ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کا وجود، تمام جہات سے لا متناہی ہے، علم و قدرت اورحیات ابدی و ازلی ہونے کے لحاظ سے، یہی دلیل ہے کہ اسے زمان و مکان میں قیدنہیں کیاجاسکتا اس لیے کہ زمان و مکان میں مقید محدود ہوتاہے، اس کے با وجود ، وہ ہر جگہ اور ہر زمانہ میں موجود ہے، اس لیے کہ وہ ہر زمان و مکان سے بالا اور مبرا ہے۔
یقینا وہ ہم سے بے حد قریب ہے وہ باطن میں موجود ہے ، وہ ہر جگہ موجود ہے اس کے با وجود کہ وہ بے مکان ہے :
وھوا الذی فی السماء الہ و فی الارض الہ و ھوالحکیم العلیم
ترجمہ: وہ اللہ وہ ہے جو آسمان و زمین معبود ہے اور وہ حکیم و علیم ہے۔(2)
و ھو معکم اینما کنتم واللہ بما تعملون بصیر۔
وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کا دیکھنے والا ہے۔(3)
یقینا وہ ہم سے خود ہماری بہ نسبت زیادہ قریب ہے، وہ ہمارے باطن میں موجود ہے، وہ سب جگہ حاضر و ناظر ہے جبکہ وہ مکان نہیں رکھتا۔
و نحن اقرب الیہ من حبل الورید
ترجمہ: اور ہم اس سے شہ رگ حیات سے زیادہ نزدیک ہیں۔(4)
ھو الاول والآخر والظاہر والباطن و ھوبکل شی علیم
وہ ہے ابتدا و آخر، ظاہر و باطن اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔(5)
اور جو قرآن مجید میںذکر ہواہے : ذوالعرش المجید (وہ صاحب عرش و صاحب مجد و عظمت ہے۔)(6)
(عرش اس آیہ کریمہ میں بلند شاہی تخت کے معنا میں نہیں ہے) قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پرذکر ہواہے:
الرحمن علی العرش استوی ۔ (خداوند عالم کا ٹھکانا عرش ہے۔)(7)
اس آیہ کریمہ کے یہ معنا ہرگزنہیںہیں کہ وہ ایک مکان میں ہے بلکہ اس کے معنا یہ ہیں کہ خداوند عالم کی حاکمیت تمام عالم مادہ اور جہان ماوراء طبیعت میں قائم ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اگر اس کے کسی خاص مکان کو تسلیم کرلیں تو گویا ہم نے اسے محدود کردیا ہے اور صفات مخلوقات کو اس کے لئے ثابت کردیا ہے اور اسے دوسری تمام اشیاء کی طرح مان لیا ہے جبکہ لیس کمثلہ شی ۔ کوئی بھی شی اس جیسی نہیں ہوسکتی ۔ (8)
ولم یکن کفوا احد ۔اسکی نظیر ملنا محال ہے اس کے لئے نہ کوئی شبییہ ہے نہ کوئی نظیر ۔(9)
(1) سورہ حشر آیہ ۲۳،۲۴
(2) سورہ زخرف آیہ ۴۸
(3) سورہ حدید آیہ ۴
(4) سورہ ق آیہ ۶۱
(5) سورہ حدیدآیہ ۳
(6) سورہ بروج آیہ۵۱
(7) سورہ بقرہ آیہ ۲۵۵، قرآن مجید کی بعض آیتوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی کرسی تمام آسمان و زمین سے بڑی ہے لہذا یہ عرش تمام عالم مادہ سے بڑا ہے۔ و سع کرسیہ السموات والارض۔
(8) سورہ شوری آیہ ۱۱
(9) سورہ توحید آیہ ۴
source : http://www.alhassanain.com