خدا کے نزدیک مبغوض ترین خلائق دو شخص ہیں : وہ شخص جسے خدا نے اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور وہ سیدھے راستے سے گمراہ ہوگیا ہے، یہ اپنی بدعت آمیز باتوں اور گمراہی کی طرف دعوت دینے پر فریفتہ ہے
امام علیہ السلام کے کلام کا وہ حصّہ جس میں آپ(علیه السلام) نے ان لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جو لیاقت وصلاحیت کے بغیر لوگوں کے درمیان قضاوت کے منصب پر قبضہ کرلیتے ہیں، اس خطبہ میں آیا ہے:
پہلا گروہ : خدا کے نزدیک مبغوض ترین خلائق دو شخص ہیں : وہ شخص جسے خدا نے اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور وہ سیدھے راستے سے گمراہ ہوگیا ہے، یہ اپنی بدعت آمیز باتوں اور گمراہی کی طرف دعوت دینے پر فریفتہ ہے، اسی وجہ سے ان لوگوں کی گمراہی کا باعث ہوتا ہے جو اس کے دھوکے میں آگئے ہیں، وہ خود اپنے بزرگان کی ہدایت سے روگردانی کی وجہ سے گمراہ ہوگیا ہے اور دوسرے لوگوں کو جو اُن کی زندگی میں یا مرنے کے بعد ان کی اقتداء کرتے ہیں، گمراہ کرتا ہے، وہ اُن لوگوں کے بارِگناہ کو اپنے کاندھوں پر اٹھاتا جن کو اُس نے گمراہ کیا ہے، اور ہمیشہ اپنے گناہوں کا ذمہ دار ہے ۔
خطبہ پر ایک نظر
جیسا کہ اس کے عنوان سے ظاہر ہے کہ یہ خطبہ اُن لوگوں کے صفات کو بیان کررہا ہے جو لیاقت وصلاحیت کے بغیر مسند قضاوت پر بیٹھ جاتے اور لوگوں کو گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں، اس خطبہ میں امام علیہ السلام نے ایسے افراد کو دوگروہ پر تقسیم کیا ہے:
پہلا گروہ اُن لوگوں کا ہے جو جان بوجھ کر گمراہی کے راستہ کو طے کرتے ہیں اور ہوا وہوس کے سامنے جھک جاتے ہیں اور دین میں بدعت پھیلاتے ہیں، اپنی اور خلق خدا کی گمراہی کا سبب ہوتے ہیں ۔
دوسرا گروہ عالم نما جاہلوں اور ناآگاہ خود غرضوں کا ہے کہ جو جہل مرکّب میں گرفتار ہیں؛ بغیر کسی آمادگی کے لوگوں کا فبصلہ کرنے کے لئے مسند قضاوت پر بیٹھ جاتے ہیں اور شبہات وخیالات کے تانے بانے بُنتے ہیں اور یکے بعد دیگر غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ حق کو باطل سے ملادیتے ہیں، بے گناہوں کے خون کو برباد کردیتے ہیں، لوگوں کے مال کو ناحق دوسروں کو بخش دیتے ہیں ۔ یہ احتما ل بھی پایا جاتا ہے کہ پہلا گروہ بدعت گذار اور ظلم وجور میں گمراہ حاکموں کی طرف اشارہ ہو اور دوسرے گروہ سے مراد جاہل وبے خبر قاضی ہوں ۔ اسی وجہ سے ”حکم“ کا لفظ جو اس خطبہ کے عنوان میں آیا ہے ممکن ہے عام مفہوم میں استعمال ہوا ہو کہ جو حکومت اور قضاوت دونوں کو شامل ہے ۔
اس خطبہ کے آخر میں امام علیہ السلام ایسے لوگوں کو قرآن مجید سے روگردان اور معروف کو منکر اور منکر کو معروف سمجھنے والوں میں شمار کرتے اور خدا کی بارگاہ میں ان کی شکایت کرتے ہیں ۔
لہٰذا یہ خطبہ تین حصّوں میں خلاصہ ہوتا ہے: پہلا اور دوسرا حصّہ گمراہ گروہوں کی توصیف میں ہے؛ اور تیسرا حصّہ خدا کی بارگاہ میں ان لوگوں اور ان جیسے لوگوں کی شکایت پر مشتمل ہے ۔
شرح وتفسیر
