اردو
Thursday 21st of November 2024
0
نفر 0

جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)

جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)

جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)

تحریر: مجیدکمالی
ترجمہ: محمدحسین مقدسی


وجود جن :
قرآن مجید اوراحادیث اہل بیت کی طرف توجہ دیتےہوئےیہ بات ثابت ہےکہ روی زمین پرخداوندمتعال کی مخلوقات میں سے ایک جن کاوجودہے، کہ قرآن فرما رہاہے:  
«وَ ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلاّ لِیَعْبُدُون‌» (15)
 میں نےجن و انس کو خلق نہیں کیا  ہےمگر میری عبادت  کے لیے ۔ تاکہ وہ اسی طریقہ سے تکامل تک پہنچ جائیں  اور میرے  نزدیک ہو جائے ۔
«سَنَفْرُغُ لَکُمْ آیُّه الثَّقَلانِ»(16)
 ای گروہ جن و انس جلد  ہےآپ لوگوں کا حساب لیا جائے  گا۔
(جن )  لغت میں چھپانےکےمعنی میں ہیں چونکہ جن انسان  کی  آنکھوں سے اوجھل  اور مخفی رہتے  ہیں اس لیے  اسکو جن کہا جاہے ہے
دیوانہ کو مجنون کہا جاہے ہےچونکہ اسکا عقل بھی مخفی رہہے ہے، اور ماں کےپیٹ  میں بچے  کو جنین کہا جاہے ہےچونکہ بچہ ماں  کےرحم میں مخفی رہہےہے۔
بس بعض لوگوں کا گمان ہے کہ جن ایک وہم و خیال  ہےاسکا کوئی وجود نہیں ہے ؛ ایسی  بات نہیں  ہےبلکہ جن ایک موجود واقعی ہے لیکن وہ اپنی اس خلقت کےاعتبار سے عام انسانوں کےنظر میں قابل دید نہیں ہے۔
آفرینش جن اور اسکی کیفیت :
ابوبصیر نےامام صادق سے سئوال کیا کہ خدا وند عالم نےآدم کو کس طرح سے خلق کیا  ہے؟
امام صادق علیہ السلام نےاس سوال کےجواب میں حضرت آدم کی خلقت کے بارے میں جواب دینے سے پہلے جن کی خلقت کےبارےمیں جو کہ  انسانوں سے پہلے  خلق ہوا  ہے،  فرمایا :
جب خدا وند عالم نے(نارسموم)یعنی ایک ایسی آگ جو نہ گرم ہےاورنہ ہےدھواں)کوخلق کیاتو،اسی آگ سے جنوں کوخلق کیا۔اوریہ مطلب اسی کلام خداوندعالم کی تایید کرہےہےجوقرآن مجیدمیں آیا:
 «وَ الْجَانَّ خَلَقْناه مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ»(17)۔
اور اس سے پہلے ہم لو (گرم ہوا) سے جنوں کو پیدا کر چکے تھے۔
اس  وقت« جان » کا نام « مارج » رکھا گیا اور اسی «جان »سے اسکی بیوی«  مارجہ »کو خلق کیا پھر ان دونوں سے فرزند متولد ہوئے  ان میں سے ایک فرزند کا نا م جن رکھا گیا پھر اسی جن سے مختلف گروہ اور طائفہ وجود میں آئے انہیں میں سے ایک ابلیس ملعون بھی  ہے ۔
«جان » اپنے نسل بڑھانے میں مصروف ہو گیا اور اسی طرح جن بھی زاد ولد میں مصروف رہا یہاں  تک کہ انکی اولاد کی  تعداد تقریبا  نوے  ہزار تک پہنچ گئی اور پھر اسی طرح زاد ولد کرتے ہوئے  انکی تعداد صحرائی کنکریوں  کی طرح بہت  ہی زیادہ  ہوگئی۔
ابلیس نےجوکہ طائفہ جن میں سےتھا(لھبا)نام کی ایک عورت (روحا کی بیٹی )سےشادی کی جو کہ طائفہ{جان}میں سے تھی اس شادی کےنتیجہ میں ان کےکئی جڑواں  اولاد ہوے، سب سےپہلے ان کےدوبچے بلقیس اورطوفہ کےنام سےپیدا ہوئےپھراس کےبعددواوربچےشعلا اورشعلیہ نام کےپیداہوئےاس کےبعددوہراوردوہرہ نام کےدواوربچےمتولدہوئے اسی طرح سےمسلسل ان کےبہت سارےبچے اس شیطان سےمتولد ہوگئے کہ جن کےذکرکی یہاں پرگنجائش نہیں۔
جن کی اقسام وانواع :
اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض ایسی  دعائیں اور اذکار موجود ہیں کہ  جن کا پڑھنا ؛  اجنہ  کے ظاہر ہونے کا سبب بنہےہے یا ان اذکار کےذریعے  ان  کی باتوں کو سن سکتے  ہیں اور یہاں  تک کہ  ان کو  دیکھنےکا سبب بهی بنتے  ہیں  ، یہ ایک امر قطعی ہے کہ جو روایات سے ثابت ہوہےہے۔
ایسی  روایات کہ جن میں پیغمبر اسلام اور امیر المومنین وتمام ائمہ  علیہم السلام کےمعجزات کو نقل کرتے ہیں ان میں سے بہت ساری روایا ت ایسی بھی ہیں کہ جن میں اجنہ کو دیکھنےاور ان  کی آواز کو سننےکے بارے میں بھی مطالب بیان ہوئے ہیں ۔
جن اور شیاطین یہ قدرت بھی رکھتے ہیں کہ بعض اوقات وہ انسانوں کی  شکل میں ظاہر ہوتے  ہیں(18) ۔
منبع :(کتاب عجائب الملکوت (بخش عجائب الجن ) نوشته عبدالله الزاهد)۔
جن کی وہ اقسام جوحضرت سلیمان نےمختلف شکلوں میں دیکھیں :
جب خدا وند متعال نےاجنہ کو حضرت سلیمان کے لیے مسخر کیا تو جبرئیل نےآواز دی۔
ای اجنہ و شیاطین  خدا وند متعال کےاذن سے حضرت سلیمان کی خدمت میں آجاو !  تو تمام بیابانوں  اور پہاڑوں  سے اور ہر کسی سوراخ سے لبیک کہتے  ہوئے  نکل آئے ۔
ملائکہ  ان کو بھیڑ بکریوں  کی طرح ہنکیلتے ہوئے  ذلیلانہ انداز میں حضرت سلیمان کی خدمت میں حاضر  کیا  اس وقت اجنہ کےچار سو بیس گروہ تھے ۔
حضرت سلیمان نےانکو عجیب و غریب شکلوں  اور مختلف رنگوں  میں دیکھا، ان میں سے بعض کو گھوڑوں کی شکل میں،
بعض کو درندوں کی  شکل میں اور بعض کو  لمبی دموں کے ساتھ اور بعض کو شاخوں کے ساتھ  ، اسی طرح انکو مختلف شکلوں میں دیکھا۔حضرت سلیمان نےان کو دیکھ  کر  خداوند عالم کی عجیب خلقت پر حیران ہوکر سجدہ کیا اور کہنےلگا۔
خدایا :  مجھے  ایک ایسی قدرت و طاقت عطا کرنا کہ میں انکو  دیکھ  سکوں؟
 جبرئیل نازل ہوا اور کہنےلگا خدا وند عالم نےآپکو قدرت و توانائی عطا کی ہےاپنی جگہ سےاٹھو،جب حضرت سلیمان سجدہ سے اٹھا تو دیکھا کہ اس کےہاتھ  میں ایک انگوٹھا  تھا ، اسی وقت تمام اجنہ حضرت سلیمان کےسامنےسجدہ میں گر گئے اور سجدہ سے سر اٹھا کر کہنےلگے ای داود کےبیٹے ہم آپ کی خدمت میں ہیں اور آپ کےحکم کی اطاعت میں ہیں۔
حضرت سلیمان نےان سے ان کےقبیلہ اورفرقہ اور انکی محل سکونت اور ان کےخوراک کےبا رے میں سئوال کیا ؟ تو  انہوں  نےسوالوں کا  جواب دیا ، حضرت سلیمان نےان سے پوچھا پھر آپ لوگوں کی شکلیں  مختلف کیوں  ہیں؟ جبکہ آپ سب  ایک ہی باپ (جان ) کےاولاد ہیں۔
توانہوں نےکہا ہماری شکل اورظاہرکا اختلاف اس پرموقوف ہےکہ ہم کس قدر ابلیس کےمطیع ہیں یا کس قدرمخالفت میں ہیں یعنی ہماری شکلوں کامختلف ہونا اولاد ابلیس کےساتھ ہم بستری کرنے کی وجہ سےہے۔
حضرت سلیمان کی اجنہ کےساتھ گفتگواور ان کی مختلف ذمہ داریاں :
جب خدا وند متعال نےحضرت آدم کو بادشاہت و سلطنت عطا کی تو ہوا کو حکم دیا کہ اس دنیا کےتمام شیاطین کو حضرت سلیمان کےسامنےحاضر کر دے  ، جب شیاطین کو ان کےسامنےحاضر کیا تو ان کو عجیب و غریب شکل میں دیکھا  کہ بعض اجنہ کا چہرہ سر کےپچہلے حصہ میں تھا اور ان  کےمنہ سے  آگ نکل رہی تھی ۔
ان میں سے بعض چار پایوں  کی طرح  چلتے  تھے اور بعض دوسروالے تھے ان میں سے بعض کا سر شیر کی شکل میں اور بدن  ہاتھی  کی طرح تھا۔
حضرت سلیمان نےان میں سے  ایک ایسے شیطان کو دیکھا  کہ جس کی آدھا شکل کتے ، اور آدھی  بلی کی شکل کی تھی اس کو کہنےلگے  آپ کون ہیں ؟ جواب دیا کہ میں (مہر بن ہفان بن فیلان ) ہوں تو فرمایا آپکا وظیفہ کیا  ہےاور کونسے کام انجام دیتے  ہو ؟
 بتایا:میرا کام یہ ہے کہ میں  نغمے  گاہےہوں اور دوسرا شراب بناہےہوں اور پیہےہوں ،میں شراب خوری کو انسان کے سامنےزیبا جلوہ دیکر فریب دیہےہوں تاکہ وہ پی لیں ، حضر ت سلیمان نےاسکو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔
حضرت سلیمان نےایک  اور ایسے شیطان کو دیکھا جو بہت  ہی  بد شکل اور کالے  رنگ کا تھا اور اس کےتمام بدن کےبالوں سے خون  ٹپک  رہا  تھا سلیمان نےاس سے پوچھاتم کون  ہو ؟
کہنےلگا میں (ہلہال بن محول ) ہوں، تو فرمایا تمھارا کام کیا ہے؟
کہا کہ میں جنگ اور خون ریزی کا مسئول ہوں تو حضرت سلیمان نےاسکو بھی گرفتار کرنے کا حکم دیا۔تو وہ حضرت سلیمان کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا اے پیغمبر خدا " آپ مجھے گرفتار نہیں کرنا میں روی زمین پر جتنےبھی ظالم و ستمگر ہیں سب کو آپ کےسامنےحاضر کر دونگا اور آپ کےساتھ عہد و پیمان باندھ دونگا کہ آپکی حکومت میں کبھی بھی فساد نہیں کرونگا تو حضرت سلیمان نےاس سے پیمان باندھ  کر اسے  آزاد کردیا۔
