اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

فلسفہ خمس دلایل مذھب شیعہ

” عن علی ابراھیم عن ابیہ عن ابن ابی عمیر عن الحسین عثمان عن سماعة قال : سمعت ابا الحسن علیہ السلام عن الخمس فقال علیہ السلام : فی کل ما افاد الناس من قلیل او کثیر “

” امام علیہ السلام فرماتے ھیں : ”خمس ھر طرح کی منفعت میں ھے خواہ وہ کم ھو یا زیادہ “ ھمارے لئے آئمہ علیھم السلام کے اقوال کافی ھیں ، لیکن اھل سنت ائمھعلیھم السلام کی عصمت کے قائل نھیں ھیں لھذا ان کو قانع کرنے کے لئے استعمالات قرآن ا ور روایات و عربی لغت کو دیکھنا چاھئے کہ وہ کیا کھتی ھے ۔ اگر لفظ ”غنمتم “ ( غنم ، یغنم ،غانم و مغنوم ) میدان جنگ میں ھاتہ آنے والے مال کے معنی میں استعمال ھوتاھے اور غنائم جنگی سے مخصوص ھے تو اس صورت میں اھل سنت کا نظریہ صحیح ھو گا ، لیکن اگر لفظ ”غنمتم “ اور اس کے دیگر مشتقات، تمام منفعت و فائدہ کے معنی میں استعمال ھوئے ھوں ، اور غنائم جنگی سے مخصوص نھیں ھیں تو اس صورت میں اھلسنت کے پذیرفتہ قواعد کے مطابق بھی شیعوں کا نظریہ درست ھو گا ۔

دلیل دوم : قرآنی و روائی استعمالات اور عربی لغت :

۱۔ قرآن مجید

قولہ تعالیٰ : ”و اعلموا انما غنمتم من شئی .........“

اس آیت میں استعمال شدہ لفظ ”غنمتم “مورد بحث ھے کہ اسکا معنی کیا ھے ؟

خدا وندعالم کا ارشاد ھے :” .........فکلوا مما غنمتم ......... پس اب جو مال غنیمت حاصل کر لیا ھے اسے کھاوٴ کہ و حلال اور پاکیزھ.........“۔

اس آیت میں استعمال شدہ لفظ ”غنمتم“ بھی پھلے ”غنمتم “ کی طرح ھے جو معنی اسکا ھو گا وھی معنی اسکا بھی ھوگا ۔

دوسری آیت میں ارشاد ھو رھا ھے:” ......... فعند اللہ مغانم کثیرة .........” اور خدا کے پاس بکثرت فوائد پائے جاتے ھیں “۔

” اللہ کے پاس بھت سارے مغانم ھیں “

مذکورہ آیت شریفہ یہ سمجھانا چاھتی ھے کہ وہ سارے فوائد و منافع جسے تم اس دنیا میں تلاش کر رھے ھو ، خدا وند متعال کے پاس ھیں ۔

بالکل واضح ھے کہ اس آیت کا مطلب ھرگز یہ نھیں ھے کہ غنائم جنگی خدا کے پاس ھیں بلکہ ”مغانم “ سے مراد تفضل الھی ھے یعنی جو کچہ بھی خدا سے ملتا ھے اسکا فضل ھے۔ خدا کسی کا مقروض نھیں ھے ، وہ جو کچہ بھی دیتا ھے اسکا احسان اور تفضل الھی ھے ۔ تفضل ایک عام معنی ھے جو خدا سے ملنے والی ھر نعمت کو شامل ھوتا ھے ۔

ایک عام معنی و مراد کو بیان کرنے کے لئے لفظ ”مغانم “ کا استعمال خود اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ ”مغانم “ کا معنی عام ھے ۔اگر ”مغانم “ فقط غنائم جنگی کے معنی میں ھوتا تو اس آیت میں ”مغانم “ کے بجائے کسی ایسے لفظ کا استعمال ھونا چاھئے تھا کہ جس کے معنی عام ھوں ۔

۲۔ حدیث شریف

پیغمبر اسلام کی معروف حدیث جسے ابن کثیر نے نھایہ میں ذکر کیا ھے اسکا مضمون یہ ھے :” من لہ الغنم علیہ الغرم “ علماء اھل سنت فقہ میں بکثرت اس حدیث سے تمسک کرتے ھیں اور متفق ھیں کہ اس حدیث کے معنی یہ ھیں”جوشخص کسی چیز سے فائدہ اٹھائے گا وھی اس کا نقصان بھی سھے گا “ یہ حدیث اس قدر معروف ھے کہ ضرب المثل بن چکی ھے ۔

