نبوت عامہ
خالقِ حکیم کا وجود ثابت هونے کے بعد نبوت اور نبی کے وجود کی ضرورت خود بخود ثابت ھے۔
سب سے پھلے ھم تعلیم وتربیت ِالٰھی کی ضرورت کو بیان کرتے ھیں :
ھدایت انبیاء کی انسانی ضرورت کو سمجھنے کے لئے خلقت انسان،ھدفِ خلقت اور اس ھدف ومقصد تک پھنچنے میں رکاوٹوں کی شناخت ضروری ھے اور جیسا کہ عنوان بحث سے معلوم ھے، ان مباحث کی عمیق تحقیق کواس مختصر مقدمہ میں بیان نھیں کیا جاسکتا، لیکن ضروری حد تک بعض نکات پیش کئے جارھے ھیں:
اول:انسان میں مختلف شہوتیں اورخواھشات موجود ھیں اور انسانی زندگی، نباتاتی حیات سے شروع هو کر، جو حیات کا ضعیف ترین مرتبہ ھے، عقل و شعور کے مرتبے تک جا پھنچتی ھے۔
انسان فطرت و عقل، محدود حوائج رکھنے والے جسم اور نا محدود خواھشات رکھنے والی روح سے مرکب ھے۔ترقی اور بلندی میں فرشتوں سے بڑھ کر، جب کہ انحطاط وتنزل کے اعتبار سے جانوروں سے پست تر ھے۔
((عن عبداللّٰہ بن سنان، قال سالت اٴبا عبداللّٰہ جعفر بن محمد الصادق علیھما السلام، فقلت : الملائکة افضل ام بنو آدم ؟ فقال (ع) : قال امیر الموٴمنین علی بن ابی طالب (ع) :ان اللّٰہ عزوجل رکب فی الملائکة عقلاً بلا شھوة، ورکب فی البھائم شھوة بلا عقل،و رکب فی بنی آدم کلیھما، فمن غلب عقلہ شھوتہ فھو خیر من الملائکة، ومن غلبت شھوتہ عقلہ فھو شر من البھائم))[1]
اور اس تخلیق میں اتنی تازگی ھے کہ اس پیکر انسان کو ھر طرح سے مکمل کرنے اور اس میں حق جل و علیٰ سے منسوب روح پھونکنے کے بعد[2]، اس مخلوق کو تمام موجودات کے مقابلے میں ممتاز وجود سے سر فراز کیا، جس کی عظمت اس آیہٴ کریمہ <ثُمَّ اٴَنْشَاٴْنَاہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اٴَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ>[3] سے روشن ھے۔
انسان جانتا ھے کہ اسے محدود مادی زندگی کے لئے خلق نھیں کیا گیا، کیونکہ حکمت کا تقاضا یہ ھے کہ اوزار وآلات کو کام سے متناسب اور خلقت کی کیفیت کو ھدف ومقصد کے مطابق هونا چاہئے۔
اگر انسان کی زندگی اسی دنیا تک محدود هوتی تو شہوت،غضب اور ادراکِ حیوانی جو اس زندگی کے لذائذ کو جذب اور منفورات کو دفع کرتے ھیں، اس کے لئے کافی تھے۔عقل، جو لامحدود علم اوراخلاقی وعملی کمالات سے آراستگی کی خواھاں وعاشق ھے اور ایک مقام ومرتبے کو پانے کے بعد بالاتر مقام ومرتبے کی پیاسی فطرت، کا انسان کو عطا کیاجانا اس بات کی دلیل ھے کہ وہ لامحدود زندگی کے لئے خلق هوا ھے، جیسا کہ حدیث نبوی میں ھے:((ما خلقتم للفناء بل خلقتم للبقاء و إنما تنقلون من دار إلی دار))[4]
حکیم علی الاطلاق کی حکمت کا تقاضا یہ ھے کہ جس استعداد کو مخلوقاتِ کائنات میں قرار دیا ھے، اس قابلیت کو فعلیت تک پھنچانے کے عوامل بھی مھیا کرے،کیونکہ فعلیت کا روپ نہ دھارنے والی توانائی اور مطلوب کو حاصل نہ کرسکنے والی طلب بے کا ر ولغو ھیں۔
جس لا محدود علم وقدرت نے بیج کو پھلنے پھولنے کی استعداد وصلاحیت دی ھے اس نے پانی، خاک اور هوا کو بھی خلق کیا ھے، جو بیج کے پھلنے پھولنے میں موثر عوامل ھیں۔اگر انسانی نطفہ کو مختلف اعضاء وجوارح میں تبدیل هونے کی استعداد وصلاحیت دی ھے تو اس استعداد کو فعلیت تک پھنچانے کے لئے رحمِ مادر کو خلق کیا ھے، لہٰذ ا کیسے ممکن ھے کہ عقل کا بیج، جس کا ثمر علم وعمل ھیں اور روح کی لطافت کو تو خلق کردے، جس میں علمی،عملی و اخلاقی کمال اور خدا کی معرفت حاصل کرنے کی استعداد وصلاحیت هو، لیکن عقل کے بیج کو ثمر تک پھنچنے اوراستعدادِ روح کے فعلیت تک پھنچنے کے نہ تو وسائل مھیا کرے اور نہ ھی اس کی مقصدِ خلقت کی جانب ھدایت کرے ؟!