حضرت سلیمان کےسامنے سے  ایک ایسے شیطان نےعبور کیا کہ جو بندر کی شکل کا تھا اس کے لمبے لمبے ناخن تھے  اور ہاتھ  میں تار بجانےوالا  کوئی آلہ تھا ،حضرت سلیمان نےپوچھا تم کون ہے ؟
کہا کہ میں (مرہ بن حارث ) ہوں پوچھا تمہارا  کام کیا  ہے؟ کہا کہ میں پہلا شخص ہوں جس نےآلہ موسیقی کو ایجاد کیا  ہےکوئی بھی اس لہو و موسیقی سے لذت نہیں لیہےہےمگر یہ کہ میں اس کو لذت دیہےہوں تو حضرت سلیمان نےاسکو بهی  گرفتار کرنے کا حکم دیا۔
اجنہ کےکچھ اوراقسام :
پیغمبر اسلام سے نقل ہوا  ہےکہ خدا وند متعال نےپانچ قسم کےجنوں کو خلق کیا  ہےسانپ کی شکل میں ،بچھو  کی شکل میں ، حشرات کی شکل میں، آسمانی پرندوں کی شکل میں، اور انسانوں کی شکل میں ،لیکن جن ہمیشہ کتے کی شکل میں ظاہر ہونے کو پسند کرہے ہےیہ اس لئے ہے کہ حدیث میں آیا  ہےخدا وند متعال نےکتے کو شیطان کےلعاب دہن سے خلق کیا ہےاس لئے وہ چاہہےہے کہ کتے کی شکل میں ظاہر ہو۔
یہی وجہ ہےکہ پیغمبراسلام فرماتےہیں کہ کتےضعیف جنوں میں سےہیں،جب کھاناکھاتےوقت کہےآپ کےسامنےہو تو اس کو تھوڑا دیدو یا اس کو وہاں سےبھگادوچونکہ وہ بدنفس ہے ۔
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ کالے رنگ کےکتے اجنہ میں سے ہیں۔
ابو حمزہ ثمالی کہہ رہا ہے کہ میں مکہ اور مدینہ کےدرمیان امام صادق کے ساتھ تھا امام نےاچانک اپنے بائیں طرف پر ایک کالے کتے کو دیکھا  اور فرمانےلگے  آپ کو کیا ہواہےاتنی جلدی میں جارہےہو ؟ تو میں نےامام سے پوچھا میری جان آپ پر قربان ہو یہ کیا تھا ؟ امام نےفرمایا وہ جنوں کا ڈاکیہ (عثم )تھا ابھی ہشام مرگیا  ہےاس خبر کو دوسرے شہروں  میں پہنچانےکے لیے اڑ  رہا ہے۔
اجنہ بعض اوقات  کالی مرغابی یا کالی بطخ  کی شکل میں ظاہرہوتے  ہے،
اور اجنہ یا شیاطین کا کالے  رنگ کو پسند کرنےیا کالے رنگ  میں ظاہر ہونے کی علت یہ ہے کہ  کالے رنگ میں ایک خاص قدرت  ہےکہ جس میں وہ زیادہ قوت کو جمع کر سکہےہے۔
جن اور پری کا کھانا :
روایات میں آیاہےکہ اجنہ کاایک گروہ پیغمبراسلام کی خدمت میں حاضرہواانہوں نےپیغمبراسلام سےمددکرنےکاتقاضاکیا؟
پیغمبر اسلام نےانکو کہا آپ (سرگین ) یعنی حیوانی فضلہ اور بچی ہوئی  ہڈیوں سے  استفادہ کر سکتے  ہو، البتہ ان  چیزوں   کو غذا  یا طعام کےطور پر استفادہ کرنے کو کہا یا کسی  اور کام میں استعمال کرنے کو  کہا اس کے بارے میں معلوم نہیں لیکن روایت میں اس طرح سے تعبیر آیا  ہے
«مَتِّعْنَا فَأَعْطَاهم‌»
اور یہ تعبیر مہم اور با ارزش کاموں کے لیے استعمال ہوتی  ہےبس ہم یہ کہہ  سکتے  ہے کہ  انکو بعنوان طعام استعمال کرنے کو  کہا  ہےایسا نہ کہو یہ کیسے  ممکن  ہےکہ پیغمبر اسلام نےطعام کےطور پر استعمال کرنے کو کہا ہو  ، یہ چیزیں  انسانوں کےنزدیک بہت  ہی  ناپسند اور گندی چیز ہیں ۔ ہم جواب میں کہیں گے  کہ  یہ چیزیں  ناپسند ہیں حالانکہ انسانوں میں سے بعض  ایسے بھی ہیں کہ جو اس فضلہ  سے بھی ناپسند اور بدتر  چیزوں سے اپنا تغذیہ کرتے ہیں لیکن اجنہ کی طبیعت اور انکی ذات کےلحاظ سے شاید یہ چیزیں  ان کے لیے مطلوب ہوں ۔
کسی  اور روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نےانسان کو تخلی کرنے کےبعد اپنے کو  ہڈیوں  اور سرگین سے پاک کرنے سے روکا ہےاور کہا ہے کہ ان سے اجنہ تغذیہ کرتے ہیں۔
کسی اور روایت میں آیا ہے کہ  اپنے بائیں  ہاتھ  سے کھانا اور پانی نہ پیا کرو کونکہ یہ شیطان کا کام  ہے ۔
امام صادق نے اجنہ کی صفات بیان کرتے ہوئے  فرمایا یہ ایسی نازک  مخلوقات میں سے ہیں کہ اپنی غذا کو  بو  اور سانس کےذریعہ سے حاصل کرتے ہیں  ۔
 بس ان روایات کی طرف توجہ دیتے  ہوئے  ہم یہ کہہ  سکتے  ہیں  کہ اجنہ کا کھانا  اور انکی غذا سانس  یا بو  کےذریعہ سے  ہےنہ کہ اس کو چبا کر نگل لیتے  ہوں۔
اور جو بھی غذا ا ن کی طبیعت اور حال کےمتناسب ہو اور ان کےدین و مذہب کےمطابق ہو و ہی  کھاتے ہیں۔
اور اسی طرح سے روایت میں آیا ہے کہ  ہر مسلمان کےگھر کی چھت میں اجنہ مسلمان رہا کرتے ہیں جب دن کےکھانےکا وقت ہوہے ہےتو وہ نیچے آتے  ہیں اور اہل خانہ کےساتھ کھانا کھاتے ہیں اسی طرح  جب  شام کا وقت ہوہے ہےتو ان کےساتھ کھانا  کھاتے  ہیں اور خدا وند عالم اسی وجہ سے اہل خانہ سے بلاوں  کو دور کرہےہے اور یہ اس وقت ہے کہ  جب اجنہ مسلمان ہوں  لیکن اگر اجنہ و شیاطین غیر مسلمان ہوں  تو وہ نجس غذائیں اور مردہ حیوان اور تکبیرکے بغیر  ذبح کیے ہوئے جانور سے اپنا تغذیہ کرتے ہیں  خصوصا ان کےخون اور  ہڈیوں  سے استفادہ کرتے ہیں.
یہی  وجہ ہے کہ  سحراور جادو کی  بعض قسموں  میں سے جب ساحر کسی  جگہ میں سحر انجام دینا چاہتاہےتو اس جگہ پر نجس  ہڈیوں  کو جمع کرہے ہےاور اس شیطان کےنام جسکو مسخر کیا  ہےبعنوان ہدیہ وہاں  رکھ  دیہے ہےتاکہ اس کےکام میں کوئی کوتاہی  نہ ہو  یہ ساحر کی طرف سے ایک  ہدیہ ہےشیطان کےاس عمل کےمقابلے  میں ، خدا کی پناہ مانگتے  ہیں ایسے فاسد اور حرام کاموں سے ؛
اور ضروری ہے کہ انسان کو معلوم ہونا چاہیے  کہ اجنہ نظر بد اوربرے  نفس رکھتے  ہیں لھذا ان میں سے جو بھی انسان کےہاتھ  میں دیکھہےہےجیسا کھانا پینا ،سونا اور حتی کہ جماع کرنے کو بھی حسادت اور خود خوا ہی  کےنگاہ سے دیکھہےہے ۔
روایات میں آیا ہے کہ  ہر کام کےموقع پر اور خصوصا جماع کےوقت بسم اللہ پڑ ھیں  ؛  تاکہ شیطان اس عمل میں شریک نہ ہو جائے ۔
امام زین العابدین علیہ السلام سےروایت ہےکہ ہڈیوں کومکمل صاف نہ کرو کیوں کہ ان میں جنوں کابھی حصہ ہوہےہےاوراگرایساکروگےتو اسکےبدلےمیں آپکےگھرسےایسی چیزوں کوچرا لیںگےکہ جواس ہڈی سےزیادہ باارزش ہیں۔
تعارف اجمالی اجنہ:
(غول، ام صبیان ،سعلاة ،عفریت اور ہمزاد وغیرہ....) ۔
غول :
لغت میں غول ایسے جن کو کہا جاہے ہےجو  رات کی تاریکی میں ظاہر ہوہے ہے، اس غول کو وہ  لوگ  دیکھ  سکتے  ہیں
جو زیادہ تر راتوں کو سفر کرتے ہیں یا زیادہ تنہائی میں رہنےکی کوشش کرتے ہیں۔
غول اپنے قیافہ کےاعتبار سے اتنا بڑا ہے کہ انسان اس کےمقابل میں ایک دودھ پیتے  بچہ کےمانند ہوہےہے ، غول کا کام یہ ہے کہ وہ مسافر کےراستے  کو روک دیہے ہےاور اس کو ڈرانےکی کوشش کرہے ہےاوربعض اوقات اس کو تنگ بھی کرہےہےاور یہاں  تک کہ ممکن  ہےاسکو سحر میں مبتلا کردے کیوں کہ یہ غول جنوں کی نسل سے ہیں اور اجنہ میں  یہ قدرت  ہےکہ وہ انسان  پر سحر کر دیں۔
پیغمبر اسلام سے سوال کیا گیا کہ غول کیا  ہے؟
تو فرمایا کہ غو ل ساحران جن میں سےہیں اوراسکےشرسے امان میں رہنےکےلیے فرمایا کہ اگرکسی وقت غول کا سامنا  ہو ا تو فورا اذان دیا کرو۔
سعلات :
اجنہ کا ایک اور قسم سعلات ہے ؛ سعلات اکثر بیابانوں اور صحراوں میں زندگی کرتے ہیں اور عورتوں  کی شکل میں ظاہر ہوتے  ہیں اگر کسی انسان تک ان کی رسائی حاصل ہو جائے  تو اسکا گلا گھوٹنےکی کوشش کرتے ہیں جس طرح سے کہ مرے ہوئے چو ہےکےجسم سے بلی کھیلتی ہےاسی طرح سے جن انسان کےجسم سے کھیلہےہےاور پھر اس کےبدن کا گوشت کھاہےہے ، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس قسم کا جن  وحشی حیوانوں سے ڈرہے ہےکیوں کہ جب یہ حیوان درندہ اس جن کو دیکھہے ہےتو فورا اس پر حملہ کرہےہےاور اسکو مار ڈالہےہے۔
یہ سب خلقت خداوندی کےعجائب میں سے ہیں کہ اس حیوان میں یہ خاصیت پائی  جاتی ہے کہ  وہ اجنہ پر حملہ کرکہ مار ڈالہے ہےاور یہی  باعث بنہےہے کہ انسان اجنہ کےشر سے محفوظ رہہے ہے ۔
دلہاب :
دلہاب بھی اجنہ کاایک قسم ہے:دلہاب انسانوں کی شکل میں ظاہرہوہےہےاوردریاوں میں زندگی کرہےہےاوردریاوں کےاندر پتھروں پرجوسبزہ ہوہےہےاسی کی مانند اس دلہاب کی جلد ہوتی ہے، اوردریاوں کی کشتیاں جب اس دلہاب کےسامنےسے گزر جاتی ہیں تو وہ ان کوروک دیہےہےاورمسافروں کو دریا میں پھینک دہیے ہے ۔
