گریہ انسان کے حالات اور انفعالات میں سے ہے جو دکھ، صدمے اور نفسیاتی اندوہ کے نتیجے میں فطری طور پر ظہور پذیر ہوتا ہے؛ اور کبھی ہوسکتا ہے کہ بعض شدید جذباتی کیفیت اور نفسیاتی ہیجان کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوجائے؛ مثال کے طور پر انسان اپنے محبوب کو ایک عرصہ دوری اور فراق کے بعد دیکھ لے اور دیدار کا شوق گریہ و بکاء کا سبب بن جائے اس کو گریۂ شوق بھی کہا جاتا ہے۔ کبھی گریہ انسان کے مذہبی عقائد کی بنا پر ظہور پذیر ہوتا ہے اور وہ یوں کہ چونکہ گریہ ایک طبیعی اور اکثر اوقات غیر ارادی قعل ہے لہذا گریہ کے اوپر امر و نہی اور حسن (اچھائی) اور قبح (برائی) کے احکامات جاری نہیں کئے جاسکتے بلکہ جس چیز پر حسن و قبح اور اچھائی اور برائی کا نشان لگایا جاسکتا ہے یا ان کا حکم دیا جاسکتا ہے یا ان سے روکا جاسکتا ہے وہ گریہ کے مقدمات و تمہیدات ہیں جیسا کہ کہا گیا ہے کہ "تو وہی ہے جس کی قید میں ہو"۔
یہاں ہم جاننا چاہتے ہیں کہ سیدالشہداء (ع) کے لئے گریہ و بکاء کا حکم کیا ہے اور اس کے اثرات اور برکات کیا ہیں؟ بہتر یہی ہے کہ ہم یہاں رونے کی اقسام کا جائزہ لیں تا کہ معلوم ہوجائے کہ امام حسین علیہ السلام کے گریہ و بکاء کا حکم کیا ہے اور اس کے آثار کیا ہیں؟:
1- طفولیت کا گريہ: انسان کی زندگی کا آغاز گریہ و بکاء سے ہوتا ہے۔ بچہ جب دنیا میں قدم رکھتا ہے اور روتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ بچہ صحتمند اور تندرست ہے۔ اور اس کے بعد بچپن کے زمانے میں گریہ و بکاء بچے کی زبان ہے اور بچہ اپنی ماں سے رونے کی زبان میں بات کرتا ہے۔
2- گريۂ شوق: ماں طویل عرصے کے بعد اپنے گمشدہ یا پردیسی فرزند کو دیکھ لیتی ہے تو رونے لگتی اور اپنے جذبے کا اظہار کرتی ہے۔ یہ گریہ وحد و ہیجان اور شوق کا گریہ کہلاتا ہے جو در حقیقت خوشی کا انتہائی اظہار بھی ہے [اور پھر انسان کے جذبات چاہے غم کے ہوں چاہے خوشی کے، جب انتہا کو پہنچتے ہیں تو رونے کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں، یا یوں کہئے کہ انسان کے پاس جذبات کے اظہار کے لئے آنسو بہانے کے سوا کوئی اور اوزار نہيں ہے]۔
3- جذبات و محبت کا گریہ: محبت حقیقی انسانی جذبات میں سے ہے اور گریہ کے ساتھ انسان کا ساتھ دیرینہ ہے۔ مثال کے طور پر خداوند متعال کے ساتھ حقیقی محبت حسن آفرین ہے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے رونا چاہئے اور اشک بہانا چاہئے۔
صنما با غم عشق تو چه تدبير كنم
تا به كى در غم تو ناله شبگير كنم
میرے محبوب تیرے غم عشق کے لئے کیا تدبیر کروں
کب تک تیرے غم میں پوری رات نالہ و فریاد کروں
4- گريۂ معرفت و خشيت: خالصانہ عبادات، عالم خلقت کی عظمت اور اللہ کے مقام کبریائی نیز انسانی فرائض اور ذمہ داریوں کی اہمیت کے بارے میں غور و تفکر انسان کے اندر ایک خاص قسم کے خوف کا سبب بنتا ہے اور یہ خوف ایسا خوف ہے جو خدواند متعال کی معرفت اور تہذیب و تزکیۂ نفس کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے جس کو قرآنی اصطلاح میں "خشیۃ" کہا جاتا ہے۔
5- گريۂ ندامت: انسان مؤمن جب جرم و گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ حزن و اندوہ سے دوچار ہوجاتا ہے اور اس حزن و اندوہ کے خاتمے کے لئے انسان محاسبۂ نفس یا خود احتسابی کا سہارا لیتا ہے اور یہی محاسبۂ نفس سبب بنتا ہے کہ انسان اپنے ماضی کے افعال و اعمال میں غور و تدبر کرے اور خود احتسابی کرکے اپنی کوتاہیوں اور خطاؤں کی تلافی کرنے کی کوشش کرے اور اپنی آنکھوں سے ندامت کے اشک جارے کرے۔ یہ گریہ توبہ اور اللہ کی طرف بازگشت کا نتیجہ ہے۔
