یعنی جب وہ چاھے گاڑی کودائیں بائیں موڑدے یا ایکسیلیٹر یا بریگ کو دبا سکے، اسی طرح انسان اپنی زندگی کے کمال کو حاصل کرنے وترقی یافتہ بنانے میں بھی آزاد، اختیار،صاحب قدرت ا ورانتحاب کرنے والاھے، ورنہ اس کمال کے راستہ پر گامزن نھیں رہ سکتا، اسی وجہ خدا وندعالم نے انسان کو انتخاب واختیار کی قدرت دی ھے کہ اپنی مرضی سے اس راستہ پر قدم بڑھائے اور منزل مقصود تک پھونچ جائے،او راگر ایسا نہ ھو تو پھر انسان اپنے مقصد تک نھیں پھونچ سکتا، لھٰذا یہ بات واضح ھوگئی کہ اگر کوئی شخص بغیر سوچے سمجھے اور بغیر اختیار کے اس کمال کے راستہ پر چلے اور مقصد تک پھونچنا چاھے، تو یہ اس کی غلط فھمی ھے، انسان کا آزاد ھونا اور قدرت انتخاب رکھنا ضروری ھے تاکہ اس راستہ کو طے کرسکے۔
انسان جتنا انتخاب میں آزاد ھوتا ھے اتنا ھی اس کا کام ارزشمند ھوتا ھے، لیکن جس طرح ایک صحیح وسالم ڈرائیور ھونے کے باوجود کوئی گارنٹی نھیں ھے وہ منزل مقصود تک پھونچ ھی جائے گا کیونکہ ھوسکتا ھے کہ بھول چوک یا جان بوجہ کر غلط راستہ کا انتخاب کربیٹھے،اور کسی جبر واکراہ کے بغیر اپنے ھاتھوں سے اسٹیرنگ گھماکر اوراپنے پیروں کے ذریعہ اکسیلیٹر کو دبادے اور گاڑی کو کسی کھائی میں گرادے، لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ کسی مقصد کے لئے صرف انتخاب واختیار کافی نھیں ھے ، بلکہ علت تامہ کو حاصل کرنے کے لکے یہ شرط بھی ضروری ھے، یعنی ھماری اصطلاح کے لحاظ سے انسان کو سعادت اور کمال تک پھونچنے کے لئے ضروری ھے کہ راھنمائی کی علامتوں اور نشانیوں پر توجہ کرے اور ڈرائیورنگ کے تمام اصولوں کی صحیح رعایت کرے تاکہ اپنی منزل مقصود تک پھونچ سکے۔
اگر کوئی شخص یھاں پر یہ کھے کہ میں جسم وجسمانیت کے اعتبار سے طاقتور بھی ھوں اور صحیح انتخاب کرنے والا بھی ھوں ، لیکن میرا دل یہ چاھتا ھے کہ ڈرائیورنگ کے اصولوں کے خلاف عمل کروں اور کسی کو میرے راستہ میں رکاوٹ پیداکرنے کا حق نھیں ھے، تو ایسی صورت میں اس شخص کو یہ سوچ لینا چاھئے کہ اس کے سفر کا نتیجہ ھلاکت ھے اور اس کا کسی کھائی میں گرنا یقینی ھے،لھٰذا انسان کو صحیح وسالم ھونے کے ساتھ ساتھ راستہ کا علم بھی ضروری ھے اور قوانین کی رعایت کرنا بھی ضروری ھے. ٹریفک قوانین کی دو قسمیں ھیں:
1۔ کچھ ایسے قوانین ھیں کہ اگر ان کی رعایت نہ ھو تو خود ڈرائیور کو نقصان پھونچے گا،مثال کے طور پر اگر سڑک سے ھٹ کر چلے تو ممکن ھے کہ کسی کھائی میں گر پڑے، یا پل سے نیچے جاگرے،تو اس صورت میں اس کا نقصان خود اس کو یا اس کی گاڑی کو پھونچے گا،ایسے خطروں سے بچانے کے لئے ھوشیار کرنے والے بورڈ لگائے جاتے ھیں مثلاً خطرناک موڑ کا بورڈ، یابائیں طرف ڈرائیورنگ کریں یا رفتار کم کریںوغیرھ، تاکہ ڈرائیور قوانین کے خلاف ڈرائیورنگ نہ کرے اور احتیاط سے کام لیتے ھوئے صحیح وسالم اپنی منزل تک پھونچ جائے۔
2۔ کچھ ایسے قوانین ھوتے ھیں کہ جن کی خلاف ورزی سے صرف ڈرائیور کو ھی کو نقصان نھیں پھونچتا بلکہ دوسروں کو بھی نقصان پھونچ سکتا ھے اور کبھی کبھی ایسے حادثات رونما ھوتے ھےںکہ سیکڑوں لوگوں کی جانیں چلی جاتی ھیں۔
کبھی کبھی یہ بھی دیکھنے میں آتا ھے کہ بعض "ھائی وے "یا بڑے بڑے چوراھوں پر خصوصاً دوسرے ممالک میں کہ جھاں تیز رفتار سے گاڑی چلانا جائز ھے، بعض خلاف ورزیوں کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ سیکڑوں گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکراجاتی ھیں کہ جن میں بھت سے لوگوں کی جان چلی جاتی ھے،آپ نے اخباروں میں پڑھا ھوگا کہ جرمنی میں 150 گاڑیاں آپس میں ٹکراگئیں، ظاھر ھے کہ ایسے موقعوں پر صرف احتیاط کی رعایت اور ھوشیار ھونے والی نشانیوں پر ھی اکتفا نھیں کی جاتی بلکہ ریڈ لائیٹیں(لال بتّی) یا ھوشیاررھنے والے کی بڑے بڑے بورڈ لگائے جاتے ھیں،اور بعض جگھوں پر پولیس کو الکٹرونیک آنکھیں اور مختلف ویڈیوکیمرے لگا نے پڑتے ھیں تاکہ خلاف ورزی کرنے والے ڈرائیوروں کو پکڑکر ان کا چالان کرکے سزا دی جاسکے ، خلاف ورزی کا پھلا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ پھلے گاڑی سڑک سے نیچے اترجاتی ھے اور الٹ پلٹ ھوجاتی ھے اور ڈرائیور وںکے ھاتہ پیر ٹوٹ جاتے ھیں اور کبھی کبھی مربھی جاتے ھیں، اس صورت میں ڈرائیور وںکا چالان نھیں کیا جاتا کیونکہ نقصان خود اسی کا ھوا ھے، لیکن اگرخلاف ورزی کے نتیجہ میںکسی دوسرے کو نقصان پھونچا ھے تو پھر پولیس ان کو پکڑکر ان کے خلاف کاروائی کرتی ھے۔
2۔ اخلاقی اور حقوقی قوانین میں فرق
انسان کی زندگی میں دوطرح کے خطرے لاحق ھیں :