آیا ممکن ھے کہ <اٴَعْطیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہ ثُمَّ ھَدیٰ>[5] جیسے عمومی قانون سے انسان مستثنی هو ؟!
یھیںسے یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ انسان کو مقصدِ خلقت تک پھنچانے کے لئے الٰھی ھدایت ضروری ھے۔
دوم: انسان فطری طور پر اپنے خالق کی تلاش وجستجو میں ھے اور یہ جاننا چاہتا ھے کہ اسے عدم سے وجود میں کون لایا ھے، یہ اعضاء و جوارح اسے کس نے عطا کئے ھیں او ر نعمتوں کے دسترخوان پر اسے کس نے بٹھایا ھے، تاکہ بحکم عقل، منعمِ حقیقی کی شکر گذاری جیسی ذمہ داری کو انجام دے۔
ادھر اس کی ذات مقدس کو اس سے کھیں بلند وبالا سمجھتا ھے کہ خود جو سراپا جھل و خطا اور هوی ٰ وہوس ھے، اس حس ومحسوس، وھم وموہوم اور عقل ومعقول کے خالق کے ساتھ اپنی مشکلات کے حل کے لئے سوال و جواب کا رابطہ برقرار کرے، جس کی عظمت ِجمال وکمال لامتناھی اور ذات تمام نقائص وقبائح سے سبوح وقدوس ھے ۔
اس مسئلے کے حل کے لئے اسے ایک ایسے واسطے کی ضرورت ھے جو خلق کے ساتھ رابطے کے لئے ضروری هونے کے اعتبار سے انسانی صورت میں هو اور اور قانون تناسب فاعل اور قابل کے اعتبار سے، جو خالق کے ساتھ رابطے کا لازمہ ھے، خطا سے پاک ومنزہ عقل، هویٰ وہوس سے دور نفس اور الٰھی سیرت سے مزین هو، تاکہ اس میں یہ صلاحیت آجائے کہ نور وحی سے منور هو سکے اور ابواب ِمعارف ِالھیہ کو انسانوں کے سامنے پیش کر سکے،اور انھیں عقل کی معرفتِ حق سبحانہ سے تعطیل کی تفریط اور خدا کو خلق سے تشبیہ جیسے افراط[6] سے نجات دلاتے هوئے دین ِقیم کی صراط مستقیم کی جانب ھدایت کرے :
<وَاٴَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوْہُ وَلاَ تَتَّبِعَوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِ ذٰلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ>[7]
سوم:انسان اپنی قدرت ِفکر کے ذریعے قوانین واسرارِ خلقت کو کشف کرنے اور ان کو اپنی خدمت پر مامور کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے،اس کے ساتھ ساتھ ایسی هوا و هوس اور شہوت وغضب کا مالک ھے جو انسانی طبیعت کے خاصہ کے مطابق حد شکنی اور افزون طلبی پر کمر بستہ رھنے کی وجہ سے قناعت پذیر نھیں ھے۔ان خصو صیات کی بنا پر زمین میں نیکی و بُرائی، انسان کی نیکی وبُرائی سے وابستہ ھے <ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِی النَّاسِ>[8] بلکہ <وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی اْلاٴَرْضِ جَمِیْعاً مِِّنْہُ إِنَّ فِی ذٰلِکَ َلآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ>[9]کے مطابق تو دوسرے سیاروں میں نیکی و بُرائی بھی انسان کی نیکی و بُرائی سے وابستہ ھے اور اس انسان کی اصلاح فقط ھدایت پروردگار عالم سے ممکن ھے، جو اعتدال فکری کو عقائد حقہ اور اعتدال روحی کو اخلاق فاضلہ اوراعمال صالحہ کے ذریعے مھیا کرتی ھے۔