ام صبیان :
ام صبیان جو کہ انسانوں کےدرمیان زیادہ  ہی معروف  و مشہور  ہےاس قسم کا جن تقریبا تین سو طریقوں سے انسان پر مسلط ہوہےہےجیسا کہ دونوں  پاوں  یا ہاتھوں  یا زانوں کو باندھہےہےیا زبان میں سنگینی  پیدا کرہے ہےاور بدن میں ضعف و سستی  پیدا کرہےہے اور بدشکل بناہےہے، اور بعض اوقات عورتوں کےرحم میں داخل ہوہےہےاور جنین کو ضرر پہنچاتاہے ان کی  ہڈیوں  کو توڑ  دیہےہےاور اس کےگوشت و خون سے اپنا تغذیہ کرہے ہے ۔
اسی طرح سے وہ حائضہ عورت پر مسلط ہوہےہےاور اسکو عقیم بناہے ہے، بوڈھی عورتوں اور مردوں  کو اور اسی طرح بچوں کو بخار میں مبتلا کرہے ہےاور ان کےبدن کو ضعیف و ناتوان  بناہےہے، وہ ہمیشہ  حیوانات اور چارپایوں  پر سوار ہوہے ہے انسان کےمال سے برکت اٹھا ہے ہےاور کشاورزی و صنعت وغیرہ کو تباہ و بربادکرہے ہےکہ جس کا کوئی علاج نہیں ہوتا،  ان  بلاوں کو زیادہ تر ایسے افراد پر لاہےہےکہ جو  ( ثور ،و میزان ) رومی مہینوں میں سے ہیں متولد ہوئے  ہوں جوکہ شمسی مہینوں کےمطابق اردیبہشت اور مہر بنہے ہے ۔
اور اس کےبر عکس جو (زہرہ )کےساعتوں میں متولد ہوئے  ہوں ان کو بہت  ہی دوست رکھتے  ہیں اور ان کےساتھ محبت کرتے ہیں۔
یہ سب ان افراد کے لیے ہے جو خدا کی  یا د سے غاغل ہیں اور اپنے کو خدا کےحفظ و امان سے دور رکھتے ہیں انسان کےان  چیزوں  سے حفظ امان میں رہنےکے لیے مخصوص اذکار اور دعائیں نقل ہوئی  ہیں  کہ انشا اللہ آیندہ آنےوالے درس میں بیان کریں گے ۔
شق :
یہ بھی اجنہ کی اقسام میں سے ایک  ہےجو جنس شیطان میں سے ہیں اس کا آدھا چہرہ انسان اور آدھا حیوان کی شکل کاہوہےہے، اس قسم کا جن بھی جب انسان  تنہائی  سفر میں ہو تو یہ اس کے لیئے  مانع بن جاتاہےاور اسکو اسی حالت
سفر میں ہلاک کرنے کی کوشش کرہے ہے ۔
عفریت :
یہ بھی اجنہ کا ایک قسم ہےجو بہت  ہی طاقتور اورتوانا ہےکہ باقی اجنہ میں سےکوئی بھی اس کی قدرت کےساتھ مقابلہ نہیں کرسکےہےاورایسےکاموں کوانجام دےسکےہےکہ دوسرے انجام دینے سے قاصرہیں اورایسی چیزوں کےبارے میں جانتےہے کہ دوسرےنہیں جانتےہیں اورایسی چیزوں کو اٹھاسکےہےکہ جن کو اٹھا نےسے انسان بھی عاجز ہیں،  
عفریت کی اپنی  ایک حکومت اور بادشاہت  ہےاور اجنہ کی ایک قسم اسکی خدمت میں مصروف ہےاور ان کےاوامر کو بدون چون و چرا انجام دیتے  ہیں اسکی عمر جتنی زیادہ بڑھتی جا تی ہے اتنا  ہی  اسکی عزت اور بادشاہت بڑھتی  جاتی ہیں اور اس کےنوکر و خادم زیادہ ہوتے  ہیں ،لیکن جالب یہ ہے کہ عفریت مومن اپنےزیر دستوں کو اچھے  اور نیک کاموں  کی طرف ترغیب دیکر ان کو  نیک اورصالح  بناتےہیں ،
اوراسکےبرعکس اگرعفریت کافرہوتو وہ اپنےما تحت کو برے کاموں کو انجام دینےکی ترغیب کرہے ہے۔
ہمزاد :
انسان جب متولد ہوہے ہےتو اسی کےساتھ  ہی ایک ہمزاد بھی اس کی شکل کا متولد ہوہے ہے
پیغمبر اسلام کا فرمان ہے کہ آپ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں  ہےمگر یہ کہ  اس کےساتھ اجنہ میں سے ایک اور ملائکہ میں سے ایک (قرین و ہمزاد ) ہمیشہ اس کےساتھ ہوتے ہیں۔
امام صادق سے پوچھا گیا کبھی کبار ہم بغیر کسی  دلیل  کےغمگین اور کبھی خوشحا ل ہوتے ہیں اسکی کیا وجہ ہ ہے؟
امام نےفرمایا کوئی بھی شخص ایسا نہیں مگر یہ  کہ اس کےساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان موجود ہوہے ہےبغیر کسی دلیل کےخوشحال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ فرشتہ اس سے نزدیک ہوہےہے، اور بے دلیل غمگین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ  وہ شیطان اس کےنزدیک ہوہےہے۔
ہمزاد ہمیشہ اور ہر وقت انسان کے ساتھ  ہےاور دن بھر میں انسان جو بھی یاد کرہے ہےجوبھی سےکہہے ہےتو وہ بھی یاد کرہےاور کہہے ہےاور اگر انسان عمر بھر جاہل رہا تو وہ بھی اسی کےساتھ جاہل  ہی رہہے ہےکیوں کہ ہمزاد کسی  چیز کےیاد کرنے یا کہنےکے لیے  اپنے آپ کو زحمت نہیں دیہے ہےیہاں  تک کہ کوئی اس کےمقابل میں قرار پائے ، اگر  کسی چیز کو یاد کرنے کے لیے کوئی اس کےمقابل میں قرار پائے تو اس وقت یہ ہمزاد اسی انسان کےذریعہ سے بہت  کـچھ سیکھنےکی کوشش کرہے ہے،
اور یہ و ہی نکتہ  ہےکہ جب بعض لوگ  جنوں کو تسخیر کرتے ہیں اور گمشدہ اشیاء پیدا کرتے ہیں تو انہیں ہمزاد کےذریعہ سے پیدا کرتے  ہیں ، کیوں کہ ہمزاد ہمیشہ اور ہر وقت  انسان  کے ساتھ  رہہے ہے ۔
انسان جب کسی چیزکو فراموش کرہے ہے تو اس کےساتھ والا وہ ہمزاد اسکو یاد رکھےہے، اور اس جن کو تسخیر کرنے والا  انسان اپنے اس ہمزاد کےذریعہ سے اس گمشدہ اشیاء کو پیدا کرہے ہے ۔
وسواس خناس :
یہ و ہی  جن ہے کہ جو مخفیانہ طور پر نفس انسان کو گناہ انجام دینے پر وادار کرہے ہے۔
امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ  ہر مومن کےدل میں دو کان ہیں ایک پر شیطان وسواس کا تسلط  ہےاور دوسرے پر  فرشتہ الہام کا تسلط  ہے، اور خدا وند عالم اسی فرشتہ الہام کےذریعہ سے  انسان کو تقویت دیہے ہےاور اس بندہ مومن کی تائید کرہے ہےاور یہ و ہی  خدا وندعالم  کا کلام  ہےکہ فرمایا :
 وَ أَیَّدَهمْ بِرُوحٍ مِنْه‌»(19)۔  
وسواس خناس خبیث ترین اور بدترین شیاطین میں سے ہےچونکہ  انسان کو گناہوں  کی طرف ترغیب دیہے ہے
 اور خدا کی معصیت میں مبتلا کرہے ہےمخفیانہ طور پر انسان کی  آرزوں اور دینی معلومات میں شک و تردید پیداکرہے ہے
معصیتوں  اور  برے کاموں  کو اچھا جلوہ دیکر ان کےسامنےپیش کرہے ہےمال ودولت کیلئے  انسان کےدل میں محبت پیدا کرہے ہےاور گناہوں کی اطاعت کرنے پر مجبور  کرہے ہےاور ان کےدل  میں داخل ہوکرانھیں ہر قسم کےوسواس میں مبتلا کرہے ہےاور خداکی یاد سے غافل کرہے ہے۔
امام صادق علیہ السلام نےفرمایا جب سورہ  آل عمران کی آیت 130 میں  خداوند عالم نےفرمایا پرہیزگار لوگ وہ ہیں کہ    جب کوئی برا کام انجام دے دیں  یا اپنے اوپر کوئی ظلم کریں  تو فو را اپنے خدا کو یادکرتے ہیں اور اپنے کئے  پر پیشمان ہوکر توبہ و استغفار کرتے ہیں ۔
ابلیس نےمکہ میں کوہ ثورنامی ایک پہاڑ  پر چڑھ کر تمام عفریتوں  کو مخاطب کر کےبلند آواز میں انکو بلایا جب سب جمع ہو گئے تو کہنےلگے  اے  ہمارے سردار کیا حکم  ہےہمیں کیوں  بلایاہے؟ تو ابلیس نےکہا آپ میں سے کوئی ہےجو قرآن  کی اس آیت کےساتھ مقابلہ کرے ؛تو ایک عفریتی نےکہا میں اسکی ذمہ داری لیتاہوں  کی اس آیت کےمقابلہ میں انسانوں کو اس سے دور رکھونگا  لیکن شیطان نےکہا آپ یہ کام نہیں کر سکو گے  پھر ایک اور جن کھڑا ہو کر کہنےلگا یہ کام میں انجام دونگا تو شیطان نےاسکو بھی رد کردیا،  آخر میں  یہ شیطان وسواس خناس کھڑا ہوا اور کہنےلگا کہ میں اس عہدہ کی ذمہ داری لونگا تو ابلیس نےپو چھا کس طرح سے  انجام دوگے ؟
کہنےلگا میں انسان کو مختلف آرزوں میں مبتلا کرونگا اور جوٹھے  وعدے  دیکر ان کو دھوکہ دونگا تاکہ وہ گناہ اور معصیت میں مبتلا ہو جائیں  اور جب یہ گناہوں میں غرق ہو جائے  گےتو  خدا کی یاد کرنے سے غافل کردونگا ،تو ابلیس نےاسکو اسی کام پر مامور کردیا ۔
اور اسکا نام خناس ہونے کی علت یہ ہے کہ جب یہ  کسی شخص کو معصیت کرنے پر و سوسہ کرہے ہےتو اگر یہ بندہ اپنے خداکی یاد میں اس برے کام کو انجام دینے سے اپنے آپ کو بچا ئے  تو یہ جن بہت  ہےذلیل و خوار ہو جاہے ہےاس لیے اسکا نام خناس رہ گیا ہیں۔
عُمّار المکان (گھروں میں رہنےوالے اجنہ):
یہ بھی اجنہ کا ایک قسم ہیں جو مکانوں  میں رہتے ہیں اور اسی جگہ کو اپنا وطن اور محل زندگی قرار دیتے  ہیں۔
روایات میں آیا  ہےکہ حضرت آدم کی خلقت سے ابھی تک جنوں کی تعداد  انسانوں سے دس  گنا زیادہ  ہےاور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اجنہ کی عمر بہت  ہی  طولانی اور زیادہ ہوتی ہیں ان میں سے بہت  ہی  کم افراد مرتے  ہیں یہی وجہ ہے کہ  زمین پر بہت  ہی  کم جگہیں ہیں  کہ جہاں  پر جن موجود نہ ہوں۔لیکن نکتہ جالب یہ ہے کہ یہ اجنہ اپنے دین ،توانائی ،اور منفعت و ضرر کےاعتبار سے آپس میں مختلف ہیں  ، اور جو بھی گروہ  کسی ایک مکان میں رہہےہےوہ دوسرے سے بالکل  ہی مختلف ہوہےہے۔
