ماہ رجب المرجب کی مانند ماہ شعبان المعظم بھی افق امامت و ولایت پر کئی آفتابوں اور ماہتابوں کے طلوع اور درخشندگی کا مہینہ ہے ۔
اس مہینے میں بوستان ہاشمی و مطلبی اور گلستان محمدی و علوی کے ایسے عطر پذیر و سرور انگیز پھول کھلے ہیں کہ ان کی مہک سے صدیاں گزرجانے کےبعد بھی مشام ایمان و ایقان معطر ہیں اور ان کی چمک سے سینکڑوں سال کی دوری کے باوجود قصر اسلام و قرآن کے بام و در روشن و منور ہیں ۔تین شعبان کو نواسۂ رسول امام حسین (ع) 4 شعبان کو تمنائے علی و بتول حضرت عباس 5 شعبان کو حسینی انقلاب کے پاسبان امام زین العابدین اور 15 شعبان المعظم کو بقیۃ اللہ الاعظم حجت حق امام مہدی موعود کا یوم ولادت ہے ۔ہم اپنے تمام سامعین کی خدمت میں ، مسرت و شادمانی سے معمور ، عید کی طرح روشن اور شب برائت کی طرح مزین مبارک و مسعود ایام کی مناسبت سے تہنیت و تبریک پیش کرتے ہیں ۔خاص طور پر حریت و آزادی کے علمبردار ،اسلام و قرآن کی سربلندی و سرافرازي کے پیغامبر سبط رسول الثقلین ، علی (ع) و فاطمہ (س) کے دل کا چین ، عالم اسلام کے نور عین حضرت امام حسین علیہ السلام کی عالم نور سے عالم ظہور میں آمد آپ سب کو مبارک ہو.
بوئے گلہائے بہشتی ز فضا می آید
عطرفردوس ہم آغوش صبامی آید
ہاتفم گفت کہ میلاد حسین (ع)است امروز
زين جہت بوی بہشت از ہمہ جا می آید
٭٭٭٭٭
تھا رقیب بیٹھا جب آئے وہ نہ اٹھا سکا نہ بٹھا سکا
یہ نصیب ہی کی تو بات تھی کہ نظر بھی میں نہ ملا سکا
وہ گزرگئے میں بہانے سے سرراہ جاکے پھسل گیا
بڑی مشکلوں سے نشان پا فقط آنکھ سے میں لگا سکا
وہ نشان پا تھا کہ رہنمائي کا جادۂ سفر آزما
میں اسی سہارے سے چل پڑا تو دیار حسن میں جا سکا
وہ دیار حسن کی رونقیں وہ فضا پہ چھائي مسرتیں
وہ مدینہ سامنے آگیا ، جو خیال میں بھی نہ آسکا
وہ مدینہ جس میں رسول (ص) ہیں وہ مکان جس میں بتول ہیں
ان ہی دونوں سےمجھے کام تھا مجھے اور کچھ بھی نہ بھا سکا
وہاں تیسری کویہ دھوم تھی کہ امام تیسرا آگيا
وہ امام جس کے وجود کو کوئی آج تک نہ مٹا سکا
تین شعبان المعظم سنہ 4 ہجری چھ سو پینتیس عیسوی کو رسول اعظم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیارے نواسے امام حسین (ع) کے نور وجود سے " مدینۃ النبی " کے بام و در روشن و منور ہوگئے ۔مرسل اعظم (ص) کی عظیم بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س) اور عظیم بھائی ،داماد اور جانشین علی ابن ابی طالب کے پاکیزہ گھر میں نسل نبوت و امامت کے ذمہ دار امام حسین (ع) کی آمد کی خبر سن کر پیغمبر اسلام (ص) کا دل شاد ہوگیا ،آنکھیں ماہ لقا کے دیدار کے لئے بیچین ہو اٹھیں ،فورا" بیٹی کے حجرے میں داخل ہوئے اور مولود زہرا (س) کو دیکھ کر لبوں پر مسرت کی لکیریں پھیل گئیں آغوش میں لے کر پیشانی کا بوسہ لیا اور فرزند کے دہن میں اپنی زبان دے دی اور اسالتمآب کا لعاب دہن فاطمہ (س) کے چاند کی پہلی غذا قرار پایا اور مرحوم نذیر بنا رسی کے بقول:
بظاہر تو زباں چوسی بباطن ابن حیدر نے
