بن عمر سے روایت ہے کہ پیغمبر نے فرمایا : کہ جو چیزیں تم کو جہنم کی آگ سے دور رکھیں گی وہ میں نے بیان کردی ہیں اور جو چیزیں تم کو جنت سے نزدیک کریں گی ان کی بھی تشریح کردی ہے، اور کسی بھی چیز کو فراموش نہیں کیا ہے ۔ میرے اوپر وحی نازل ہوئی ہے کہ کوئی بھی اس وقت تک نہیں مرتا جب تک اس کا رزق پورا نہ ہو جائے ،بس تم طلب روزی میں اعتدال کی رعایت کرو خدا نہ کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھاری روزی کی کمی تم کو اس بات پر مجبور نہ کر دے کہ تم اس کو حاصل کرنے کے لئے گناہ کے مرتکب ہو جاؤ، کیونکہ کوئی بھی اللہ کی فرمانبرداری کے بغیر اس کے پاس موجود نعمتوں کو حاصل نہیں کرسکتا اور یہ بھی جان لو کہ جس کی قسمت میں جو روزی ہے وہ اس کو ہر حال میں حاصل ہو گی بس جو اپنی روزی پر قانع ہوتا ہے اس کا رزق پربرکت اور زیادہ ہو جاتا ہے اور جو اپنی روزی پر قانع اور راضی نہیں ہوتا اس کے رزق میں برکت نہیں ہوتی۔ رزق اسی طرح انسان کو تلاش کرتا ہے جس طرح موت انسان کو تلاش کرتی ہے ۔
تفسیر :
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں تم کو قول و فعل کے ذریعے ہر اس چیز سے روکتا ہوں جو تم کو جنت سے دور کرنے والی ہے اور تم کو ہر اس چیز کا حکم دیتا ہوں جو تم کو جنت سے قریب کرنے والی ہے۔ اس حدیث کا فائدہ یہ ہے کہ ہم کو ہمیشہ اسلامی احکام کو جاری وساری کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور یہ بات ہم کو اہل سنت سے (جو کہ معتقد ہیں کہ جہاں پر نص نہیں ہے وہاں پر حکم بھی نہیں ہے) جدا کرتی ہے۔ اہل سنت اس دلیل سے فقیہوں کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ قانون بنائیں، قیاس کریں اور استحسان و مصالح مرسلہ جاری کریں ۔ ایسا مذہب جو آدھا تو اللہ اورمعصومین (ع) کے ہاتھوں میں ہو اور آدھا عام لوگوں کے ہاتھوں میں ، وہ اس مذہب سے بہت زیادہ مختلف ہو گا جو مکمل طور پر اللہ اور معصومین کی طرف سے ہو۔ ا لبتہ آیہ الیوم اکملت لکم دینکم (آج ہم نے تمھارے دین کوکامل کردیا ) سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے چونکہ دین عقائد ،قوانین اور اخلاقیات کے مجموعہ کا نام ہے ۔ یہ حدیث ہم کو یہ نظریہ دیتی ہے کہ ایک مجتہد کی حیثیت سے فقط استنباط کریں نہ یہ کہ تشریع کریں ۔
یہاں پر چند باتوں کا ذکر ضروری ہے :
1. کچھ سست اور بے حال لوگ <وما من دابة فی الارض الا علیٰ اللہ رزقہا >(زمین پر کوئی حرکت کرنے والا ایسا نہیں ہے جس کے رزق کا ذمہ اللہ پر نہ ہو) جیسی تعبیرات، اور ان روایات پر تکیہ کرتے ہوئے جن میں روزی کو مقدرو معین بتایا گیا ہے، یہ سوچتے ہیں کہ انسان کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ روزی کو حاصل کرنے کے لئے بہت زیادہ کوشش کرے کیونکہ روزی مقدر ہے اور ہر حالت میں انسان کو حاصل ہوگی اورکوئی بھی دہن رزق سے خالی نہیں رہے گا ۔