یہ بات اظھر من الشمس ھے کہ اس حدیث میں ”غنم “ آیا ھے کہ جس کے معنی جنگی منفعت و فائدہ نھیں ھیں بلکہ عام فائدہ کے معنی میں ھے ۔ یعنی غنیمت کے معنی غنایم جنگی میں منحصر نھیں ھیں۔

۳۔ لغت

علمائے لغت میں صاحب ” المنجد“ ایسے صاحب لغت ھیں جو عرب تو ھیں لیکن نہ شیعہ ھیں نہ سنی بلکہ وہ ایک لبنانی مسیحی ھیںجو اپنی کتاب المنجد میں ”غنم یغنم “ کے یوں معنی کرتے ھیں ” من غنم مالا “ یعنی جو مفت اور بغیر عوض کے کوئی مال حاصل کرے ،مزید وضاحت کرتے ھوئے لکھتے ھیں :غنم و غنیمت کے معنی غنائم جنگی میں منحصر نھیں ھے بلکہ غنم و غنیمت کے مصادیق میں سے ایک غنائم جنگی ھے یعنی عرب کے اس مسیحی لغت شناس نے بھی مذکورہ لفظ کے وھی معنی کیئے ھیں جو معنی شیعہ علماء نے آئمہ معصومین علیھم السلام کے اقوال کی روشنی میں کئے ھیں ۔

اب انصاف کا تقاضا ھے کہ ھمارے آئمہ علیھم السلام کی جانب سے بیان شدہ ”غنمتم “ کے معنی صرف ھمارے لئے ھی نھیں بلکہ اھل سنت کے لئے بھی لازم الاتباع ھونا چاھئے ۔کیونکہ ھمارے آئمہ علیھم السلام کی روایات میں جو معنی بیان کئے گئے ھیں وھی معنی ، استعمالات قرآنی اور روائی و لغوی معنی کے مطابق ھیں ۔

ایک مثال : عرب کا دستور ھے کہ جب مسافر وطن واپس آتا ھے تو اسے سلام کے بعد ایک دعائیہ جملہ ”خیر مقدم “ کھتے ھیں، یعنی خوش آمدید ۔ اسی طرح سفر پر جانے والے کو ” سالما غانما “ کھہ کر رخصت کرتے ھیں ۔”سالما “ کے معنی ھیںکہ سلامتی کے ساتہ واپس آؤ اور ”غانما “ یعنی غنیمت اور فائدہ کے ساتہ واپس آؤ اگر ”غانما “ کے معنی غنائم جنگی سے مخصوص ھوتے تو فقط میدان جنگ کی جانب سفر کرنے والوں کے لئے اس لفظ کا استعمال ھونا چاھئے تھا ۔جبکہ عرب ھر مسافر کےلئے اس لفظ کا استعمال کرتا ھے ۔ اس سے معلوم ھوتا ھے کہ لفظ ”غانم “ کے معنی غنائم جنگی میں منحصر نھیں ھیں بلکہ عربی زبان میں ھر قسم کی منفعت و فائدہ کو مغنم و غنیمت کھتے ھیں ۔

دلیل سوم: اطلاق آیت شریفہ

اگر آیت شریفہ اس طرح ھوتی کہ ” و اعلموا انما غنمتم من شئی (فی دار الحرب.........)“ تو اھل سنت کا کھنا صحیح تھا کہ غنیمت سے مراد فقط غنائم جنگی ھے۔ لیکن آیت شریفہ میں لفظ ” غنمتم “ مطلق ھے یعنی جو کچہ بھی تمھیں فائدہ پھونچے خواہ میدان جنگ میںیا زندگی کے دیگر میدانوں میں اور جب لفظ ”غنمتم “ کے ساتہ خدا وند عالم نے کسی قسم کی کوئی قید و شرط نھیں لگائی تو پھرھمیں بھی اسکے معنی میں جنگ و حرب کی قید نھیں لگانی چاھئے ۔


source : http://www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

انسان کی انفردی اور اجتماعی زندگی پر ایمان کا اثر
خدا کے نزدیک مبغوض ترین خلائق دوگروہ ہیں
معاد کے لغوی معنی
اخباری شیعہ اور اثنا عشری شیعہ میں کیا فرق ہے؟
اصالتِ روح
موت کی ماہیت
خدا کی نظرمیں قدرو منزلت کا معیار
جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)
خدا اور پیغمبر یہودیت کی نگاہ میں
شيطا ن کو کنکرياں مارنا

 
user comment