مخلوق میں سب سے زیادہ قابل نفرت لوگ کون ہیں؟
اس خطبہ میں امام علیہ السلام نے خدا کی مبغوض ترین خلائق کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے، فرماتے ہیں: ”تمام مخلوق میں خدا کے نزدیک سب سے مبغوض اور سب سے منفور دو طرح کے لوگ ہیں“ (انّ اٴبغض الخلائق الی الله رجلان)
یہ بات واضح ہے کہ جس معنی میں انسانوں کے یہاں حبّ وبغض پایا جاتا ہے خدا کے یہاں اس کے کوئی نہیں ہیں؛ کیونکہ جب حبّ وبغض حالات اور تبدیلیوں کی صفت سے مربوط ہیں کہ جو انسان کی روح میں چاہت اور نفرت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہوتے ہیں، لیکن خدا کے یہاں لفظ حبّ کسی کو مشمول رحمت بنانے اور لفظ بغض کسی کو رحمت سے دور کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
پھر آپ(علیه السلام) پہلے گروہ یعنی حکام یا ہوا پرست عالموں کی واضح پور پر صفات بیان کرتے ہیں؛ اور سب سے پہلے ان کی بدبختیوں کی جڑ کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: ”وہ ، وہ ہیں جنھیں خدا وندعالم نے ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے“۔
تمام ممکنات منجملہ انسان اس کی ذات سے اس طرح وابستہ ہیں کہ اگر ایک لمحہ بھی اس سے جدا ہوجائیں تو سب کے سب فنا اور نابود ہوجائیں گے اور اس کی وابستگی اور پیوستگی کی طرف توجہ انسان کے اندر توکل کی روح کو زندہ کرتی ہے، جس میں انسان اپنی ہرچیز کو اس کے سپرد کردیتا ہے یعنی اپنی استطاعت کے مطابق کاموں کی ترقی میں سعی وجستجو کرے لیکن اس کے باوجود یہ کبھی نہ بھولے کہ ہر خیر وبرکت اور ہر نعمت وموہبت کا سرچشمہ اسی خدا کی ذات پاک ہے ۔
لیکن جب انسان غرور، خود خواہی اور خواہشات نفسانی کی وجہ سے اس حقیقت سے غافل ہوجاتا ہے اور اپنے کو مستقل سمجھنے لگتا ہے تو خدا سے کٹ کر رہ جاتا ہے اور اس کی نظر میں ہر چیز اُلٹ جاتی ہے ۔ خداوندعالم سے قطع رابطہ کا مطلب یعنی انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دینا ہے اور یہی چیز تمام بدبختیوں اور گمراہیوں کی جڑ ہے ۔
اسی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم عالم حقیقت کے سرسبز وشاداب پھول تھے، مکرر فرماتے تھے: ”اللّٰھمّ․․․ لاتکلنی الیٰ نفسی طرفة عین اٴبداً؛ بارِالٰہا! مجھے ایک لمحہ کے لئے بھی میرے حال پر نہ چھوڑ (اور اپنی ذات پاک سے دور نہ کر)“۔(۱)
۱۔ بحارالانوار، ج۸۳، ص۱۵۳․
یہ وہی بات ہے جسے امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام اپنے پُر معنا سخن میں ارشاد فرماتے ہیں: ”الٰھی کفیٰ بی عزّاً اٴن اٴکون لک عبداً وکفیٰ بی فخراً اٴن تکون لی ربّاً؛ میرے الله! میری عزت کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں اور فخر کرنے کو میرے لئے اتناہی کافی ہے کہ تو میرا پروردگار ہے“۔
