عقيدہ توحيد دين اسلام کا بنيادي اور پہلا رکن ہے - اسلام انسان کو زندگي گزارنے کے تمام طريقوں ميں رہنمائي کرتے ہوۓ اسے سيدھے راستے پر گامزن رہنے کي دعوت ديتا ہے - اسلامي نظريہ حيات اسي تصور کو انسان کے رگ و پے ميں اتارنے اور اس کے قلب وباطن ميں جاگزيں کرنے سے متحقق ہوتا ہے - تصور توحيد کي اساس تمام مصوران باطلہ کي نفيب اور ايک خدائے لم يزل کے اثبات پر ہے - عقيدہ توحيد پر ہي ملت اسلاميہ کے قيام، بقاء اور ارتقاء کا انحصار ہے-
يہي توحيد امت مسلمہ کي قوت، علامت کا سرچشمہ اور اسلامي معاشرے کي روح رواں ہے - يہ توحيد ہي تھي جس نے ملت اسلاميہ کو ايک لڑي ميں پرو کر ناقابل تسخير قوت بنا ديا تھا- يہي توحيد سلطان و سير کي قوت و شوکت اور مرد فقير کي ہيبت وسطوت تھي اس دور زوال ميں ضرورت اس امر کي ہے کہ وہ ملت اسلاميہ جو سو دورں سے خالي ہو چکي ہے اس کے دل ميں عقيدہ توحيد کا صحيح تصور قرآن وسنت کي روشني ميں از سر نو اجاگر کيا جائے تاکہ مرد مومن پھر لا اور إلا کي تيغ دو دم سے مسلح ہو کر يہ باطل استعماري قوت کا مقابلہ کر سکے-
توحيد کا مختصر معني اور مفہوم يہ ہے کہ اللہ تعالي اپني ذات اور صفات ميں واحد اور لاثاني ہے اس کي صفات ميں کوئي اس کا شريک نہيں تمام کائنات ايک ذات کي پيدا کردہ ہے- اس کے سامنے ساري مخلوق اور دنيا کي طاقتيں ہيچ ہيں- موت وزندگي ، صحت وبيماري ، نفع ونقصان سب اس کے اختيار ميں ہے- کسي مخلوق کو دخل نہيں اس کي اجازت کے بغير کوئي شخص خواہ وہ نبي يا ولي سفارش كي جرأت کر سکے-
قضا قدر پر اعتقاد ،معرفت خدا کے حصول اور عقلي اعتبار سے انسان کے تکامل (بتدريج کامل ہونے) کے علاوہ بے شمار علمي فوائد کا حامل ہے -
وہ اشخاص جو حوادث کي پيدائش ميں ارادہ الٰہي کي اثر اندازي اور قضا و قدر الھي پر ايمان رکھتے ہيں وہ ناگوار حادثوں سے نہيں ڈرتے، اور نالہ و زاري نہيں کرتے، بلکہ چونکہ انھيں معلوم ہے کہ يہ حوادث بھي اس کے حکيمانہ ارادہ کا ايک جز ہے اور اس کے واقع ہونے ميں کوئي نہ کوئي حکمت کار فرما ہے لہٰذا رضا کارانہ اور والھانہ طور پر اس کا استقبال کرتے ہيں، اور اس طرح صبر و رضا ، تسليم و توکل جيسے صفات کے مظور بن جاتے ہيں اور دنيا کي خوشيوں و رعنائيوں پر مغرور و سرمست نہيں ہو تے اور خدائي نعمتوں کو اپنے لئے فخر کا وسيلہ نہيں سمجھتے-
يہ تووہي آثار ہيں کہ جس کي طرف اس آيت ميں اشارہ ہوا ہے -
(مَا اَصَابَ مِنْ مُصِيْبَةٍ فِي الْاَرْضِ وَلاَ فِي اَنفُسِکُم اِلاَّ فِي کِتَٰبٍ مِن قَبلِ اَن نَّبرَاءہَا اِنَّ ذَلِکَ عَلي اللّہِ يَسِير *لِّکَيلاَ تَاءسَوا عَلَي مَافَاتَکُم وَلاَ تَفرَحُو ا بِمَائَ ا تَکُم وَاللّٰہُ لَا يُحِبُّ کُلَّ مُختَالٍ فَخُورٍ) (1)
جتني مصيبتيں روئے زمين پر اور خود تم لوگوں پر نازل ہوئي ہيں قبل اس کے کہ ہم انھيں ظاہر کريں (لوح محفوظ) ميں مکتوب ہيں بيشک يہ خدا پر آسان ہے ، تاکہ جب تم سے کوئي چيز چھين لي جائے اس کا رنج نہ کرواور جب کوئي چيز (نعمت) خدا تم کو دے تو اس پر نہ اترايا کرو اور خدا کسي اترانے والے شيخي باز کو دوست نہيں رکھتا-
ليکن اس بات کي طرف اشارہ کرنا لازم ہے کہ تاثير استقلالي ميں توحيد قضا و قدر سے غلط مطلب نکالنا انتہائي سستي، کاہلي اور ذمہ داريوں سے از نو منھ موڑنا ہے -
اور ہميشہ ياد رہنا چاہيے کہ جاوداني سعادت و شقاوت ہمارے اختياري افعال ميں ہے-
(لھَا مَا کَسبَت وَ عَلَيہَا مَا اَکتَسَبَت).(2)
اس نے اچھا کام کيا تو اپنے نفع کے لئے اور برا کام کيا تو (اس کا وبال) کا خميازہ بھي وہي بھگتے گا،
(وَ اَن لَّيسَ للِاِنسَانَ اِلاَّ مَا سَعَيٰ)(3)
اور انسان کے لئے نہيں ہے مگر يہ کہ جتني وہ کوشش کرے
حوالہ جات :
(1) سورہ حديد- آيت/ 22 23 .
(2)سورہ بقرہ- آخري آيت.
(3)سورہء نجم -آيت/ 39.
source : tebyan