1۔وہ خطرہ جس کا تعلق صرف ھم سے ھوتا ھے، کہ اگر قوانین کی رعایت نہ کریں تو خود ھم کو نقصان پھونچتا ھے، درحقیقت قوانین کی خلاف ورزی کا نقصان ذاتی اور شخصی ھے، اس موقع پر جو احکام وضع کئے جاتے ھیں او ران پر عمل کرنے کی تاکید ھوتی ھے اصطلاح میں ایسی چیزوں کو قواعد اخلاقی یا قوانین اخلاقی کھا جاتا ھے، مثلاًاگر کوئی شخص نماز نھیں پڑھتا یا نعوذ باللہ تنھائی میں دوسرے گناھوں کامرتکب ھوتا ھے کہ کوئی بھی اس کے گناھوں کو نھیں دیکہ پاتا تو ایسی صورت میں خود اس شخص نے اپنے اوپر ظلم کیا ، لھٰذا کسی کو اس سے کوئی مطلب نھیں ھے او رکوئی نھیں پوچھے گا کہ کیوں آپ نے تنھائی میں ایسا گناہ کیا ھے، ایسے موقعوں پر کسی کو حق بھی نھیں کہ کوئی اس کے کاموں کی تحقیق وجستجو کرے،کیونکہ انسان کے خصوصی کاموں میں تجسس (جاسوسی) کرنا حرام ھے۔
کیونکہ یہ کام خود اس کی ذات سے مربوط ھیں، اگرچہ اس کواخلاقی نصیحت ضرور کی جاتی ھے، او راس کے بارے میںحکم ھوتا ھے کہ کوئی شخص تنھائی میں گناہ یا گناہ کا تصور بھی نہ کرے، لیکن یہ نصیحتیں ان بورڈوں کی طرح ھیں جو سڑکوں پر ھوشیار اور متوجہ رھنے کے لئے لگائے جاتے ھیں ، مثلاً لکھا جاتا ھے کہ آھستہ چلیںلیکن اس کی خلاف ورزی کرنے پر رفتار بڑہ جاتی ھے او رموڑوغیرہ میں خود ڈرائیور کو نقصان پھونچتا ھے ایسی صورت میں پولیس اس کا پیچھا نھیں کرتی۔
2۔ وہ خطرہ ھے جس کا تعلق صرف اسی شخصسے متعلق نھیں ھوتا بلکہ اس کا اثر دوسروں تک بھی پھونچتا ھے اس صورت میں ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے کو قوانین حقوقی کے نام سے یاد کیا جاتا ھے، یعنی اس خطرے کا اثر اس شخص پر بھی ھوتا ھے اورمعاشرے پر بھی ، نتیجةً یہ قوانین اجرائی اس بات کی ضمانت رکھتے ھیں کہ اگر ان کی خلاف ورزی کی جائے تو خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف قانونی کاروائی ھوسکے، جس طرح ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر اس کے خلاف کاروائی ھوتی ھے، یہ وہ موقع ھے کہ جب اخلاقی قوانین کے مقابلہ میں حقوقی قوانین کی بات آتی ھے ان ھی حقوقی قوانین کے تحت جزائی وکیفری قانون میں آتے ھیں؛ یعنی یہ دائرہ علم حقوق اور قانون بنانے والے اداروں کے قوانین جن کی اجرائی ضامن حکومت ھوتی ھے ان سے کام پڑتا ھے۔
پس معلوم یہ ھوا کہ اخلاقی اور حقوقی قوانین میں سب سے بڑا فرق یہ ھے کہ اخلاقی قوانین میں کوئی بھی شخص ضامن نھیں کہ ان کو عملی جامہ پھنائے، اگر کسی نے ان قوانین کی مخالفت کی تو اس کو سزا دی جائے او راگر کسی کے خلاف کبھی کوئی کاروائی ھوتی بھی ھے تو اخلاقی خلاف ورزی کی وجہ سے نھیں ھوتی بلکہ حقوقی پھلو کی وجہ سے ھوتی ھے کہ جو قانون سے متعلق ھے اور اگر کوئی مخصوص شکایت کرنے والا ھے تو حقوقی بمعنی خاص ھوگا ورنہ جزائی وکیفری ھوگا۔
بھرحال جس طرح ایک ڈرائیور اپنی اور مسافروں کی جان کو خطرات سے بچانے کی ذمہ داری رکھتا ھے اسی طرح انسان بھی ایک مسافر کی طرح ھے کہ ایک جگہ سے اپنا راستہ شروع کرتا ھے اور اپنے مقصدتک پھونچنے کے لئے بھت سے خطروں سے روبرو ھوتا ھے ، یہ خطرات کبھی تو خود اسی سے مخصوص ھیں ، کہ جن کے احکام خود اس کی ذات سے مربوط ھیں اور ان کے لئے اخلاقیاتی نصیحتیں موجود ھیں،لیکن اگر کسی موقع پر کسی دوسرے کے لئے خطرہ ھے یا کسی بھی طرح سے دوسروں کے عقائد کو خراب اور لوگوں کے جان مال او رناموس پر تجاوز کرتا ھے توپھر اس پر حقوقی قوانین جاری ھونگے کہ جن کی ذمہ دار حکومت ھوتی ھے۔
ھم نے جو ڈرائیور کی مثال پیش کی ، کوئی مغرور ڈرائیور کھے کہ "میں تو آزاد ھوں، اور قوانین کی مخالفت کرتا ھوں" تو اگر خود اس کا نقصان ھے تو صرف اس کو نصیحت کی جاتی ھے او رکھا جاتا ھے کہ احتیاط کرو دھیان رکھو ، ورنہ آپ کی جان خطرہ میں ھے، لیکن اگر کسی دوسرے کی جان کا مسئلہ ھو تو پھر اس کو روکا جاتا ھے اور پولیس اس کا پیچھا کرتی ھے اور مختلف طریقوں(راڈار الکٹرونیک آنکھوں یا مختلف ویڈیو کیمرے) سے اس کو تلاش کرتی ھے اور اس کو سزا دیتی ھے، اس موقع پر کوئی نھیں کھتا کہ پولیس کا پیچھا کرنا انسان کی آزادی کے مخالف ھے ، پوری دنیامیں کے عقلمند حضرات اس کو مانتے ھیں کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے لئے خطرہ پیدا کررھا ھے تو اس کے لئے قانون کا ھونا ضروری ھے تاکہ خلاف ورزی کرنے والے کو روکا جاسکے، کیونکہ یہ آزادی مشروع اور قانونی نھیں ،اس آزادی کو عقل تسلیم نھیں کرتی۔
کیونکہ اس سے دوسروں کو خطرہ لاحق ھے ، اس بات کو تمام ھی عقلاء مانتے ھیں ، اور ھم کسی ایسے عقلمند انسان کو نھیں دیکھا کہ جو یہ کھے کہ انسان اپنی زندگی میں اس قدر آزاد ھے کہ جو چاھے کرے یھاں تک اپنی جان کے علاوہ دوسروں کی جان ومال او رعزت کو بھی نقصان پھونچائے، اس بات کو کوئی بھی قبول نھیں کرتا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ قوانین کا ھونا ضروری ھے ، او رمعاشرہ کو بھی چاھئے کہ ان قوانین کو قبول کرے ، اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نھیں ھے ،اگر اختلاف ھے تو دین میں، کہ کیا دین میں اخلاقی قوانین کافی ھیں یا حکومتی قوانین کا بھی ھونا ضروری ھے ؟ اور کیا اس سلسلہ میں کسی اجرائی ضامن کی ضرورت ھے ، یا صرف اخلاقی نصیحتوں پر اکتفاء کی جاسکتی ھے؟
