قرآن مجيد عيب جو حضرات کوبرے انجام سے ڈراتے ھوئے ان کى اس برى عادت کا نتيجہ بتاتا ھے ؛” ويل لکل ھمزة لمزة “ھر طعنہ دينے والے چغلخور کے لئے ويل ھے ۔
اسلام نے معاشرہ کى وحدت کى حفاظت کے لئے زندگى کے اندر اصول ادب کي رعايت کو ضرورى قرار ديا ھے اور عيب جوئى جو تفرقہ کا سبب اور دوستانہ روابط کے قطع کرنے کى علت ھے ، کو حرام قرار ديا ھے ۔ مسلمانوں کا فريضہ ھے کہ ايک دوسرے کے احترام کو باقى رکھيں ! اور کسى کى اھانت نہ کريں ! امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ھيں :
امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ھيں :
حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں :
اس سلسلہ ميں حضرت على عليہ السلام نے بھت اچھى بات فرمائى ھے : تمھارے نزديک سب سے بر گزيدہ ترين اس شخص کو ھونا چاھئے جو تم کو تمھارے نقص و عيب کى طرف متوجہ کرے اور تمھارى روح و جان کى مدد کرے ۔
ويل کارنگي کھتا ھے : ھميں اور آپ کو بڑى خوشى کے ساتھ اپنے خلاف ھونے والے نقد و تبصروں کو قبول کر لينا چاھئے ۔ کيونکہ ھم اس سے زيادہ کى توقع نھيں کر سکتے کہ ھمارے اعمال و افکار کا ۳/۴ حصہ صحيح و درست ھو ۔
جس وقت بھى کوئى دشمن ھم پر نقد و تبصرہ کرتا ھے اگر ھم متوجہ نہ ھو ں تو بغير يہ جانے ھوئے کہ ھمارا مخاطب ھم سے کيا کھنا چاھتا ھے خود بخود ھمارے اندر دفاع کي حالت پيدا ھو جاتى ھے ۔ ھم ميں سے ھر شخص اپنے اوپر نقد و تبصرہ سن کر چيں بہ جبيں ھو جاتا ھے اور تعريف و تحسين سے خوشحال ھو جاتا ھے بغير يہ سوچے ھوئے کہ ھمارى جو تنقيد يا تحسين کى جار ھى ھے وہ غلط ھے يا صحيح ؟
در اصل ھم استدلال و منطق کى مخلوق نھيں ھيں بلکہ ھم احساسات و جذبات کي مخلوق ھيں ۔ ايک گھرے و تاريک و متلاطم سمندر ميں جس طرح ايک چھوٹى سى کشتى ادھر ادھر اچھلتى رھتي ھے اسى طرح ھمارى عقل و منطق بھى ھے ھم ميں سے اکثر لوگ اپنے بارے ميں بھت زيادہ خوش فھمى ميں مبتلاء ھوتے ھيں ۔ ليکن جب چاليس سال پيچھے کى طرف ديکھتے ھيں تو اپنى موجودہ حالت پر ھنسى آتي ھے۔
حضرت علي عليہ السلام نے فرمايا : اگر کوئى دوسروں کے عيوب تلاش کرتا ھے تو اس کو پھلے اپنى ذات سے ابتدا ء کرنى چاھئے ۔
ڈاکٹر ھيلن شاختر کھتا ھے :
دوسروں کى رفتار و گفتار پر بے جا اعتراض کرنے سے بھتر يہ ھے کہ ان کى مدد کريں ۔
جاھل شخص اپنے عيوب کو دور کرنے کے بجائے اس کے چھپانے کى کوشش کرتا ھے ۔
حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں :
ڈاکٹر آويبورى کھتا ھے :
سب سے زيادہ اس پر تعجب ھے کہ ھم اپنے عيبوں کو تو لوگوں کى نظروں سے چھپانے کى کوشش کرتے ھيں ليکن ان کے اصلاح کى طرف بالکل نھيں سوچتے اور اگر ھمارا کوئى ايسا عيب ظاھر ھو جائے جس کے چھپانے پر ھم قادر نہ ھوں تو ھزاروں ايسے عذر پيدا کر ليتے ھيں جس سے اپنے نفس کو راضى کر سکيں اور دوسروں کو بيوقوف بنا سکيں جس کا مقصد صرف يہ ھوتا ھے کہ لوگوں کى نظروں ميں اس عيب کى اھميت کم کر سکيں ، حالانکہ ھم اس حقيقت سے غافل ھوتے ھيں کہ عيب چاھے جتنا ھلکا ھو وہ مرور ايام کے ساتھ ثقيل ھو تا جاتا ھے ۔جيسے بيج رفتہ رفتہ بھت بڑا درخت بن جاتا ھے ۔
آج علمائے نفس کے يھاں يہ بات پايھٴ ثبوت کو پھونچ چکى ھے کہ نفس کى بيماريوں اور اس کے علاج کا صرف ايک ھي طريقہ ھے کہ نفس کا مطالعہ کيا جائے اور اس کے بارے ميں غور و فکر کى جائے ۔حضرت على عليہ السلام نے بھى نفساني بيماريوں کا علاج اسى طرح بيان فرمايا ھے چنانچہ ارشاد فرمايا : ھر عقلمند پر لازم ھے کہ اپنے نفس ( کي بيماريوں ) کا احصاء کرے اور ايمان و عقيدہ و اخلاق و آداب کے سلسلہ ميں نفس و روح کے مفاسد و رذائل کو حاصل کر لے يا ان کو اپنے سينے ميں محفوظ کر لے يا کسي ڈائرى ميں لکہ لے اس کے بعد ان کو جڑ سے اکھاڑ پھينکنے کے لئے اقدامات کرے ۔
source : tebyan