اشك ميغلتد به مژگانم به جرم رو سياهى
اى پناه بى پناهان، مو سپيد روسياهم
7روز و شب از ديدگان اشك پشيمانى فشانم
تا بشويم شايد از اشك پشيمانى گناهم
اشک لڑھکتے ہیں میرے بھنؤوں پر روسیاہی کے جرم میں
اے بے پناہوں کی پناہ عمر گذر گئی اور روسیاہ ہوں
سات شب و روز اپنی آنکھوں سے ندامت کے آنسو بہا رہا ہوں
تا کہ پشیمانی کے آنسؤوں سے شاید دھو سکوں اپنے گناہ
6- گريہ ہدف کے ساتھ پیوند: کبھی انسان کے اشکوں کے قطرے ہدف (اور مشن) کا پیام لے کر آنکھوں سے جاری ہوتے ہیں۔ شہید پر گریہ اسی قسم کا گریہ ہے۔ شہید کے لئے گریہ انسان میں جہاد و استقامت کے احساسات جگا دیتے ہیں اور سیدالشہداء علیہ السلام کے لئے گریہ و بکاء، انسان میں خوئے حسینی کو جنم دیتا ہے۔ خوئے حسینی ایک ایسا وصف ہے جو نہ ستم کرتا ہے اور نہ ہی ستم قبول کرتا ہے۔ وہ شخص جو حادثۂ کربلا کو سن کر اپنے دل کے گوشے سے آنسو کا قطرہ آنکھوں کے راستے چہرے پر روانہ کردیتا ہے وہ در حقیقت سیدالشہداء کے اعلی ہدف سے اپنا پیوند پوری سچائی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔
7- ذلت و شكست کا گریہ: یہ گریہ اہداف و مقاصد کے حصول میں ناکام ہونے والے کمزور اور ضعیف انسانوں کا گریہ ہے وہی جو پیشرفت و ترقی کی روح سے عاری اور محنت و کوشش سے غاجز و بے بس ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے لئے گریہ و بکاء کی نوعیت کیا ہے؟ تھوڑی سی توجہ سے ہی یہ جاننا آسان ہوجاتا ہے کہ سیدالشہداء کے لئے گریہ محبت کا گریہ ہے۔ وہ محبت جو سیدالشہداء کے عاشقوں کے دلوں پر ثبت ہوئی ہے۔ سیدالشہداء کے لئے گریہ گریۂ شوق ہے کیونکہ کارنامۂ کربلا کے اکثر واقعات شوق آفرین ہیں اور جوش و خروش پیدا کردیتے ہیں اور کربلا کے مردوں اور خواتین کی اس قربانی، اس عظمت و کمال عقلیت اور غروج قربانی و ایثار اور بظاہر اسیر مردوں اور خواتین کے آتشین خطبوں کو دیکھ کر اور سن کر اور ان کی یاد تازہ کرکے، جس کے بعد اشک شوق کا سیلاب جاری ہوتا ہے اور یہ گریہ درحقیقت معرفت کا گریہ اور ان کے اعلی انسان ساز ہدف اور مکتب سے پیوند اور تجدید عہد کا گریہ ہے اور مجدد اعظم حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد کے مطابق: "امام حسین علیہ السلام کے لئے گریہ سیاسی گریہ ہے"، فرماتے ہیں: "ہم سیاسی گریہ کرنے والی ملت ہیں، ہم وہ ملت ہیں کہ ان ہی اشکوں سے سیلاب جاری کرتے ہيں اور ان بندوں کو توڑ دیتے ہیں جو اسلام کے سامنے کھڑے کئے گئے ہیں"۔
امام خمينى رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "گریہ اور بکاء سیاسی ہے" : "ہم سیاسی گریہ و بکاء کرنے والی ولت ہیں، ہم ایسی ملت ہیں جو ان ہی اشکوں سے سیلاب جاری کرتے ہیں اور اسلام کے سامنے کھڑے کئے گئی بندوں کو توڑ دیتے ہیں"۔
هزار سال فزون شد ز وقعه عاشورا
ولى ز تعزيه هر روز، روز عاشور است
ہزار سال سے بھی زیادہ گذرے واقعہ کربلا سے
لیکن تعزیہ حسین کی وجہ سے ہر روز عاشورا ہے
ہیہات کہ حسین (ع) پر گریہ، ذلت اور شکست کا گریہ ہو، یہ گریہ تو عزت کے سرچشمے سے اتصال اور پیوند کا گریہ ہے۔ یہ بندگی اور غلامی کا گریہ نہیں ہے، خاموشی کا گریہ نہیں بلکہ یہ گریہ بولتا گریہ ہے