جولوگ کھتے ھیں کہ حکومت ضروری نھیں ھے اور انسان خود ھی اخلاقی نصیحتوں کے ذریعہ تربیت پاسکتاھے، اور اسے حکومت وقانون کی کوئی ضرورت نھیں ،! ھم ان کے جواب میں عرض کرتے ھیں کہ یہ کھنا صحیح نھیں ھے اور انسانی تاریخ نے یہ ثابت کردیا ھے کہ کوئی معاشرہ صرف اخلاقی نصیحتوں کے ذریعہ ھدف تک نھیں پھونچ سکتا ، لھٰذا قانون وحکومت کا ھونا بھت ضروری ھے۔
3۔ الھٰی اور کفر والحادکی ثقافت میں فرق اور قانون کے بارے میں اختلاف نظر
یھاں تک یہ بات واضح ھوچکی ھے کہ اس میں کوئی اختلاف نھیں ھے کہ قوانین کی ضرورت ھے ، اختلاف یھاں سے شروع ھوتا ھے کہ جو قانون آزادی کو محدود کرتا ھے او رکھتا ھے: "داھنی طرف چلونہ کہ بائیں طرف،یا آھستہ چلو" تو اس قانون کو انسان کی آزادی کو محدود کرنے کا کھاں تک حق ھے؟
اس چیز کو سب مانتے ھیں کہ اگر دوسروں کی جان ومال خطرے میں ھو ، تو قانون آزادی کو محدود کردیتا ھے مثلاً اجازت نھیں دیتاکہ کسی پر اسلحہ نکال لو یا کسی کو جان سے مارڈالو، ممکن نھیں ھے کہ قانون کسی کو حق دے کہ کسی کو بغیر دلیل کے قتل کرڈالو !
اب جبکہ یہ مان لیا گیا کہ قانون اس آزادی کو محدود کرتا کہ جو دوسروں کے لئے نقصان دہ ھے، تو اس سے یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ کیا قانون گذار فقط انسان کی زمانی آزادی کو محدود کرتا ھے کہ دوسرے لوگوں کی مادی منافع کوضرر پھونچائے یا قانون گذاری کے وقت انسان کے معنوی او رروحی منافع کو بھی نظر میں رکھا جائے؟ اصل اختلاف اسی جگہ ھے۔
ھم فرھنگ وثقافت کو دوحصوں میں بانٹ سکتے ھیں : ایک الھٰی ثقافت کہ جس کا سب سے روشن نمونہ اسلامی ثقافت ھے کہ جس کو ھم مانتے ھیں اور ھمارا یہ اعتقاد ھے کہ الھٰی ثقافت دین اسلام سے مخصوص نھیں ھے بلکہ دوسرے آسمانی ادیان میں بھی یہ الٰھی ثقافت پائی جاتی تھی، اگرچہ ان میں تحریفات اور انحرافات پید اھو گئے، اس ثقافت کے مقابلے میں کفر والحاد یا غیر الھٰی ثقافت رائج ھوئی کہ آج جس کا نمونہ مغربی ممالک ھیں، البتہ توجہ رھے کہ مغرب سے ھماری مراد صرف جغرافیائی علاقہ نھیں ھے بلکہ اس ثقافت کو مغربی ثقافت کا نام اس وجہ سے دیتے ھیں کہ جو امریکہ اور یورپ میں رائج ھے، اور دوسرے ممالک بھی اس ثقافت کی حمایت کرتے ھیں ، او ران کی تمام تر کوشش اس کود نیا کے مختلف ممالک میں پھیلانا ھے، لھٰذا آسان طریقہ سے سمجھانے کے لئے ثقافت کی دو قسم کرتے ھیں:
اول: الھٰی اور اسلامی ثقافت ۔
دوم: غربی (الحادی) ثقافت ۔
ھم یھاں پر ان دونوں ثقافتوں کے اھم فرق کو بیان کرتے ھیں:
4۔ مغربی ثقافت کے تین اھم رکن ھیں
یہ کھا جاسکتا ھے کہ مغربی تمدن وثقافت تشکیل دینے کے لئے تین چیزیں بھت اھم ھیں ، اگرچہ ان کے علاوہ بھت سی دوسری چیزیں بھی ھیں لیکن یہ تین چیزیں اس ثفافت کی جڑ ھیں :
پھلا رکن: "رومانیزم" ھے یعنی انسان کی زندگی میں ھر طرح کی خوشی ،چین وسکون ھونا چاھئے او ربس ، لفظ "اومانیزم" خدا پرستی اوردین پرستی کے مقالہ میں بولا جاتا ھے، اگرچہ اس سے دوسرے معنی بھی لئے جاتے ھیں کہ جن سے ھماری کوئی بحث نھیں ھے اور اس لفظ کے مشھور معنی یہ ھیں کہ انسان صرف اپنی او راپنی لذتوں اور اپنی خوشی وراحتی کی فکر میں ھو ، اور اگر کوئی خدایا فرشتہ کا وجود ھے بھی تو اس سے کوئی مطلب نھیں ھے. یہ اس نظریہ کے مقابلہ میں نظریہ ایجاد ھوا کہ جو درمیانی صدیوں میں یورپ میں او راس سے پھلے مشرقی زمین میں تھا کہ انسان کی اصل توجہ خدا او رمعنویات پر ھوتی تھیں۔
یہ نظریہ رکھنے والے کھتے ھیں کہ ان تمام چیزوں کو چھوڑدیا جائے ھم اس زمانے سے تھک چکے ھیںھمارا کھنا یہ ھے کہ اس زمانے کی کلیساوٴوں کی بحث کے بدلے اصل انسانیت کی طرف پلٹ جائیں اور انسان وطبیعت کے ماورای خصوصا ًخدا کے بارے میں بحث نہ کریں؛ البتہ یہ بھی ضروری نھیں کہ ان کا انکار کریں لیکن ان سے ھمارا کوئی مطلب بھی نھیں ھے اور ھمارا معیار انسان ھونا ھے۔
اس اصل کو الٰھی ثقافت کے مقابلہ میں رکھا گیا ھے، یہ الٰھی ثقافت کھتی ھے کہ "سب کچھ اللہ" ھے اور ھماری تمام تفکرات خدائی ھونا چاھئے او رھماری تمام توجہ خدا کی طرف جاکر رکیں، او راپنی سعادت وکمال کو خدا کے قرب میں تلاش کریں، کیونکہ تمام ترسعادتوں، زیبائیوں ،اصالتوںاورکمالات کا وھی سرچشمہ ھے، پس اللہ محوری ھے ، او راگر "ایزم" لگانا ھی چاھتے ھیں تو یہ نظریہ "اللہ ایزم" ھے یعنی خدا کی طرف توجہ ھونا چاھئے ،انسان کی طرف نھیں،یہ تھا الھٰی اور مغربی ثقافت کا پھلا فرق، (البتہ ھم یہ تاکیدکرتے ھیں کہ مغرب میں بھی استثناء کے قائل ھیں اورو ھاں بھی بعض لوگ معنوی اور الھٰی نظریہ کے قائل ھیں اور ھماری مراد وھاں کی اکثریت ھے کہ جس کو مغربی تمدن کھا جاتا ھے.)