جیسا اجنہ عفریت اور ان کےبزرگان ایسے خرابوں میں زندگی کرتے ہیں کہ  جو انسان کے لیے رہنےکے قابل نہیں ہوتی ہےوہ ایسی جگہوں  میں رہتے ہیں تاکہ کوئی ان کےاعمال میں مداخلت  نہ کرے  اور اگر  انسان یا دوسرے اجنہ میں سے کو ئی وہاں جاہے ہےتو وہ  اپنی پوری طاقت کے ساتھ اسکا مقابلہ کرتے  ہیں اور انکو وہاں  سے دور کرتے ہیں اور اگر مغلوب ہو جائے  تو خود اس مکان کو چھوڈنےپر مجبور ہوتے  ہیں۔
لیکن اجنہ کےجو بادشاہ اور حاکم ہوتے  ہیں وہ انسانوں سے بہت  ہی  دور زندگی گزارنے کو پسند کرتے ہیں تاکہ بادشاہت اور حاکمیت کے لیے جگہ کی کمی نہ ہو جائے  اس لیے وہ اکثر بیابانوں اور صحراوں اور پہاڑوں پر اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن جہاں  پر  انسان زندگی گزارتے ہیں یا  کسی جگہ پر کم مدت کے لئے ساکن رہتے ہیں اور جہاں  پر انسانوں کا رفت و آمد کم ہو تو ایسے مکانوں  میں اجنہ بلکل  ہی  نہیں رہتے ہیں۔
انسان اور اجنہ کےدرمیان مختلف پردے  حائل ہیں کہ جس کی وجہ سے اجنہ انسان کو کوئی ضرر نہیں  پہنچا  سکتے  ہیں اور ان کےکاموں  میں دخالت نہیں کر  سکتے  ہیں مگر یہ کہ  انسان خود اپنے گناہوں کےذریعہ سے ان  پردوں  کو ہاتھ  سے جانےدے یا  کسی ایسے کام کو انجام دیکر ان اجنہ کو ضرر پہنچا دے تو اسوقت یہ اجنہ اپنی قدر ت سے اس انسان کو ضرر پہنچاتے ہیں ۔
اسی لیے  روایات میں آیا ہے کہ اپنے گهر کی  اونچی  کسی جگہ پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا کرو اور مستحب ہے
 کہ  انسان گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کر کےداخل ہو جائے اگرچہ گھر میں کوئی نہ بھی ہو۔
راتوں  کو جھاڑو لگانا مکروہ  ہےاور اسی طرح سے پانی چٹکانا ، اگر کوئی گرم پانی گرانا چا ہےتو بسم اللہ پڑھ  کر گرا دے  تاکہ یہاں  پر اگر اجنہ میں سے کوئی ہو تو اسکو ضرر نہ  پہنچے ۔
اسی طرح سے روایات میں آیا ہے کہ اجنہ کےشر سے محفوظ رہنےکے لیے گھر میں کوئی ایسا وسیلہ رکھا کریں  کہ جو اجنہ کی سرگرمی کا باعث بنے ۔
امام صادق  اپنے پدر بزرگوار  سے روایت نقل کرتے ہے کہ گھر میں کوئی جانور مانند کبوتر یا مرغ یا بکری کو رکھنا پسند کرتے تھے  تاکہ جنوں کےبچے  ان سے  کھیلیں اور اپنے بچے محفوظ  رہیں ۔
ایک شخص  امام باقر علیہ السلام کےپاس آکر شکایت کی  یابن رسول اللہ اجنہ اور پریوں  نےہمیں  اپنے گھروں  سے نکال دیا  ہےہمارے گھروں  میں اس قدر انکا آنا جانا ہےکہ ہمارے لئے  یہاں  رہنا مشکل ہوگیا  ہے، تو امام نےفرمایا اپنے گھر کی چھتوں  کو ساڈھے  تین میٹر کا بنا دو اور گھر کےاطراف میں کبوتر رکھا کرو ،تو اس نےکہا یا امام ہم نےیہ کام کیا پھر اس کےبعد کوئی برا کام ان سے نہیں دیکھا۔
اجنہ میں سے بعض انسانوں کےگھروں  میں ساکن ہوتے  ہیں اور معمول کےمطابق ان میں سے ہر کوئی ایسے گھروں  میں رہنےکی کوشش کرتے ہیں جو  مذہب دین اور ان  کےاعتقادات کےساتھ موافق ہو ، لھذا اگر ایسا مکان اور گھر ہو کہ جہاں  خدا کی عبادت و بندگی اور قرآن  کی تلاوت ہوتی ہو تو اجنہ مومن اسی جگہ کو اپنا مسکن بناتے ہیں لیکن ایسا گھر ہو کہ جس میں گناہ اور معصیت خدا انجام پاہےہو، اجنہ کافر اسی مکان  کو اپنا مسکن قرار دیتے  ہیں ۔
یہ بات تجربہ اور حوادث  سے ثابت ہے کہ  اجنہ مومن اگر  کسی کےگھر میں ساکن ہو ں اور اس گھر کا مالک بھی اگر مومن ہوتو اجنہ اس کی  مدد کرتے ہیں اور اسکی خدمت میں رہتے ہیں  اور بعض اوقات اہل خانہ کے بچوں کو بلاوں اور مصیبتوں سے محفوظ رکھتے  ہیں ۔
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ امام سجاد اپنے کـچھ  دوستوں  کےساتھ مکہ جارہےتھے  جب منطقہ عسفان پہنچ گئے  تو امام کےدوستوں  نےان کےخیمہ کو ایک مخصوس جگہ پر نصب کیا اور امام علیہ السلام  جب اس خیمہ کےنزدیک ہو گیے تو کہنےلگے  کیوں  یہاں  پر خیمہ نصب کیا  ہے؟  یہاں  پر  اجنہ اور پریوں  کا ایک گروہ رہہےہے جو ہمارے دوستوں  اور ہمارے شیعوں  میں سے ہیں اور آپکا یہ کام انکو ضرر پہنچاہے ہےاور انکی جگہ کو تنگ کرہے ہے ۔
امام کےاصحاب نےکہا مولی ہم اس  بارے میں نہیں جانتے  تھے  ،خیمہ کو وہاں  سے اٹھا نا چاہتےتھے  کہ اچانک ایک آواز آئی یابن رسول اللہ  خیمہ کو یہاں  سے نہیں ہٹاو  ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ہےہم آپ کیلئے  اس اطر اف کا فروٹ لائنگے  آپ تناول فرمائے ہم انہیں سے متبرک ہو جائے گے اتنےمیں  دیکھا تو خیمہ کی کسی سائٹ  پر ایک  بڑے  برتن میں مختلف قسم کےطعام اور فروٹ لگے ہوئے  تھے  ، امام سجاد نےاپنے تمام دوستوں  کو دعوت دی سب ملکر تناول فرمایا ۔
اجنہ و شیاطین استراق سمع کرتے تھے  یعنی اخبار اور وحی الہی  کو مخفیانہ طور پر سنتے تھے ۔
امام صادق کا فرمان ہے کہ  ابلیس ساتویں  آسمان تک جاہےتھا جب حضرت  عیسی  متولد ہوئے  تو تین آسمانوں  پر جانا ممنوع قرار پایا باقی چوتهے آسمان تک جاہےتھا اور جب پیغمبر اسلام کی ولادت ہوئی تو تمام آسمانوں پر جانےسے ممنوع قرار پایا، اس  کےبعد سے اگر کوئی جانا چاہہےہے تو آسمانی ستاروں  کےذریعہ سے انکو روکا جاہےہے۔
امام کاظم علیہ السلام کی روایت ہے کہ اجنہ پیغمبر اسلام  کی ولادت سے پہلے  استراق سمع کرتے تھے  اور جب پیغمبر اسلام کی رسالت کا آغاز ہوا تو اس کےبعد شہاب کےذریعہ سے انکو روکا گیا  ہےاور سحر و کہانت باطل ہوگیا  ہے۔
امام صادق سے پوچھاگیا غیب گوئی کا اصل سبب کیا  ہےانسان کس طرح سے پیشنگوئی کرہے ہے؟ تو فرمایا کھانت اور غیب گوئی دوران جاہلیت کےساتھ مربوط  ہےاور ہر  کسی زمانےمیں کوئی حادثہ رونما ہوہے ہےجیسا  کسی پیغمبر کا مبعوث ہونا تو اس مدت  میں اس غیب گو  کا مقام و حیثیت لوگوں  کےنزدیک  کسی حاکم یا قاضی کی طرح ہوہےہے اس میں لوگ اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور یہ غیب گو انکو پیشنگوئی کرہے ہے ۔
پیشنگوئی اور کہانت کی بھی کئی صورتیں  ہیں ،تیز بینی یا تیز ہوشی ، وسوسہ نفس اور جادو روح جو اس کےدل میں ہوہے ہے
  چونکہ روئے  زمین پر ہونے والے حوادث کے بارے میں شیطان باخبر ہوہےہے لھذا وہ اس خبر کے بارے میں اس غیبگو کو بہےدیہے ہےاور اس کےاطراف میں ہونے والے واقعات کے بارے میں انکو باخبر کرہے ہے ۔
اما آسمانی اخبار کے بارے میں (شیاطین وہاں  پر استراق سمع میں مشغول ہوتے  ہیں )چونکہ وہاں  کی خبریں پوشیدہ نہیں  ہیں  اور شیاطین بھی ان ستارگان کےذریعہ سے رجم نہیں ہوتے  ہیں۔
ایسے وقت میں انکو استراق سمع سے منع کیا جاہےہیں کہ جب  ان آسمانی اخبار  کے ذریعے سے  وحی الہی  کے لیے کوئی مشکل پیش آجائے  جیسا کہ دستورات الہی  سے لوگوں کو شک و تردید میں ڈالنےکا امکان ہو؛ اور یہ حق کو ثابت کرنے اور شبہ کو نفی کرنے کے لیے  ہے ۔
شیطان صرف آسمانی اخبار میں سے ایک کلمہ جو خدا وند عالم کی طرف سے لوگوں کے بارے میں ہوہے ہےانکو مخفیانہ سنہےتھا اور زمین پر آکر اس کو کاہنوں کےدل میں ڈالہےتھا اور جب اس کےپاس یہ کلمات زیادہ ہوتے تو وہ حق اور  باطل کو پہچانہے ہے،  بس جو بھی اخبار اسکو  ملتے  ہیں سب درست ہوتے ہیں جو کہ اس شیطان سے سنی ہوتی  ہیں اور جو بھی خطا کرہے ہےتو وہ و ہی  باطل بات ہےجو اس نےاپنی طرف سے اضافہ  کی  ہے ۔
اور جب سے شیاطین کو استراق سمع سے منع قرار دیا  ہےاسوقت سے کہانت اور غیبگوئی کا سسٹم  ہی ختم ہوا  ہے۔
لیکن آج کل شیاطین فقط اپنے غیبگویان کو ہی لوگوں  کےبارے میں بتاتے  ہیں شیاطین دوسرے شیاطین کو ایسے