اس طرح کے نادان لوگ دین کو پہچاننے میں بہت زیادہ سست اور کمزور ہیں۔ ایسے افراد دشمنوں کو یہ کہنے کا موقع دیتے ہیں کہ مذہب ایک ایسا عامل ہے جو اقتصادی رکود ،زندگی کی مثبت فعالیت کی خاموشی اور بہت سی چیزوں سے محرومیت کو وجود میں لاتا ہے ، اس عذر کے ساتھ کہ اگر فلاں چیز مجھ کو حاصل نہیں ہوئی تو وہ حتما میری روزی نہیں تھی اگر وہ میر ی روزی ہوتی تو ہر حالت میں مجھ کو مل جاتی۔ اس سے استسمارگران (وہ برباد کرنے والے افراد جو اپنے آپ کو استعمار یعنی آباد کرنے والے کہتے ہیں) کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ محروم لوگوں کو اور زیادہ دوھیں(کمزور کریں) اوران کو زندگی کے ابتدائی وسائل سے بھی محروم کر دیں۔ جبکہ قرآن و اسلامی احادیث سے تھوڑی سی آشنائی بھی اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے ،کہ اسلام نے انسان کے مادی و معنوی فائدوں کے حصول کی بنیاد کوشش کو مانا ہے ، یہاں تکہ کہ قرآن کی آیت <لیس للانسان الا ما سعیٰ> بھی نعرہ لگا رہی ہے کہ انسان کی بہرہ مندی کوشش میں منحصر ہے ۔ اسلام کے رہبر بھی دوسروں کو تربیت دینے کے لئے بہت سے موقعوں پر تھکا دینے والے سخت کام انجام دیتے تھے۔
کسب روزی کی دعا
گذشتہ پیغمبران بھی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں تھے وہ بھی بھیڑیں چرانے ،کپڑے سینے،ذرہ بننے اور کھیتی باڑی کرنے سے پرہیز نہیں کرتے تھے ۔ اگر اللہ کی طرف سے روزی کی ضمانت کا مفہوم گھر میں بیٹھنا اور روزی کے اترنے کا انتظار ہوتا تو انبیاء وآئمہ(جو کہ دینی مفاہیم کو سب سے زیادہ جانتے ہیں ) روزی کو حاصل کرنے کے لئے یہ سب کام کیوں انجام دیتے ۔ اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ ہرانسان کی روزی مقدر ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کی جائے ۔ کیونکہ کوشش شرط اور روزی مشروط ہے لہٰذا شرط کے بغیر مشروط حاصل نہیں ہوگا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ ”سب کے لئے موت ہے اور ہر ایک کے لئے عمر کی مقدار معین ہے “ کیا اس جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر انسان خودکشی کرے یا ضرر پہونچانے والی چیزوں کو کھائے تب بھی اپنی معین عمر تک زندہ رہے گا ، نہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ بدن معین مدت تک باقی رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ اس کی حفاظت کے اصولوں کی رعایت کی جائے ،خطرے کے موارد سے پرہیز کیا جائے اور ان اسباب سے اپنے آپ کو دور رکھا جائے جن کی وجہ سے موت واقع ہو جاتی ہے ۔
اہم بات یہ ہے کہ وہ آیات و روایات جو روزی کے معین ہونے سے مربوط ہیں وہ حقیقتا لالچی اور دنیا پرست افراد کی فکروں پر لگام ہے ۔ کیونکہ وہ اپنی زندگی کے وسائل فراہم کرنے کے لئے سب کچھ کرگزرتے ہیں اور ہرطرح کے ظلم و ستم کے مرتکب ہو جاتے ہیں،اس گمان میں کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کی زندگی کے وسائل فراہم نہیں ہوں گے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ جب انسان بڑا ہو جائے اور طرح طرح کے کام کرنے کی طاقت حاصل کر لے تو اللہ اس کو بھول جائے، کیا عقل اور ایمان اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ انسان ایسی حالت میں یہ گمان کرتے ہوئے کہ ممکن ہے کہ اس کی روزی فراہم نہ ہو گناہ ،ظلم و ستم، دوسروں کے حقوق کی پامالی کے میدان میں قدم رکھے ،لالچ میں آ کر مستضعفین کے حقوق کو غصب کرے ؟ البتہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بعض روزی ایسی ہیں کہ چاہے انسان ان کے لئے کوشش کرے یا نہ کرے اس کو حاصل ہو جاتی ہیں۔