دوسرا رکن: غربی تمدن کا دوسرااھم رکن "سیکولریزم" ھے ،یعنی اصل انسان ھے اور انسان کو محور قرار دینے کے بعد اگر کوئی انسان کسی دین کی طرف مائل ھونا چاھے تو وہ اس طرح ھے کہ کوئی شاعر یا پینٹر بننا چاھے کہ کسی کو اس سے کوئی مطلب نھیں، جس طرح بعض فرقے مجسمہ سازی اور نقاشی کو پسند کرتے ھیں، بعض لوگ مسلمان یا عیسا ئی ھونا پسند کرتے ھیں ان کے لئے کوئی ممانعت بھی نھیں ھے، کیونکہ انسان کی مرضی کا ادب و احترم ھونا چاھئے۔
کھا جاتا ھے کہ اگر کوئی انسان اپنی زندگی کے ایک طرف کسی دین کا انتخاب کرنا چاھے اس کی مثال اس شخص کی طرح کہ جو شاعری ، ادبیات اور کسی دوسرے کام کو منتخب کرے او راس کاانتخاب مورد احترام ھے؛ لیکن توجہ رھے کہ دین انسان کی زندگی کے اھم مسائل سے کوئی تعلق نھیں رکھتا اور دین انسان کی زندگی کا رخ نھیں بدل سکتا،جس طرح شاعری یا کوئی دوسرا کام اگرچہ اھم ھے، اسی طرح دین بھی اھم ھے ، فرض کیجئے کہ کچھ لوگ آرٹ میں مشغول ھیں اور انھوں نے ایک آرٹ گیلری بنائی کہ جس میں اپنے اپنے آرٹ کی نمائش لگائی ، ھم بھی ان کا احترام کرتے ھیں ، لیکن اس کے معنی یہ نھیں ھیں کہ آرٹ ان کے لئے سیاست، اقتصاد، او ربین الاقوامی مسائل کا محور بن جائے؛ یعنی آرٹ ایک سائڈ کا کام ھے ۔
ان کی نظر میں دین بھی اسی طرح ھے کہ اگر کوئی شخص خدا سے راز ونیاز کرنا چاھتا ھے تو اسے چاھئے کہ عبادتگاہ میں جائے اور شاعر کے شعر کی طرح خدا سے مناجات کرے ، ھم سے کوئی مطلب نھیں ھے؛ لیکن اگر کسی ایک معاشرے میں کون سے قوانین حکومت کریںیا اقصادی اور سیاسی نظام کس طرح کا ھو؟ دین کو ان چیزوں سے کوئی مطلب نھیں ھے، دین کی جگہ عبادتگاھ، مسجد یا بت خانہ ھے ، او رانسان کے زندگی کی حقیقی مسائل علم سے متعلق ھیں اور دین کوزندگی کے مسائل میں کوئی دخالت نھیں کرنا چاھئے۔
اس نظریہ کو کلی طور پر "سیکولرایزم" کھا جاتا ھے یعنی دین کو زندگی کے مسائل سے دور رکھنا، یا دنیا داری بھی کھا جاتا ھے، یا اصطلاح میں "آسمانی فکر کرنے" کے بجائے "اس دنیا کی فکر کرنے" کا نام بھی دیا جاتا ھے۔
کھتے ھیں کہ پیغمبر پر ملائکہ کا نازل ھونا یا عالم آخرت میں ملکوت سے مل جانا وغیرہ وغیرہ جیسی باتوں کو چھوڑو اور اس دنیا کے بارے میں سوچو! کھانے، لباس ، ناچ گانااورمیوزک کے بارے میں باتیں کروکہ جن کا دین سے کوئی ربط نھیں ھے، اور انسانی زندگی کے اھم امور بالخصوص اقتصاد، سیاست اور حقوق علم سے مربوط ھیں، اور دین کو ان میں کوئی دخالت نھیں کرنا چاھئے،یہ ھے مغربی تمدن کا دوسرا رکن۔
تیسرا رکن: "لیبرالیزم" ھے، چونکہ اصل انسان ھے اور انسان مکمل طور پر آزاد ھے مگر بعض ضرورتوں کے پیش نظر، انسانی زندگی کے لئے کوئی قیدو شرط نھیں ھونا چاھئے، کوشش یہ کرنا چاھئے کہ محدویتوں کو کم کیا جائے او رارزشوں کو محدود بنایا جائے، یہ صحیح ھے کہ ھر معاشرہ میں کچھ ارزشیں ھوتی ھیںلیکن ان کو مطلق قرار نھیں دیا جاسکتا، ھر انسان کسی بھی گروہ کے رسم ورواج کو اپنانے میں آزاد ھے، لیکن ان کو اس بات کی اجازت نھیں ھے کہ ان کو اجتماعی ارزش قرار دیدیا جائے اوران کو سیاست وحقوق اور اقتصاد میں ان کو دخالت کرنے دیا جائے، انسان آزاد ھے جس طرح کا معاملہ کرنا چاھے کرے، اور جو چیز بنانا چاھے بنائے کسی بھی کام میں مشغول رھے، او رجھاں تک ممکن ھو اقتصاد میں آزادی ھو، اور مفید معاملات میں کسی محدودیت کا قائل نہ ھو، چاھے فائدہ ھو یا نہ ھو، اور جھاں تک ممکن ھو مزدور سے کام لیا جائے اور اس کے کام کے وقت کو معین نھیں کرنا چاھئے ،تاکہ مالدار لوگو ں کو مزید فائدہ پھونچے۔