حوادث  جو واقع ہونےوالے  ہیں ان کے بارے  میں خبر دیتے  ہیں حتی کو ئی چور چوری کرنے والا  ہےیا کوئی قاتل قتل کر نےوالا  ہےسب کے بارے میں وہ خبر دیتے  ہیں ۔ شیاطین بھی انسانوں کی طر ح بعض جوٹھے  اور بعض سچے ہوتے ہیں ۔
امام صادق فرماتے ہیں کہ اجنہ میں سے کـچھ  ہمارے دشمن  ہیں  جو ہماری  احادیث کو انسانی دشمنوں  تک پہنچا دیتے  ہیں۔ اجنہ ان اخبار کو دریافت کرنے میں ایک دوسرے سے بہت  ہی  مختلف  ہیں اور یہ ان کےاندر جو خصوصیات اور قدر ت پائی  جاتی ہےاسوجہ سے ہے ۔
ان میں سے بعض اجنہ پوری دنیا کےتمام شرق و غرب کو ایک چشم زدن میں طے کرتے ہیں اور ان  کی یہی سرعت باعث بنتی ہے کہ وہ تمام دنیا کا چکر لگا کر تمام اشیاء کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں اور اسی معلومات کو وہ شخص ساحر کے پاس جاکر بیان کرتے ہیں ۔
اور بعض اجنہ اس طرح کی قدرت وتوانائی نہیں رکھتے ہیں کیوں کہ ان کی قواہ بہت  ہی  ضعیف  ہوتی ہےجس کی وجہ سے وہ جہاں  بھی چا ہیں جاکر خبر نہیں لا سکتے  ہیں، یا یہ وجہ ہے کہ ان سے قوی تر اجنہ و فرشتے وہاں  پر موجود ہیں
  کہ انکو اجازت نہیں دیتے  ہیں ۔
بس اس سے معلوم ہوہےہے کہ  اجنہ و شیاطین یا فرشتے اخبار کو چوری کرتے ہیں نہ کہ علم غیب جانتے  ہیں
اور وہ بھی زمینی اخبار جو انسانی اخبار ہیں ، لیکن  آسمانی اخبار پیغمبراسلام کی ولادت کےبعد انکو استراق سمع سے روکا گیا  ہےکیوں کہ پیغمبر اسلام کا نور تمام آسمانوں کو  نورانی کرہے ہےجبکہ شیاطین و اجنہ کو ظلمت و تاریکی سے خلق کیاگیا ہے تو جہاں  پر نور و روشنی ہو  وہاں  پر تاریکی و ظلمت کے لیے کو ئی جگہ نہیں ہوتی ہیں لھذا ان کےآسمان میں جانےکے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
بس شیاطین آسمان پر جا نہیں  سکتے  ہیں اور حداکثر وہ دنیوی آسمان و کرہ آگ (معلوم نہیں اس کرہ آگ سے کیا مرادہے) وہاں  تک جاتے ہیں اور استراق سمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن نہیں سنتے ہیں اور ان میں سے بعض کـچھ چیزوں   کو سن لیتے  ہیں اور اپنی طرف سے بھی کـچھ چیزوں  کو اضافہ کرکےانہیں بتادیتے  ہیں یہی  وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام نےفرمایا زیادہ تر اجنہ جوٹھے  ہوتے  ہیں۔
ایک ایسی جگہ کہ جہاں  پر نور الہی اور معنویت یا ذکر خدا موجود ہو وہاں  پر شیطان کیسے داخل ہو سکہے ہےاو ر جب وہاں  جانا بھی چا ہےتو وہ جل کر راکھ بن جاہےہے۔
چنانچہ حضرت سلیمان جو کہ ایک نبی تھے  بڑے بڑے شیاطین و اجنہ ان  کی خدمت میں تھے  دن رات ان  کے
سامنےتھے لیکن حضرت سلمان جب اپنےبنائے ہوے اس مکان کو دیکھنےکے لیے گئے تو اپنی عصا پرٹیک لگاکر اسی حالت میں دنیا سے رحلت فرماگئے تو ایک سال تک اسی حالت میں رہےدرحالیکہ تمام اجنہ ان  کی خدمت میں تھے اسی نور کےسامنے ہوتے ہوئے انکو معلوم نہیں ہوا کہ حضرت سلیمان رحلت فرمائے ہیں اور جب خداوند عالم کےحکم سے اس حشرہ نےسلیمان کی عصا ءکو سوراخ کردیا تو  وہ زمین پر گر گئے اسوقت انکو معلوم ہوا کہ وہ رحلت کر گئے ہیں۔ تاریخ کےان تمام واقعا ت میں عاقل انسانوں کے لیے کتنی عبرت اور سبق آموزی ہے۔
اجنہ بھی انسانوں کی طرح قوہ عاقلہ رکھتے  ہیں اور عقل و فہم و اختیار کےمالک ہیں لھذا خدا وند عالم نےجب انکو خلق کیا تو انکو مختلف تکالیف پرمقرر کیا اور ایسی  تکالیف کہ جو اس زمانےکےپیغمبر کی شریعت کےمطابق تھیں اور جب  کسی پیغمبر کی رسالت  منسوخ ہوتی تو پھراس کےبعد آنےوالے پیغمبر کی شریعت کےمطابق عمل کرتے تھے اور یہاں  تک جب پیغمبر اسلام آیا تو سب کےسب دین اسلام کے مکلف ہوئے ان میں سے بعض اجنہ نےاسلام قبول کیا اور بعض ابھی تک حالت کفر پر باقی ہیں۔
اجنہ مومن کے کـچھ نمونے:
سورہ احقاب کی آیات 29-32  میں خدا وند متعال نےاجنہ کےکلام کی حکایت کرتے ہوئے  فرمایا
 «وَ إِذْ صَرَفْنا إِلَیْکَ نَفَراً مِنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ ............... لَیْسَ لَه مِنْ دُونِه أَوْلِیاءُ أُولئِکَ فی‌ ضَلالٍ مُبین‌»(20)
ترجمہ : اور (یاد کیجیے) جب ہم نے جنات کے ایک گروہ کو آپ کی طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن سنیں، پس جب وہ رسول
کے پاس حاضر ہو گئے تو (آپس میں) کہنے لگے: خاموش ہو جاؤ! جب تلاوت ختم ہو گئی تو وہ تنبیہ (ہدایت) کرنے اپنی قوم کی طرف واپس لوٹ گئے۔
٣٠۔ انہوں نے کہا: اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والے ہے، وہ حق اور راہ راست کی طرف ہدایت کرتی ہے۔
٣١۔ اے ہماری قوم! اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول کرو اور اس پر ایمان لے آؤ کہ اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے بچائے گا۔
٣٢۔ اور جو اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول نہیں کرہےوہ زمین میں (اللہ کو) عاجز نہیں کر سکے گا اور اللہ کے سوا اس کا کوئی سرپرست بھی نہیں ہو گا، یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔
اس آیت کی شان نزول یہ ہے کہ  پیغمبر اسلام زید بن حارثہ کےساتھ مکہ کی عکاظ نامی بازار میں گئے اور لوگوں  کو اسلام کی طرف دعوت دی لیکن  کسی نےبھی انکی باتوں کو قبول نہیں کیا اور  جب پیغمبر اسلام مکہ سے واپس آرہےتھے  تو جب وادی مجنہ نامی جگہ پر پہنچے تو وہاں  رک گئے  اور آد ھی  رات کو نماز و عبادت اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہےاس وقت وہاں  سے کچھ اجنہ کا گزر ہوا تلاوت کی آواز سن لیا تو آپس میں کہنےلگے خاموش ہو جاو،  اور پیغمبراسلام(ص) کے قران ختم کرنے تک سنتے رہے،اور جب اپنی قوم کی طرف آگئے تو کہنےلگے  کہ ہم نےایک ایسے قرآن کو سنا ہے کہ  جو حضرت موسی  کےبعد نازل ہوا  ہےاور پہلے  والے ادیان  کی تصدیق کرہےہےاور اس کےپیروکاروں کو راہ حق کی طرف ہدایت کرہے ہے، اے ہماری قوم اس دعوت کرنے والے کی باتوں کو مانو اور اسکی دعوت کو قبول کرو اور ایمان لے  آو پھر  اجنہ نےپیغمبر اسلام کےپاس آکر اسلام قبول کیا اور پیغمبر نےانکو  آداب اسلامی کی تعلیم دی۔
خداوندعالم نےپیغمبراسلام پرسورہ جن نازل کی :
«قُلْ أُوحِیَ إِلَیَّ أَنَّه اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ........»(21)،
کہ دیجئے: میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا اور کہا: ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔
خدا نےان  کی باتوں کو بیان کیا ، اور پیغمبر اسلام کو انکا ولی قرار دیا اور وہ لوگ پیغمبر اسلام کی طرف رجوع کرتے تھے  پیغمبر اسلام نےامام علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ انکو احکام دین کی تعلیم دیدے  اوران کو فقیہ بنادے ۔لھذا بعض اجنہ مومن ، اور بعض کافر اور بعض یہودی و نصرانی اور مجوسی ہیں  کہ یہ سب جنات کی اقسام میں سے ہیں۔
اجنہ مومن کے بارے میں  ایک اور واقعہ جو ایک یہودی عالم نےامام علی علیہ السلام سے نقل کیا  ہےیہودی عالم نےامام علی سے کہا کہ یہ حضرت سلیمان ہے کہ جو  تمام شیاطین پر حکومت کرہے ہےاور سب اس کےما تحت چلتے ہیں اور وہ جو بھی چاہہے ہےاسکو بناتےہیں جیسا معبد ،تمثیل و تندیس اور مجسمین وغیرہ تو امام علی نےکہا جی ہاں اس طرح سے ہے لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو اس سے بڑھ  کر عطا ہوا ہےکیوں کہ شیاطین ایسے وقت میں حضرت سلیمان کےانڈر میں آگیے  تھے  کہ جب وہ اپنے کفر پر  باقی تھے  جبکہ پیغمبر اسلام کےماتحت جو شیاطین تھے  وہ سب  کے سب مومن تھے ۔
بس بزرگان اجنہ میں سے نو افراد  کہ جن میں سے ایک نصیبین تھے  اور باقی آٹھ نفر جو  کہ  بنی عمر بن عامر میں سے تھے
(شفاہ ، مضاہ ، ہملکان ،مرزبان، مازمان ، نضاہ ، ہاضب، ہضب  اور عمرو) جو پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے  یہ ایسے لوگ ہیں کہ خداوند عالم نےان کے بارے میں فرمایا :