زباں دےدی پیمبر کو زباں لےلی پیمبر سے
جبرئيل امین نازل ہوئے خدا کی جانب سے خدا کے حبیب کو نواسے کی مبارک باد پیش کی اور کہا :اے اللہ کے رسول ! خدا نے بچے کا نام حسین (ع) قرار دیا ہے ، نام سنتے ہی رسول اعظم (ص) کی آنکھیں جھلملا اٹھیں بچے کو سینے سے چمٹالیا ، بیٹی نے باپ کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو رسول اسلام (ص) نے امین وحی کی زبانی حسین (ع) کا صحیفۂ شہادت نقل کردیا اور بخشش امت کے وعدے پرحسین (ع) کی ماں کو راضي کرلیا ۔
علی (ع) و فاطمہ (س) کا چاند چھ سال تک آفتاب نبوت و رسالت کے ہالے کی شکل میں نانا کے ساتھ ساتھ رہا اور تاریخ اسلام گواہ ہے کہ مدینۂ منورہ میں نانا اور نواسے کی محبت ضرب المثل بن گئی اور ایسا کیوں نہ ہوتا ، جبکہ حسین (ع) مشیت الہی کا محور اور پیغمبر اسلام (ص) کی دلبر کے دلبر تھے ۔ حسین (ع) کی شان میں قرآن حکیم رطب اللسان اور ان سے اسلام و ایمان سربلند و ذیشان ہے ،حسین (ع) نورٌ علیٰ نور کی تفسیر نورالنور کی تنویر ، مجسمۂ رسالت کی تصویراور مکمل نبوت کی تعبیر ہے، حسین (ع) قرآن مجید کی تحریر ،دین الہی کی شمشیر ،انوار ولایت کی تکبیر اور اسرار امامت کی تشہیر ہے، حسین (ع) نورنگاہ نبوت ، جگر گوشۂ عصمت، جلوہ نمائے ولایت اور قوت اسلام و شریعت ہے ، حسین (ع) آسمان شہادت کا آفتاب، افق ہدایت کا ماہتاب، گلشن توحید کا سرخ گلاب اور خزانۂ اسلام کا گوہر نایاب ہے ۔ چنانچہ خداوند عالم نے اپنی کتاب محکم و مستحکم قرآن مجید میں مختلف عنوانوں سے امام حسین (ع) کا تعارف کرایا ہے جیسا کہ صحاح ستّہ کے محدثین نے اپنی اپنی صحیحوں میں لکھا ہے کہ جب " اصحاب کساء " رسول اعظم (ص) کے ساتھ چادر تطہیر میں جمع ہوگئے رسول اسلام (ص) نے علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
اَللّہُمّ ہٰؤلاء اَہلُ بَیتی فَاذہب عَنہُمُ الرّجس وَ طَہّرہُم تطہیرَا"خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں پس ان کو ہر قسم کی آلائش سے پاک و پاکیزہ قراردے دے ،اس وقت آیۂ تطہیر نازل ہوئی اور اہل بیت علیہم السلام منجملہ حضرت امام حسین (ع) کی عصمت و طہارت کا خدا نے اعلان کردیا،اسی طرح آیۂ مباہلہ کے ذیل مین مفسرین کا اجماع ہے کہ اس میں : "ابنائنا " سے مراد امام حسن اور امام حسین علیہما السلام ہیں جن کو خداوند عالم نے" رسول اسلام کے بیٹے " قراردیا ہے ۔اور آیۂ مودت کے بارے میں مفسرین اہل سنت نے بھی لکھا ہے کہ یہ آیت علی (ع) و فاطمہ (س) اور حسن (ع) و حسین (ع) کی شان میں نازل ہوئي ہے چنانچہ امام بخاری اور امام مسلم نے صحیحین میں اور ثعلبی و طبرسی نے اپنی تفاسیر میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ آیۂ مودت نازل ہوئي تو اصحاب نے حضور (ص) سے سوال کیا آپ کے قرابتدار کون ہیں تو حضرت نے فرمایا : علی وَ فَاطمہ وَ اَبنَاہُمَا علی (ع) و فاطمہ (س) اور ان کے دو نوں بچے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی جگہ جگہ امام حسین (ع) کی شخصیت کا تعارف کرایا ہے :صحیح ترمذی میں یعلی ابن مرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم (ص) نے فرمایا ہے : " حسین منی و انا من الحسین احب اللہ من احب حسینا" حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں اور خدا اس کو دوست رکھتا ہے جو حسین (ع) کو دوست رکھتا ہے ۔