جیسا کہ معصومین علیہم السلام کی دعاوٴں میں آیا ہے ، فرماتے ہیں: ”اِنَّکَ اِنْ وَکَّلْتَنِی اِلیٰ نَفْسِی تُقَرِّبُنِی مِنَ الشَّرِّ وَتُبَاعِدُنِی مِنَ الْخَیْرِ؛ اگر تو مجھے میرے حال پر چھوڑدے گا تو میری ہوائے نفس مجھے شر سے نزدیک اور خیر سے دور کردے گی“(۱) اس کے بعد امام علیہ السلام اس طرح کے لوگوں کی بدبختیوں کی اصل وجہ کو بیان کرتے ہوئے اس کے بُرے نتائج کو شمار کراتے اور ان میں آٹھ بُرے نتائج کی طرف جو حقیقت میں علّت ومعلول کے مانند ہیں، اشارہ فرماتے ہیں:
سب سے پہلے فرماتے ہیں: ”ایسے لوگ راہ راست سے منحرف ہوجاتے ہیں“ (فَھُوَ جَائِرٌ عَنْ قَصْدِ السَّبِیْلِ‘)
”قَصْدِ السَّبِیْلِ“ وہی درمیانی، معتدل اور ہر طرح کی افراط وتفریط سے خالی راستہ ہے ۔ ”قصد سبیل“ وہ راستہ ہے جو انسان کو خدا کی طرف لے جاتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ایا ہے: ”وعلیٰ الله قصد السبیل؛ بندوں کو سیدھا راستہ دکھانا خدا کا کام ہے“ (یا یہ کہ سیدھا راستہ خدا پر تمام ہوتا ہے) ۔(۲)
واضح ہے کہ انسان راہ مستقیم کو جو بال سے باریک تلوار کی دھار سے تیز ہے، ہزاروں کجراہوں سے اسی وقت تشخیص دے سکتا ہے کہ جب عنایات الٰہیہ اس کے شامل حال ہوں؛ لیکن وہ شخص جو خدا سے کٹ گیا ہو اور اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہو، حیرت اور سرگردانی میں ڈوب جاتا ہے اور غلط راستوں پر چل پڑتا ہے؛ خصوصاً چونکہ غلط راستے عموماً ہوائے نفس سے ہماہنگ اور پر رزق وبرق ہوتے ہیں، انسان کو اپنی جانب جذب کرتے ہیں ۔
اپنے حال پر چھوڑدینے کا دوسرا بُرا نتیجہ کہ جو راہ مستقیم سے انحراف طبیعی نتیجہ ہے، لہٰذا آپ فرماتے ہیں: ”ایسے لوگ اپنی بدعت آمیز باتوں کے دلدادہ ہیں“ (مَشْغُوفٌ بِکَلَامِ بِدْعَةٍ)
۱۔ بحارالانوار، ج۹۱، ص۹۴․
۲۔ سورہٴ نحل: آیت۹․
اور جب وہ تیسرے مرحلے میں قدم رکھتا ہے یعنی ”گمراہی کی طرف دعوت میں قدم بڑھاتا ہے اور اس سے خوش بھی ہوتا ہے“ (وَدُعَاءِ ضَلَالَةٍ) ۔
”شغف“ کا مادہ ’شغاف“ ہے (کلات کے وزن پر) اس کے معنی دل کے اوپر گرہ یا اس کے اوپر نازک جھلّی کے ہیں جو غلاف کی طرح اس کے اوپر چڑھ گئی ہے، قرآن مجید نے زنان مصر کی زبانی یوسف علیہ السلام کے ساتھ زلیخا کے بے قرار عشق کو ”قدشغفھا حُبّاً“ کے عنوان تعبیر کیا ہے ۔ مورد بحث جملہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس طرح کے خود خواہ وخود غرض لوگ اپنی بدعت آمیز باتوں کے سخت دلدادہ ہیں؛ وہی دلبستگی جس کا نتیجہ دوسروں کو راہ گمراہی کی طر دعوت دینا ہے، قرآن مجید فرماتا ہے: ”وما دعا الکافرین الّا فی ضلال؛ کافروں کی پکار فقط ضلالت وگمراہی میں ہے“۔(۱)
بدعت کی حقیقت، اس کے اسباب اور نتائج کے بارے میں ایک بحث ہے کہ جو نکات کے بیان میں آئے گی ۔
چوتھی صفت میں جو حقیقت میں گذشتہ اوصاف کا نتیجہ ہے فرماتے ہی: ”یہ لوگ اُن لوگوں کی گمراہی کا سبب ہیں جو ان کے دھوکہ میں آگئے ہیں“ (فَھُوَ فِتْنَةٌ لِمَنِ افْتَتَنَ بِہِ) ۔
جو شخص خوش خیالی یا کسی کے ظاہر سے دھوکہ کھاجانے کی بناپر کسی کا دلدادہ ہوجائے اور اُسے اپنا پیشوا اور مقتدیٰ خیال کرکے اس پر اعتماد کرلے؛ ظاہر ہے کہ ایسا شخص بدعتوں کا دلدادہ اور گمراہی کی طرف دعوت دینے والا ہے، اور بہت سے لوگوں کی گمراہی کا سبب ہوتا ہے ۔