«وَ إِذْ صَرَفْنا إِلَیْکَ نَفَراً مِنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ»(22)
ترجمہ : : اور (یاد کیجیے) جب ہم نے جنات کے ایک گروہ کو آپ کی طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن سنیں، پس جب وہ رسول کے پاس حاضر ہو گئے تو (آپس میں) کہنے لگے: خاموش ہو جاؤ! جب تلاوت ختم ہو گئی تو وہ تنبیہ (ہدایت) کرنے اپنی قوم کی طرف واپس لوٹ گئے۔
بس  جنیان پیغمبر اسلام کی خدمت میں آگیے ۔ اس وقت پیغمبر اسلام نخلستان میں تھے ؛  انہوں  نےمعذرت خوا ہی  کرکےکہا ہم نےیہ گمان کیا ہوا تھا کہ خدا وند عالم نے کسی کو مبعوث نہیں کیا  ہے ۔  پھر ان کےپیچھے  71 ہزار افراد نےپیغمبر اسلام کے ہاتھ  پر بیعت  کی ۔ یہ سب روزہ دار اور نماز پرھنےوالے ہیں؛ اور حج اداکرنےوالے  ہیں؛ جہاد اور مسلمان کے لیے اچھے  کام کرنے والے ہیں اور خدا وند عالم کے بارے میں ان کےذہن میں جو  بے ہودہ باتیں تھی  ان کے بارے میں معذرت خوا ہی کی ۔
اے  یہودی اس طرح کا عطا کرنا بہتر وبرترہے اس سے کہ جو سلیمان کو عطا ہوا  پس پاک و منزہ  ہےوہ خدا کہ جنہوں  نےشیاطین کو نافرمانی کےبعد حضرت محمد کی نبوت کے لیے مسخر کیا ، وہ لوگ فکرکرتے تھے  کہ خداوند عالم صاحب اولاد ہیں لیکن پیغمبر اسلام کی بعثت سے بہت سارے جن و انس شامل ہوگیے ہیں۔
اجنہ مومن کا ایک اور نمونہ جو سعد اسکاف نےنقل کیا  ہےکہ اپنے بعض کاموں  کے بارے میں امام محمد باقر کےپاس جاہےتھا جب میں نےچاہاکہ کمرے میں داخل ہو جاوں  تو امام نےفرمایا جلدی  نہ کرو میں سورج کی اس گرمی کی تپش سے سایہ میں جانےکے لیے پھر  ہےرہا لیکن اچانک دیکھا تو امام کےاس کمرے  سے کچھ لوگ خارج ہوئے  کہ جن کو پہلے  کبھی نہیں دیکھا تھا وہ حشرات کی شکل میں تھے  اور بہت  ہی  کمزور و ضعیف  تھے  ان کو دیکھ  کر میں حیران ہوا اور تعجب سے اس گر می کی شدت میں انتظار کو بھول گیا ، اور جب میں امام کی خدمت میں حاضر ہوا تو امام نے فرمایا لگہےہے کہ  میں نےآپ کو ناراحت کیا ؟ کہا کہ ہاں میں اپنی حالت کو بھول گیا چونکہ سامنےسے ایسے لوگوں  کو گزرتے ہوئے  دیکھا  جو بہت  ہی خوبصورت تھے  اور عبادت کی وجہ سے ان کےبدن کمزور ہو گئے تھے  تو امام نےفرمایا اے سعد آپ نےانکو دیکھا ؟کہنےلگا ہاں تو امام نےفرمایا وہ طائفہ جن میں سے آپ کےبرادر ہیں ۔
میں نےعرض کیا کہ کیا وہ آپ کی خدمت میں آتے ہیں ؟ تو فرمایا جی وہ ہمارے پاس آتے ہیں اور اپنے دینی مسائل حلال و حرام کے بارے میں شرعی مسائل پوچھتے  ہیں۔
 کسی اور روایت میں آیا ہے کہ  جب امام حسین کے ساتھ کربلا کےمیدان میں  واقعہ پیش آیا تو امام کی مدد کرنے کے لیے اجنہ کا ایک گروہ جو پرندوں  کی  شکل میں تھا امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا  کہ یا ابا عبداللہ ہم آپ کےپیروکاروں میں سے ہیں آپ ہمیں جو بھی امر کر دیں ہم اس کی اطاعت کریں گے ۔  اگر آپ ہمیں اجازت دیدیں  تو  دشمنوں کے ساتھ جنگ کریں گے  اور سب کو نابود کریں گے ۔لیکن امام حسین نےانکو اجازت نہیں دی ور فرمایا کہ خدا وند عالم کا حکم یہی  ہے کہ  میں اس بیابان  میں شہید ہو جاوں۔
 کسی اور روایت میں آیا ہے کہ  امام صادق فرماتے  ہیں  جنوں میں سے عفراء نام کی ایک عورت پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوتی تھی  اور ان کی  باتوں کو سنتی تھی اور واپس اپنے قوم میں جاتی تو دوسرے اجنہ ان کےہاتھوں اسلام قبول کرتے تھے  لیکن پیغمبر اسلام نےاس عورت کو کچھ مدت تک نہیں دیکھا؛  جبرئیل سے اس کے بارے میں پوچھا تو کہنےلگا وہ اپنی  کسی بہن کو دیکھنے گئی  ہےکہ جو خدا کی  خاطر اس کو بہت دوست رکھتی ہیں ،تو پیغمبر اسلام نےفرمایا خوش نصیب  ہیں  ایسے لوگ جو خدا کےخاطر دوسروں کو دوست رکھتے ہیں ۔
خدا وند متعال نےبہشت میں سرخ  یاقوت کا ایک ستون قرار دیا  ہےکہ جس پر ستر ہزار عمارتیں استوار ہیں اور ہر
عمارت میں ستر ہزار کمرے  ہیں کہ خدا وند عالم نےاس جگہ کو ایسے لوگوں  کے لیے تیار کیا  ہے جو خدا کی  خاطر ایک دوسرے سے دوستی کرتے ہیں ایک دوسرے کی زیارت کرنے جاتے ہیں۔
اجنہ مومن اوراجنہ کافرکےدوسرےنمونے:
سلمان کہہ رہا ہے کہ ایک دن پیغمبر اسلام اپنے اصحاب کےساتھ ابطح نامی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا اور باتوں میں لگا ہوا تھا کہ اچانک ہوا کا ایک گرد اٹھا  اور چلتے  چلتے پیغمبر کےسامنےآکر کھڑا ہوا اور اس گرد سے اچانک ایک شخص ظاہر ہوا اور کہنےلگا یا رسول اللہ میں اپنے قبیلہ کا نمائندہ ہوں اور آپ کی پناہ میں آئے  ہیں کہ آپ  ہمیں پناہ دی دیں اور اپنی طرف سے میرے ساتھ کوئی بندہ بھیج  دیں  تاکہ ہمارے قبیلہ میں آکر تحقیق  کرے اور ہمارے درمیان حکم خدا اور قرآن کےمطابق فیصلہ کرے  اور کہا کہ آپ میرے اوپر اعتماد کریں  کہ  میں اس بندہ کو دو دن میں صحیح و سالم لوٹادونگا۔ تو پیغمبر اسلام  نےاس سے پوچھا آپ کون  ہیں  اور کس قبیلہ سے  ہیں؟
کہا کہ میں عرفطہ ،شمراخ کابیٹا  ہوں اور قبیلہ بنی نجاح سے تعلق رکھہےہوں کہ ہم اپنے خاندان کےساتھ استراق سمع کرتے
تھے  اور جب سے یہ کام ممنوع قرار دیا  ہےہم نےاسلام قبول کیا  ہےاور جب آپ مبعوث ہوئے  تو آپ پر ایمان لائے  ہیں جیسا کہ آپ خود جانتے  ہیں  کہ  ہم آپ کو قبول کرتے ہیں لیکن ہماری  قوم میں سے بعض ہماری  مخالفت کرتے ہیں اور اپنے سابقہ دین پر باقی  ہیں لھذا ہمارے درمیان اختلاف ہوا  ہےاور  انہوں  نےہمارے اوپر ظلم کیا  ہےاور ہمیں ضرر پہنچایا ہےلھذا آپ میرے ساتھ کوئی بندہ بھیج دیں  کہ ہمارے درمیان حق کا فیصلہ کرے ۔
پیغمبر اسلام  نےاسکو کہا کہ اپنا اصلی چہرہ دکھاو تاکہ  آپکو  اصل شکل میں دیکھوں ؟
تو سلمان کہہ رہا ہے کہ  اس نےاپنے اصلی چہرے کو کھولا تو ہم نےدیکھا  کہ اسکا لمبا سر  ہےاور چہرے پر بال  ہی  بال ہیں اور آنکھیں بھی سر کی طرح بڑی  تھی  اس کےدانت درندوں  کی  طرح تھے  لیکن پیغمبر اسلام نےاسکو قول دیا کہ اس کےساتھ کوئی بندہ بیھج دیگا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ کل تک واپس لوٹا دیگا۔
پیغمبر اسلام نےابو بکر کی طرف دیکھ  کر کہا کہ آپ عرفطہ کےساتھ جاو اور ان  کی وضعیت کے بارے میں تحقیق کرکے ان کےدرمیان حق کا فیصلہ کردو۔
ابوبکر کہنےلگا یارسول اللہ وہ لوگ  کہاں رہتے  ہیں ؟ تو پغمبر اسلام نےکہا وہ زمین کےاندر رہتے  ہیں ،تو کہا یہ کیسے  ممکن ہے کہ  میں زمین کےاندر جاوں اور ان کےدرمیان حق کافیصلہ کروں  درحالیکہ انکی زبان میں نہیں سمجھہےہوں۔
پھر پیغمبر اسلام نےعمر ابن خطاب کی طرف متوجہ ہوکر وہی  باتیں اسکو  کہیں تو اس نےبھی و ہی  ابوبکر والی باتوں کو دہرایا اور جانےسے انکار کیا۔
پھر عثمان کی طرف متوجہ ہوکر و ہی  الفاظ دہرائے  لیکن و ہی  ابوبکر وعمر والا جواب  ملا ،تو پھر پیغمبر اسلام  نےامام علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوکر کہا آپ عرفطہ کےساتھ جاو اور ان کےدرمیان حق کا فیصلہ کرو  تو امام ان کےساتھ چلا گیا، سلمان کہہ رہا ہے کہ  میں اس خوف سے کہ وہ امام کو کوئی ضرر نہ  پہنچائیں  ان کےپیچھے  پیچھے  چلا گیا اور یہاں  تک کہ ایک درہ میں پہنچے  ، کہ امام علی نےمجھے  دیکھ  کر کہا کہ آپ یہاں  سے  واپس جائیں لیکن میں وہاں  پر  کھڑا دیکھہےرہا اچانک  زمین  میں شگاف ہوا اور وہ اندر چلے گئے اور میں  اس خوف سے  کہ امام علی کو کیا ہوجائے  گا افسوس کرتے ہوئے  واپس ہوا ۔