مزدور کی مزدوری جتنی کم ھو بھتر ھے ، انصاف ومحبت اور عدالت لیبرالیزم سے ھم آھنگ نھیں ھے ، لیبرال انسان صرف اپنے فائدہ کی فکر میں ھو، البتہ کبھی کبھی قانون کی رعایت بھی کی جائے تاکہ بغاوت او ردوسری مشکلات پیش نہ آئیں، لیکن اصل یہ ھے کہ انسان جس طرح بھی چاھے کرے، لباس میں بھی انسان آزاد ھے یھاں تک کہ اگر چاھے تو برھنہ باھر نکل آئے، کوئی بات نھیں، او ر اس کو روکنے کا کسی کو حق نھیں ھے،البتہ کبھی کبھی ایسا موقع آتا ھے کہ اگر کوئی برھنہ باھر نکلنا چاھے تو لوگ اس کو گالی دیتے ھیں برابھلا کھتے ھیںاور اس چیز کو برداشت نھیں کرتے، یہ ایک الگ بات ھے، ورنہ کوئی بھی قانون انسان کو محدود نھیں کرسکتاکہ کیسا لباس پھنے لمبا ھو یا چھوٹا، کسا ھوا ھو یا ڈھیلا، مرد برھنہ ھو یا عورت،سب کو آزاد ھونا چاھئے،اور جھاں تک ممکن ھو مرد وعورت کے درمیان رابطہ آزاد ھونا چاھئے، صرف معاشرہ میں مشکلات پیدا ھونے کی صورت میں تھوڑا بھت کنٹرول کیا جائے! آزادی کی حدیھاں تک ھے، لیکن اگر اس حد تک نہ پھونچے تو عورت مرد آزاد ھے جو ان کا دل چاھے کریں، جھاں چاھیں جائیں،جس طرح کا رابطہ رکھنا چاھےں ، رکھیں۔
سیاسی مسائل اور دوسرے مسائل میں بھی اسی طرح ھے ،اصل یہ ھے کہ کوئی بھی قید وشرط انسان کو محدود نہ کرے مگر یہ کہ ضرورت اس چیز کا تقاضا کرے، یہ ھے لیبرالیزم کا اصل ھدف ، اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ مغربی تمدن کے تھرے رکن ھیں ، "اومانیزم، سیکولرایزم اور لیبرالیزم" اور یہ قانون گذاری میںاھم کردار رکھتے ھیں۔
5۔ اسلامی اور مغربی تمدن کا بنیادی فرق
پھلا مسئلہ "اومانیزم" ھے کہ جواصالت خدا کے مقابلہ میں ھے جو لوگ اس نظریہ کو مانتے ھیں مسلمانوں کی طرح خدا اور اس کے قانون گذاری کو نھیں مانتے، یہ لوگ صرف اپنے فائدہ ،لذتوں او راپنے آرام کے چکر میں ھیں، اگرچہ مغربی مکاتب میں کم وزیادہ اختلاف پایا جاتا ھے مثلاً یہ کہ لذت ومنفعت میں اصل انفرادیت ھے یا اجتماعی؟ البتہ یہ تمام مکاتب ایک اصل میں متفق ھیں اور وہ یہ ھے کہ حتی الامکان قید وشرط میں کمی ھونا چاھئے، اس الحادی نظریہ کے مقابلہ میں الھٰی مکتب فکر اور الھٰی تمدن ھے ، کہ جس کا کھنا یہ ھے کہ انسان اصل نھیں ھے،بلکہ خدا اصل ھے اور خدا ھی تمام کمالات وزیبائی وسعادت کا سرچشمہ ھے وھی حقّ مطلق ھے انسان پر سب سے بڑا حق اسی کا ھے او رانسان اس طرح عمل کرے تاکہ اس سے رابطہ رھے ، اپنی زندگی میں خدا کو نادیدہ نھیں کیا جاسکتا، انسان کا کمال خداپرستی میں ھے اور انسان کا فطری طور پر اللہ سے لگاؤ رکھتا ھے او راگر ھم اس لگاؤ کو نادیدہ کریں تو انسان خود اپنی انسانیت کو نابود کررھا ھے،لھٰذا تمام افکار واندیشہ میں اصلی محور خدا ھے کہ اس کا نقطہ ٴ مقابل انسان کو محور بنانا ھے۔
دوسرا مسئلہ سیکولریزم" ھے کہ جس کے مقابلہ میں اصالت دین ھے ، ایک مومن انسان کے لئے سب سے زیادہ ضروری او راھم امر دین کا انتخاب کرنا ھے اس کے لئے آب ونان کی فکر سے پھلے اپنے منتخب دین کی تحقیق ضروری ھے کہ یہ دین حق ھے یا نھیں،اس کا دین صحیح ھے یا فاسد؟ اور کیا خدا ئے واحد پر اعتقاد رکھنا صحیح ھے یا غلط؟ کیا خدا کی یاد بھتر ھے یا خدا سے بے توجھی؟ ایک خدا کا اعتقاد صحیح ھے یا تین یا چند خداؤں کا اعتقاد؟ لھٰذا جس روز اس پر تکلیف واجب ھوتی ھے اسی دن اس کو یہ طے کرنا ھوگا کہ خدا، وحی، قیامت وغیرہ کو قبول کرتا ھے یا نھیں؟ سب سے پھلے دین کا انتخاب کرے؛کیونکہ دین زندگی کے تمام شعبوں میں دخالت رکھتا ھے، پس الھٰی تمدن میں دوسرا رکن دینداری ھے کہ جس کے مقابلے میں سیکولریزم ھے جو دین کو زندگی کی ایک سائڈ کا کام کھتا ھے جس کا ماننا یہ ھے کہ دین کو زندگی کے اھم کاموں میں دخالت نھیں کرنا چاھئے، اور دین کو اھم مسائل کے عنوان سے پیش نھیں کیا جانا چاھئے اور زندگی تمام مسائل کو تحت تاثیر قرار نہ دے، جبکہ اسلام یہ کھتا ھے کہ کوئی ایسا موضوع نھیں ھے جو حلال وحرام سے خارج ھو، اور کسی بھی چیز کے حلال یا حرام ھونے کو دین معین کرتا ھے ، یہ نظریہ سیکولریزم کا نقطھٴ مقابل ھے۔
