّد نَبِیِّ الرَّحمةِ یَا مُحمَّد إنِّی تَوجھتُ بِکَ إلیٰ ربّي فِی حَاجَتِی لِتقضی لِي اٴللَّھُمَّ شَفِّعْہُ فِيّ“[3]
”پالنے والے! تیرے پیغمبر رحمت کے واسطہ سے تجھ سے درخواست کرتا ھوں اور اے محمد! آپ کی طرف متوجہ ھوتا ھوں اور آپ ھی کے واسطہ سے اپنی حاجت روائی کے لئے خدا کی بارگاہ میں متوجہ ھوتا ھوں، پالنے والے! آنحضرت (ص) کو میرا شفیع قرار دے“۔
اس کے بعد پیغمبراکرم (ص)کی وفات کے بعد توسل کے جواز کو ثابت کرنے کے لئے یوں بیان کرتے ھیں: حضرت عثمان کے زمانہ میں ایک حاجت مند پیغمبر اکرم (ص)کی قبر کے نزدیک آیا اور اس نے نماز پڑھی اور اس طرح دعا کرنے لگا:
”اَللَّھُمَّ إنِّی اٴسئلُکَ وَاٴتَوجَّہُ إلَیْکَبِنَبِیِّنَا مُحَمَّد نَبِیِّ الرَّحمةِ یَا مُحمَّد إنِّی اٴتوجہ إلیٰ رَبکَ اَنْ تَقْضي حَاجَتِي“.
”پالنے والے! تیری بارگاہ میں پیغمبر اکرم( (ص))، پیغمبر رحمت کے وسیلہ سے درخواست کرتا ھوں اور تیری طرف متوجہ ھوتا ھوں، اے محمد! آپ کے وسیلہ سے خدا کی بارگاہ میں متوجہ ھوتا ھوں تاکہ میری مشکل آسان ھوجائے“۔
کچھ ھی دیر گزری تھی کہ اس کی مشکل آسان ھوگئی۔[4]
۲۔ ”التوصل الی حقیقة التوسل“ کے موٴلف مختلف منابع و مآخذ سے ۲۶ احادیث نقل کرتے ھیں جن سے توسل کا جائز ھونا سمجھ میں آتا ھے، اگرچہ موصوف نے ان احادیث کی سند میں اشکال کرنا چاھا ھے، لیکن یہ بات واضح ھے کہ جب روایات زیادہ ھوجاتی ھیں اور تواتر[5] کی حد تک پھنچ جاتی ھیں تو پھر سند میں اشکال و اعتراض کی گنجائش نھیں رہتی، اور مخفی نہ رھے کہ توسل کے سلسلہ میں احادیث تواتر کی حد سے بھی زیادہ ھیں، ان کی نقل کی ھوئی روایات میں سے ایک یہ ھے:
”ابن حجر مکی“ اپنی کتاب ”الصواعق المحرقہ“ میں اھل سنت کے مشھور و معروف”امام شافعی“ سے نقل کرتے ھیں کہ انھوں نے اھل بیت پیغمبر سے توسل کیا اور اس طرح کھا:
آل النَبِيّ ذَریعَتِي وَھُمْ إلَیہ وَسیلتي
اٴرْجُوْبِھمْ اٴعطي غَداً ِبیَدِ الیَمِینِ صَحِیفَتِي[6]
”آل پیغمبر میرا وسیلہ ھیں ، اور وھی خدا کی بارگاہ میں میرے لئے باعث تقرب ھیں “
” میں امیدوار ھوں کہ ان کے وسیلہ سے میرا نامہ اعمال میرے داھنے ھاتھ میں دیا جائے“
اسی طرح ”بیہقی“ بھی نقل کرتے ھیں کہ ایک مرتبہ خلیفہ دوم کی خلافت کے زمانہ میں قحط پڑا، جناب بلال چند اصحاب کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص)کی قبر مبارک پر آئے اور اس طرح عرض کی:
”یَا رَسُولَ الله استسق لاٴمّتک ۔۔۔ فَإنَّہُم قَد ہَلَکُوا ۔۔۔“ [7]
”یا رسول اللہ! اپنی امت کے لئے باران رحمت طلب فرمائیے ۔۔۔ کیونکہ آپ کی امت ھلاک ھوا چاہتی ھے“۔
یھاں تک کہ ابن حجر اپنی کتاب ”الخیرات الحسان“ میں نقل کرتے ھیں کہ ”امام شافعی“ بغداد میں قیام کے دوران ”ابو حنیفہ“کی زیارت کے لئے جاتے تھے، اور اپنی حاجتوں میں ان کو وسیلہ بناتے تھے اور ان سے متوسل ھوتے تھے۔[8]
نیز ”صحیح دارمی“ میں ”ابی الجوزاء“ سے نقل ھوا ھے کہ ایک سال مدینہ میں بہت سخت قحط پڑگیا، بعض افراد جناب عائشہ کی خدمت میں جاکر شکایت کرنے لگے، اور ان سے درخواست کی کہ قبر پیغمبر کی چھت میں سوراخ کردیا جائے تاکہ قبر پیغمبر کی برکت سے خداوندعالم باران رحمت نازل فرمادے، چنانچہ ایسا ھی کیا گیا اور اس وقت بہت زیادہ بارش ھوئی!