۱۔ سورہٴ رعد، آیت۱۴․
ایسے لوگوں کی پانچویں اور چھٹی صفت کے سلسلے میں فرماتے ہیں: ”ایسا شخص اپنے اسلاف کی ہدایت سے روگردانی کی وجہ سے خود گمراہ ہوا ہے اور جو لوگ اس کی زندگی یا مرنے کے بعد اس کی اقتدا کرتے ہیں انھیں بھی گمراہ کرتا ہے“ (ضَالٌّ عَنْ ھَدْیِ مَنْ کَانَ قَبْلَہُ، مُضِلٌّ لِمَنِ اقْتَدَیٰ بِہٖ فِی حَیَاتِہٖ وَبَعْدَ وَفَاتِہِ) ۔
”مَنْ کَانَ قَبْلَہُ“ سے مراد انبیاء اور ان کے برحق اوصیاء ہیں؛ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ راہ ہدایت پہلے سے روشن تھی اور گمراہی کے راستہ پر چلنے کے لئے اس کے پاس کوئی عذر نہیں تھا، اس کے باوجود اس نے ہدایت کے پُرنور راستہ کو چھوڑ کر ضلالت وگمراہی کی تاریک گھاٹی میں اپنے کو گرالیا ہے ۔
سب سے افسوس ناک بات تو یہ کہ ایسے افراد فقط اپنی زندگی میں ہی گمراہی کا سبب نہیں ہوتے بلکہ مرنے کے بعد بھی صدیوں اور ہزاروں سال تک دوسروں کی گمراہی میں ساجھے دار ہوتے ہیں؛ کیونکہ حدیث نبوی کے مطابق ”مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً عُمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہِ کَانَ لَہُ اٴَجْرُہُ وَمِثْلُ اُجُورِھِم مِنْ غَیرِ اٴنْ یَنْقُصَ مِن اُجُورِھِم شَیئاً، وَمَنْ سَنَّ سُنَّةً سَیِّئَةًفَعُمِلَ بِھَا بَعدہ کَانَ لَہ وِزْرَہُ وَمِثلُ اٴَوْزَارِھِم مِن غَیرِ اٴنْ یَنقُصَ مِن اٴوزَارِھِم شَیئاً؛جو کوئی اپنے پیچھے سنت حسنہ چھوڑے اور اس کے بعد اس پر عمل ہو، اسے ایک تو خود اس کا اجر ملتا ہے اور اُن لوگوں کا بھی اجر ملتا ہے جو اس پر عمل کرتے ہیں، البتہ ان کے اجر میں کوئی کمی کئے بغیر؛ اسی طرح جو کوئی بُری سنّت کی بنیاد رکھے پھر اس کے بعد اس پر عمل ہو تو خود اس گناہ کا بوجھ اٹھاتا ہے اور اُن لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھاتا رہے گا جو لوگ اس پر عمل کرتے ہیں، ان کے گناہوں کی سزا میں کمی ہوئے بغیر“۔(۱)
یہ کلام اُن لوگوں کے لئے دھمکی ہے جو بدعت کی طرف قدم بڑھاتے ہیں اور گمراہیوں کی بنیاد ڈالتے ہیں ایسے لوگوں کی بدبختی فقط ان کے دوران حیات میں ہی منحصر نہیں ہے بلکہ کبھی کبھی تو انھیں ہزاروں سال تک اپنے اعمال کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔
۱۔ میزان الحکمة، ج۴، ص۵۶۶، اس حدیث کا مضمون متعدد روایتوں اور بہت سی کتابوں میں آیا ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام کا خطبہ نمبر ۱۶۴ میں ایک اور زیادہ لرزا دینے والی بات ہے، فرماتے ہیں: ”وَاِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِندَ اللهِ اِمَامٌ جَائِرٌ ضَلَّ وَضُلَّ بِہِ فَاَمَاتَ سُنَّةً مَاخُوذَةً وَاٴَحْییٰ بِدْعَةً مَتْرُوکَةً؛خدا کے نزدیک سب سے برا شخص ظالم پیشوا ہے جو خود بھی گمراہ ہے اور لوگوں کو بھی گمراہ کرتا ہے؛ گذشتہ لوگوں کی نیک سنت کو ختم کرتا اور متروک و مردہ بدعتوں کو زندہ کرتا ہے“۔
source : http://www.taqrib.info