تیسرا مسئلہ لیبرالیزم ھے؛یعنی آزادی ،ھوس بازی اور کسی قید وشرط کا نہ ھونا،لیبرالیزم یعنی اصل اپنی مرضی ھے، کیونکہ آزادی کے مختلف معنی کئے گئے ھیں لیکن یھاں اس کے معنی دلخواہ لیتے ھیں ، اس لیبرالیزم کے مقابلہ میں حق وعدالت او رانصاف ھے،لیبرالیزم کھتی ھے کہ اپنی مرضی کے مطابق عمل کیا جائے جبکہ الھٰی ثقافت کھتی ھے کہ حق وعدالت سے کام لینا چاھئے،اور کوئی بھی ایسا کام نہ کیا جائے جو ناحق ھو، اسی طرح عدالت کی رعایت کی جائے، البتہ ان دونوں میں آپس میں رابطہ ھے کیونکہ حق کے کماحقہ معنی کئے جائیں تو عدالت کو بھی شامل ھوتا ھے:
"العَدالةُ اعطاءُ کلِّ ذی حقٍّ حَقَّہ (عدالت ھر صاحب حق کو اس کا حق عطاکرتی ھے) پس عدالت میں حق پوشیدہ ھے، لیکن اس وجہ سے کہ اس میں کوئی غلط فھمی نہ ھو ان دونوں اصولوں کو ذکر کرتے ھیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ لیبرالیزم دلخواھی کو اصل ماننے کے نظریہ پر اعتقادرکھتی ھے ،اور اس کے مقابلہ میں دین عدالت وحق کا طرفدارھے، دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ واقعاً حق وباطل دونوں ھیں ایسا نھیں ھے کہ جو بھی چاھیں مان لیں بلکہ ھمیں چاھئے کہ تلاش کریں کہ حق کیا ھے اور باطل کیا ھے؟ کیا عدالت ھے او رکیا ظلم ھے؟ اگر میں کسی پر ظلم کو اچھا مانوں تو کسی پر ظلم نہ کروں: لیبرالیزم کا تقاضا یہ ھے کہ ھم حق وعدالت کی رعایت وھاں تک کریں کہ اس کی مخالفت سے معاشرے میں بحرانی کیفیت طاری نہ ھو، ھر کوئی اپنے فائدہ کی فکر میں رھے۔
کھا جاتا ھےکہ مروّت وانصاف ایسی چیزیںھیںجن کو انسان کمزوری کی وجہ سے ان کو اپنا تا ھے، اگر آپ میں طاقت وقدرت ھے تو پھر جو چاھو انجام دو، مگر یہ کہ آپ کو احساس ھوجائے کہ اس آزادی سے معاشرہ میں بحران ھوسکتا ھے اور اس وقت بحران کی زد میں وہ خود بھی آسکتا ھے اس کا وقت محدود ھوجاتا ھے ، پس الھٰی واسلامی تمدن میں اصل عدالت وحق ھے۔
غربی تمدن میں ان تین ارکان کے علاوہ بھی او ردوسری چیزیں ھیں کہ یاتو عمومی نھیں ھے یا اصالت نھیں مانا جاتا، کہ جن میں سے "اخلاقی پوزیٹونیزم" (Positivisme) ھے یعنی اخلاقی ارزشیں انسان کے سلیقہ او رمرضی کے مطابق ھیںکہ جن کی کوئی حقیقت نھیں ھے، مثلاً آج اگر کسی چیز کو پسند کیا اور اس کو اچھا لگا او راس کی حمایت میں ووٹ دیا تو یہ باارزش ھوجائے گا، لیکن اگر بعد میں اس میں کوئی برائی دکھائی دی،تو اس کو چھوڑ دیا تو یہ ارزش کے خلاف ھوجائے گا۔
ھم نے متعدد بار عرض کیا ھے کہ ھمارے معاشرے کے لوگ چونکہ ان کا ذھن صاف ھے ، وہ جانتے ھیں کہ مغربی تمدن کس قدر برا ھے، مثال کے طور پر کہ جس معاشرے میں ھم جنس بازی کو بھت برا سمجھاجاتا تھا آج اسی کو قبول کیا جارھا ھے، اس کو اچھا مانا جارھا ھے، اس کے بارے میں بھترین فلسفہ تراشی او ربھترین اشعار پیش کئے جاتے ھیں اور باقاعدہ اس بارے میں انجمن بنائی جاتی ھیں کہ ملک کے بڑے بڑے عھدہ دار افراد، منسٹر اور ایڈوکیٹ حضرات اس انجمن کے ممبر بنائے جاتے ھیں!!
سننے کی بات ھے کہ اس کام کی حمایت میں جو مظاھرے ھوتے ھیں ان کی تعداد عام مظاھروں سے کھیں زیادہ ھوتی ھے، کیوں؟ اس لئے کہ لوگوں کا سلیقہ بدل چکا ھے ،اب تک ان میں یہ رواج تھا کہ مخالف جنس کے ساتھ زندگی ھوتی تھی، لیکن اب وہ وقت آگیا ھے کہ ھم جنس کے ساتھ زندگی کو ترجیح دیتے ھیں !! مرد سے مرد او رعورت سے عورت کی شادی کو باقاعدہ طریقوں سے حکومتی اداروں میں درج کرایا جاتا ھے!!