اگلے صبح کو پیغمبر اسلام اپنے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھ کر صفاء پر بیٹھ گئے تھے کہ امیر المومنین نےآنےمیں دیر کی نماز ظہر کا وقت ہوا اصحاب نےہر قسم کی باتیں کرنا شروع کیں اس جن نےپیغمبر کو دھوکہ دیا ہے ؛  خدا نےہمیں ابوتراب سے چھٹکارا دیا اور پیغمبر اسلام کا جو علی پر فخر تھا وہ خاک میں مل گیا اور اسی طرح کی بہت ساری باتیں کرنے لگے  پیغمبر اسلام ظہر کی  نماز پڑھ کر دوبارہ اسی جگہ پر آکر انتظار کرنے لگے  یہاں  تک کہ عصر کا وقت ہوا پھر بھی امام علی واپس نہ آئے تو بہت سارے لوگ امیر المومنین سے ناامید ہونے لگے اسی طرح انتظار کرتے کرتے غروب کا وقت ہوا ، منافقین نےپیغمبر کو سرزنش کرنا شروع کی اور امیر المومنین  کی  نابودی پر یقین کرنے لگے لیکن اچانک دیکھا  تو صفاء کی اس زمین میں شگاف پڑا اور امیر المومنین اس سے باہر آئے  ایسی حالت میں کہ ابھی اس کی تلوار سے خون ٹپک رہا تھا اور عرفطہ  بهی اس کےساتھ تھا۔
پیغمبر  اسلام کھڑے ہوے اور امام کی  پیشانی اور آنکھوں کا بوسہ دیا اور فرمایا اے علی کس وجہ سے دیر کی ؟توامام نےفرمایا بہت ساری منافق پریوں  کےپاس گیا ہواتھا جو عرفطہ اور اسکی قوم پر ظلم کیا کرتی تھیں میں نےانکو  تین کاموں  میں سے ایک کےانتخاب کرنے کی طرف دعوت دی ،عرفطہ اور اس کی  قوم کی چراگاہاہوں  کو واپس لوٹانےکی طرف دعوت دی لیکن  انہوں  نےقبول نہیں کیا  جنگ کرنے کے لیے تیار  ہو گئے تو میں نےاپنی  تلوار سے اسی ہزار کو قتل کردیا اور جو باقی بچے تھے انہوں  نےجب یہ صورتحال دیکھی  تو  امان چاہا اور صلح کرنے پر آمادہ ہو گئے  اور اسلام قبول کیا میں ابھی وہاں  پر تھا اس لیے دیر ہو گئی ۔ عرفطہ نےکہا یا رسول اللہ خدا وند عالم آپ کو اور امیر المومنین کو جزائے خیر دیدے۔
جنات کی امام حسین پر عزاداری و گریہ :
ابن نما اپنے کتاب مثیر الاحزان میں لکھہےہے کہ جب اجنہ امام حسین  کےلیے نوحہ و عزاداری کرتے تھے  تو  اصحاب پیغمبرمیں سے ایک گروہ کہ جن میں سے ایک میسور بن مخربہ بھی تھا ان نوحوں کو سنتے تھے  اور رو رتے  تھے ۔
صاحب کتاب زخیرہ نےعکرمہ سے حکایت کی ہےکہ امام حسین علیہ السلام کےقتل ہونے والی اس رات کو مدینہ میں ایک منادی کی آواز سن رہےتھےلیکن اس کونہیں دیکھتےتھےبلندآواز میں اس طرح سے ندا دےرہا تھا۔
أَیُّها الْقَاتِلُونَ جَهلًا حسیناً  ***   أَبْشِرُوا بِالْعَذَابِ وَ التَّنْکِیلِ
کُلُّ أَهلِ السَّمَاءِ یَدْعُو عَلَیْکُمْ  ***   مِنْ نَبِیٍّ وَ مَلْأَکٍ وَ قَبِیلٍ
قَدْ لُعِنْتُمْ عَلَى لِسَانِ ابْنِ دَاوُدَ *** وَ مُوسَى وَ صَاحِبِ الْإِنْجِیل
اے  قاتلین  " کہ جنہوں  نےاپنی  جہالت کی وجہ سے  امام حسین کو قتل کیا آپ کو جہنم کےعذاب کی خوشخبری دے رہا ہوں۔
تمام اہل آسمان آپ کو بد دعا دے رہےہیں پیغمبران ، ملائکہ اور دوسرے لوگ اور  یہی حقیقت ہے کہ آپ پر حضرت داود حضرت موسی اور حضرت عیسی  کی زبان سے لعنت ہوئی  ہے ۔
میثمی نقل کرہےہے کہ  اہل کوفہ میں سے پانچ افراد جو امام حسین کی  مدد  کرنے کےقصد سے نکل گئے  جب یہ لوگ  (شاہی)  نام کی ایک قریہ میں پہنچ گئے تو اچانک ان کےسامنےایک بوڑھا اور ایک جوان ظاہر ہو گئے اور انکو سلام کیا بوڑ ھے نےکہا کہ میں طائفہ جن سے ہوں اور یہ میرا بھائی زاد ہے‌ہمارا مقصد امام حسین کی مدد کرنا  ہے۔  پھر کہا کہ میرا ایک مشورہ  ہے، تو اہل کوفہ میں سے ایک نےکہا آپ کا مشورہ کیا  ہے؟ کہا کہ میں پر واز کرتے ہوئے  جلدی جاکر امام حسین اور اس کےاصحاب کے بارے میں کوئی خبر لاونگا اور آپ لوگ اپنے مقصد کی طرف حرکت کریں ، راوی کہہےہے کہ  یہ جن وہاں  سے چلا گیا اور ایک دن کاملا ان کی  آنکھوں سے  غایب  رہا دوسرے دن صبح کو  انہوں  نےایک آواز سنی لیکن  کسی کو نہیں دیکھا اور وہ اپنی  آواز میں کہہ  رہا تھا :

وَ اللَّه مَا جِئْتُکُمُ حَتَّى بَصُرْتُ بِه  ___  بِالطَّفِّ مُنْعَفِرَ الْخَدَّیْنِ مَنْحُوراً
وَ حَوْلَہ فِتْیَةٌ تَدْمَى نُحُورُہمُ    __  مِثْلَ الْمَصَابِیحِ یَمْلَوْنَ الدُّجَى نُوراً
وَ قَدْ حَثَثْتُ قَلُوصِی کَیْ أُصَادِفَهمْ  _  مِنْ قَبْلِ مَا أَنْ یُلَاقُوا الْخُرُدَ الْحُورَا
کَانَ الْحسین سِرَاجاً یُسْتَضَاءُ بِه  ___     اللَّه یَعْلَمُ أَنِّی لَمْ أَقُلْ زُوراً
مُجَاوِراً لِرَسُولِ اللَّه فِی غُرَفٍ    ___     وَ لِلْبَتُولِ وَ لِلطَّیَّارِ مَسْرُورا
ترجمہ : خدا کی قسم میں آپ کےپاس نہیں آیا ہوں مگر میں نےاپنی  آنکھوں سے دیکھا ہے کہ  سر زمین طف میں ایک ایسا سر کٹا ہوا  ہےکہ جس کےدو رخسار زمین پر مٹی میں ملے  ہوئے  ہیں ،
اور اس کےاطراف میں ایسے  جوان گرے  ہوئے  ہیں  کہ جن کےحلقوم سے خون جاری ہوہے ہےوہ اس چراغ کی مانند  ہیں کہ جو تاریکی اور ظلمت کو دور کرتی ہے ،
اپنے ناقہ کو ایسا دوڑایا  تاکہ ان کےباکرہ  حوروں سے ملاقات کرنے سے پہلے  ان  کا  ہم رکاب ہو جاوں ،
حسین ایک نہ بجھنےوالا چراغ تھا کہ خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں بولہےہوں ،حسین بہشت کےان کمروں  میں پیغمبر اسلام اور حضرت زہرا اور جعفر طیار کے مجاور ہوں گے  اس حالت میں کہ وہ بہت  ہی  خوش ہوں گے  ۔
اور بعض جوانوں  نےاس آواز کےجواب میں فرمایا :
اذْہبْ فَلَا زَالَ قَبْرٌ أَنْتَ سَاکِنُه_  إِلَى الْقِیَامَةِ یُسْقَى الْغَیْثَ مَمْطُوراً
وَ قَدْ سَلَکْتَ سَبِیلًا أَنْتَ سَالِکُه _  وَ قَدْ شَرِبْتَ بِکَأْسٍ کَانَ مغروراً
وَ فِتْیَةٌ فَرَغُوا لِلَّه أَنْفُسَهمْ   _  وَ فَارَقُوا الْمَالَ وَ الْأَحْبَابَ وَ الدُّورا
ترجمہ :جاو کہ جس قبر میں آپ ہو وہ زندہ و جاوید ہوں  اورہےقیام قیامت وہاں  بارش برستی رہے ، میں نےایسے راستے  کو پالیا کہ جس راستے  کو تو نےانتخاب کیا تھا اور اس برتن سے پی لیا کہ جو  بہت  ہی  زیادہ فراخ تھا
اور اسی طرح سے ایسے راستے  کو پیدا کیا کہ جس میں جوانوں نےاپنی  جان کو خدا کی راہ میں قربان کردیا اور اپنے مال و دولت اور اپنے گھروں سے جدا ہو گئے ۔
جالب یہ  ہےکہ تمام مومن  اجنہ  امام حسین علیہ السلام اور دوسرے تمام اہل بیت کی عزاداری اور  مجلس برپا کرتے ہیں اوراسکےعلاوہ یہ لوگ دوسروں کی مجالس میں بھی شرکت کرتے ہیں اور رویا کرتےہیں اوربعض اوقات یہ لوگ انسانوں سے بھی زیادہ غمگین اور ناراحت ہو جاتے ہیں۔
اس مقالہ کو لکھنےوالا کہہ رہا ہے کہ میں ایک دن امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پڑھ  رہا تھا  میں نےخود ان کےرونےکی آواز سنی ہےاتنی  بلند آواز میں رو رہےتھے  کہ آج تک  کسی کو اس طرح سے روتے  ہوئے  نہیں دیکھا  تھا میں  ڈر گیا کہ شاید اس رونےسے وہ مر نہ جائے  لھذا میں نےاپنی مجلس کو ختم کر دیا۔
اجنہ کےبارےمیں جواہم مباحث ہیں ان میں سےایک جوسب سےزیادہ قابل بحث ہےوہ اجنہ کوتسخیرکرنےکےبارے میں ہے، اجنہ کوتسخیرکرنےسےمرادیہ ہےکہ انسان بعض امورکو انجام دیکرجنکواپنے اختیارمیں لیتاہے
تاکہ جو بھی کام چاہئے وہ اس سے انجام دےسکے ۔ خدا وند عالم قرآن مجید میں فرماہے ہے:
«وَ مِنَ الشَّیاطینِ مَنْ یَغُوصُونَ لَه وَ یَعْمَلُونَ عَمَلاً دُونَ ذلِکَ وَ کُنَّا لَهمْ حافِظین‌»(23)؛
ترجمہ: اورشیاطین میں سے کچھ (کومسخربنایا) جو ان کے لیے غوطے لگاتے تھے اور اس کے علاوہ دیگر کام بھی کرتے تھے اور ہم ان سب کی نگہبانی کرتے تھے۔
«وَ حُشِرَ لِسُلَیْمانَ جُنُودُه مِنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ وَ الطَّیْرِ فَهمْ یُوزَعُونَ»(24)
ترجمہ:اورسلیمان کےلیےجن اورانسانوں اورپرندوں کےلشکرجمع کیےگئےاوران کی جماعت بندی کی جاتی تھی۔
«وَ لِسُلَیْمانَ الرِّیحَ غُدُوُّها شَهرٌ وَ رَواحُها شَهرٌ وَ أَسَلْنا لَهعَیْنَ الْقِطْرِ وَ مِنَ الْجِنِّ مَنْ یَعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْه بِإِذْنِ رَبِّه وَ مَنْ یَزِغْ مِنْهمْ عَنْ أَمْرِنا نُذِقْه مِنْ عَذابِ السَّعیرِ۔  (25)