تفسیر ”آلوسی“ میں اس سلسلہ میں بہت سی احادیث نقل ھوئی ھيں اور پھر ان احادیث کا مفصل طریقہ سے تجزیہ و تحلیل کرنے کے بعد اور مذکورہ احادیث میں بہت سخت رویہ اختیار کرنے کے بعد ان کا اعتراف کرتے ھوئے اس طرح کہتے ھیں:
”اس گفتگو کے تمام ھونے کے بعد میرے نزدیک کوئی مانع نھیں ھے کہ خداوندعالم کی بارگاہ میں پیغمبر اکرم (ص)کو وسیلہ قرار دیا جائے، چاھے پیغمبر اکرم کی زندگی میں ھو یا آنحضرت کے انتقال کے بعد “ موصوف اس سلسلہ میں کافی بحث کرنے کے بعد مزید فرماتے ھیں: ”خداوندعالم کی بارگاہ میں پیغمبر کے علاوہ کسی دوسرے سے توسل کرنے میں بھی کوئی ممانعت نھیں ھے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پیغمبر کے علاوہ جس کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ بنایا جائے اس کا مرتبہ خدا کی نظر میں بلند و بالا ھو۔ [9]
لیکن شیعہ منابع و مآخذ میں وسیلہ اور توسل کا موضوع اس قدر واضح ھے کہ اس کو بیان کرنے کی (بھی) ضرورت نھیں ھے۔
چند ضروری نکات:
(قارئین کرام!) یھاں پر چند نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ھے:
۱۔ توسل اور وسیلہ سے یہ مراد نھیں ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)یا ائمہ معصومین علیھم السلام سے کوئی شخص اپنی حاجات طلب کرے ، بلکہ مراد یہ ھے کہ خدا کی بارگاہ میں پیغمبر اکرم (ص)اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی عظمت اور بلندی کے ذریعہ متوسل ھو، اور یہ کام درحقیقت خداو ندعالم کی طرف توجہ کرنا ھے، کیونکہ پیغمبر اکرم (ص)کا احترام بھی خداکی وجہ سے ھے کہ آپ خدا کے رسول ھیں، اس کی راہ پر چلے، ان باتوں کے باوجود ان لوگوں پر تعجب ھوتا ھے جو اس طرح کے توسل کو شرک کی ایک قسم کہہ دیتے ھیں جبکہ شرک یہ ھے کہ خدا کی صفات اور اس کے اعمال میں کسی کو شریک مانیں ، جبکہ اس طرح کا توسل شرک سے کوئی شباہت نھیں رکھتا۔
۲۔ بعض لوگوں نے اس بات کی بہت کوشش کی ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)اور ائمہ علیھم السلام کی حیات اور وفات میں فرق قراردیں ، حالانکہ مذکورہ روایات جن میں بہت سی روایات وفات کے بارے میں ھیں؛ لہٰذا ان کے پیش نظر مسلمانوں کا عقیدہ یہ ھے کہ انبیاء اور صالحین وفات کے بعد ”برزخی حیات “ رکھتے ھیں جو کہ دنیاوی زندگی سے وسیع تر ھے جیسا کہ شھداء کے بارے میں وضاحت کے ساتھ بیان ھوا ھے کہ ان کو مردہ تصور نہ کرو وہ زندہ ھیں اور خدا کی طرف سے رزق پاتے ھیں۔[10]
۳۔ بعض لوگ اس بات پر اصرار کرتے ھیں کہ پیغمبر اکرم (ص)سے دعا کی درخواست اور خدا کی بارگا ہ میں ان کی عظمت کی قسم دینے میں فرق ھے، لہٰذا دعا کی درخواست کو جائز اور خدا کی بارگاہ میں ان کی عظمت کی قسم دینے کو حرام جانتے ھیں، حالانکہ ان دونوں کے درمیان کسی بھی طرح کا کوئی منطقی فرق دکھائی نھیں دیتا۔