اس نظریہ کو "اخلاقی پوزیٹونیزم" کا نام دیا جاتا ھے کہ واقعاً جس میں اخلاقی اھمیتیں کسی بھی طرح عقلانی نھیں ھیں اور صرف لوگوں کی مرضی پر ھے ، معیار لوگوں کے نظریات ھیں آج جس چیز کو بھی اچھاکھا وھی اچھا ھے اور اگر اسی کام کل برا کھنے لگیں تو برا ھے، لوگوں کی مرضی کے ماوراء کوئی ایسی چیز نھیں ھے جس کو ارزشوں کا ملاک ومعیار بنایا جائے؛ یہ ایک نظریہ ھے نیز اسی طرح کے بھت سے نظریات ھیں جن کو بیان کرنا مناسب نھیں سمجھتے ھیں، پس جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ مغربی تمدن کے تین اھم رکن ھیں:
1۔اومانیزم، 2۔ سیکولریزم، 3۔ لیبرالیزم، اور یھی تین اھم رکن قانون گذاری میں بھت زیادہ موثر ھوتی ھیں
6۔ آزادی کے حدود کو معین کرنے میں اسلام اور مغربی تمدن میں فرق
جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ دنیا بھر کے تمام عقلمند افراد ،مطلق آزادی کا انکار کرتے ھیں،اور ھم کسی عاقل کو نھیں پھچانتے کہ جو یہ کھے کہ انسان اس قدر آزاد ھے کہ جس وقت جو چاھے انجام دے، لھٰذاجب یہ معلوم ھوچکا ھے کہ آزادی مطلق نھیں ھے بلکہ محدود ھے، تو سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ آزادی کی حد کیا ھے؟ مشھور یہ ھے کہ آزادی کی حد کو قانون بیان کرتا ھے ، یھاں سوال یہ ھوتا ھے کہ قانون کس درجہ آزادی کو محدود کرسکتا ھے؟
ھم نے گذشتہ مطالب میں بیان کیا کہ بعض لوگوں کایہ کھنا ھے کہ کچھ اس طرح کی آزادیاں ھیں کہ جن کو کوئی بھی قانون محدود نھیں کرسکتا، کیونکہ وہ قانون اوردین کے مافوق ھیں، اور ھم نے گذشتہ جلسوں میں یہ وضاحت کی ھے کہ قانون کی شان آزادی کومحدود کرنا ھے اور قانون گذار کو آزادی کو کافی حد تک محدود کرنے کا حق ھوتا ھے، اور قانون کے اصل معنی ھی یھی ھیں، لیکن سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ قانون آزادی کو کس حد تک محدود کرسکتا ھے، اس کا جواب الھٰی ومغربی تمدن کے لحاظ سے الگ الگ ھے: مغربی تمدن کے لحاظ سے ،اگر انسان کا مادی خطرہ درپیش ھو تو اس وقت آزادی محدود ھوجاتی ھے اگر انسان کی زندگی میں اس کی جان ومال کو خطرہ لاحق ھوتو قانون آگے بڑہ کر اس کے مانع ھوجاتا ھے۔
اس بناپر ،اگر قانون یہ ھے کہ صفائی کا خیال رکھنا ضروری ھے یا یہ کہ پینے کے پانی کو زھریلا نھیں کرنا چاھئے، (کیونکہ اس سے لوگوں کی جان کا خطرہ ھے، )اس طرح کی آزادی کو محدود کرنا قابل قبول ھے ،ایسی آزادی کو محدود ھونا چاھئے تاکہ لوگوں کی صحت محفوظ رھے، او راس قانون کے قبول کرنے میں کوئی شک وشبہ نھیں ھے، لیکن اگر کسی کام سے لوگوں کی عزت ، ھمیشگی سعادت اور اس کی معنویات کو خطرہ ھو اور انسان کی روح گندی ھوجائے تو قانون کو اس سے ممانعت کرنا ضروری ھے یا نھیں؟ اس موقع پر الھٰی او رمغربی ثقافت میں اختلاف پایا جاتا ھے:
الھٰی نظریہ کے تحت انسان ھمیشگی کمال کی طرف بڑہ رھا ھے او رقانون کو اس کے لئے راستہ کو ھموار کرنا چاھئے، او راس راستہ میں جو رکاوٹیں ھیں ان کو بھی ختم کرنا چاھئے، (قانون سے ھماری مراد وہ قانون ھے جو حقوقی وحکومتی قانون ھیں کہ جن کے جاری کرنے کی ذمہ دار حکومت ھوتی ھے اور فردی مسائل (اخلاقی مسائل) سے ھماری بحث نھیں ھے) اگر یھاں یہ سوال ھو کہ کیا قانون کو انسان کے معنوی فائدوں کو مد نظر رکھنا ضروری ھے؟ کیا ان چیزوں سے روکے کہ جو انسانی آخرت کی کامیابی کے خطر کو دور کرنا ضروری ھے؟
الھٰی تمدن کھتا ھے کہ ان چیزوں سے روکنا ضروری ھے ، لیکن کفروالحاد کی ثقافت کا جواب منفی ھے ( یعنی ان کی نظر میں ضروری نھیں ھے ) شروع سے اب تک بحث اسی مطلب کو واضح کرنے کے لئے تھی اگر ھم مسلمان ومومن ھیںاور خدا، رسول، حضرت علی . اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کو مانتے ھیں تو ھمارے لئے ضروری ھے کہ ان معنوی وابدی ارزشوں کو قبول کریں۔
ھمارے قانون گذار حضرات الھٰی ومعنوی مصلحتوں کا لحاظ رکھیںاور جو چیز انسانی معنویات کے لئے خطرناک ھیں ان سے روکا جائے ورنہ مغربی تمدن کے پیرو ھوجائیں گے، ایسا نھیں ھے کہ قانون فقط صحت وسلامتی او رمادی آسائش کو فراھم کرے اور جو چیزیں معاشرے میں ناآرامی کا سبب بنے ان سے روکے، نیزان کاموں سے روکے کہ جن سے معاشرے کی اقصادی امنیت خطرہ میں پڑتی ھے، بلکہ قانون کے لئے ضروری ھے کہ معنویات کوبھی مدنظر رکھے، ھمارے سامنے دو چیزیں ھیں : یا اسلامی قانون کو قبول کریں یا مغربی قانون کو،البتہ ان دوچیزوں میں بھت سی ملاوٹ موجود ھے کہ جس کو ھم نے گذشتہ بحث میں ذکر کیا ھے ۔
جو لوگ یہ کھتے ھیں : "یُوٴْخَذُ مِنْ ھٰذٰا ضِغْثٌ وَمِنْ ھٰذٰا ضِغْثٌ فَیُمْزِجٰانِ"(.1)
تھوڑا یھاں سے لیا اور تھوڑا وھاں سے او رآپس میں ملادیا۔
کچھ چیزیں اسلام سے لیں اور کچھ چیزیں مغربی تمدن سے اور ایک غیر ھم آھنگ مجموعہ بنالیا ، اسلام اس طریقہ کو قطعاً پسند نھیں کرتا، قرآن کریم اس چیز کی مذمت کرتے ھوئے فرماتا ھے:
(إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہ وَرُسُلِہ وَیُرِیْدُوْنَ اٴَنْ ُیفَرِّقُوا بَیْنَ اللّٰہ وَرُسُلِہ وَیَقُولُونَ نُوٴْمِنُ بِبِعْضٍ وَنَکْفِرُبِبِعْضٍ وَیُرِیْدُوْنَ اٴَنْ یَتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً اٴُوْلٓئِکَ ھمُ الْکَافِرُوْنَ حَقاً ...)(2)
"بے شک جو لوگ خدا اور اس کے رسولوں سے انکار کرتے ھیں اور خدا اور اس کے رسولوں میں تفرقہ ڈالنا چاھتے ھیں او رکھتے ھیں کہ ھم بعض (پیغمبروں) پر ایمان لائے ھیں اور بعض کا انکار کرتے ھیں اور چاھتے ھیں کہ اس (کفر وایمان) کے درمیان ایک دوسری راہ نکالیں، یھی لوگ حقیقتاً کافر ھیں"
آج بعض لوگ یھی چاھتے ھیں کہ کچھ چیزیں اسلام سے لیں اور کچھ چیزیں مغربی تمدن سے لیں اور ان کو ملاکر جدید اسلام کے نام سے دنیا والوں کے سامنے پیش کریں ! حقیت یہ ھے کہ ان لوگوں کا اسلام پر یقین نھیں ھے، اور اگر اسلام پر یقین ھوتا تو ان کو معلوم ھوتا کہ اسلام اس مجموعہ کا نام ھے کہ جس کی ضروریات کو قبول کرنا چاھئے، اگر کوئی یہ کھے کہ میں نے اسلام تو قبول کرلیا ھے لیکن اس کی بعض چیزوں کو نھیں مانتا، تو اس کی یہ بات قابل قبول نھیں ھے، لھٰذا قانون گذاری اور آزادی کو محدود کرنے میں ھمارے پاس ان دو راستوں کے علاوہ کوئی اور راستہ نھیں ھے ، او ران میں سے ایک کا انتخاب ضروری ھے : یا تو آزادی کو محدود کرنے کا معیار مادی ودنیوی خطرات مانیں یا مادی او رمعنوی خطرات کو معیار قرار دیں، او راگر پھلے راستہ کو اپنایا تو گویا ھم نے مغربی الحادی تمدن کو قبول کرلیا، اگر دوسرے راستہ کو اپنا یا تو اسلامی تمدن کو قبول کیا، اور جس حد تک بھی پھلے والے راستہ کے نزدیک ھوئے، مغربی تمدن کے قریب ھوئے، او رجس قدر بھی دوسرے تمدن کے نزدیک ھوئے اسلام سے نزدیک ھوئے، بھرحال ان دونوں میں کوئی رابطہ نھیں ھے، کیونکہ جھاں تک مادی فائدوں کی بات ھوتی ھے تو وھاں مغربی تمدن او راسلامی تمدن دونوں کھتے ھیں کہ ان کا خیال رکھا جائے مثلاً دونوں کھتے ھیں کہ صفائی کا خیال رکھا جائے، لیکن جھاں معنوی مسائل کی بات آتی ھے تو وھاں اختلاف پیدا ھوجاتا ھے۔
جس وقت صرف مادی فائدے پیش نظر ھوں تو آزادی محدود کردیا جاتا ھے ، اگر اس کے ساتھ معنویات کو شامل کردیا جائے تو اس کے مقابلہ میں دوچیزیں ھوجاتی ھیںکہ جو ایک دوسرے کے متداخل ھوتے ھیں،کہ جس کے نتیجہ میں محدودیت کا دائرہ وسیع تراور آزادی کا دائرہ محدودتر ھوجاتاھے، اگر ھم یہ کھیں کہ اسلام کی آزادی مغربی آزادی کی طرح نھیں ھے تو اس کے معنی یھی ھیں یعنی دلیل یہ ھے : کہ جب ھم معنوی مصلحتوں کی رعایت کرتے ھیں تو پھر مغرب کی طرح بے لگام نھیں ھوسکتے، بلکہ انسانی روح سے متعلق امور کی بھی رعایت کرنا ضروری ھے، جن کی وجہ سے ھماری آخرت سنورتی ھے، لیکن مغربی تمدن کھتا ھے کہ یہ تمام چیزیں اجتماعی قوانین سے متعلق نھیں ھیں، حکومتی قوانین معاشرہ کے مادی مسائل میں جاری ھوتے ھیں، او ران کے علاوہ اخلاق سے مربوط ھیں کہ جن کا سروکار حکومت سے نھیں ھے۔
جس وقت یہ کھا جاتا ھے کہ اسلامی مقدسات خطرہ میں ھے حکومت کے بعض ذمہ دار افراد کھتے ھیں کہ مجھ سے کیا ربط! میرے کام تو لوگوں کی زندگی کے مادی مسائل سے مربوط ھیں، دین کے مسائل علماء سے متعلق ھیں، اس کی حفاظت کرنا ان کی ذمہ داری ھے، حکومت کا ان سے کوئی مطلب نھیں ھے، لیکن اگر اسلامی حکومت ھوتی ھے تو پھلے دین پھر دنیا کی بات کرتی ھے۔
اس بناپر ، ان دونوںتمدن کے پیش نظر بھت غور وخوض سے کام لیں او رھمیں معلوم ھونا چاھئے کہ جس وقت ھمارے قدم اسلامی ارزشوں کے مقابلہ میں لڑ کھڑائیں اور اپنے اندر کاھلی کا احساس کریں ، تو اس کی وجہ یہ ھے کہ ھم کفر کے ماحول سے نزدیک ھوتے جارھے ھیں، اور اسلام کی حقیقت کو بھولتے جارھے ھیں، ھمارا یہ انقلاب صرف مادی فوائد کو پورا کرنے کے لئے نھیں ھوا ھے ، بلکہ ھم نے یہ انقلاب اسلام کی ترقی کے لئے کیا ھے، کیونکہ اس انقلاب میںاس قدرلوگ شھید ھوئے ، اپنے عزیزو کی قربانی پیش کی، صرف اس وجہ سے کہ اسلام باقی رھے، نہ صرف اس وجہ سے کہ مادی آسائش یا اقتصادی وسیاسی تعلقات میں اضافہ ھو، ان شھیدوں نے اپنی جان کو قربان کیا تاکہ اسلام پھیلے ، اسلامی حکومت کے لئے سب سے پھلے اسلامی مسائل پر توجہ دینا ضروری ھے، او راگر کوئی بعض چیزوں کے غلط معنی وتفسیر کرے او رمختلف مفاد کی خاطر حقائق کی تحریف کریں ھمیں ان سے کوئی مطلب نھیں ، ھم تو مسلمانوں کو متوجہ کرناچاھتے ھیں کہ دین کی حد کھاں تک ھے؟ اسلامی ارزشیں کتنی اھم ھیں اور ان کی محافظت کے لئے کس قدر جانفشانی کی ضرورت ھے؟ ھمارے برادران واقف ھیں، اسی لئے ایک عالم دین کی یہ ذمہ داری ھے کہ جس وقت معاشرہ میں کسی روحانی ومعنوی بیماری کے پھیلنے کا خطرہ ھو تو لوگوںکو متوجہ کریں اور خطرے کا اعلان کرے۔
حوالہ
1۔نھج البلاغہ خطبہ نمبر 50
2۔سورہ ٴ نساء آیت 150، 151
source : http://www.shiastudies.net