اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

حکمت الٰہی

انسانوں کے کام دو قسم کے ہیں:

پہلا بلا فائدہ و عبث کام جس کا کوئی نتیجہ نہیں‘ یعنی ان کمالات تک پہنچانے میں جو ہماری استعداد میں ہیں‘ یہ موثر نہیں‘ دوسرے لفظوں میں ہمیں حقیقی سعادت تک پہنچانے میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔

دوسرا عاقلانہ کام جس کے نتائج خوب اور مفید ہوتے ہیں اور ہمیں مطلوبہ کمال تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ پہلی قسم کو لغو و باطل و بلافائدہ کام کہا جاتا ہے اور دوسری قسم کے کام کو حکیمانہ اور عاقلانہ کام کہا جاتا ہے۔

پس انسان کے حکیمانہ کام کا مطلب ایسے امور ہیں‘ جو ہمیں لائق کمال تک پہنچائیں۔ خداوند عالم کے حکیمانہ افعال کیا ہیں؟

کیا خدا کے کارہائے حکیمانہ کا مطلب وہ کام ہیں‘ جو اس کو کمال لائق تک لے جائیں اور اس کے کارعبث سے مراد وہ کام ہیں‘ جو اسے کمال تک نہ پہنچائیں؟

بالکل نہیں وہ غنی اور بے نیاز ہے‘ جو کام وہ کرتا ہے‘ وہ اس کا فضل‘ جود‘ بخشش اور عطا ہے۔ کوئی کام اس لئے نہیں کرتا کہ اپنی حاجت برطرف کرے یا اپنے آپ کو کمال اور سعادت تک پہنچائے۔

خدا کے کارہائے حکیمانہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا کسی مخلوق کو کمال لائق تک پہنچائے۔ عبث کاموں کو خدا کی طرف نسبت دینے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کسی مخلوق کو پیدا کرے‘ لیکن اس کو کمال لائق اور ممکن تک پہنچانے کا بندوبست نہ کرے‘ یہی وجہ ہے کہ حکمت خداوندی اور انسان کے حکیم ہونے کا مطلب جدا جدا ہے‘ انسان کو حکمت و دانائی کا مطلب عقل مندی اور کمال انسانی کے طریق میں قدم اٹھانا اور حکمت خداوندی کا مطلب مخلوقات کو کمال لائق تک پہنچانا ہے۔

دوسرے لفظوں میں حکمت خداوندی یعنی اشیاء کی ایسی خلقت جس کی اساس اور بنیاد انہیں غایت و کمال لائق تک لے جائے‘ چونکہ حکمت انسانی سے مراد انسان کو اس کے کمالات تک پہنچانے کے لئے کوئی کام انجام دینا ہے‘ لہٰذا ضروری نہیں کہ انسان جو کام انجام دے رہا ہے‘ اس کے اور اس کام کے نتیجے کے مابین حقیقی رابطہ موجود ہو‘ یعنی ضروری نہیں کہ اس کام کا فطری رخ اسی نتیجے کی طرف ہو اور وہ نتیجہ اس کام کا کمال شمار کیا جائے‘ جو چیز ضروری ہے‘ وہ یہ ہے کہ اس کا کام نتیجہ انسان کے لئے کمال اور فائدہ مند شمار ہو‘ مثلاً انسان‘ مٹی‘ لکڑی‘ پتھر‘ دھات‘ کھال‘ روئی اور پشم سے مختلف قسم کے آلات بناتا ہے اور ان سے حکیمانہ نتیجہ حاصل کرتا ہے‘ مثلاً کرسی بناتا ہے‘ یا مکان بناتا ہے یا گاڑی بناتا ہے یا لباس بنتا ہے…

کرسی‘ لکڑی کے لئے‘ مکان‘ پتھر‘ اینٹ‘ چونا اور لوہے کے لئے اور گاڑی مختلف دھاتوں کے لئے کمال شمار نہیں کئے جاتے اور یہ تمام مواد اس مخصوص شکل و صورت کے اختیار کرنے کے لئے حرکت نہیں کرتے‘ لیکن جو نتیجہ انسان ان سے حاصل کرتا ہے‘ جیسے کرسی پر بیٹھنا‘ مکان میں رہنا‘ گاڑی میں چلنا‘ لباس کا پہننا وغیرہ‘ انسان کے لئے ایک طرح کا کمال یا کم از کم فائدہ بخش اور مفید امر شمار ہوتا ہے‘ لیکن اللہ کے کاموں اور ان پر مرتب ہونے والے نتائج میں حقیقی رابطہ ہوتا ہے‘ یعنی ہر کام کا نتیجہ اور آخری مقصد اس کام کے واقعی اور حقیقی کمال سے عبارت ہے۔ خداوند متعال اپنی مخلوق کو جو کہ اسی کا کام اور فعل ہے‘ اسی مخلوق کے کمال کی طرف لے جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں‘ ہر بیج اور دانہ اپنے مقصد اور کمال کی جانب محو سفر ہے۔

قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ دنیا اور عالم طبیعت تو تغیر و تبدل اور عدم ثبات کے مساوی ہے‘ یعنی طبیعت میں جس بھی مقصد‘ ہدف اور منزل کو دیکھا جائے‘ وہ غیر ثابت اور تغیر و تبدل کی زد میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر چیز عبوری‘ غیر دائم اور ختم ہونے والی ہے‘ عالم طبیعت کے تمام مراحل "ایک منزل" کی حیثیت رکھتے ہیں‘ جس کی خصوصیت راستے میں واع ہونا ہے اور ان میں سے کوئی بھی مرحلہ آخری منزل اور ہدف و مقصد نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ خلقت بے مقصد‘ بے ہدف اور عبث ہے‘ وہ کہتے ہیں‘ اس عالم کی مثال ایک قافلے کی مانند ہے‘ جو ہمیشہ حرکت میں ہے اور مختلف منزلیں تبدیل کرتا رہتا ہے اور کبھی اپنی حقیقی اور آخری منزل تک نہیں پہنچتا‘ اس کا ہدف اور مقصد راستے کی ایک منزل ہے‘ جس میں کچھ دیر رہنے کے بعد طبیعت اسے چھوڑ دیتی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے‘ واضح امر ہے کہ ایک حرکت اور ایک سفر تبھی معنی اور مفہوم رکھتا ہے‘ جب اس کا کوئی انتہائی ہدف اور آخری مقصد بھی ہو‘ لیکن اگر تمام اہداف اور مقاصد راستے کی منزلیں ہوں اور سفر کر کے انتہائی مقصد تک پہنچنے کا تصور باقی نہ رہے‘ تو یہ سفر بے ہودہ‘ عبث اور بے فائدہ شمار ہو گا۔ اگر یہ قرار پا جائے کہ ہر ہستی کے پیچھے نیستی پوشیدہ ہو اور ہر آبادی اپنے بعد بربادی کا پیغام دے اور ہر منزل پر پہنچنا‘ اسے خالی کر کے دوبارہ آگے بڑھانے کے لئے ہو‘ پھر تو عالم کے نظام پر حاکم چیز مگر رات کے تکرار اور سرگردانی و حیرانی کے سوا کچھ نہیں‘ پس عالم ہستی کی بنیاد ہی کھوکھلی ہے۔

قرآن کا جواب یہ ہے کہ ہاں‘ اگر صرف طبیعت اور دنیا ہی ہوتی اور بس کچھ نہ ہوتا یا اگر پیدائش مرنے کے لئے‘ نشوونماء‘ سرسبز ہونے اور شادابی‘ زرد خشک اور پراگندہ ہونے کے لئے اور تمام نئی چیزیں قدیم ہونے کے لئے ہوتیں‘ تو پھر اعترا ض بجا تھا‘ مگر عالم ہستی کے بارے میں اس قسم کے نقطہ نظر کا سرچشمہ ناقص نظر ہے‘ اس نظریہ کی اساس یہ ہے کہ "ہستی کو دنیا اور طبیعت کے محدود قالب میں محضور سمجھا جائے‘ لیکن "ہستی" دنیا اور طبیعت میں محدود و محصور نہیں۔" دنیا روز اول ہے "روز اول کے بعد روز آخر کی باری ہوتی ہے‘ دنیا "جانا" ہے اور آخرت "پہنچنا"۔

علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

الدنیا دار مجار و الاخرة دار قرار

"دنیا گذرگاہ اور آخرت جائے قرار ہے۔"

آخرت ہی دنیا کو معنی دیتی ہے‘ کیونکہ مقصد ہی وہ چیز ہوتی ہے‘ جو حرکت و جستجو کو معنی اور مفہوم کا لباس پہناتی ہے۔

اگر جہان آخرت جو کہ دائمی عالم ہے‘ نہ ہوتا‘ تو اس دنیا کا کوئی مقصد اور منتہی نہ ہوتا‘ جسے حقیقتاً مقصد کہا جا سکتا‘ نہ منزل اور مرحلہ۔

گردش روزگار ایک قسم کی حیرت و سرگردانی کا نام ہوتا اور قرآن کی اصطلاح میں یہ خلقت و پیدائش "عبث"، "باطل" اور "لعب" ہوتی‘ لیکن انبیاء و مرسلین آئے تاکہ اس بنیادی غلطی سے روکیں اور ہمیں ایسی حقیقت سے آگاہ کریں کہ جس کے نہ جاننے سے "ہستی" ہماری نظر میں بے فائدہ اور بے معنی ہو جاتی ہے اور آفرینش کے بے فائدہ ہونے کا تصور ہمارے ذہن میں راسخ ہو جاتا ہے‘ ایسے تصور کے اثر و رسوخ سے خود ہم بھی ایک بے معنی‘ بے ہدف اور بے ہودہ مخلوق کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

عالم آخرت پر ایمان و اعتقاد کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ یہ ہمیں کھوکھلے پن اور بے معنی ہونے کے تصور سے نجات دیتا ہے۔ ہمیں اور ہمارے خیالات و تصورات اور ہماری "ہستی" کو معنی و مفہوم بخشتا ہے۔


source : http://www.shiastudies.com/urdu/other/mutafariqat/abadi%20zindgi/index.htm
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ ۶۔ همیں ...
انسانی زندگی پر قیامت کا اثر
حضرت زینب (س) عالمہ غیر معلمہ ہیں
اہلِ حرم کا دربارِ یزید میں داخلہ حضرت زینب(ع) کا ...
لڑکیوں کی تربیت
جناب سبیکہ (امام محمّد تقی علیہ السلام کی والده )
عبادت،نہج البلاغہ کی نظر میں
اخلاق کى قدر و قيمت
اسوہ حسینی
ائمہ اثنا عشر

 
user comment