۴۔ بعض علمائے اھل سنت خصوصاً ”وھابی علماء“ اپنی خاص ہٹ دھرمی کی بنا پر کوشش کرتے ھیں کہ وسیلہ اور توسل کے بارے میں بیان ھونے والی تمام احادیث کو ضعیف اور کمزور ثابت کرڈالیں، اس سلسلہ میں بے بنیاد اعتراضات کرتے ھیں جو درحقیقت بہت پرانے ھوچکے ھیں، جن کو مدّ نظر رکھتے ھوئے ایک انصاف پسند انسان یہ محسوس کرتا ھے کہ ان لوگوں نے پھلے اپنا عقیدہ معین کرلیا ھے اور پھر اپنے عقیدہ کو اسلامی روایات پر ”تھوپنا“ چاہتے ھیں، اور ایسا ھی کرتے ھیں اور جو کچھ ان کے عقیدہ کے خلاف ھوتا ھے اس کو چھوڑدیتے ھیں، جبکہ ایک تحقیق کرنے والا محقق انسان اس طرح کی غیر منطقی اور تعصب آمیز بحث کو قبول نھیں کرسکتا۔
۵۔ ھم بیان کرچکے ھیں کہ توسل کے سلسلہ میں بیان شدہ روایات حدّ تواتر تک پھنچی ھوئی ھیں، یعنی اس قدر ھیں کہ ان کی سند میں بحث کی کوئی ضرورت نھیں رہتی، اس کے علاوہ ان کے درمیان بہت زیادہ صحیح روایات بھی ھیں، لہٰذا ان کی اسناد میں اعتراض و اشکال کی گنجائش ھی نھیں رہتی۔
۶۔ ھم نے جو کچھ بیان کیا ھے اس سے واضح ھوجاتا ھے کہ آیہٴ شریفہ کے ذیل میں بیان ھونے والی روایات کا مفھوم یہ ھے کہ پیغمبر اکرم نے اصحاب سے فرمایا: ”خداوندعالم سے میرے لئے ”وسیلہ“ طلب کرو“ یا جیسا کہ اصول کافی میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ھے کہ بھشت میں وسیلہ سب سے بلند و بالا مقام ھے، اور جیسا کہ ھم نے آیت کی تفسیر میں بیان کیا ھے؛ ان کے درمیان کسی طرح کا کوئی فرق نھیں ھے کیونکہ ھم نے بارھا عرض کیا ھے کہ ھر طرح کے تقربِ خدا پر ”وسیلہ“ صادق آتا ھے اور پیغمبر اکرم (ص)کے ذریعے تقرب خداحاصل کرنے کانام وسیلہ ھے جو کہ جنت میں سب سے بلند و بالا مقام ھے۔[11]
[1] سورہ نساء ، آیت ۶۴۔
[2] وفاء الوفاء ، جلد ۳، صفحہ ۱۳۷۱۔ کتاب (التوصل الی حقیقة التوسل میں ، صفحہ ۲۱۵ ،مذکورہ حدیث کو -” دلائل النبوة“ میں بیہقی نے بھی نقل کیا ھے۔
[3] وفاء الوفاء ،صفحہ۱۳۷۲۔
[4] وفاء الوفاء ، صفحہ ۱۳۷۳۔
[5] علم حدیث میں ”حدیث تواتر“ اس حدیث کو کھا جاتا ھے جس کے راویوں کی تعداد اس حد تک ھو کہ ان کی ایک ساتھ جمع ھوکر سازش کا قابل اعتماد احتمال نہ ھو۔ (مترجم)
[6] التوصل الی حقیقة التوسل، صفحہ ۳۲۹۔
[7] التوصل الی حقیقة التوسل، صفحہ ۳۵۳۔
[8] التوصل الی حقیقة التوسل، صفحہ ۳۳۱۔
[9] روح المعانی ، جلد ۴۔۶، صفحہ ۱۱۴۔ ۱۱۵۔
[10] سورہٴ آل عمران ، آیت۱۶۹۔
[11] تفسیر نمونہ ، جلد ۴، صفحہ ۳۶۶۔
source : http://www.balaghah.net