اسی طرح سلمان فارسی سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم کو کہتے سنا ہے حسن و حسین میرے بیٹے ہیں جس نے ان سے دوستی کی میرا دوست ہے اور جس نے ان سے دشمنی کی وہ میرا دشمن ہے بہرحال ، امام حسین (ع) کی شخصیت سے رفتار و کردار کی جو شعاعیں پھوٹی ہیں آج بھی الہی مکتب کی فکری ، اخلاقی اور تہذیبی حیات کی اساس ہیں اور نہ صرف عالم اسلام بلکہ پورا عالم بشریت حسینیت کی مشعل سے فروزاں ہے عبادت و بندگی کا یہ عالم تھا کہ جب آپ وضو کرتے تھے تو بدن میں تھرتھری پیدا ہوجاتی تھی کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو امام حسین (ع) نے فرمایا : حق یہی ہے کہ جو شخص کسی قومی و مقتدر حاکم کی بارگاہ میں کھڑا ہو اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑجائے اور جسم کے بند بند کانپ اٹھیں ۔ شب عاشورا ، عبادت کے لئے دشمنوں سے ایک شب کی مہلت مانگی توکسی نے اس کی وجہ پوچھی اس وقت آپ نے فرمایا :
چاہتا ہوں آخری رات پروردگار کی عبادت میں گزاروں اور استغفار کروں وہ جانتا ہے میں کس قدر نماز کا عاشق ہوں اور قرآن کی تلاوت پسند کرتا ہوں اور زيادہ سے زيادہ دعاؤ استغفار کرنا چاہتا ہوں ۔دوسری جانب خدا کے بندوں کے ساتھ آپ کے کریمانہ اخلاق و رفتار کا یہ عالم تھا کہ اس میدان میں بھی امام حسین (ع) کی شخصیت نمونہ و مثال نظر آتی ہے ۔
چنانچہ ایک دن کچھ فقیروں اور ناداروں کے درمیان سے گزرے سب کےسب زمین پر بیٹھے پتھروں سے ٹیک لگائے سوکھی روٹیاں کھانے میں مشغول تھے ۔انہوں نے نواسۂ رسول (ص) کوسلام کیا اور جواب سلام کےبعد اپنے ساتھ کھانے میں شرکت کی دعوت دی۔امام حسین علیہ السلام ان کے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا : اگر تمہاری یہ خوراک صدقہ نہ ہوتی تو میں ضرور تمہارے ساتھ یہ روٹیاں کھاتا اور پھر ان سے خواہش کی : " قوموا الی منزلی " اٹھو اور میرے ساتھ میرے گھر چلو ،اور ان سب کو گھر لائے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور سیر و سیراب کرنے کے بعد انہیں لباس پہنایا اور کچھ نقد درہم دے کر رخصت کیا ۔ اسی طرح حضرت علی (ع) کی ظاہری حکومت کا زمانہ ہے دارالحکومت کوفہ میں، ایک مدت سے بارش نہ ہونے کے سبب اہل کوفہ پریشان و مضطرب ہیں ، امام کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور اپنی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے امیرالمومنین سے کہتے ہیں ، مولا ! ہمارے لئے خداوند متعال سے باران رحمت کی دعا فرمائیں کہ ہم اس کی برکتوں سے استفادہ کرسکیں ۔رسول اسلام (ص) کے محبوب نواسے امام حسین علیہ السلام اس وقت وہاں موجود تھے حضرت علی (ع) نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا : "بیٹے اٹھئے اور خداوند متعال سے دعا کیجئے کہ وہ ان لوگوں پر اپنی بارش رحمت نازل فرمائے ۔"امام حسین (ع) اٹھے اور زیر آسمان ہاتھ پھیلا دئے اور حمد و ثنائے الہی اور محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام کے بعد فرمایا :