چھارم:مختلف ضروریات کی وجہ سے انسان کی زندگی معاشرے سے وابستہ ھے اور یہ وابستگی مختلف اورمتقابل حقوق کا سبب بنتی ھے۔ ایک دوسرے کے حقوق کو تسلیم اور ادا کئے بغیر اجتماعی زندگی بقا کے قابل نھیں ھے اور یہ حقوق اس وقت تک حاصل نھیں هو سکتے جب تک قانون ساز اور ان قوانین کا اجراء کرنے والا ھر قسم کے نقص وخطا سے محفوظ اور ذاتی مصلحتوں اور حق وانصاف کے سلسلے میں ،ھر قسم کے انحراف سے پاک ومنزہ نہ هو اور یہ کام خدائی اصول و قوانین اورالٰھی نمائندوں کے بغیر نا ممکن ھے:
<لَقَدْ اٴَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَاٴَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ>[10]
اب جب کہ ثابت هوگیا کہ مبدا ومعاد اورمقصدِ تخلیق کی جانب انسان کی ھدایت ضروری ھے اور یہ بات بھی واضح هوگئی کہ فکری وعملی اعتبار سے انسان کی کمال تک رسائی، خواھشات نفسانی کاتعادل اورانفرادی واجتماعی حقوق کاحصول ایک لازمی امر ھے، یہ جاننا نھایت ضروری ھے کہ ان مقاصد کو وحی ونبوت کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے عملی جامہ پھنانا ممکن نھیں ۔ خطا سے آلودہ ذھن اور هویٰ وہوس کی قید میں جکڑے هوئے ھاتھوں کے ذریعے یہ اھم مقاصد حاصل نھیں هو سکتے اورصرف تفکر وتدبر کے چراغوں سے انسانی فطرت میں موجود، مبھم نقاط روشن وواضح نھیں هو سکتے۔
انسان جب اپنی مافوق العادہ استعداد، صلاحیت اور افکار کے ذریعے اسرارِ جھان کی تلاش و جستجو میں نکلا تو ناگھاں اس نے دیکھا کہ بدن کی عناصرِ اربعہ سے ترکیب اور چار مخالف طبیعتوں کو مختلف امراض و علل کی بنیاد سمجھنے کے بارے میں اس کا تصور غلط ھے اور خلقت کے بارے میں جو تانا بانا اس نے مٹی، پانی، هوا، آگ اور ناقابل رسوخ وغیر پیوستہ آسمانی سیاروں سے بن رکھا تھا سب کھل کر رہ گیا اور یہ بات واضح و ثابت هوگئی کہ وہ ترکیب ِبدن جیسی خود سے نزدیک ترین چیز اور اس کی صحت و امراض کے علل و اسباب سے ناواقف تھا اور جو کچھ نزدیک ترین آسمانی سیارے یعنی چاند کے بارے میں سمجھتا تھا سب غلط نکلا۔آیا اس انسان کا یہ چراغِ فکر، معرفت مبدا و معاد اور اسباب ِسعادت و شقاوت کی جانب اس کی ھدایت و راھنمائی کر سکتا ھے؟!
انسانی علم و دانش جو ایک ذرّے کے دل میں چھپے هوئے اسرار کے ادراک سے عاجز ھے، انسان و جھان کے آغاز و انجام کے لئے ھادی، معرفت مبدا و معاد کے لئے مشکل کشاء اور اس کی دنیوی و اخروی سعادت کے لئے رھنما کیسے ثابت هو سکتا ھے ؟!
((فبعث فیھم رسلہ و واتر إلیھم اٴَنبیائہ لیستاٴدوھم میثاق فطرتہ و یذکروھم منسی نعمتہ و یحتجوا علیھم بالتبلیغ و یثیروا لھم دفائن العقول و یروھم آیات المقدرة)) [11]