ایک عرب کے پاس ایک بڑا خوبصورت اور تیز رفتار گھوڑا تھا۔ ایک دن ایک بدوی نے اس گھوڑے کو دیکھا۔ اسے بہت پسند آیا۔ اس نے ارادہ کیا کہ مالک کو گھوڑے کی جتنی قیمت وہ مانگے دے کر خرید لیا جائے۔ لیکن گھوڑے کا مالک کسی طرح بھی راضی نہ ہوتا تھا۔ آخر اسے ایک چال سوجھی۔
ایک دن اس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے، ہاتھ میں عصا لیا اور باہر بیابان میں جاکر ایسی جگہ بیٹھ گیا جہاں سے گھوڑے کے مالک کو گزرنا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد عرب اپنے گھوڑے پر سوار وہاں سے گزرا۔ اس بدوی نے جس کی ظاہراً حالت بڑی خستہ تھی، اسے آواز دی اور لنگڑاتا ہوا اس کی طرف بڑھا۔ عرب سوار کو اس کی حالتِ زار دیکھ کر رحم آیا اور اس نے گھوڑے کو روک لیا۔ بدو آگے بڑھا اور کہا:
’’مجھے بہت دور جانا ہے، میں پیدل چلتے چلتے تھک گیا ہوں اور چلنے کی سکت نہیں۔ آپ مہربانی فرماکر اپنے گھوڑے پر بٹھاکر تھوڑی دور لے چلیں۔ اللہ آپ کا بھلا کرے گا!‘‘
عرب کو اس کی حالت پر ترس آگیا اور اس نے اسے اپنے آگے بٹھا لیا۔ ابھی انہوں نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ بدوی نے کہا:
’’مجھے اس طرح بیٹھے ہوئے بڑی تکلیف ہو رہی ہے۔ اس سے پیادہ چلنا آسان تھا۔ بہتر یہ ہے کہ آپ گھوڑے سے اتر کر تھوڑی دور پیدل چلیں تاکہ میں آرام سے سواری کرلوں۔ پھر میں پیادہ چلوں گا اور آپ سواری کرلیں۔ اس طرح دونوں کو آرام بھی رہے گا اور سفر بھی آسانی سے کٹ جائے گا اور گھوڑے کو بھی تکلیف نہیں ہوگی۔‘‘
عرب بڑا رحم دل آدمی تھا، اسے یہ بات معقول معلوم ہوئی اور وہ گھوڑے سے نیچے اتر آیا۔ اس کا اترنا تھا کہ بدوی نے فوراً گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آگے بڑھ گیا اور عرب سے کہا: ’’دیکھو میں وہی بدوی ہوں جو تمہارا یہ گھوڑا خریدنا چاہتا تھا اور تم کسی قیمت پر بھی اسے بیچنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔ آخر مجھے یہ چال چلنی پڑی۔ اب گھوڑا میرے قبضے میں ہے۔‘‘
عرب نے کہا!
’’میں نے تم پر ترس کھایا تھا۔ مجھے اپنے کئے کا افسوس نہیں! تم میرا احسان مانو نہ مانو ایک بات ضرور کرو اور وہ یہ ہے کہ کسی آدمی سے اس فریب کا جو تم نے مجھ سے کیا ہے ذکر نہ کرنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری فریب کاری کی باتیں سن کر لوگ غریبوں، ناچاروں اور بے کسوں کی مدد کرنے اور انہیں سہارا دینے سے منہ پھیرلیں۔‘‘
بدوی نے گھوڑے کے مالک سے جب یہ بات سنی تو اس کے دل پر بڑا اثر ہوا۔ اس نے فوراً گھوڑے کو روکا اور گھوڑا مالک کے سپرد کر کے اس سے معافی مانگی۔