ترجمہ : اور سلیمان کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک ماہ کا راستہ اور شام کے وقت کا چلنا بھی ایک ماہ کا راستہ (ہوتا) اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا اور جنوں میں سے بعض ایسے تھے جو اپنے رب کی اجازت سے سلیمان کے آگے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے انحراف کرہےہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا ذائقہ چکھاتے۔
یَعْمَلُونَ لَه ما یَشاءُ مِنْ مَحاریبَ وَ تَماثیلَ وَ جِفانٍ کَالْجَوابِ وَ قُدُورٍ راسیاتٍ اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُکْراً وَ قَلیلٌ مِنْ عِبادِیَ الشَّکُورُ»(26)۔
سلیمان جو چاہتے یہ جنات ان کے لیے بنا دیتے تھے، بڑی مقدس عمارات ، مجسمے ، حوض جیسے پیالے اورزمین میںگڑی ہوئی دیگیں، اے آل داؤد! شکر ادا کرو اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔
ان کےعلاوہ قرآن مجید میں بہت ساری  آیات موجود ہیں جو اس مطلب کو بیان کرتی  ہیں کہ اجنہ یہ قدرت رکھتے تھے  کہ وہ انسان کے لیے بہت سارے کام انجام دیدیں  اور انسانوں کی خدمت میں رہیں اور ایسے سخت کام انجام دیدیں کہ جسکو انجام دینے سے انسان بھی عاجز  ہے ۔
اور حضرت سلیمان کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ  جب حضرت سلیمان کو معلوم ہوا کہ اجنہ و شیاطین میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو خراب کاری کرتے  ہیں  اور فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ملائکہ ان کو  تازیانےمارتے ہوئے  ان کو روک رہےہیں ،حضرت سلیمان نےان کو گرفتار کرکےبہت سخت کام ان کےذمہ لگایا اور مختلف کام کو ان کےدرمیان تقسیم  کیا،  جیسے  لوہا بنانا  پتھر  توڑنا اور درختوں کےکاٹنےپر مامور کیا اور ان کی  بیویوں  کو ابریشم اور کپاس کےذریعے فرش اور تکیہ  بنانےپر مامور کیا۔
حضرت سلیمان نےبعض اجنہ کو حوض کی مانند بڑے بڑے برتن اور ظروف بنانےکا حکم دیا، اجنہ  نےپتھروں کی  بڑی بڑی  دیگیں  بنایئں  اور یہ  اتنی بڑی تھیں  کہ ایک دیگ میں ایک ہزار بندوں کے لیے کھانا بنا سکتے  تھے ۔
اور  اجنہ میں سے بعض آٹا گھوندنےمیں اور بعض کھانا بنانےپر ، اور اسی طرح بعض غواصی کرنے پر مامور تھے
 جو دریا سے جواہر کو استخراج کرتے تھے  اور  بعض اجنہ زمین کےاندر سے  گنج نکالنےپر مامور تھے  خلاصہ اجنہ میں سے ہر کوئی  کسی سخت کام پر مامور تھا  جس کی وجہ سے ان کو خراب کاری کرنے یا فساد کرنے کاموقع  ہی  نہیں ملا ،
 یہی وجہ ہے کہ حضرت سلیمان کی حکومت  بہت ہی مستحکم ہو گئی۔
حضرت سلیمان نےان عفریت میں سے  کسی کو دستور دیا کہ وہ ایسے گلاس اور پیالیاں  بنالے کہ جن میں پانی پیتے   وقت اس کےاندر شیاطین نظر آجا ئیں  تاکہ تمام شیاطین اس کی نظر میں ر ہیں  اور پھر حکم دیا کہ ایک ایسا شہر بنائیں  کہ جس کی دیواریں اور چھت  کسی چیز کو دیکھنےکے لیے  مانع  نہ  بن جائے  تو عفریتوں  نےایک ایسا شہر بنایا کہ جسکا طول و عرض اس کےتمام لشکر کےبرابر تھا۔ اس شہر میں اجنہ کےہر گروہ اور ہر طائفہ کے لیے ایک مخصوص قصر بنایا گیا کہ جس کا طول و عرض ایک ہزار زراع تھا اور ہر قصر میں مخصوص کمرے  بنا‌ئے  جو مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ تھے  اور اسی طرح سے ان کےبزرگان  دانشمندان  اور قاضی القضاة  وغیرہ کیلئے  ایک مخصوص محل بنایا کہ جسکا طول و عرض ایک ہزار زراع تھا اور حضرت سلیمان کے لیے ایک مخصوص قصر بنایا کہ جس کا ساخت  ہی  عجیب تھا عجیب طریقہ سے تھا کہ جس کا طول وعرض پانچ ہزار زراع تھا اور اسکو جواہرات کےزریعہ سے مزین کیا تھا اور جب حضرت سلیمان ہوا پر بیٹھ کر اس شہر کےاوپر سے گزرہےتھا تو اس کےاندر  تمام  چیزوں کو  دیکھہےتھا یہاں  تک کہ کچن میں کھانا بنانےوالے بھی انکو نظر آتے تھے۔
 خلاصہ سب چیزیں ان کی نظرمیں تھیں اورتمام شیاطین کاکوئی بھی کام اس سےمخفی نہ تھاسب کووہ دیکھ رہاتھا۔
شاعر کو ہدیہ اور جن سے نجات کا ایک طریقہ :
مرحوم شیخ طوسی نےاپنی  کتاب میں امام ہادی سے نقل کیا ہے کہ  امام کاظم علیہ السلام کی حکایت  ہےکہ ایک دن میرے والد گرامی امام جعفر صادق  بیماری کی حالت میں بسترے میں تھے اور میں ان کےسرہانےپر بیٹھا ہوا تھا کہ شعراء میں سے ایک اشجع سلمی امام کی عیادت کے لیے آگئے اورفکراورغمگین  حالت میں  امام کے پاس  آکر  بیٹھ  کر گئے میرے والد امام صادق اسکو مخاطب کرکےکہنےلگے
اے  اشجع کس چیز کی وجہ سے آپ فکر مند ہیں ؟  کس لئے غمگین ہو؟  اپنی حاجت بیان کرو۔
 تو اشجع نےامام  کی  مدح میں اشعار کےدو بند پڑھے ، امام صادق نےاپنےکسی غلام کو بلاکر پوچھا کتنا پیسہ بچا ہے؟ غلام نےکہا یا امام چارسو درہم باقی بچے ہیں۔ تو امام نےکہا کہ وہ اشجع کو دے  دو !  جوں  ہی  اس کو ہدیہ ملا وہ چلا گیا تو امام نےاسے  واپس بلا لیا ، تو کہنےلگا یا مولا آپ نےمجھے ہدیہ دیا تھا مجهے مالا مال کر دیا تھا  پھر  کیوں  بلایا  ہے؟ تو امام نےکہا میں نےاپنے والد گرامی سے سنا ہےاور  انہوں  نےپیغمبر اسلام سے سنا  ہےکہ بہترین ہدیہ وہ  ہےجو باقی رہنےوالا ہو اور جو میں نےآپکو دیا  ہےوہ تو کچھ بھی نہیں  ہےلھذا اس انگوٹھی کو بھی لیکر جاو ، اپنی ضرورت کےوقت اس کو بھیج دو ؛  تو اشجع نےکہا مولا آپ نے مجھے بے  نیاز کر دیا لیکن میں زیادہ تر سفر پہ جاہےہوں اور بعض اوقات میں اس سفر سے بہت ڈرہےہوں لھذا اگر ممکن  ہےتو  کسی ایسی دعا کی تعلیم دے دیں کہ جس کےصدقے  میں محفوظ رہ سکوں ؟ توامام  نے اس کوفرمایا  جب بھی آپ ڈرو ! تو اپنے دائیں  ہاتھ  کو سر پر رکھو اور بلند آواز میں یہ آیت پڑا کرو :
«أَ فَغَیْرَ دینِ اللَّه یَبْغُونَ وَ لَه أَسْلَمَ مَنْ فِی السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ طَوْعاً وَ کَرْهاً وَ إِلَیْه یُرْجَعُونَ»(27)
ترجمہ : کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کسی اور دین کے خواہاں ہیں؟ حالانکہ آسمانوں اور زمین کی موجودات چار و ناچار اللہ کے آگے سر تسلیم خم کیے ہیں اور سب کو اسی کی طرف پلٹنا ہے۔
اس کےبعد راوی ؛  اشجع کےقول کےمطابق کہہ رہا ہے کہ جب میں امام سے خدا حافظی کر کےچلا گیا  اور اس کےبعد ایک سفر پر گیا اور  راستے  میں  کسی ڈراونی جگہ سے گزر ہوا اورایک خوفناک آواز سنی  کہ کہہ رہا تھا اس کو گرفتار کرو ؟  لیکن میں نےفورا وہ دعا جو امام نےبتائی تھی پڑھ لی ، تو اس کےبعد ایک اور آواز سنا کہ کہہ رہا تھا ہم اسکو کیسے گرفتار کریں وہ ہماری آنکھوں سے  غایب ہوا  ہے ۔ اور بالاخرہ میں اس بیابان سے صحیح و سالم گزر گیا۔(28)
منبع: (امالی شیخ طوسی  186)


حوالہ جات
(1)- سورہ ذاریات: آیہ 56
(2)- سورہ الرحمن: 31
(3)- الرحمن:15
(4)- سورہ جن کی  مختلف آیات
(5)- سورہ جن اور رحمن کی آیات
(6)- جنّ: 11
(7)- جنّ: 6
(8)- ذاریات: 56
(9)- فصّلت: 25
(10)- جن: 6
(11)- الرحمن: 74
(12)- اعراف: 27
(13)- انعام: 128
(14)- سورہ احقاب آیة 30
(15)- ذاریات: 56
(16)- الرحمن: 31
(17)- حجر:15
(18)- کتاب عجائب الملکوت  (بخش عجائب الجن ) نوشتہ عبداللہ الزاہد
(19)- مجادلہ :22
(20)- سورہ احقاف  :آیات 29 ہے32
(21)- سورہ جن: آیہ1
(22)- احقاف:29
(23)- انبیاء:82
(24)- نمل:17
(25)- سبا:  -12
(26)- سبا:13
(27)- آل عمران:83
(28)- امالی شیخ طوسی  186
منبع: دانشنامہ موضوعی قرآن(مختصر تبدیلی کیساتھ)

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

انسان کی انفردی اور اجتماعی زندگی پر ایمان کا اثر
خدا کے نزدیک مبغوض ترین خلائق دوگروہ ہیں
معاد کے لغوی معنی
اخباری شیعہ اور اثنا عشری شیعہ میں کیا فرق ہے؟
اصالتِ روح
موت کی ماہیت
خدا کی نظرمیں قدرو منزلت کا معیار
جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)
خدا اور پیغمبر یہودیت کی نگاہ میں
شيطا ن کو کنکرياں مارنا

 
user comment