اے ہم سب کے پروردگار! اے نیکیاں عطا کرنے اور برکتیں نازل کرنے والے ہم کو باران آسمانی سے سیراب کردے ، ایسی بارش ، جو فراواں ، مسلسل، وسیع سطح پر ٹوٹ کر برسے جھماجھم ، موسلادھار ، خشک و تشنہ زمینوں کا سینہ چاک کردینے والی بارش کے ذریعے اپنے کمزور و ناتواں بندوں کی دستگیری فرما اور مردہ زمینوں کو نئی زندگی عطا کردے ۔ آمین یا رب العالمین ، ابھی امام حسین (ع) کی یہ دعا پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ یکایک بادل اٹھا اور شہر کوفہ اوراس کے اطراف میں رحمت الہی کی اس طرح جھوم جھوم کے بارش ہوئی کہ تمام کوہ و دشت سیراب ہوگئے ۔
ان واقعات سے آپ کے تواضع و انکساری نیز بارگاہ الہی میں تقرب و منزلت کا صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ کس قدر خدا کے محبوب اور مردم دوست تھے اور آپ کا وجود کس طرح خدمت دیں اور خدمت خلق کے جذبوں سے معمور تھا شعیب ابن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ روز عاشورا لوگوں نے امام حسین (ع) کی پشت پر گھٹے کے نشان دیکھے تو امام زين العابدین علیہ السلام سے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا : یہ نشان بیواؤں، یتیموں اور مسکینوں کے گھروں تک نان و خرما پیٹھ پر لادکر لے جانے کے سبب ہے ۔ یہی وجہ ہے شافعی مسلک کے ایک بڑے عالم ابن کثیر نے امام حسین (ع) کے مقام و منزلت کا ذکر کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام (ص) امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کو محترم سمجھتے تھے اور ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے لہذا کمسنی کے باوجود دونوں کا پیغمبر (ص) کے صحابیوں میں شمار ہوتا تھا وہ مرتے دم تک ان کے ساتھ محشور و مصاحب تھے رسول اسلام (ص) بھی ان سے پوری طرح راضي تھے ، پیغمبر (ص) کے بعد ابوبکر و عمر و عثمان بھی ان کا احترام کرتے رہے اور خلفائے ثلاثہ کے بعد دونوں اپنے باپ کے صحابیوں میں شامل تھے اور ان سے حدیثیں روایت کرتے تھے اور تمام حالات میں حضرت علی (ع) کے ساتھ ساتھ رہے ۔ اس کے بعد لکھتے ہیں : امام حسین (ع) تمام لوگوں کے درمیان عظمت و احترام کے حامل تھے لوگ ان سے بہت عشق و علاقہ رکھتے تھے کیونکہ وہ پیغمبر (ص) کے فرزند تھے اور روئے زمین پر کوئی ان کے جیسا نہ تھا ۔شاعر مشرق علّامہ اقبال نے بجا طور پر کہا ہے :
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
اور جوش ملیح آبادی کے بقول :
موت کےسیلاب میں ہرخشک و تر بہہ جائے گا
ہاں مگر نام حسین (ع)ابن علی (ع) رہ جائےگا
source : tebyan