کیا اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ سورج کی روشنی ہماری کوشش کے بغیر ہمارے گھر میں پھیلتی ہے یا ہوا اور بارش ہماری کوشش کے بغیر ہم کو حاصل ہو جاتی ہے ؟ کیا اس سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ عقل،ہوش اور استعداد جو روز اول سے ہمارے وجود میں ذخیرہ تھی ہماری کوشش سے نہیں ہے ؟
اس کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی چیز کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا مگر اتفاقی طور پر وہ اس کو حاصل ہو جاتی ہے۔ اگرچہ ایسے حادثات ہماری نظر میں اتفاقی ہیں مگر واقعیت یہ ہے کہ خالق کی نظروں میں اس میں ایک حساب ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس طرح کی روزی کا حساب ان روزیوں سے جدا ہے جو کوشش کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہیں۔
لیکن اس طرح کی روزی جس کو اصطلاح میں ہوا میں اڑ کر آئی ہوئی یا اس سے بھی بہتر تعبیر میں وہ روزی جو کسی محنت کے بغیر ہم کو لطف الٰہی سے حاصل ہوتی ہے ،اگر اس کی صحیح طرح سے حفاظت نہ کی جائے تو وہ یا ہمارے ہاتھوں سے نکل جائیں گی یا بے اثرہو جائیں گی۔
نہج البلاغہ کے نامہ / ۳۱ میں حضرت علی علیہ السلام کا ایک مشہور قول ہے جو آپ نے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو لکھا : فرماتے ہیں کہ ”واعلم یا بنی ان الرزق رزقان ،رزق تطلبہ و رزق یطلبک“ اے میرے بیٹے جان لو کہ رزق کی دو قسمیں ہیں ایک وہ رزق جس کو تم تلاش کرتے ہو اور دوسرا وہ رزق جو تمھیں تلاش کرتا ہے، یہ قول بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔
بہرحال بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات ہم کو یہ بتاتی ہیں کہ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے چاہے وہ مادی زندگی ہو یا معنوی ہم کو بہت زیادہ محنت کرنی چاہئے اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ رزق تو اللہ کی طرف سے تقسیم ہوتا ہی ہے ،کام نہ کرنا غلط ہے (تفسیر نمونہ ج/ ۹ ،ص/ ۲۰ )
2. یہ حدیث ہم سب طلاب کو یہ سبق دیتی ہے کہ اس بات پر ایمان رکھنا چاہئے کہ اللہ اہل علم افراد کی روزی کا نبدوبست کرتا ہے ۔ کیونکہ اگر اہل علم افراد مال جمع کرنے میں لگ جائیں گے تو دو بڑے خطروں سے روبرو ہونا پڑے گا :
الف۔ کیونکہ عوام علماء کے خط (راہ) پر چلتی ہے لہٰذا ان کو دوسروں کے لئے نمونہ ہونا چاہئے۔ اگر عالم دنیا کمانے میں لگ جائیں گے تو پھر یہ دوسروں کے لئے نمونہ نہیں بن سکیں گے ۔
ب۔ وہ مال جو عالموں کے علاوہ دوسرے لوگ جمع کرتے ہیں وہ مذہب کو نقصان نہیں پہنچاتا لیکن اگر عالم حق اور ناحق کی تمیز کئے بغیر مختلف طریقوں سے مال جمع کریں گے تو یہ مذہب کے لئے نقصان دہ ہوگا ۔ واقعا یہ حسرت کا سامان ہے ۔
source : tebyan